۔۔۷ اھل
بیت علیھم السلام کے پیرو کار اور ان کے دشمن
میں وہ صراط مستقیم
هوں جس کی اتباع کا خدا نے حکم دیا ھے ۔[73] پھر میرے بعد علی (ع) ھیں
اور ان کے بعد میری اولاد جوان کے صلب سے ھے
یہ سب وہ امام ھیں جو حق کے ساتھ ھدایت کر تے ھیں اور حق کے ساتھ انصاف کر تے
ھیں ۔
اس کے بعد آنحضرت (ص) نے سوره الحمد کی تلاوت کی۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، الحمد للہ رب العا لمین ۔۔۔> سوره الحمد کی تلاوت کے بعد آپ نے اس طرح فرمایاخدا کی قسم یہ سورہ میرے اور میری اولاد کے با رے میں نا زل هوا ھے ، اس میں اولاد کےلئےعمو میت بھی ھے اور اولاد کے ساتھ خصوصیت بھی ھے ۔[74] یھی خدا کے دوست ھیں جن کےلئے نہ کوئی خو ف ھے اور نہ کو ئی حزن ! یہ حزب اللہ ھیں جو ھمیشہ غالب رہنے والے ھیں ۔
آگاہ هو جا وٴ کہ
دشمنان علی ھی اھل ِ تفرقہ ، اھل تعدی اور برادران شیطان ہیں جواباطیل کوخواھشات نفسانی
کی وجہ سےایک دوسرے تک پھنچاتے ھیں[75]۔
آگاہ هو جا وٴ کہ
ان کے دوست ھی مو منین بر حق ھیں جن کا ذکر پر ور دگار نے اپنی کتاب میں کیا ھے۔
< لَا تَجِدُ قَوْماًیُوٴمِنُوْنَ
بِاللہِ والْوْلُمِ الْآخِرِیُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّاللہَ وَرَسُوْلَہ وَلَوْ کَانُوْااٰبَائَھُمْ
اَوْاَبْنَائَھُمْ اَوْاِخْوَانَھُمْ اَوْعَشِیْرَتَھُمْ ،اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِم
الاِیْمَانَ [76] ۔
آپ کبھی نہ دیکھیں گے کہ
جوقوم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی ھے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رھی ھے جو اللہ
اور رسول سے دشمنی کر نے والے ھیں چاھے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرة
اور قبیلہ والے ھی کیوں نہ هوں اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ھے۔
آگاہ هو جا وٴ کہ
ان (اھل بیت )کے دوست ھی وہ افراد ھیں جن کی توصیف پر ور دگار نے اس انداز سے کی
ھے :< الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَلَمْ یَلْبَسُوْااِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ
لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُھْتَدُوْن[77]
جو لوگ ایمان لا
ئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نھیں کیا انھیں کےلئے امن ھے اور وھی ھدایت
یا فتہ ھیں۔
آگاہ هو جا وٴ کہ
ان کے دوست وھی ھیں جو ایمان لائے ھیں اور شک میں نھیں پڑے ھیں ۔
آگاہ هو جا وٴ کہ
ان کے دوست ھی وہ ھیں جوجنت میں امن و سکون کے ساتھ داخل هو ں گے اور ملا ئکہ سلام
کے ساتھ یہ کہہ کے ان کا استقبال کریں گے کہ تم طیب و طاھر هو ، لہٰذا جنت میں
ھمیشہ ھمیشہ کےلئے داخل هو جا وٴ
“
آگاہ هو جا وٴ کہ
ان کے دوست ھی وہ ھیں جن کے لئے جنت ھے اور انھیں جنت میں بغیر حساب رزق دیاجائیگا
[78]
آگاہ هو جا وٴ کہ
ان (اھل بیت ) کے دشمن ھی وہ ھیں جوآتش جہنم کے شعلوں میں داخل هوں گے۔
آگاہ هو جا وٴ کہ
ان کے دشمن وہ ھیں جوجہنم کی آواز اُس عالم میں سنیں گے کہ اس کے شعلے بھڑک رھے
هوں گے اور وہ ان کو دیکھیں گے ۔
آگاہ هو جا وٴ کہ
ان کے دشمن وہ ھیں جن کے با رے میں خدا وند عالم فر ماتا ھے
کُلَّمَا
دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَعَنَتْ اُخْتَھَا۔ [79] (جہنم میں) داخل هو نے والا ھر گروہ دوسرے
گروہ پر لعنت کرے گا۔
آگاہ هو جا وٴ کہ
ان کے دشمن ھی وہ ھیں جن کے با رے میں پر ور دگار کا فرمان ھے
< کُلَّمَا
اُلْقِیَ فِیْھَا فَوْجٌ سَاٴَلَھُمْ خَزْنَتُھَااَلَمْ یَاتِکُمْ نَذِیْرٌ.
قَالُوْابَلَیٰ قَدْجَاءَ نَانَذِیْرٌفَکَذَّبْنَاوَقُلْنَامَانَزَّلَ اللہُ مِنْ
شَیْءٍ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّافِیْ ضَلَالٍ کَبِیْرٍ.۔۔۔اَلَا فَسُحْقاًلِاَصْحَا بِ
[السَّعِیْرِ>[80
” جب کوئی گروہ داخل
جہنم هو گا تو جہنم کے خازن سوال کریں گے کیا تمھا رے پاس کو ئی ڈرانے والا نھیں آیا
تھا ؟تو وہ کھیں گے آیا تو تھا لیکن ھم نے اسے جھٹلا دیا اور یہ کہہ دیا کہ اللہ نے
کچھ بھی نا زل نھیں کیا ھے تم لوگ خود بہت بڑی گمرا ھی میں مبتلا هو۔
[آگاہ
هوجا ؤ تو اب جہنم والوں کےلئے تو رحمت خدا سے دوری ھی دوری ھے۔
[81
آگاہ هو جا وٴ کہ
ان کے دوست ھی وہ ھیں جو اللہ سے از غیب ڈرتے ھیں[82] اور انھیں کےلئے مغفرت اور
اجر عظیم ھے ۔
[ایھا الناس!
دیکھو آگ کے شعلوں اوراجر عظیم کے ما بین کتنا فا صلہ ھے ۔ [83
ایھا الناس!ھمارا
دشمن وہ ھے جس کی اللہ نے مذمت کی اور اس پر لعنت کی ھے اور ھمارا دوست وہ ھے جس
کی اللہ نے تعریف کی ھے اور اس کو دوست رکھتا ھے ۔
[ایھا الناس! آگاہ
هو جا وٴ کہ میں ڈرانے والا هو ں اور علی (ع)
بشارت دینے والے ھیں ۔[84
ایھا الناس!میں
انذار کرنے والا اور علی (ع) ھدایت کرنے
والے ھیں۔
ایھا الناس!میں
پیغمبر هوں اور علی (ع) میرے جا نشین ھیں
۔
ایھا الناس!آگاہ
هو جا وٴ میں پیغمبر هوں اور علی
(ع) میرے بعد امام اور میرے وصی
ھیں اوران کے بعد کے امام ان کے فرزند ھیں آگاہ هو جاوٴ کہ میں ان کا باپ هوں اور
وہ اس کے صلب سے پیدا هو نگے۔
۸
حضرت مھدی عج۔۔
یاد رکھو کہ آخری امام ھمارا ھی قائم مھدی ھے ، وہ ادیان پر
غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ھے ، وھی قلعوں کو فتح کر نے والا اور
ان کو منھدم کر نے والا ھے ، وھی مشرکین کے ھر گروہ پر غالب اور ان کی ھدایت کر نے
والا ھے [85]۔
آگاہ
هو جا وٴ کہ وھی اولیاء خداکے خون کا انتقام لینے والااور
دین خدا کا مدد گار ھے جان لو!کہ وہ عمیق سمندر سے استفادہ کر نے والا ھے ۔[86]عمیق
دریا سے مراد میں چند احتمال پائے جا تے ھیں ،منجملہ دریائے علم الٰھی ،یا دریائے قدرت
الٰھی ،یا اس سے مراد قدرتوں کا وہ مجمو عہ ھے جو خداوند عالم نے امام علیہ السلام
کو مختلف جہتوں سے عطا فر مایا ھے وھی ھر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ھر جا ھل پر اس
کی جھالت کا نشانہ لگا نے والا ھے[87] ۔
آگاہ
هو جا وٴ کہ وھی اللہ کا منتخب اور پسندیدہ ھے ، وھی ھر علم کا وارث اور
اس پر احا طہ رکھنے والا ھے۔
آگاہ هو جا وٴ کہ وھی پرور دگار کی طرف
سے خبر دینے والا اورآیات الٰھی کو بلند کر نے والا ھے[88] وھی رشید اور صراط مستقیم
پر چلنے والا ھے اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کیا ھے۔ اسی کی بشارت دور سابق میں
دی گئی ھے [89] وھی حجت با قی ھے اور اس کے بعد کو ئی حجت نھیں ھے ، ھر حق اس کے ساتھ
ھے اور ھر نور اس کے پاس ھے ، اس پر کو ئی غالب آنے والا نھیں ھے وہ زمین پر خدا کا
حاکم ، مخلوقات میں اس کی طرف سے حَکَم اور خفیہ اور علانیہ ھر مسئلہ میں اس کا امین ھے۔
۔۔۹ بیعت
کی وضاحت
ایھا الناس ! میں
نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا ،اب میرے بعد یہ علی تمھیں سمجھا ئیں گے۔
آگاہ هو جا وٴ کہ
میں تمھیں خطبہ کے اختتام پر اس بات کی دعوت دیتا هوں کہ پھلے میرے ھاتھ پر ان کی بیعت
کا اقرار کرو ،[90]اس کے بعد ان کے ھاتھ پر بیعت کرو ، میں نے اللہ کے ساتھ بیعت کی
ھے اور علی (ع) نے میری بیعت کی ھے اور میں خدا وند عالم کی جا نب سے تم سے علی(ع)کی
بیعت لے رھا هوں (خدا فرماتا ھے)[91]:<اِنَّ
الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَایُبَایِعُوْنَ اللہَ یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ
فَمَنْ نَکَثَ فَاِنَّمَایَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسِہ وَمَنْ اَوْفَیٰ بِمَاعَاھَدَ عَلَیْہُ
اللہَ فَسَیُوْتِیْہِ اَجْراًعَظِیْماً
بیشک
جو لوگ آپ کی بیعت کر تے ھیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کر تے ھیں اور ان کے ھا تھوں
کے اوپر اللہ ھی کا ھا تھ ھے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ھے وہ اپنے ھی خلاف
اقدام کر تا ھے اور جو عھد الٰھی کو پورا کر تا ھے خدا اسی کو اجر عظیم عطا کر ے گا۔
۔۔۱۰ حلال
و حرام ،واجبات اور محرمات
ایھا
الناس! یہ حج اور عمرہ اور یہ صفا و مروہ سب شعا ئر اللہ ھیں(خدا
وند عالم فر ماتا ھے):[92]۔
فَمَنْ
حَجَّ الْبَیْتَ اَوِعتَمَرَفَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا۔
لہٰذا
جوشخص بھی حج یا عمرہ کر ے اس کےلئے کو ئی حرج نھیں ھے کہ وہ ان دونوں پھا ڑیوں کا
چکر لگا ئے [93]۔
ایھا
الناس ! [94] خا نہ ٴ خدا کا حج کرو جو لوگ یھاں آجاتےھیں وہ بے
نیاز هو جا تے ھیں خوش هوتےھیں اور جو اس سے
الگ هوجا تے ھیں وہ محتاج هو جا تے ھیں۔
ایھا الناس ! کوئی
مومن کسی موقف(عرفات ،مشعر ،منی) میں وقوف[95] نھی کرتا مگر یہ کہ خدا اس وقت تک کے
گناہ معاف کر دیتا ھے ،لہٰذا حج کے بعد اسے از سر نو نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرنا
چاہئے۔
ایھا الناس ! حجا
ج کی مدد کی جاتی ھے اور ان کے اخراجات کا اس کی طرف سے معا وضہ دیا جاتا ھے اور اللہ
محسنین کے اجر کو ضا ئع نھیں کرتا ھے ۔
ایھا الناس !
پورے دین اور معرفت احکام کے ساتھ حج بیت اللہ کرو ،اور جب وہ مقدس مقامات سے واپس
هو تو مکمل توبہ اور ترک گنا ہ کے ساتھ ۔
ایھا
الناس ! نمازقائم کرو
اور زکوٰة ادا کرو جس طرح اللہ نے تمھں حکم دیا ھے[96] اگر وقت زیادہ گذرگیا ھے اور
تم نے کوتاھی و نسیان سے کام لیا ھے تو علی (ع) تمھا رے ولی اور تمھارے لئےبیان کر
نے والےھیں جن کو اللہ نےمیرے بعد اپنی مخلوق پرامین بنایا ھے اورمیرا جانشین بنایا
ھے وہ مجھ سے ھے اورمیں اس سے هوں [97] وہ اور جومیری نسل سے ھیں وہ تمھارے ھر سوال
کا جواب دیں گے اور جو کچھ تم نھی جا نتے هو سب بیان کر دیں گے ۔
آگاہ
هو جا وٴ کہ حلا ل و حرام اتنے زیادہ ھیں کہ سب کا
احصاء اور بیان ممکن نھیں ھے ۔مجھے اس مقام پر تمام حلال و حرام کی امر و نھی کرنے
اور تم سے بیعت لینے کا حکم دیا گیاھے اور تم سے یہ عھد لے لوں کہ جو پیغام علی
(ع) اور ان کے بعد کے ائمہ کے با رے میں
خدا کی طرف سے لا یا هوں ،تم ان سب کا اقرار کرلوکہ یہ سب میری نسل اور اس علی (ع)
)سے ھیں اور امامت صرف انھیں کے ذریعہ قائم هوگی ان کا آخری مھدی ھے جو قیا مت تک
حق کے ساتھ فیصلہ کر تا رھے گا
ایھا الناس!میں
نے جس جس حلال کی تمھارے لئے رہنما ئی کی ھے اور جس جس حرام سے روکا ھے کسی سے نہ
رجوع کیا ھے اور نہ ان میں کو ئی تبدیلی کی ھے لہٰذا تم اسے یاد رکھو[98] اور محفوظ
کرلو، ایک با ر میں پھر اپنے لفظوں کی تکرار کر تا هوں ، نماز قا ئم کرو ، زکوٰة ادا
کرو ، نیکیوں کا حکم دو ، برا ئیوں سے روکو ۔ اور یہ یاد رکھو کہ امر با لمعروف کی
اصل یہ ھے کہ میری بات کی تہہ تک پہنچ جا وٴ اور جو لوگ حاضرنھیں ھیں ان تک پہنچا وٴ اور اس کے قبول کر نے کا حکم
دو [اور اس کی مخالفت سے منع کرو[99] اس لئے
کہ یھی اللہ کا حکم ھے اوریھی میرا بھی حکم
ھے[100]اور امام معصوم کو چھو ڑ کر نہ کو ئی امر با لمعروف هو سکتا ھے اور نہ
نھی عن المنکر ۔[101
ایھا الناس!قرآن
نے بھی تمھں سمجھا دیا ھے کہ علی (ع) کے بعد
امام ان کے فرزند ھیں اور میں نے بھی تم کو
یہ سمجھاد یا ھےکہ یہ سب میری اور علی کی نسل سے ھیں جسااکہ پر ور دگار نے فر مایا
ھے
[وَجَعَلَھَاکَلِمَةً بَاقِیَةً فِیْ عَقَبِہِ > [102] اللہ نے
(امامت) انھی کی اولادمیں کلمہ با قئہ قرار دیا ھے “اور میں نے بھی تمہں بتا دیا ھے
کہ جب تک تم قرآن اور عترت سے متمسک رهو گے ھر گزگمراہ نہ هو گے [103
[اِنَّ زَلْزَلَةَ
السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ > [104.ایھا
الناس! تقویٰ اختیار کرو تقویٰ قیا مت سے ڈروجیسا کہ خدا وندعالم
نے فر مایا ھے" زلزلہ قیامت بڑی عظیم شیٴ ھے “موت
، قیامت ،حساب، میزان ،اللہ کی با رگاہ کا محا سبہ ،ثواب اور عذاب سب کو یاد کرو کہ
وھاں نیکیوں پر ثواب ملتا ھے [105] اور برا ئی کر نے والے کا جنت میں کو ئی حصہ نھیں
ھے ۔
۔۔۱۱ قانونی
طور پر بیعت لینا
ایھا الناس!تمھاری
تعداد اتنی زیادہ ھے کہ ایک ایک میرے ھاتھ پر ھاتھ ما ر کر بیعت نھیں کر سکتے هو ۔لہٰذا اللہ نے مجھے حکم دیا ھے
کہ میں تمھاری زبا ن سے علی (ع) کے امیر
المو منین[106] هو نے اور ان کے بعد کے ائمہ جو ان کے صلب سے میری ذریت ھیں سب کی
امامت کا اقرار لے لوں اور میں تمھیں بتا چکا هوں کہ میرے فرزند ان کے صلب سے ھیں۔
لہٰذا تم سب مل
کر کهو :ھم سب آپ کی بات سننے والے ، اطاعت کر نے والے ، راضی رہنے والے اور علی
(ع) اور اولاد علی (ع) کی امامت کے با رے
میں جو پروردگار کا پیغام پہنچایا ھے اس کے سا منے سر تسلیم خم کر نے والے ھیں ۔ھم
اس بات پر اپنے دل ، اپنی روح ، اپنی زبان اور اپنے ھا تھوں سے آپ کی بیعت کر رھے
ھیں اسی پر زندہ رھیں گے ، اسی پر مریں گے اور اسی پر دو بارہ اٹھیں گے ۔نہ کو ئی تغیر
و تبدیلی کریں گے اور نہ کسی شک و ریب میں مبتلا هو ں گے ، نہ عھد سے پلٹیں گے نہ
میثاق کو تو ڑیں گے ۔
اورجن کے متعلق
آپ نے فرمایا ھے کہ وہ علی امیر المومنین اور ان کی اولاد ائمہ آپ کی ذرّیت میں سے
ھیں ان کی اطاعت کریں گے ۔جن میں سے حسن
وحسین ھیں اور ان کے بعد جن کو اللہ نے یہ منصب دیا ھے اور جن کے بارے میں ھم سے
ھمارے دلوں،ھماری جانوں ھماری زبانوں ھمارے ضمیروں اور ھمارے ھاتھوں سے عھد و
پیمان لے لیاگیا ھے ھم اسکا کوئی بدل پسند نھیں کریں گے ،اور اس میں خدا ھمارے
نفسوں میں کوئی تغیر و تبدل نھیں دیکھے گا۔
ھم
ان مطالب کو آپ کے قول مبارک کے ذریعہ اپنے قریب اور دور سبھی اولاد اور رشتہ داروں
تک پہنچا دیں گے اورھم اس پر خدا کو گواہ بناتے ھیں اور ھماری گواھی کے لئے اللہ کافی
ھے اور آپ بھی ھمارے گواہ ھیں [107]۔ ایھاالناس ! اللہ
سے بیعت کرو ،علی (ع) کے امیر المومنین هونے اور حسن و حسین اور ان کی نسل سے باقی
ائمہ کی امامت کے عنوان سے بیعت کرو۔جو غداری کرے گا اسے اللہ ھلاک کردے گا اور جو
وفا کرے گا اس پر رحمت نازل کرے گا اور جو عھد کو توڑدے گا وہ اپنا ھی نقصان کرے گا
اور جو شخص خداوند عالم سے باندھے هوئے عھد کو وفا کرے گا خدوند عالم اس کو اجر عظیم
عطا کرے گا ۔
ایھاالناس !جومیں
نے کھا ھے وہ کهو اور علی کو امیر المومنین کہہ کر سلام کرو،[108]اور یہ کهو کہ پرودگار
ھم نے سنا اور اطاعت کی ، پروردگارا ھمیں تیری ھی مغفرت چاہئے اور تیری ھی طرف ھماری
بازگشت ھے اور کهو :حمدو شکرھے اس خداکاجس نے ھمیں اس امر کی ھدایت دی ھے ورنہ اسکی
ھدایت کے بغیر ھم راہ ھدایت نھیں پاسکتے تھے۔
ایھا الناس!علی
ابن ابی طالب کے فضائل اللہ کی بارگاہ میں اور جواس نے قرآن میں بیان کئے ھیں وہ اس
سے کھیں زیادہ ھیں کہ میں ایک منزل پر شمار کرا سکوں۔لہٰذا جو بھی تمھیں خبر
دے
اور ان فضائل سے آگاہ کرے [اسکی تصدیق کرو۔[109
یاد رکھو جو اللہ
،رسول،علی اور ائمہ مذکورین کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی کا مالک هوگا ۔
ایھا الناس!جو
علی کی بیعت ،ان کی محبت اور انھیں امیر المومنین کہہ کر سلام کرنے میں سبقت کریں
گے وھی جنت نعیم میں کامیاب هوں گے
ایھا
الناس!وہ بات کهو جس سے تمھارا خدا راضی هوجائے ورنہ تم اور
تمام اھل زمین بھی منکر هوجائیں تو اللہ کو کوئی نقصان نھیں پهونچا سکتے۔
پرودگارا !جو کچھ میں نے ادا کیا ھے اور جس کا تونے مجھے حکم
دیا ھے اس کے لئے مومنین کی مغفرت فرما اور منکرین (کافرین )پر اپنا غضب نازل
فرمااور ساری تعریف اللہ کے لئے ھے جو عالمین کا پالنے والا ھے ۔
ب : ”عَرَّفَھَا “
تشدید کے ساتھ ،یعنی جو شخص امیر المو منین علیہ السلام کے فضائل بیان کرے اور ان
کا لوگوں کو تعارف کرائے تو اس کی تصدیق کرو ۔
”ب “ میں عبارت
اس طرح ھے :ایھا الناس ،فضائل علی (ع) اور
جو کچھ خداوند عالم نے ان سے مخصوص طور پر قرآن میں بیان کیا ھے وہ اس سے کھیں
زیادہ ھے کہ میں ایک جلسہ میں بیٹھ کر سب کو بیان کروں ،لہٰذا جو کو ئی اس بارے
میں تم کو خبر دے اس کی تصدیق کرو ۔
۔۔
حوالہ جات
[1] توحید کے متعلق خطبہ کی ابتدا کے الفاظ بہت دقیق مطالب کے حامل
ھیں جن کی تفسیر کی ضرورت ھے ۔مذکورہ جملہ کی اس طرح وضاحت کی جا سکتی ھے :ساری
تعریف اس خد اکےلئے ھے جو یکتا ئی میں بلند مرتبہ رکھتا ھے ،وہ یکتا هو نے اور
بلند مرتبہ هونے کے باوجوداپنے بندوں سے نزدیک ھے ۔ ” ب “اور ” د “ کی عبارت اس
طرح ھے :اس خد ا کی حمد ھے جو اپنی یکتا ئی کے ساتھ بلند مرتبہ اور اپنی تنھائی کے
با وجود نزدیک ھے۔
[2] اس جملہ سے مندرجہ ذیل
دو جہتوں میں سے ایک جہت مراد هو سکتی ھے:
پھلے :خداوند
عالم کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے هوئے ھے درحالیکہ وہ چیزیں اپنی جگہ پر ھیں
اور خداوند عالم کو ان کے معائنہ اور ملا حظہ کرنے کی ضرورت نھیں ھے ۔
[3] کلمہ ” قُدُّوْسٌ “کا مطلب ھر عیب و نقص سے پاک اور منزّہ ،اور
کلمہ ٴ ” سُبُّوْحٌ “ کا مطلب جس کی مخلوقات تسبیح کرتی ھے اور تسبیح کا مطلب
خداوند عالم کی تنزیہ اور تمجید ھے
“
[4] ”ج “، ” د “اور ” ھ “ھر نفس اس کے زیر نظر ھے ۔
[5] ” ج “اور ” د “وھی عدم
سے وجود عطا کرنے والا ھے “
[6] ” الف “ ، ” ب “ اور ” د “اس کی تدبیر میں کو ئی اختلاف نھیں ھے “
[7] ” ج “بغیر فساد کے
“
[8] ” ج “ :اس نے چاھا پس وہ وجود میں آگئے ۔
[9]” ب “ اور ” ج “:بادشاهوں کا مالک ۔
[10] اس چیز سے کنایہ ھے کہ رات اور دن دو کشتی لڑنے والوں کی طرح
ایک دو سرے پر غالب آجاتے ھیں اور اس کو زمین پر پٹک دیتا ھے اور خود اوپر آجاتا
ھے ۔دن کے بارے میں فرمایا ھے”رات کا بہت تیزی کے ساتھ پیچھا کرتا ھے “لیکن رات کے
بارے میں نھیں فر مایا ۔شاید یہ اس بات سے کنایہ هو کہ چونکہ دن نور سے ایجاد هو
تا ھے اور جیسے ھی نور کم هوا رات آجاتی ھے ۔
[11]”د “تدبیر کرتا ھے اور مقدر بناتا ھے ۔
[12]” ب “ منع کرتا ھے اور ثروت مند بنا دیتا ھے ۔
[13]” ج “اور” ھ “رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے والا اس
کے علاوہ اور کو ئی نھیں ھے ۔
[14]” ج “اور”د “اور”ھ “سے کسی زبان کی مشکل پیش نھیں آتی ھے ۔
[15]” د “ ” ھ “اس کے حکم کو سنو اور اطاعت کرو ،اور جس چیز میں اس
کی رضایت ھے اس کی طرف سبقت کرو اور اس کے مقدرات کے مقابلے میں تسلیم هو جاؤ۔
[16] سوره ما ئدہ آیت/۶۷۔
[17]” ج “ اور ” ھ “ جو کچھ میں نے پہنچایاھے اس میں کسی قسم کی کو
ئی کو تا ھی نھیں کی ھے اور جو کچھ مجھ پر ابلاغ هوا اس کے پہنچانے میں کسی قسم کی
کاھلی نھیں کی ھے ۔
[18] ان دو مقامات پر سلام پروردگار عالم کے نام کے عنوان سے ذکر
هوا ھے۔
[19] سوره ما ئدہ آیت/۵۵۔
[20]” ب “حالت رکوع میں خداوند عالم کی خاطر زکات دی ھے خداوند عالم
بھی ھر حال میں ان کا ارادہ کرتا ھے ۔
[21] یعنی اس مھم کے ابلاغ میں معافی چاہنے کی ایک علت یہ بھی ھے
[22] سوره توبہ آیت/ ۶۱۔
[23] یھاں پر اس کا مطلب یہ هو گاکہ پیغمبر اکرم (ص) خداوند عالم کے
کلام کی تصدیق فرماتے ھیں اورمو منین کے مقابل میں تواضع اور احترام کا اظھار کرتے
ھیں اور ان کی باتوں کو رد نھیں کرتے ۔
[24]” ج “اور” ھ “لیکن خدا کی قسم ان کی باتوں کو در گزر کرتے هوئے
ان پر کرامت کرتا هوں ۔
[25] سوره مائدہ آیت/۶۷۔
[26]” ج “اور” ھ “ھر موجود پر ۔۔۔
[27]” ب “جو شخص ان کا تابع هوگا ان کی تصدیق کرے گا اس کو اجر ملے
گا ۔
[28] آنحضرت (ص) کے اس کلام سے مراد خود آپ ھی ھیں ۔
[29] ” اَحْصَاہُ “ کا مطلب ” عَدَّ ہُ وَضَبَطَہُ “ھے ۔یعنی ذہن سے
قریب کرنے کےلئے کلمہ”جمع اور جمع آوری “سے استفادہ کیا گیا ھے ۔
[30] سوره یس آیت/۱۲۔
[31] وہ خداوند عالم کے امر سے امام ھیں ۔
[32] میری مخالفت کرنے سے پرھیز کرو ۔
[33] ”الف‘ ‘، ”ج “اور ” د “اگر کو ئی میری اس گفتگو میں کسی ایک چیز
میں شک کرے گو یا اس نے تمام چیزوں میں شک کیا ھے اور اس میں شک کرنے والے کا
ٹھکانا جہنم ھے ۔” ھ “:جو شخص میری گفتار کی ایک چیز میں شک کرے گویا اس نے پوری
گفتار میں شک کیا ھے
[34]” ب “ایھا الناس ،خداوند عالم نے علی بن ابی طالب کو سب پر افضل
قرار دیا ھے ۔
[35]” ج “اور” ھ “میرا کلام جبرئیل سے اور جبرئیل پروردگار عالم کی
طرف سے یہ پیغام لا ئے ھیں۔
[36]” جنب “یعنی طرف ،جہت ،پھلو ۔شاید یھاں پراس سے مراد امیر المو
منین علیہ السلام کا خداوند عالم سے بہت زیادہ مرتبط هو نا ھے
[37] سوره زمر آیت/۵۶۔
[38]” زواجر “یعنی باطن ،ضمیر اورنھی کے معنی میں بھی آیا ھے ،اور
پھلے معنی عبارت سے بہت زیادہ منا سبت رکھتے ھیں
[39] خدا کی قسم وہ نور واحد کے عنوان سے تمھارے لئے بیان کرنے والے
ھیں ۔
[40] یہ حدیث :< انی تارک فیکم الثقلین > کی طرف اشارہ ھے ۔
[41]” ج “یہ خداوند عالم کی جانب سے اس کی خلق میں امراور زمین میں
اس کا حکم ھے ۔
[42]” ج “جان لو! میں نے نصیحت فرما دی ھے ۔
[43]” الف “اور” ب “اور” د “: جان لو کہ امیرالمومنین میرے اس بھا ئی
کے علاوہ کوئی نھیں ھے ۔
[44]” ب “امیر المو منین علیہ السلام نے اپنے دونوں ھاتھوں کو پیغمبر
اکرم (ص) کے چھرہ ٴ اقدس کی طرف اس طرح بلند کیا کہ آپ کے دونوں ھاتھ مکمل طورپر
آسمان کی طرف کھل گئے تو پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کیا
یھاں تک کہ ان کے قدم مبارک آنحضرت (ص) کے گھٹنوں کے برابر آگئے ۔
یہ فقرہ کتاب
اقبال سید بن طا ؤس میں اس طرح آیا ھے : ۔پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کرتے هو
ئے فر مایا
ایھا
الناس ،تمھارا صاحب اختیار کون ھے ؟ انھوں نے کھا :خدا اور اس کا رسول
۔آنحضرت (ص)نے فرمایا : آگاہ هو جاؤ جس کا
صاحب اختیار میں هوں یہ علی اس کے صاحب اختیار ھیں ۔خداوندا جو علی کو دوست
رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو علی سے
دشمنی کرے تو اس کو دشمن رکھ ،جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر اور جو اس کو ذلیل
کرے تو اس کو ذلیل و رسوا کر ۔
[45]” د “ اور میرے بعد امور کے مدبر ھیں ۔
[46]” ب “ :۔۔۔اور میری امت کے جو لوگ مجھ پر ایمان لائے ھیں ان
پرمیرے جا نشین ھیں ۔آگاہ هو جا ؤ کہ قرآن کا نازل کرنا میری ذمہ داری ھے لیکن
میرے بعد اس کی تاویل ،تفسیر کرنا اور وہ عمل کرنا جس سے خدا راضی هوتا ھے اور
دشمنوں سے جنگ کرنا اس کے ذمہ ھے اور وہ خداوند عالم کی اطاعت کی طرف راہنما ئی
کرنے والے ھیں ۔
[47] ناکثین: طلحہ ،زبیر ،عائشہ اور اھل جمل ؛قاسطین: معاویہ اور
اھل صفین ؛اور مارقین: اھل نھروان ھیں ۔
[48] سوره ق آیت/۲۹۔
[49] ” الف “ میں کہتا هوں :میری بات (خداوند عالم کے امر سے )نھیں
بدلتی ھے ۔” ھ “ میں خداوند عالم کے امر سے کہتا هوں :میری بات میں کو ئی تغیر و
تبدل نھیں هوتاھے ۔
[50] سوره ما ئدہ آیت /۳۔
[51] سوره آل عمران آیت/ ۸۵۔
[52] ” الف “ ،” ب “ ، ” د “ اور ” ھ “ : خدایا! تو نے مجھ پر نازل
کیا ھے کہ میرے بعد امامت علی (ع) کے لئے ھے میں نے اس مطلب کو بیان کیا علی (ع)
کو امام معین فرمایا ،جس کے ذریعہ تو نے اپنے بندوں کے لئے دین کو کامل کیا
، ان پر اپنی نعمت تمام کی اور فرمایا :جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو
انتخاب کرے گا وہ دین قبول نہ کیا جا ئیگا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھا نے والوں
میں سے هوگا “خدایا میں تجھ کو گواہ بناتا هوں کہ میں نے پہنچادیا اور گواھی کے
لئے تجھ کو کا فی سمجھتا هو ں ۔
[53]” حبط “یعنی سقوط ،فساد ،نابودهونا ،ضائع هونا اور ختم هوجانا ھے
۔
[54] ہ سوره انسان کی آیت ۱۲
کی طرف اشارہ ھے جس میں خدافرماتا ھے :< وَ جَزَاھُمْ بِمَاصَبَرُوْاجَنَّةً وَ
حَرِیْراً > اور انھیں ان کے صبر کے عوض جنت اور حریر جنت عطا کرے گا “سوره
انسان آیت/ ۱۲۔
[55]” ب “وہ میرا قرض ادا کرنےوالا اور میرا دفاع کرنے والا ھے ۔’ ھ
“وہ خداوند عالم کا دَین (قرض) ادا کرنے والا ھے۔
[56] یعنی تمھارے ایمان کے درجہ کا حضرت آدم علیہ السلام کے درجہ سے
بہت زیادہ فاصلہ ھے ۔
[57] ” ب “ درحالیکہ خداوند عالم کے بہت زیادہ دشمن هو گئے ھیں ۔” ج
“اور ” ھ “ اگر تم انکار کروگے تو تم خدا کے دشمن هو ۔
[58] سوره عصر آیت/۱۔
کتاب اقبال سید
بن طاؤس میں عبارت اس طرح آئی ھے : سوره ”
والعصر “ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل هوا ھے اور اس کی تفسیر یوں ھے
:قیامت کے زمانہ کی قسم، انسان گھا ٹے میں ھے اس سے مراد دشمنان آل محمد ھیں ،مگر
جو لوگ ان کی ولایت پر ایمان لائے اور اپنے دینی برادران کے ساتھ مواسات کے ذریعہ
عمل صالح انجام دیتے ھیں اور ان کی غیبت کے زمانہ میںایک دوسرے کو صبر کی سفارش
کرتے ھیں ۔
[59] یہ سوره نساء آیت/ ۴۷کی طرف اشارہ ھے۔کلمہ ” طمس “ کا مطلب ایک تصویر
کے نقش و نگار کو محو کرنا ھے ۔اس مقام پر (احادیث کے مطابق )دل سے ھدایت کا مٹا
دینا اور اس کو گمرا ھی کی طرف پلٹا دینامراد ھے ۔
[60]” مسلوک “یعنی داخل کیاگیا۔اور ” ب “ میں مسبوک ھے جس کا مطلب
قالب میں ڈھالاهوا ھے۔
[61] د”اور ھر مو من کا حق حاصل کرے گا “
[62] ج”۔۔۔مھدی قائم خداوند عالم اور ھمارے ھر حق کو تمام مقصرین
،معاندین ،مخالفین،خا ئنین ،آثمین،ظالمین اور غاصبین کو قتل کر کے وصول کرے گا “
[63] ”ھ“ ھمارے سلسلہ میں خداوند عالم پر احسان نہ جتاؤخداوند عالم
تمھاری باتیں قبول نھیں کرے گا ،تم پر غضب نازل کرے گا اور تم پر عذاب نازل کرے گا
اس “
[64] کلمہ ٴ ”اغتصاب “کا مطلب ظلم و زبر دستی کے ساتھ اخذ کرنا ‘
[65] کلمہ ٴ ”الثقلان“ کا ”جن و انس “ترجمہ کیا گیا ھے ۔
[66] یہ سوره رحمن کی ۳۱ اور ۳۵
ویں آیت کی طرف اشارہ ھے ۔
[67] یہ سوره آل عمران کی ۱۷۹ویں آیت کی طرف اشارہ ھے
کردے اور اللہ تم کو
غیب پر با خبر کرنے والا نھیں ھے ۔
[68] کلمہٴ ”قریہ “کے معنی گاؤں اور آبادی کے ھیں اور اس مو قع پر
دوسرے معنی منا سب ھیں ۔
[69]”الف “اور ”د“ایھا الناس ! کو ئی ایسی بستی نھیں ھے جس کے رہنے
والوں کو پروردگار عالم نے تکذیب کی وجہ سے ھلا ک نھیں کیا اسی طرح خداوند عالم
ظالموں کی بستیوں کو ھلاک کرتا ھے جیسا کہ خداوند عالم نے قرآن کریم میں ارشاد فر
مایا ھے اور یہ علی (ع) تمھارے امام اور
صاحب اختیار ھیں وہ وعدہ گاہ الٰھی ھیں اور خداوند عالم اپنے وعدہ کو عملی کرتا ھے
۔
[70] ”ج اور ”ھ “خدا کی قسم تم سے پھلے والے لوگوں کو ان کی اپنے
انبیاء کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ھلاک کیا ھے ۔
[71] سورہ مرسلات :آیات /۱۶۔۱۹۔
[72] ”الف “پس وہ امر و نھی کو خداوند عالم کی طرف سے جانتے ھیں
۔”د“امر و نھی خداوند عالم کی طرف سے ان کے ذمہ ھے “
[73] ”الف “اور ” د “جان لو ! کہ علی (ع)
کے دشمن اھل شقاوت ،تجاوز کرنے والے اور شیا طین کے بھا ئی ھیں ۔
[74] سوره مجا دلہ آیت/ ۲۲۔
[75] سوره انعام آیت/۸۲۔
[76] سوره مجادلہ آیت /۲۲۔”ب “اور ”ج “میں وہ سیدھا راستہ هوں جس سے
تمھیں خداوند عالم نے ھدایت پانے کا حکم دیاھے ۔
[77] سوره انعام آیت/۸۲۔”ج“:کس شخص کے بارے میں نازل هوا ھے
؟انھیں کے بارے میں نازل هوا ھے (خدا کی قسم انھیں کے بارے میں نازل هوا ھے خداکی
قسم ان سب کو شامل ھے اور ان کے آباء و اجداد سے مخصوص ھے اور عام طور پر ان سب کو
شامل ھے ۔
[78] ”الف “، ”ب “اور ” د“آگاہ هو جا ؤ کہ ان کے دوست وہ لوگ ھیں جن
کے بارے میں خدا وند عالم فر ماتا ھے :وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل هو ں گے “
[79] سوره اعراف آیت /۳۸ ۔
[80] سوره ملک آیات / ۸۔۱۱۔
[81] کلمہ”سحق “کے معنی ھلاکت ،اور دوری کے ھیں ۔
[82] جملہ” یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ “کا شاید یہ مطلب ھے
کہ وہ خداوند عالم کو دیکھے بغیر غیب پر ایمان رکھنے کی وجہ سے اس سے ڈرتے ھیں ۔
[83] ”الف “اور ”د “آگ کے شعلوں اور بھشت کے ما بین کتنا فا صلہ ھے
۔”ب “ھم نے آگ کے شعلوں اور عظیم اجر کے مابین فرق واضح کر دیا ھے “
[84] شاید اس سے یہ مراد هو کہ میں نے تم کو برائیوں سے ڈرایا اور
تصفیہ کیا اور اب وہ وقت آگیا ھے کہ تم علی
(ع) کے ساتھ بھشت کی راہ اختیار
کرلو ۔
[85] ”الف “، ”ب “اور ”د “وہ ھر اھل شرک قبیلہ کا قاتل ھے “
[86] وہ عمیق سمندر سے عبور کرنے والا ھے ۔
[87]”ب“وہ وھی ھے جو صاحب فضل کو اس کے فضل کے مانند جزا دیتا ھے ۔
[88] وہ اپنے آبا ؤ اجدادکے حکم کو محکم و مضبوطی عطا کرنے والا ھے۔
[89] وہ وھی ھے جس کی ھر گزشتہ پیغمبر نے بشارت دی ھے ۔
[90]” ج “ میں تمھاری طرف بیعت کے لئے ھاتھ بڑھاؤں گا ۔
[91] سوره فتح آیت/ ۱۰۔
[92] پرانٹز کے اندرجملہ اس لئے لکھا گیا ھے کہ ” بھما “کی ضمیر کا
حج و عمرہ سے کوئی تعلق نھیں ھے اور اس کامرجع صفا و مروہ ھیں
[93] سوره بقرہ آیت / ۱۵۸)
[94] شاید منقطع هو جا نے سے مراد کم نسل هو جا نا هو جیساکہ
کلمہ”بتر “سے استفادہ کیا گیا ھے ،اور”د “اور”ھ “میں اس طرح ھے:”گھر والے خا نہٴ
خدا میں داخل نھیں هو تے مگر یہ کہ وہ رشد و نمو کر تے ھیں اوران کا غم ختم هو جا
تا ھے اور کو ئی خاندان اس کو ترک نھیں کرتا مگر یہ کہ وہ ھلاک اورمتفرق هو جاتا
ھے “
[95] اس سے مراد ان تین جگهوں پر وقوف کرنا ھے جو اعمال حج کا
جزشمار هو تا ھے ۔
[96]”ج “اور”ھ “زکات ادا کرو جیسا کہ میں نے تم کو حکم دیا ھے “
[97] ”الف “ اور ”ج “جس شخص کو خداوند عالم نے مجھ سے خلق کیا ھے اور
میں اس سے هوں۔ ”د “جس کو خداوند عالم نے خود اپنا اور میرا خلیفہ قرار دیا ھے ۔
[98] اس مطلب کے سلسله میں فکر کرنا اور تحقیق کرناـ
[99] یہ جملہ (نسخہٴ ”ج “)کتاب ” التحصین “کے مطابق خطبہ کا آخری
جملہ ھے ۔
[100] ” ب “جان لہ کہ تمھارے سب سے بلند و برتر اعمال امر بالمعروف اور
نھی عن المنکر ھیں ۔پس جو لوگ اس مجلس میں حا ضر نھیں ھیں اور انھوں نے میری ان
باتوں کو نھیں سنا ھے ان کو سمجھانا چونکہ تم تک یہ حکم میرے اور تمھارے پرور دگار
کا ھے ۔
[101] شاید اس سے مراد یہ هو کہ معروف و منکرات کا معین کرنا نیز
معروف و منکرات کی شرطوں اور اس کے طریقہ کو امام معصوم معین کرتاھے ۔ نسخہٴ ” ج
“میں اس طرح آیا ھے :”امر بالمعروف اور نھی عن المنکرصرف امام معصوم کے حضور میں
هو تا ھے ۔
[102] سوره زخرف آیت / ۲۸۔
[103] ” ب “ایھا الناس میں قرآن کو اپنی جگہ پر قرار دے رھا هوں اور
میرے بعد میرے جا نشین علی (ع) اورائمہ ان
کی نسل سے ھیں ،اور میں نے تم کوسمجھادیا کہ وہ مجھ سے ھیں ۔اگر تم ان سے متمسک
رهو گے تو ھر گز گمراہ نہ هو گے ۔
[104] سوره حج آیت/۱
۔
[105]” د “جو شخص اچھے کام کرے گا کامیاب هوگا ۔
[106] ”الف “، ” ب “اور ” ھ “جو کچھ میں نے علی (ع) کےلئے ”امیر المو منین“ کے عنوان سے بیان کیا
ھے ۔
[107] اس مقام تک وہ عبارتیں تھیں جن کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام (ص)
نے لوگوں سے چاھا کہ وہ اس کومیرے ساتھ دھرائیں اور اس کے مضمون کا اقرار کریں۔ یہ
عبارتیں نسخہٴ”ب“کے مطابق بیان کی گئی ھیں۔ اس کے بعد”الف“،”د“اور” ھ “میں اس
جملہ”آپ نے ھماری مو عظہٴ الٰھی کے ذریعہ نصیحت فر ما ئی “یھاں تک اس طرح آیا
ھے۔۔۔
” ھم خدا وند عالم ،آپ ،علی امیر المو منین (ع)
ان کے امام فرزندجن کے سلسلہ میں آپ نے فر مایا کہ وہ آپ کے فرزنداور ان
(علی) کے صلب سے ھیں کی اطاعت کرتے ھیں ۔ ”ھ “ (آپ نے فرمایا وہ علی (ع) کے صلب سے
آپ کے فرزند ھیں وہ جب بھی آئیں اور امامت کا دعویٰ کریں )جو حسن و حسین علیھما
السلام کے بعد ھیں میں نے ان دو نوں کے مقام و منزلت کی اپنے اور خدا کے نزدیک
نشاندھی کرادی ھے ۔ان دونوں کے سلسلہ میں میں نے یہ مطالب تم تک پہنچا دئے ھیں ،
وہ دونوں جوانان جنت کے سردار ھیں ،وہ اپنے والد بزرگوار علی (ع) کے بعد امام ھیں
اور میں علی (ع) سے پھلے ان دونوں کاباپ
هوں۔
کهو ”ھم اس
سلسلہ میں خدا وند عالم ،آپ ،علی (ع) ،حسن و حسین اور جن اماموں کا آپ نے تذکرہ فر
مایا ھے ان سے عھد و پیمان باندھتے ھیں اورھم سے امیر المو منین علیہ السلام کے
لئے میثاق لیاجائے ۔(”ھ “پس یہ پیمان مو منین سے لے لیا گیاهو ) ھمارے دلوں ،جانوں
،زبانوں اور ھاتھ سے ،جس شخص کےلئے ممکن هو اس سے ھاتھ سے ورنہ وہ اپنی زبان سے
اقرار کرے ۔اس پیمان کو ھم نھیں بد لیں گے اور ھم کبھی بھی اس میں تغیرو تبدل کرنے
کا ارادہ نھیں کریں گے۔
ھم آ پ کا یہ
فرمان اپنے دور اور قریب سب رشتہ داروں تک پہنچا دیں گے۔ ”ھ“ ھم آپ کا یہ قول اپنے
تمام بچوں تک پہنچا ئیں گے چا ھے وہ پیدا هو گئے هوں اور چا ھے ابھی پیدا نہ هو ئے
هوں )،ھم خدا کو اس مطلب کے لئےاپنا گواہ بناتے ھیں اور گواھی کے لئے خدا کافی ھے
اور آپ(ع) ھم پر شاھد ھیں ،نیز ھر وہ
انسان جوخدا کی اطاعت کرتا ھے (چا ھے آشکار طور پر اور چاھے مخفی طور پر) نیز خداوند عالم کے ملا ئکہ ،اس کا لشکر اور اس کے
بندوں کو اپنا گواہ قرار دیتے ھیں اور خداوند عالم تمام گواهوںسے بلند و بالا ھے
“۔
ایھا الناس!اب
تم کیا کہتے هو ؟یاد رکھو کہ اللہ ھر آواز کو جانتا ھے اور ھر نفس کی مخفی حالت سے
باخبر ھے ،جو ھدایت حاصل کرے گاوہ اپنے لئے اور جو گمراہ هوگا وہ اپنا نقصان کرے
گا ۔جو بیعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی بیعت کی،اسکے ھاتھ پر اللہ کا ھاتھ ھے ۔
[108] یعنی کهو ”السلام علیک یا امیر المو منین “۔اور عبارت ” ب “میں
اس طرح ھے :ایھا الناس جس کی میں نے تم لوگوں کو تلقین کی ھے اس کی تکرار کرو
اوراپنے امیر المو منین کو سلام کرو“۔
[109] اس عبارت کے دو طریقہ سے معنی بیان کئے جا سکتے ھیں
الف :”عَرَفَھَا
“بغیر تشدید ،یعنی امیرالمو منین علیہ السلام کے فضائل بیان کرنے والے کو اھل معرفت
هو نا چا ہئے اورصرف سنے هوئے کو لیں اس وقت تک نقل نہ کریں جب تک دشمنوں کی مکاریوں
اور حذف شدہ عبارتوں سے آگاہ نہ هو جائیں کہ کھیں ایک فضیلت کا نتیجہ برعکس نہ هوجائے
۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں