اتوار، 30 مارچ، 2014

امام حسنؑ کی صلح اور امام حسینؑ کے قیام کا فلسفہ

امام حسنؑ کی صلح اور امام حسینؑ کے قیام کا فلسفہ


حضرات ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت اور عملی زندگی میں بہت زیادہ مشترکات نظر آتے ہیں اور یہ ایک مسلم بات ہے۔
بقول اقبال ؂حقیقت ابدی ہے مقام شبیری بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
اس اشتراکِ فکر وعمل کی اصل وجہ یہ ہے کہ ائمہ معصومین ؑ اور انبیاء الٰہی کا مقصد اور اصول ایک ہے؛ جیسا کہ امام خمینیؒ کا ارشاد ہے کہ اگر سارے انبیاء عظام ایک وقت میں ایک ہی مقام پر موجود ہوتے تب بھی ان کے درمیان ذرہ برابر اختلاف نہ پایا جاتا۔ کیونکہ اگر کہیں بھی انسانوں کے درمیان کوئی اختلاف پایا جاتا ہے تو اس کے چند عوامل ضرور ہوتے ہیں مثلاً:
الف۔ ان افراد کا ہدف اور نصب العین ایک نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کا مقصد اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے؛ لہٰذا ان کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے ۔ اس حقیقت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک مسافر مشرق جانے والا ہو اور دوسرا مغرب جانے والا ہو تو یہ دونوں ہمسفر نہیں ہو سکتے اور ایک گاڑی میں دونوں ایک ساتھ سوار نہیں ہوسکتے۔
ب۔ اختلاف کا دوسرا عامل، افراد کے طریقۂ کار کا اختلاف ہوتا ہے۔ مثلاً دین کی خدمت کرنا سب کا ہدف ہوتا ہے لیکن اس ہدف کے حصول کیلئے ایک شخص سیاست یا جہاد کا راستہ اپناتا ہے اور دوسرا شخص علمی اور فلاحی خدمات کی فراہمی کء ذریعے اس ہدف تک پہنچنا چاہتا ہے۔ البتہ اس طرح کے اختلاف کی بھی دو وجوہات ہوتی ہیں:
۱) بعض اوقات متعدد راستے اپنانے کا سبب تقسیم کار ہوتا ہے؛ مثال کے طور پرایک شخص تعلیم و تربیّت کا شعبہ سنبھال لیتا ہے تو دوسرا عسکری شعبہ اپنا لیتا ہے۔ لیکن دونوں کا ہدف ایک ہی ہوتا ہے اور دونوں ایک ہی نظام کے اجزاء کی حیثیّت رکھتے ہیں۔ لہٰذا ایسے افراد کے درمیان تعاون کی فضا پائی جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے کام کی تکمیل کرتے ہیں۔
۲) بعض اوقات ان افراد میں اختلاف کا سبب تقسیم کار نہیں ہوتابلکہ ان میں سے ہر ایک، اپنی روش کو برحق اور دوسرے کی روش کو باطل تصور کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کلمۂ حق کے اِعلاء کیلئے ایک فرد تبلیغ کو صحیح روش اور جہاد و سیاست کو غلط روش خیال کرتا ہے جبکہ دوسرا فرد برعکس نقطۂ نظر کا مالک ہوتا ہے۔ ایسے افراد کی مثال ان تاجروں کی سی ہوتی ہے کہ جو ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب اگر افراد کے درمیان اختلاف کی نوعیّت پہلی قسم کی ہو تو معاشرے کا ڈاکٹر، استاد، وکیل، تاجر وغیرہ وغیرہ، سیاستدانوں کی مدد کریں گے اور سیاستدان ان کی۔ لیکن اگر اختلاف کی نوعیّت دوسری قسم کی ہو تو اس صورت میں ہر فرد دوسرے کو غلط قرار دے کر اسے کمزور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور یوں پہلی قسم کا اختلاف اتحاد اور ہمکاری کا سبب بنتا ہے اور دوسری قسم کا اختلاف افتراق اور اختلاف و نزاع کا عامل بنتا ہے۔
ج۔ اختلاف کا تیسرا سبب، وسائل اور ذرائع کا فرق ہوتا ہے۔ مثلاً دوستوں اور حامیوں کی وفاداری، تعداد ، صلاحیت ، مالی ذرائع، اسلحہ و بارود اور دشمنوں کی کمیت و کیفیت و حکمت عملی ، حالات اور اوضاع زمانہ ، معاشرہ کا باشعور ہونا یا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔ مثال کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو بہتر ایسے ساتھی ملے جنہوں نے کربلا کی اس قربانی کو اتنی عظمت بخشی۔ لیکن امام حسن ۔ کے ساتھی ایسے تھے کہ آپ کو دست بستہ دشمن کے حوالے کرنے کا سوچ رہے تھے۔ حضرت امام حسین ؑ کا دشمن ایک ناپختہ اور خودخواہ حکمران تھا لیکن حضرت امام حسن ؑ کے مدمقابل ایک انتہائی مکار سیاستدان تھا ۔
اختلاف کے ان تین عوامل میں سے حضرت امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے درمیان یقیناًپہلے دو عامل، باعث اختلاف نہیں ہوسکتے تھے۔ کیونکہ حضرت امام حسین ؑ کا مقصد اور نصب العین رضای الٰہی اور بس ’’رضیٰ اللہ رضانا اھل البیت‘‘ تھا اور حضرت امام حسن ؑ کا مقصد اور نصب العین بھی یہی تھا۔اب حضرت امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے درمیاں اختلاف، منزل تک پہنچنے کیلئے طریقہٗ کار کا باہمی اختلاف بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ آپ دونوں امام ہیں اور اپنی مسؤلیت امامت کو معصومانہ صلاحیتوں کے ساتھ سرانجام دیا کرتے ہیں؛ چنانچہ ارشاد نبوی ہے’’ الحسن و الحسین امامان قاما او قعدا‘‘۔
بنابرایں، حضرت امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے درمیاں اختلاف کا واحد سبب، وسائل، حالات، مدمقابل کی حیثیّت اور دوست و دشمن کا اختلاف ہی ہو سکتا ہے۔ حالات اور وسائل کے اسی اختلاف ہی کی وجہ سے نہ فقط حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السلام کے درمیان صلح و جنگ کی صورت میں اختلاف نظر آتا ہے کہ حضرت امام حسن ؑ حکومت دے دیتے ہیں اور حضرت امام حسین ؑ جنگ کا راستہ اختیار کرتے ہیں بلکہ حضرت امام رضا علیہ السلام بھی ولایت عہد ی قبول فرماتے ہیں۔
بلکہ کردار اور انتخاب کا یہ اختلاف تو خود ایک ہی معصوم کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔مثال کے طور پر حضور اکرم ﷺنے ۱۵ سال تک صبر و تحمل سے کام لیا اور آٹھ سالوں میں اسی کے قریب جنگیں لڑیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے ۲۵ ؍سال تک سکوت اختیار کیا اور پانچ سال میں تین عظیم جنگیں لڑین۔ حضرت امام حسن ؑ نے ابتداء میں جنگ کا راستہ اختیار کیا لیکن آخر میں صلح کر لی۔ اور حضرت امام حسین ؑ نے ابتداء میں صلح کا راستہ اختیار کیا لیکن آخر میں جنگ لڑنا پسند فرمایا۔
پس اسی لیے تو راہبر انقلاب اسلامی ایران، فرماتے ہیں کہ یہ معصومین چودہ کے بجائے اگر صرف ایک شخص ہوتا جس کی اتنی عمر لمبی ہوتی جتنی چودہ معصومین علیہم السلام کی ہے تو جو اقدامات وقت کے تقاضوں کے مطابق ان ہستیوں نے انجام دیے وہی ایک ہستی بھی یہ سب اقدامات ہوبہو انجام دیتی۔
بنابرایں، ان دو اماموں کی سیاست اور حکمت عملی میں فرق اور اختلاف کے اسباب اور عوامل کو جاننے کیلئے ہمیں معاویہ اور یزید کے درمیان کا فرق، آپ کے دوستوں اور دشمنوں اورعام مسلمانوں کے حالات کا بغور مطالعہ کرنا ہو گا۔ جیسا کہ خود نبی اکرم [ع] اور حضرت علی ؑ کے درمیان اسی وجہ سے حکمت عملی میں فرق نظر آتا ہے۔ اب ہم ذیل میں معصومین علیہم السلام کے درمیان اختلاف کے حوالے سے ایسے ہی عوامل کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
نفاق اور کفر کا فرق
اگرچہ حدیث نبوی کے مطابق منافق کافر سے بھی زیادہ امت مسلمہ کیلئے خطرناک ہے لیکن زمانے اور معاشرے کے حوالے سے نفاق کا خطرہ کفر کی نسبت کمتر ہوتا ہے ، کیونکہ منافقت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کا بول بالا ہے اور منافق اپنے کفر کا اعلان بھی نہیں کرسکتا ہے۔ جبکہ اظہار کفر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمان اتنے بے ضمیر اور بے حس ہوچکے ہیں کہ کفر و اسلام کے درمیان ان کے لئے کوئی فرق نہیں رہا۔
بنی امیہ نے جو کہ دشمن اسلام اور دشمن پیغمبر تھے، اسلام کونابود کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ہمیشہ ناکام رہے ۔ مشرکین مکہ اور حضور کے درمیان ہونے والی تمام جنگوں میں قیادت کرنے والے یا بنیادی کردار ادا کرنے والے اسی قبیلہ کے بزرگان تھے۔ لیکن جب فتح مکہ کا موقعہ آیا تو لشکر اسلام کی طاقت اور عظمت کو جب اس خاندان نے دیکھا تو انہیں پتہ چل گیا کہ کفر کا علمبرداربن کر کامیابی کا حصول ممکن نہیں ہے۔ تو انہوں نے اندرونی کفر اور بیرونی اسلام (جس کو قرآن نفاق سے تعبیر کرتا ہے) کی روش کو اپنایا۔ چنانچہ حضرت علی ۔ فرماتے ہیں کہ اس خاندان کے سردار نے دین کو ترک کیا ہے اور یہ اسلام کی بساط کو ایسا الٹا کریں گے جس طرح پوستین کو الٹا کیا جاتا ہے ۔ (نہج البلاغہ خطبہ۱۰۸)۔
حضرت عمار یاسرؒ فرماتے ہیں: ’’استسلمو ولم یسلموا‘‘۔ (حماسہ حسینی) کہ انہوں نے ہتھیار ڈالا ہے مسلمان نہیں ہوئے ہیں۔ پھر ابوسفیان کا حضرت حمزہ کی قبرپر جاکر یہ کہنا کہ حمزہ! بادشاہت کے جس درخت کی تم اپنے خون سے آبیاری کی تھی وہ اب ہمارے بچوں کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا ہے ۔پھر حضرت قیس بن سعد بن عبادہ اور معاویہ کے درمیان تبادلہ ہونے والے خطوط کے مضامین اور مغیرہ بن شعبہ کی معروف روایت (مسعودی) جس میں امیر شام نے کہا تھا کہ جب تک نام محمد کو دفن نہ کروں ،سکون سے نہیں بیٹھوں گا۔تو اس قسم کے دسیوں واقعات، تاریخِ اسلام کی کتابوں میں مرقوم ہیں حالانکہ بنی امیہ کے زور شمشیر اور مذہبی تعصب کی وجہ سے اس قسم کی دسیوں تاریخی دستاویزات غائب بھی ہوچکی ہیں۔ (جیسا کہ تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں)
خلاصہ یہ ہے ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسلام کو نابود کرنا چاہتے تھے؛ کیونکہ اسلامی اصول نہ فقط ان کے خاندانی اور حکومتی مفادات کے منافی تھے بلکہ یہ لوگ خاندانی طور پر بھی اسلام اور حضرت محمد و آل محمد ؐکے دشمن تھے۔ لہٰذا وہ منتظر تھے کہ ایک ایسا دن آئے کہ مسلمان اعلان کفر کو بھی برداشت کرلیں اور ساتھ ان کی بادشاہت بھی باقی رہے۔ لہٰذا تاریخ بتاتی ہے کہ معاویہ خلیفہ کہلانے کی بجائے بادشاہ کے لقب سے زیادہ خوش ہوتا تھا۔
(تاریخ خلفاء۔ رسول جعفریان)
لیکن معاویہ اپنے دور میں کسی ایسے اظہار کی جرأت نہیں رکھتا تھا لہٰذا جو بھی ناجائز اعمال اس نے انجام دیئے اس کے لئے دین کا سہارا لیا؛ یہاں تک کہ جب حضرت علی ؑ کو وہ سب کرتا تھا تو پہلے کہتا تھا خدایا تو گواہ رہنا کہ علی نے تیرے دین کو ترک کیا ہے یا اس میں بدعت ایجاد کی ہے۔ لیکن یزید نے کفر کے الفاظ کو علی الاعلان زبان پر جاری کیا (جیسا کہ اس حوالے سے یزید کے اشعار معروف ہیں۔( معالم المدرستین، علامہ عسکری) اور اسی لیے تو مدینہ میں جب مروان نے حضرت امام حسین ؑ سے مطالبہ کیا کہ آپ یزید کی بیعت کریں تو امام نے فرمایا: ’’علی الاسلام السلام اذ بلیت الامۃ براع مثل یزید‘‘۔ یعنی یزید کی حکومت، اسلام کی نابودی اور اعلان کفر کے مترادف ہے ۔
یہاں ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ خدا نے خود اسلام کی حفاظت کی ضمانت دی ہے تو پھر حضرت امام حسین ؑ نے اتنا بڑا خطرہ کیوں مول لیا؟ تو جواب یہ ہے کہ خدا وند تبارک و تعالی نے انہی اہل بیت اطہار ؑ اور قرآن ہی کے ذریعے تو اسلام کی حفاظت کی ضمانت فراہم کی ہے۔ جیسا کہ جناب پیغمبر اکرم ﷺنے فرمایا: ’’انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی اہل بیتی ان تمسکتم بہما لن تظلو بعدی ابدا‘‘۔ یعنی (میں تمہارے درمیان دو گراں چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں؛ ایک اللہ تبارک و تعالی کی کتاب ہے اور دوسرے میری عترت، میرے اہلبیت ہیں؛ کہ جب تک میرے بعد ان دونوں کا دامن تھامے رہو گے، گمراہ نہ ہو گے۔)
اسی طرح حدیث سفینہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کربلا جیسی قربانیوں ہی کے ذریعے( جن کا تفصیلی ذکرفی الحال ممکن نہیں) خدا دین کی حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت امام حسینؑ کیلئے اعلانِ کفر کے بعد خاموشی اختیار کرنا، ناممکن تھا۔ کیونکہ اسلام کی حفاظت آپ کی اور ہر مسلمان کی ذمہ داری تھی ۔ اسی لیے تو جناب زنیب ؑ نے دربار یزید میں اپنے خطاب میں فرمایا: ’’فواللّٰہ لاتمحو ذکرنا و لاتمیت وحینا‘‘۔ یعنی ائے یزید! تمہارا مقصد ہماری وحی (اسلام)کی نابودی اور محافظ اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے لیکن قسم بخدا یہ بات تمہارے بس میں نہیں ہے ۔
گناہوں میں فرق
یزید کی حکومت سے پہلے اگر کبھی حکمران گناہ کرتے تھے تو اسے یا تو دوسروں کی نگاہوں سے چھپ کر انجام دیتے تھے یا اس گانہ کے انجام دینے کے جواز کے طور پر بعض جعلی احادیث کا سہارا لے کر پہلے اس گناہ کو شرعی طور پر جائزقرار دیتے تھے اور بعد میں اس کا ارتکاب کرتے تھے اور ان میں گناہ کو کھلے عام گناہ کے عنوان سے انجام دینے کی جرأت نہ تھی۔ اسی لیے تو امیر شام، یزید سے کہتا تھا: ’’بیٹا! شراب تو بہت سے لوگ پیتے ہیں لیکن وہ چھپ کر ایسا کرتے ہیں۔ تم بھی ایسا ہی کیا کرو‘‘؛ یعنی شراب چھپ کر پیا کرو۔(معالم المدرستین) لیکن یزید علی الاعلان گناہ کاارتکاب کرتا تھا۔ اور اس کی وجہ بھی ہ ہے کہ اس کی پرورش بھی ایک غیر اسلامی ماحول میں ہوئی تھی۔ جیسا کہ دربارِ ولید میں حضرت امام حسین ؑ نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’یزید رجلٌ فاجرٌ مُعلن بالفسق و مثلی لایبایع مثلہ‘‘۔ (یعنی یزید ایک فاجر انسان ہے جو کھلے بندوں گناہ کرتا ہے اور مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا) اسی طرح جب معاویہ یزید کی خلافت کی راہ ہموار کرنے کیلئے اور اس کی بیعت لینے کیلئے مدینہ آیا تو امام عالی مقام اور عبدالرحمن ابن ابی بکر، دونوں کا جواب ایسا ہی تھا کہ یزید اعلانیہ طور پر گناہ کرتا ہے اور امیر شام نے بھی اس بات سے انکار نہیں کیا اور نہیں کہا کہ نہیں وہ نیک آدمی ہے اور ایسے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ حقیقت سب پر عیاں تھی؛ لہٰذا زیاد ابن ابیہ جیسا شقی انسان بھی معاویہ سے کہتا ہے کہ یزید کیلئے لوگوں سے بیعت کا مطالبہ کرنے سے قبل، اسے کہہ دیں کہ کم از کم ایک دو سال تک تو مہذب طریقے سے زندگی گزار لے۔
بنابراایں، دین اسلام میں گناہ اعلانیہ اور مخفی گناہ میں فرق ہے۔ جہاں ایک انسان کے دسیوں مخفی گناہ معاف کر دیے جائیں گے وہاں شاید اس کا فقط ایک اعلانیہ گناہ بھی معاف نہ کیا جائے گا۔ کیونکہ مخفی گناہ کرتے وقت صرف انسان اپنے اوپر ظلم کرتا ہے، لیکن معاشرے کو اس کے گناہ سے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچاتا اور نہ ہی وہ شخص اپنے عمل کے ذریعے معاشرہ کو گناہ کی دعوت دیتا ہے ۔ لیکن جب ایک انسان اعلانیہ طور پر گناہ انجام دیتاہے تو در اصل وہ اپنے اس عمل کے ذریعے گناہ کی قباحت اور برائی کو ختم کردیتا ہے اور شریعت کی توہین کامرتکب ہوجاتا ہے ۔پس ایک طرف تو اعلانیہ اور مخفی گناہ میں فرق ہے
اور دوسری بات یہ ہے کہ اہم شخصیتوں کے گناہ اور معمولی افراد کے گناہ میں بھی کافی فرق ہے۔ جیسا کہ ایک عرب شاعر کہتا ہے :
اذا کان ربّ البیت بالدّف مولعا
فشیمۃ اھل البیت الرقص
یعنی۔ اگر کسی خاندان کا بزرگ ڈھول بجانے والا ہو تو اس گھر کے با قی افراد بھی رقص کرنے لگیں گے۔جب مسلمانوں کا حاکم، اسلام کے احکام کا عملی مذاق اڑاتا ہو تو عوام کی کیا حالت ہوگی؟ جب ایک ایسا شخص کہ جس کی ذمہ داری الہی حدود کا اجراء ہے، خود شرابی ہو تو شراب کی حد کون جاری کرے گا؟
اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن عالم کے ایک گناہ معاف ہوجانے سے پہلے جاہل کے ستر گناہ معاف ہوچکے ہوں گے ۔ اور برعکس اگر کوئی عالم نیک ہے تو اس کی نیند اور آرام بھی جاہل کی عبادت سے بہتر ہے۔ کیونکہ اہم شخصیات کے نیک یا برے اعمال کا معاشرے پر پڑنے والا اثر انتہائی زیادہ ہوتا ہے ۔ اور اسی لیے حضور اکرم ﷺنے فرمایا: ’’الناس علی دین ملوکہم‘‘۔(یعنی لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم جہنمیوں کی زبانی یہ بات نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ بروزِ قیامت کہیں گے ’’خدایا! ان سرداروں اور بزرگوں نے ہمیں گناہ پر اکسایا پس ان کو دُگنے عذاب میں مبتلا کردے‘‘۔
اب ان حقائق کی روشنی میں غور فرمائیے کہ اگر یزید اقتدار پر قابض رہتا اور لوگ اسے خلیفۃ المسلمین اور جانشینِ رسول کے طور پر قبول کرلیتے تو کیا اسلام پر عمل کرنے والا کوئی باقی رہ جاتا؟ اور یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ وہ دین جس پر عمل نہ ہو پائے وہ زندہ دین نہیں کہلاتا۔ زندہ دین وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی عملی زندگی میں نظر آئے ورنہ ایسا دین جس پر عمل انجام نہ پائے، اور وہ دین فقط نبی اکرم ﷺ کے ذریعے لوگوں تک نہ پہنچ پائے یا صرف لوح محفوظ پر باقی رہے تو ان دونوں میں کیا فرق ہے۔ اسی لیے تو قرآن مجید ہر مقام پر ایمان اور عمل صالح باہم دونوں کو باعث نجات قرار دیتا ہے۔
سورۂ مبارکۂ ’’العصر‘‘، اس حقیقت پر گواہ ہے۔ لہٰذا اب تک کی بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ یزید سے پہلے کے حکمران اگرچہ گناہ توکرتے تھے لیکن مخفی طور پر یا گناہ کا شرعی جواز ڈھونڈ کر؛ لیکن یزید علی الاعلان گناہ کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے کے حکمرانوں کے خلاف اتنے شدید ردّ عمل کی ضرورت نہ تھی جتنی اس کے خلاف ضرورت تھی۔ کیونکہ اس کے ان گناہوں پر خاموشی، اس کی تایید سمجھی جاتی۔ لہٰذا حضرت امام حسین ؑ پر یزید کے خلاف قیام، ضروری ہوگیا تھا۔ البتہ ہمارے موجودہ زمانے میں بھی مسلمانوں کا یہی حال ہے اور اس دور کے مسلمانوں کو بھی کم از کم سوچنا چاہیے کہ کہیں وہ یزیدِ وقت کی بیعت میں تو نہیں ہیں؟
ایک طرف شک و شبہ، دوسری طرف مردہ ضمیری
تاریخ کا ہر طالب علم بخوبی جانتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی وفات سے لے کر حضرت علی ؑ کو خلافت ملنے تک، کسی بھی حکمران نے نہ فقط آل محمد کو تنہا کردینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، بلکہ امیر شام کو بھی مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی سیاست پر عمل پیرا رہے۔ اسی لیے رسولخدا ﷺکی امت ، اہل بیت اطہار علیہم السلام کے مقام سے بے خبر رہی اور حضرت علی ؑ اور معاویہ کی جنگ کو حق و باطل کی بجائے قبیلۂ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان چلی آنی والی دشمنی کی ایک کڑی تصور کرنے لگی۔ اور معاویہ کی سازشوں کے ذریعے حضرت علی ؑ تو نعوذ باللہ، بے نمازی، لیکن امیر شام کاتبِ وحی بن گئے!حضرت علی ؑ قاتلِ عثمان اور ظالم ٹھہرے اور معاویہ خوامخواہ میں خونِ عثمان کا طلبکار اور حق بجانب قرار پایا۔
اب اُس دور میں جنگ، مشکل کا حل نہ تھا؛ کیونکہ جنگ میں زیادہ طاقت رکھنے والا غالب آتا ہے چاہے حق پر ہو یا باطل پر۔ لیکن حضرات آئمہ اطہار علیہم السلام تو محافظِ اسلام ہیں لہذا انہیں اگر حکومت کرنے میں اسلام و مسلمین کو خطرہ نظر آئے تو اسے چھوڑ دینے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ کیونکہ حکومت کرنا تو ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے اور دین و ایمان کا بچانا ہدف ہے ۔ اب اگر ذریعہ اور و سیلہ ہدف کو نقصان پہنچائے تو پھر وہ وسیلہ نہیں بلکہ مانع ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اگر حکومت مقصد میں مانع بن جائے تو حضرت امام علی ۔ کی نظر میں بکری کی چھینک سے بھی بدتر ہے؛ لیکن اگر اس کے ذریعے عدل و انصاف کا قیام ممکن ہو تو یہ ایک بہترین چیز ہے۔ لہٰذا اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ لوگ جو کہ حضرت امام علی ؑ کو بے نمازی اور مستحق لعن و طعن مانتے تھے یا وہ لوگ جو شک و شبہ میں مبتلا تھے ، خود انہیں موقعہ دیا جاتا کہ وہ اپنی نگاہوں سے بنی امیہ کی حقیقت اور ان کی حقیقی تصویرکو حکومت کے آئینہ میں وہ خود دیکھ لیں۔ اور وہ خود فیصلہ کریں کہ حق کہاں ہے اور باطل کہاں۔ یعنی اگر حکومت سے دستبردار ہونے سے اگرچہ حکومت چلی جاتی ہے لیکن لوگوں کا ایمان محفوظ رہ سکتا ہے اور اہل بیت کی معرفت بہتر ہوسکتی ہے اور لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت علی ۔ اور معاویہ کے درمیان جنگ، اقتدار کی جنگ نہیں بلکہ اسلام کی بقاء یا نابودی کی جنگ ہے تو اہل بیت یہ قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔
پس حضرت امام علی ؑ اور حضرت امام حسن ؑ کے زمانے کے مسلمان ایک شک و تردید میں مبتلا تھے۔ جس سے انہیں نکالنے کیلئے وقت ملنا چاہیے تھا کہ اگر معاویہ کے ساتھ جنگ میں امام جیت بھی جاتے تب بھی یہ شک و شبہ باقی رہ جاتا۔ لیکن جیسا کہ خود حضرت امام حسن ؑ نے بھی بتایا اور تاریخی شواھد اور قرائن بھی بتارہے تھے کہ جیت معاویہ کی ہو گی، بلکہ حضرت امام علی ؑ نے اس اموی جیت کی خبر بھی دے دی تھی اور آپؑ نے فرمایاتھا:’’ انّی لاظن اَنّ ھولاء القوم سیدون علیکم۔۔۔ کہ شام والے جیت جائیں گے اور ان کے غلبہ کی وجوہات بھی آپ نے بیان کی جو کہ نہج البلاغہ میں مذکور ہیں۔
اور جب صلح کے بعد امیر شام کوفہ پہنچا تو اس نے واشگاف لفظوں میں یہ اعلان کیاکہ اس جنگ کا مقصد معاشرہ میں احیاء نماز، روزہ، زکات اور حج وغیرہ نہیں تھا بلکہ مقصد حکومت کا حصول تھا جو حاصل ہو گیا۔ یعنی اس نے خود لوگوں کے شکوک کو دور کردیا اور اُس کے بعد کے اعمال نے مزید حقیقت کو آشکار کردیا۔ اب اس صورت میں حضرت امام حسن ؑ کا جنگ لڑنا اور صلح نہ کرنا کیا نتیجہ دے سکتا تھا؟ اگر جنگ ہوتی اور امام کو شکست ہوتی تو معاویہ یزید جیسا بے وقوف نہ تھا۔ جیسا کہ اس نے یزید کو اپنی وصیت میں لکھا ہے کہ اگر حسین ؑ قیام کرے تو تم اسے قتل مت کرنا چونکہ وہ فرزند رسول خدا ﷺ ہیں۔ یہ ایک پختہ سیاستدان کی بات ہے تاکہ کوئی اس پر اعترض بھی نہ کرسکے ورنہ امام حسن مجتبیٰ ؑ کو زہر دلوانے والا کون تھا؟
یہی معاویہ ہی تو تھا۔ لہٰذا اگر جنگ ہوتی تو وہ امام حسن ؑ کو اسیر کرتا او رپھر انہیں عزت و احترام کے ساتھ آزاد کردیتا اور پھر بعدمیں امام کے خاص ساتھیوں کو شہید کر دینے کے بعد خود امام کو بھی چپکے سے شہید کردیتا اور ان پر احسان بھی جتاتا اور خود امت کے درمیان نیک نام بھی ہوجاتا۔ اسے فتح مکہ کے وقت جناب حسنین علیہما السلام کے نانا نے ان کو جو آزاد کیا تھا اور وہ اس شرمندگی میں مبتلا تھا، اس شرمندگی سے بھی نجات مل جاتی اور امام کے ساتھ اس کا کوئی معاہدہ بھی نہ ہوتا جس کا خوف ہر وقت اس کے دل پر چھایا رہتا۔ کیونکہ معاہدہ کی خلاف ورزی کو عرب کے مشرکین بھی برا مانتے تھے ۔ اور یہی معاہدہ ہی تو تھا کہ معاویہ نے حضرت امام حسن ؑ کو شہید کرانے کے بعد ہی یزید کیلئے بیعت کے مطالبے کی جرأت کی۔
پس یہاں پر جنگ جاری رکھنا اور شکست کھانا، امام کی جیت نہ تھا بلکہ یہاں پر صلح کرنا اور وہ بھی مشروط صلح،یہی حضرت امام حسن ؑ کی جیت تھا اور مقصد کی جیت، اسلام کی جیت اور اہل اسلام کی جیت، امام حسن ؑ کی صلح میں مضمر ہو گئی ۔ کیونکہ صلح کا سب سے پہلا بند یہ تھا کہ معاویہ کتاب خدا اور سنت رسول پر عمل کرے گا۔ یہاں حضرت امام حسن ؑ کا مقصد پورا ہوچکا تھا اور اب اگر معاویہ کتابِ خدا اور سنتِ رسولخدا ﷺ پر عمل نہ کرتا تو معاویہ کی باطنی حقیقت اور عہد شکنی اور قرآن و سنت سے انحراف سب لوگوں کے سامنے آجاتا۔ اسی طرح سے صلح کے معاہدے کے بقیہ بندوں نے بھی مسلمانوں کو ہر قسم کے شک و شبہ سے نکال دیا اور انہیں عملاً بتادیا کہ معاویہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ فقط اقتدار کے درپے ہے۔
لیکن امیر شام نے اپنے آپ کو بے نقاب ہوتے دیکھ کر ایک نیا منصوبہ تیار کیا ارو وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو بے غیرت بنادیا جائے اور انہیں اجتماعی اور سیاسی احساس ذمہ داری سے محروم کر دیا جائے۔ انہیں حکومت اور سیاست کے مسائل سے لا تعلق کر دیا جائے۔ اور اس نے اس مقصد کے حصول کیلئے انتہائی ماکرانہ اور ماہرانہ نقشہ تیار کیا۔ اس نقشہ کے مطابق اس نے مخلص مؤمنین اور مسلمین کو قتل کروایا، جیلوں میں ڈالا یا پھر شہر بدر کردیا۔ صغیف العقیدہ لوگوں کو مال و دولت یا حکومت عہدے دے کر خریدا۔ اور عام لوگوں کو جاہل رکھا گیااور انہیں فقط یہی سمجھایا گیا کہ ان کی ذمہ داری حکومت و سیاست کے امور میں دلچسپی لینا نہیں ہے بلکہ انہیں اپنی روٹی اور کپڑے کی فکر کرنا چاہیے۔
معاویہ کے اسی کردار کی وجہ سے اہل کوفہ کی اکثریت، حق شناس اور حسین ؑ شناس ضرور ہو گئی تھی، اور انہیں بہت سارے شکوک و شبہات سے نجات بھی ملی؛ لیکن یہ الگ بات کہ وہ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر کوئی قدم اٹھانے کیلئے تیار نہ تھے۔ اسی لئے فرزدق نے حضرت امام حسین ؑ کے جواب میں عرض کیا: ’’قلوبھم معک، سیوفھم علیک‘‘۔ یعنی( انہیں آپ کی معرفت تو ہے، لیکن عمل میں وہ بنی امیہ کے ساتھ ہیں) اور یہی وجہ تھی کہ جناب حضرت مسلم ؑ کا ساتھ دینے والے مجاہدوں کو پراگندہ کرنے کیلئے آنے والی ان کی ماؤں، بہنوں ، او بیویوں کی بات بھی یہی تھی کہ حکومتی مسائل سے ہمارا کیا واسطہ؟
حکمرانوں کی سیاست ہمیشہ یہی رہی ہے کہ عوام کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ قرآن مجیدمیں فرعون کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ: ’’فاستخفّ قَومَہُ فَاطاعوہ‘‘۔ یعنی (اس نے اپنی قوم کو ذلیل بنایا تب انہوں نے فرعون کی اطاعت کی)۔ اور کیا وجہ ہے کہ آج مسلمان ایسے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرکے، غلامی کی زندگی سے نجات پا کر آزادی کے حصول کیلئے کوشاں نہیں ہیں؟ وجہ یہی ہے کہ حکمرانوں نے ان سے اعتماد بنفس چھین لیا ہے اور انہیں اپنا بندہ اور غلام بنا لیا ہے ؛ جیسا کہ مولا علی علیہ السلام ایسے ہی حکمرانوں کے ان کرتوتوں کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’فاتّخذوا عباد اللّٰہ خَوَلاً‘‘۔ یعنی (ان ظالم حکمرانوں نے خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنا لیا ہے)۔
بنی امیہ اپنی اس منحوس سیاست میں کامیاب ہوچکے تھے۔ انہوں نے مخلصین کو قتل عام کرکے یا پابند سلاسل بناکر یا شہر بدر کرکے، دنیا پرستوں کو مال و دولت و حکومت دیے کر، عوام الناس کو بے وقوف بناکر یا ذلیل، بے ضمیر اور مردہ ضمیر بناکر، اسلامی مملکت کے سیاہ و سفید پر قبضہ کر لیا تھا۔
اب ان حالات میں عالم اسلام کی اس مشکل صورتحال کے حل کیلئے حضرت امام حسین ۔ کے پاس فقط دو ہی راستے تھے:)۔ تبلیغ کے ذریعے مسلمانوں کو بنی امیہ اور حاکموں کے ناپاک عزائم سے باخبر کرتے؛ تاکہ پوری امت اٹھے اور امام حسین ؑ نے بھی یہی قدم اٹھایا۔ بلکہ امام حسین ؑ سے قبل خود حضرت علی ؑ نے اپنے خطبوں میں بنی امیہ کے خطرات سے مسلمانوں کو آگاہ کیا تھا۔ بلکہ حضور ﷺ کی متعدد احادیث میں اس خاندان کے خطرات سے مسلمانوں کو خبردار کر دیا گیا تھا۔ لیکن اموی لابی کی مشینری نے صدرِ اسلام ہی سے پیغام رسالت اور ولایت سے مسلمانوں کو باخبر ہونے نہیں دیا۔ بلکہ جعلی احادیث کے ذریعہ اور سنت پیامبر کے نقل و انتقال پر پابندی لگا کر حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر پیش کیا ۔ اب بدقسمتی سے خود مولا امام حسین ۔ کے زمانے میں معمولی تبلیغ کے ذریعے پیغام حق کو تمام مسلمانوں تک پہنچانا ناممکن ہوچکا تھا۔
اس دعوی ٰ کی دلیل یہ ہے کہ مولا امام حسین ؑ نے دو مرتبہ اپنے خواص کو اپنا پیغام سنایا۔ایک تو صحرای منیٰ میں حج کے دوران جہاں حاجیوں کی کثرت کی وجہ سے حکومت کے کارندے ناکار ہوجاتے ہیں۔ اس موقعہ پر آپ نے ایک خطبہ کے ذریعے حضرت علی ؑ کی شان میں حضور ﷺ کی احادیث سنائیں اور سامعین سے درخواست کی کہ وہ ان فضائل کو دوسروں تک پہنچادیں۔ اور دوسرے خطبہ میں خواص کی آرام طلبی ، مصلحت پسندی،سکوت اور بنی امیہ کے مظالم کو آپ نے بیان فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کے ذریعے امت محمدی کی اصلاح کرنا ناممکن ہوچکا تھا۔ یعنی نہ پیغام پہنچانا ممکن رہا تھا اور جن تک پیغام پہنچ چکا تھا وہ بھی انتہائی مردہ ضمیر ہوچکے تھے۔ چنانچہ حضرت امام حسین ؑ کے ایک سفیر نے پھانسی کے پھندے بھی لوگوں کو پیغام حسینی سنایا لیکن کوئی قابل ذکر اثر دیکھنے میں نہ آیا۔ اور امام حسین ؑ نے جو قاصد بھیجے تھے انہیں یکے بعد دیگرے گرفتار کرکے شہید کر دیا گیا۔ کیونکہ اگرچہ امت کے اندر بالعموم جہالت تھی لیکن شیعیان علی تو حقیقت سے واقف تھے یا عام مسلمان جو کہ محب اہل بیت ؑ اور دشمن بنی امیہ تھے وہ بھی حالات سے باخبر تھے۔ لیکن احساس ذمہ داری کا نہ ہونا، حب دنیا اور مردہ ضمیری نے انہیں چلتی پھرتی لاشیں بنا دیا تھا۔
ان حالات میں ضرورت اس بات کی تھی کہ ان کی رگوں میں خون ڈال دیا جائے اور مردہ ضمیروں کو زندہ و بیدار کر دیا جائے۔ اس کام کیلئے تبلیغ کافی نہ تھی بلکہ کسی زندہ اور بیدار کر دینے والے اقدام کی ضرورت تھی۔ اور وہ اقدام خون کی ہولی ہی ہو سکتا تھا۔ اور فرزند رسول ﷺ نے عزت و احترام کی زندگی کو خیر باد کہا اور نانا کے دیار کو چھوڑ کر، کربلا کے چٹیل میدان میں قدم رکھا اور پیاس کے ذریعے، خون دے کر اور جگر گوشوں کے ٹکڑے اٹھا کر اور بہنوں کی چادریں لٹا کر آپ نے اُن مردوں ضمیر مسلمانوں کو زندہ کر دیا۔ کچھ اس طرح کہ وہ لوگ جو زندہ امام ؑ کی فیوضات سے استفادہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے، وہ امام کے مقدس خون کی اس قربانی سے بیدار ہوکر وارث حسین کی اطاعت کریں اور اسلام کو بنی امیہ جیسے دشمنان اسلام سے بچائیں۔ خون دینا اور مظلومیت اگر صدائے حق کے ساتھ ہو تو ایسا اثر دکھا سکتا ہے اور اس نے ایسا اثر دکھایا بھی۔ لہٰذا انقلاب کربلا خون کا محتاج تھا نہ صلح یا سکوت کا؛ کیونکہ حضرت امام حسین ؑ کے پاس صرف اپنی قیمتی جان تھی ، سیدانیوں کی چادریں تھیں، اور جوانوں اور جانثاروں کی جوانیاں تھیں جنہیں آپ نے راہ دین پر قربان کردیا۔
لہٰذا امام حسن مجتبیٰ ؑ کے دور میں امت کی ایک اہم مشکل شک و شبہ تھا جیسا کہ خوارج اسی شک و شبہ کی پیداوار تھے؛ جبکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے زمانہ کی ایک اہم یاسب سے زیادہ اہم بیماری، امت کی مردہ ضمیری تھی ۔ اُس مشکل کا حل صلح میں نہیں تھا بلکہ اس مشکل کا حل فقط خون دینے میں تھا۔ چنانچہ صلح ایک طرف امام حسن ؑ نے خون حسین ابن علی علیہما السلام کوضائع نہیں ہونے دیا کیونکہ آپؑ کی صلح نے بنی امیہ کے کریہہ چہرہ سے نقاب اٹھالیا تھا، اور دوسری طرف خون حسینی نے صلح امام حسن ؑ کا مقصد پورا کردیا اور سن ۶۱ ہجری میں نہ فقط امت کوبیدار کر دیا بیداری امت کا ایک دائمی سامان فراہم کر دیا ۔
اگرچہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام کے صلح اور جنگ کے امتیاز کی وجہ کے طور پر مذکورہ تین قسم فرق کے علاوہ اور بھی متعدد فرق بیان کئے جاسکتے ہیں لیکن مقالہ میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے یہاں عناوین کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
۴۔ چونکہ امام حسن ؑ کا معاویہ کے ساتھ صلح نامہ کے ذریعے معاہدہ ہوچکا تھا، لہذا امام حسین ۔ نے اس معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے معاویہ سے تو جنگ نہ کی لیکن یزید کے ساتھ نہ صرف ایسا کوئی معاہدہ نہ تھا بلکہ اس کا اقتدار پرآنا خود معاہدہ کی ایک آشکار خلاف ورزی تھا، لہٰذا اس کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے آپ میدان میں نکلے۔
۵۔ سقیفہ سے لے کر حضرت امام علی ؑ کو ظاہری خلافت ملنے تک اقتدار پر آنے والے حکمرانوں نے ہر ممکن طریقے سے معاویہ کو مضبوط بنایا تھا اور خود معاویہ کی سیاست اور مکاری بھی نمایاں تھی اور اسے دین کو دین اور قرآن کو قرآن کے خلاف استعمال کرنے کا گُر خوب سمجھ آتا تھا لیکن یزید کے پاس ایسی ذہانت نہ تھی ۔
۶۔ جس طرح کہ راہبر انقلاب اسلامی ایران بیان فرماتے ہیں امام حسین ؑ کے عصر میں، کربلا میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی تاریخ اسلام میں اس وقت تک کوئی مثال نہ تھی لیکن آئندہ کبھی بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آسکتا تھا۔ لہٰذا نبی اکرم ﷺ سے لے کرحضرت امام حسن ؑ تک ہر معصوم نے اپنے انداز میں ایک خاص اسوہ پیش کیا ۔ لیکن حضرت امام حسین ؑ پر لازم تھا کہ ابد تک کیلئے ایسا اسوہ پیش کریں کہ اگر کبھی دین خطرے میں پڑ جائے اور ایک سچے مسلمان کے پاس دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے خون و مظلومیت کے علاوہ اور کوئی اسلحہ نہ ہو تو پھر بھی وہ طاغوت سے ٹکرا جائے لیکن دین کی حفاظت سے دستبردار نہ ہو۔
۷۔ یزید نے تو حضرت امام حسین ؑ سے بیعت مانگی تھی اور اس بیعت کے اسلام کی بقأ اور دین کی سلامتی کیلئے منفی نتائج برآمد ہونا تھے ۔ لہٰذا حضرت امام حسین ؑ بیعت نہ کر سکتے تھے ۔ اس کے برعکس، ، جب معاویہ نے حضرت امام حسن ؑ کو صلح کی کو شرائط پیش کیں تو صلح کا یہ مطالبہ اور یہ جنگ بندی مشروط تھی۔ اور حضرت امام حسن ؑ نے تو صلح اور جنگ بندی کی یہ شرط رکھی کہ معاویہ کا لقب امیر المومنین نہیں ہوگا حالانکہ لقب اسلامی حکومت کے سربراہ کیلئے ایک خاص لقب اور عنوان کی حیثیت رکھتا تھا۔ پس معاویہ کا مطالبہ جنگ بندی تھا جبکہ یزید کا مطالبہ بیعت۔ لہذا جنگ بندی تو اسلام اور مسلمین کے حق میں کی جا سکتی ہے لیکن بیعت نہیں کی جا سکتی۔کیونکہ جنگ بندی میں حاکم کے اعمال اور کردار کی تأئید نہیں ہوتی جبکہ بیعت میں حاکم کے تمام ناجائز اعمال کی بھی تصدیق و تائید ہوتی ہے۔
۸۔ صلح امام حسن ؑ کے وقت جو مسئلہ در پیش تھا وہ مسئلۂ خلافت تھا۔خلافت کی وہ شکل جو اس وقت موجود تھی اگرچہ ہمارے لیے اور ہمارے پیشواؤں کی نظر میں اشکال و اعتراض سے خالی نہ تھی لیکن پھر بھی یہ سلسلہ بعض اصلاحات کے ہمراہ قابل قبول ہو سکتا ہے ؛ لیکن یزید کی حکومت تو ملوکیت تھی جو کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔
۹۔ امام حسن ؑ کے زمانے میں عالمِ اسلام پر روم کے حملہ کا خطرہ موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ۔ اور معاویہ کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پانے کی خبر سن کر روم کا لشکرواپس چلا گیا؛ لیکن حضرت امام حسین ؑ کے قیام کے وقت عالمِ اسلام کو ایسا کوئی خطرہ لاحق نہ تھا ۔
۱۰۔ جیسا کہ ہم نے مقدمہ میں اشارہ کیا ہے، حضرت امام حسین اور حضرت امام حسن علیہماالسلام کے ساتھیوں اور اصحاب میں بھی بڑا فرق تھا۔ حضرت امام حسین ؑ کے ساتھی ایسے باوفا تھے کہ ان نکی وفاشعاری نے قیامِ عاشور کی عظمت کو دوبالا کردیا اور یہی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا ابد تک زندہ رہے گا۔اس کے برعکس، حضرت امام حسن مجتبیٰ ؑ کے اصحاب کی حالت سب کو معلوم ہے۔ آپ کے اصحاب میں اکثریّت بک جانے والوں کی تھی اور وہ کسی طور بھی جنگ جاری رکھنے کیلئے آمادہ نہ تھے۔ اور اگر آپ ۔ شہید ہوجاتے شاید مظلومیتِ امام حسن مجتبیٰ ؑ کا ذکر کرنے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔ اور یوں آپ کا ہدفِ شہادت ناکام ہو جاتا کیونکہ شہادت کا مقصد تو ابد تک آنی والی نسلوں کا حق اور حقیقت کاپیغام پہنچانا ہوتاہے اور یہ پیغام رسانی اسی صورت میں ممکن ہے جب شہید کو زندہ رکھنے والا کوئی موجود ہو۔
۱۱۔ حضرت امام حسن مجتبیٰ ؑ کے دور میں معاویہ نے جناب عثمان کے خون کے مطالبے کا بہانے بنا کر لوگوں کے جذبات اپنے حق میں موڑ لیے تھے اور اُس نے آیۂ قصاص نعرہ بنا کر بغاوت کی تھی۔ لیکن قیام کربلا میں حضرت امام حسین ؑ نے قرآن و سنت کی آیات کے کی روشنی میں قیام کیا تھا اور یہاں یزید کے پاس بھی لوگوں کو بہکانے کا کوئی ہربہ نہ تھا۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہے کہ باطل حاکم کے خلاف قیام کرنا اور اسلامی حکومت وجود میں لانا ہر مسلمان پر واجب ہے، خصوصاً معصوم امام پر؛ خواہ یزید کے زمانے کی طرح کے انتہائی خطرناک حالات رونما نہ بھی ہوئے ہوں۔یہ بات خود حضرت امام حسین اور حضرت امام حسن علیہما السلام کے فرمودات سے صاف ظاہر ہے ۔ اور اسی طرح قرآن و سنت و سیرت معصومین ؑ سے بھی یہ بات واضح ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت امام حسن مجتبیٰ ؑ نے صلح کیوں کی آپ نے قیام کیوں نہیں کیا؟ تو آپ کے قیام نہ کرنے کی وجہ کچھ ایسی رکاوٹیں اور موانع تھے جن کی وجہ سے قیام کرنا اہل حق کے حق میں نہ تھا۔
چنانچہ نماز پڑھنا، حج پر جانا، روزہ رکھنا ، واجب ہے لیکن کچھ مشکلات اور موانع کی وجہ سے یہ وجوب ساقط بھی ہوجاتا ہے ۔ تو پھر ان اعمال کے سرانجام دینے والے سے نہیں پوچھا جاتا ہے کہ کیوں تم نے نماز پڑھی بلکہ نہ پڑھنے والے سے پوچھا جاتا ہے کہ کیوں تم نے ترک کیا۔ یعنی اسلام کا حکم تو باطل اور ظالم کے خلاف قیام کرناہے، نہ کہ سکوت۔ بنابراایں، امام حسن ؑ کے جنگ نہ کرنے اور صلح کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے، نہ کہ قیام عاشورا کیلئے ۔ لہٰذا صلح امام حسن مجتبیٰ ؑ کو بہانا بنا کر ظالم حکمرانوں کے سامنے خاموش اور لب بستہ لوگوں کو دلیل کی ضرورت ہے نہ کہ حضرت امام حسین ؑ کی سیرت کو اپنا کر ایسے فاسق حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے مجاہدین کو۔ یہی وجہ ہے کہ خود امام حسن مجتبیٰ ؑ واجب الاطاعت امام ہونے کے باوجود بھی صلح کی وجوہات اور دلائل بیان فرماتے تھے۔
اگرچہ ان دو ہستوں کی سیرت سے ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام میں جنگ کے موقعہ پر جنگ ضروری ہے اور صلح کے موقعہ پر صلح لازم ہے؛ لیکن یہ سب کچھ وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے۔ یعنی اسلام شناسی اور زمان شناسی ہر قسم کی جنگ اور صلح کی بنیادی شرط ہے ۔ بنابرایں، نہ امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کے درمیان کوئی مزاجی کا فرق ہے کہ نعوذباللہ کہا جائے کہ ایک امام سخت مزاج تھے اور دوسرے نرم مزاج یا بعض دشمنان اہل بیت کی طرح یہ کہا جائے کہ امام حسن ؑ عثمانی تھے اور امام حسین ؑ علوی عقیدہ رکھنے والے تھے ۔ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ’’الحسن والحسین امامان قاما او قعداً‘‘۔ لہٰذا نہ تو آپ دونوں کے نصب العین میں کوئی فرق تھا اور نہ ہی دونوں کے طریقہ کار میں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسینؑ بھی سن ۵۱ ہجری تک صلح کے حامی تھے جبکہ دوسری طرف قیام کربلا کیلئے خود حضرت امام حسن مجتبیٰ ؑ نے بھی اپنے بیٹوں کو قربانی دینے کی وصیت کی تھی۔ پس اگر ان دو معصوم اماموں میں کوئی فرق موجود تھاتو وہ فرق حالات کا اور دراصل، یزید اور معاویہ کا فرق تھا۔ اگر کوئی فرق پڑ گیا تھا تو امت میں فرق پڑ گیا تھا اور ان دو اماموں کے اصحاب کی وفاشعاری میں فرق پڑ گیا تھا۔
اب آئیے ہم آپ یہ عہد کریں کہ ہم حضرت امام حسین ؑ کے اصحاب کی طرح وفاشعاربن جائیں کہ جن کے ساتھ شہادت پر حضرت امام حسین ؑ بھی فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنے اصحاب کی وفا کی تأئید و تصدیق کرتے ہیں۔ وہ اصحابِ با وفا کہ جن کی زیارت میں آئمہ معصوم ؑ نے بھی ’’یالیتنا کنا معکم‘‘ (ائے کاش! ہم بھی تمہارے ساتھ ہوتے ) کے الفاظ بیان فرمائے۔ اور خدا نہ کرے ہماری مثال حضرت امام حسن ؑ کے ان اصحاب کی سی ہو جو عہد شکن تھے اور امام کا ساتھ دینے کیلئے دل سے آمادہ نہ تھے۔

دعا کمیل


   یہ مشہور و معروف دعاؤں میں سے ہے اور علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ یہ بہترین دعاؤں میں سے ایک ہے اور یہ حضرت خضر(ع) کی دعا ہے۔ امیرالمومنین(ع) نے یہ دعا، کمیل بن زیاد کو تعلیم فرمائی تھی جو حضرت(ع) کے اصحاب خاص میں سے ہیں یہ دعا شب نیمہ شعبان اور ہر شب جمعہ میں پڑھی جاتی ہے ۔جو شر دشمنان سے تحفظ، وسعت و فراوانی رزق اور گناہوں کی مغفرت کا موجب ہے۔ اس دعا کو شیخ و سید ہر دو بزرگوں نے نقل فرمایا ہے۔ میں اسے مصباح المتہجد سے نقل کر رہا ہوں اور وہ دعا شریف یہ ہے:
خدا کے نام سے( شروع کرتا ہوں)جو بڑا مہربا ن نہایت رحم والا ہے
بِسْمِ اللهِ الرَحْمنِ الرَحیمْ
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری رحمت کے ذریعے جوہر شی پر محیط ہے تیری قوت کے ذریعے جس سے تو نے ہر شی کو زیر نگیں کیا اور اس کے سامنے ہر شی جھکی ہوئی اور ہر شی زیر ہے اور تیرے جبروت کے ذریعے جس سے توہر شی پر غالب ہے تیری عزت کے ذریعے جسکے آگے کوئی چیز ٹھہرتی نہیں تیری عظمت کے ذریعے جس نے ہر چیز کو پر کر دیا تیری سلطنت کے ذریعے جو ہر چیز سے بلند ہے تیری ذات کے واسطے سے جوہر چیز کی فنا کے بعد باقی رہے گی اورسوال کرتا ہوں تیرے ناموں کے ذریعے جنہوں نے ہر چیز کے اجزاء کو پر کر رکھا ہے تیرے علم کے ذریعے جس نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے اور تیری ذات کے نور کے ذریعے جس سے ہر چیز روشن ہوئی ہے یانور یاقدوس  اے اولین میں سب سے اول اور اے آخرین میں سب سے آخر اے معبود میرے ان گناہوں کو معاف کر دے جو پردہ فاش کرتے ہیں خدایامیرے وہ گناہ معاف کر دے جن سے عذاب نازل ہوتا ہے خدایا میرے وہ گناہ بخش دے جن سے نعمتیں زائل ہوتی ہیں اے معبودمیرے وہ گناہ معاف فرما جو دعا کو روک لیتے ہیں اے اللہ میرے وہ گناہ بخش دے جن سے بلائیں نازل ہوتی ہے اے خدا میرا ہر وہ گناہ معاف فرما جو میں نے کیا ہےاور ہر لغزش سے درگزر کر جو مجھ سے ہو ئی ہے اے اللہ میں تیرے ذکر کے ذریعے تیرا تقرب چاہتا ہوں اور تیری ذات کو تیرے حضور اپنا سفارشی بناتا ہوں تیرے جود کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اپناقرب عطا فرما اور توفیق دے کہ تیرا شکر ادا کروں اور میری زبان پر اپنا ذکر جاری فرما اے اللہ میں سوال کرتا ہوں جھکے ہوئے گرے ہوئے ڈرے ہوئے کیطرح کہ مجھ سے چشم پوشی فرما مجھ پر رحمت کر اور مجھے اپنی تقدیر پر راضی و قانع اور ہر قسم کے حالات میں نرم خو رہنے والا بنا دے یااللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس شخص کیطرح جو سخت تنگی میں ہو سختیوں میں پڑا ہواپنی حاجت لے کر تیرے پاس آیاہوں اور جو کچھ تیرے پاس ہے اس میں زیادہ رغبت رکھتا ہوں اے اللہ تیری عظیم سلطلنت اور تیرا مقام بلند ہے تیری تدبیر پوشیدہ اور تیرا امر ظاہر ہے تیرا قہر غالب تیری قدرت کارگر ہے اور تیری حکومت سے فرار ممکن نہیں خداوندا میں تیرے سوا کسی کو نہیں پاتا جو میرے گناہ بخشنے والا میری برائیوں کو چھپانے والا اور میرے برے عمل کو نیکی میں بدل دینے والا ہو تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے اور حمد تیرے ہی لیے ہے میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اپنی جہالت کی وجہ سے جرأت کی اور میں نے تیری قدیم یاد آوری اور اپنے لیے تیری بخشش پر بھروسہ کیا ہے اے اللہ : میرے مولا کتنے ہی گناہوں کی تو نے پردہ پوشی کی اور کتنی ہی سخت بلاؤں سے مجھے بچالیا کتنی ہی لغزشیں معاف فرمائیں اور کتنی ہی برائیاں مجھ سے دور کیں تو نے میری کتنی ہی تعریفیں عام کیں جن کا میں ہر گز اہل نہ تھا اے معبود!میری مصیبت عظیم ہے بدحالی کچھ زیادہ ہی بڑھ چکی ہے میرے اعمال بہت کم ہیں گناہوں کی زنجیر نے مجھے جکڑ لیا ہے لمبی آرزوؤں نے مجھے اپنا قیدی بنا رکھا ہے دنیا نے دھوکہ بازی سے اور نفس نے جرائم اور حیلہ سازی سے مجھ کو فریب دیا ہے اے میرے آقا میں تیری عزت کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میری بدعملی و بدکرداری میری دعا کو تجھ سے نہ روکے اور تو مجھے میرے پوشیدہ کاموں سے رسوا نہ کرے جن میں تو میرے راز کو جانتاہے اور مجھے اس پر سزا دینے میں جلدی نہ کر جو میں نے خلوت میں غلط کام کیا برائی کی ہمیشہ کوتاہی کی اس میں میری نادانی، خواہشوں کی کثرت اور غفلت بھی ہے اور اے میرے اللہ تجھے اپنی عزت کا واسطہ میرے لیے ہر حال میں مہربان رہ اور تمام امور میں مجھ پر عنایت فرما میرے معبود میرے رب  تیرے سوا میرا کون ہے جس سے سوال کروں کہ میری تکلیف دور کر دے اور میرے معاملے پر نظر رکھ میرے معبود اور میرے مولا تو نے میرے لیے حکم صادر فرمایالیکن میں نے اس میں خواہش کا کہا مانا اور میں دشمن کی فریب کاری سے بچ نہ سکا اس نے میری خواہشوں میں دھوکہ دیااور وقت نے اسکا ساتھ دیا پس تو نے جو حکم صادر کیا میں نے اس میں تیری بعض حدود کو توڑا اور تیرے بعض احکام کی مخالفت کی پس اس معاملہ میں مجھ پر لازم ہے تیری حمد بجالانا اور میرے پاس کوئی حجت نہیں اس میں جو فیصلہ تو نے میرے لیے کیا ہے اور میرے لیے تیرا حکم اور تیری آزمائش لازم ہے اور اے اللہ میں تیرے حضور آیا ہوں جب کہ میں نے کو تاہی کی اور اپنے نفس پرزیادتی  کی ہے میں عذر خواہ و پشیماں،ہارا ہوا، معافی کا طالب، بخشش کا سوالی ،تائب گناہوں کا اقراری، سرنگوں اور اقبال جرم کرتا ہوں جو کچھ مجھ سے ہوا نہ اس سے فرار کی راہ ہے نہ کوئی جا ئے پناہ کہ اپنے معاملے میں اسکی طرف توجہ کروں سوائے اسکے کہ تو میرا عذر قبول کر اور مجھے اپنی وسیع تر رحمت میں داخل کرلے اے معبودبس میرا عذر قبول فرما میری سخت تکلیف پر رحم کر اور بھاری مشکل سے رہائی دے اے پروردگار میرے کمزور بدن، نازک جلد اور باریک ہڈیوں پر رحم فرما اے وہ ذات جس نے میری خلقت ذکر، پرورش، نیکی اور غذا کا آغاز کیا اپنے پہلے کرم اور گزشتہ نیکی کے تحت مجھے معاف فرما اے میرے معبودمیرے آقا اور میرے رب کیا میں یہ سمجھوں کہ تو مجھے اپنی آگ کا عذاب دے گا جبکہ تیری توحید کا معترف ہوں اسکے ساتھ میرا دل تیری معرفت سے لبریز ہے اور میری زبان تیرے ذکر میں لگی ہوئی ہیمیرا ضمیر تیری محبت سے جڑا ہوا ہے اور اپنے گناہوں کے سچے اعتراف اور تیری ربوبیت کے آگے میری عاجزانہ پکار کے بعد بھی تو مجھے عذاب دے گا۔ ہرگز نہیںتو بلند ہے اس سے کہ جسے پالا ہو اسے ضائع کرے یا جسے قریب کیا ہو اسے دور کرے یا جسے پناہ دی ہو اسے چھوڑ دے یا جسکی سرپرستی کی ہو اور اس پر مہربانی کی ہو اسے مصیبت کے حوالے کر دے اے کاش میں جانتا اے میرے آقا میرے معبود!اور میرے مولا کہ کیا تو ان چہروں کو آگ میں ڈالے گا جو تیری عظمت کے سامنے سجدے میں پڑے ہیں اور ان زبانوں کو جو تیری توحید کے بیان میں سچی ہیں اور شکر کے ساتھ تیری تعریف کرتی ہیں اور ان دلوںکو جو تحقیق کیساتھ تجھے معبود مانتے ہیں اور انکے ضمیروں کو جو تیری معرفت سے پر ہو کر تجھ سے خائف ہیں تو انہیںآ گ میں ڈالے گا؟ اور ان اعضاء کو جو فرمانبرداری سے تیری عبا دت گاہوں کی طرف دوڑتے ہیں اور یقین کے ساتھتیری مغفرت کے طالب ہیں (تو انہیں آگ میں ڈالےتیری ذات سے ایسا گمان نہیں، نہ یہ تیرے فضلکے مناسب ہے اے کریم اے پروردگاردنیا کی مختصر تکلیفوں اور مصیبتوں کے مقابل تو میری ناتوانی کو جانتا ہے اور اہل دنیا پر جو تنگیاں آتی ہیں (میں انہیں برداشت نہیں کرسکتااگرچہ اس تنگی و سختی کا ٹھہراؤ اور بقاء کا وقت تھوڑا اور مدت کوتاہ ہے تو پھر کیونکر میں آخرت کی مشکلوں کو جھیل سکوں گا جو بڑی سخت ہیں اور وہ ایسی تکلیفیں ہیں جنکی مدت طولانی ،اقامت دائمی ہے اور ان میں سے کسی میں کمی نہیں ہو گی اس لیے کہ وہ تیرے غضب تیرے انتقام اور تیری ناراضگی سے آتی ہیں اور یہ وہ سختیاں ہیں جنکے سامنے زمین وآسمان بھی کھڑے نہیں رہ سکتے تو اے آقا مجھ پر کیا گزرے گی جبکہ میں تیرا کمزور پست، بے حیثیت، بے مایہ اور بے بس بندہ ہوں اے میرے آقا اور میرے مولامیں کن کن باتوں کی تجھ سے شکایت کروں اور کس کس کے لیے نالہ و شیون کروں؟ دردناک عذاب اور اس کی سختی کے لیے یا طولانی مصیبت اور اس کی مدت کی زیادتی کیلئے پس اگر تو نے مجھے عذاب و عقاب میں اپنے دشمنوں کے ساتھ رکھااور مجھے اوراپنے عذابیوں کو اکٹھا کر دیا اور میرے اور اپنے دوستوں اور محبوں میں دوری ڈال دی تو اے میرے معبود میرے آقا میرے مولا اور میرے رب تو ہی بتا کہ میں تیرے عذاب پر صبر کر ہی لوں تو تجھ سے دوری پر کیسے صبر کروں گا؟ اور مجھے بتاکہ میں نے تیری آگ کی تپش پر صبر کر ہی لیا تو تیرے کرم سے کسطرح چشم پوشی کرسکوں گا یا کیسے آگ میں پڑا رہوں گا جب کہ میں تیرے عفو و بخشش کا امیدوار ہوں پس قسم ہے تیری عزت کی اے میرے آقا اور مولا سچی قسم کہ اگر تو نے میری گویائی باقی رہنے دی تو میں اہل نار کے درمیان تیرے حضور فریاد کروں گا آرزو مندوں کی طرح اور تیرے سامنے نالہ کروں گا جیسے مددگار کے متلاشی کرتے ہیں تیرے فراق میں یوں گریہ کروں گا جیسے ناامید ہونے والے گریہ کرتے ہیں اور تجھے پکاروں گا کہاں ہے تواے مومنوں کے مددگار اے عارفوں کی امیدوں کے مرکز اے بیچاروں کی داد رسی کرنے والے اے سچے لوگوں کے دوست اور اے عالمین کے معبود کیا میں تجھے دیکھتا ہوں تو پاک ہے اس سے اے میرے اللہ اپنی حمد کے ساتھ کہ تو وہاں سے بندہ مسلم کی آواز سن رہا ہے جو بوجہ نافرمانی دوزخ میں ہے اپنی برائی کے باعث عذاب کا ذائقہ چکھ رہا ہے اور اپنے جرم گناہ پر جہنم کے طبقوں کے بیچوں بیچ بند ہے وہ تیرے سامنے گریہ کر رہا ہے تیری رحمت کے امیدوار کی طرح اور اہل توحید کی زبان میں تجھے پکار رہا ہے اور تیرے حضور تیری ربوبیت کو وسیلہ بنا رہا ہے اے میرے مولاپس کس طرح وہ عذاب میں رہے گا جب کہ وہ تیرے گزشتہ حلم کا امیدوار ہے یا پھر آگ کیونکر اسے تکلیف دے گی جبکہ وہ تیرے فضل اور رحمت کی امید رکھتا ہے یا آگ کے شعلے کیسے اس کو جلائیں گے جبکہ تو اسکی آواز سن رہا ہے اور اس کے مقام کو دیکھ رہا ہے یا کیسے آگ کے شرارے اسے گھیریں گے جبکہ تو اسکی ناتوانی کو جانتا ہے یا کیسے وہ جہنم کے طبقوں میں پریشان رہے گا جبکہ تو اس کی سچائی سے واقف ہے یا کیسے جہنم کے فرشتے اسے جھڑکیں گے جبکہ وہ تجھے پکار رہا ہے اے میرے رب یا کیسے ممکن ہے کہ وہ خلاصی میں تیرے فضل کا امیدوار ہو اور تو اسے جہنم میں رہنے دے ہرگز نہیںتیرے بارے میں یہ گمان نہیں ہو سکتا نہ تیرے فضل کا ایسا تعارف ہے نہ یہ توحید پرستوں پر تیرے احسان و کرم سے مشابہ ہے پس میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر تو نے اپنے دشمنوں کو آگ کا عذاب دینے کا حکم نہ دیا ہوتا اور اپنے مخالفوں کوہمیشہ اس میں رکھنے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو ضرور تو آگ کو ٹھنڈی اور آرام بخش بنا دیتا اور کسی کو بھی آگ میں جگہ اور ٹھکانہ نہ دیا جاتا لیکن تو نے اپنے پاکیزہ ناموں کی قسم کھائی کہ جہنم کو تمام کافروں سے بھر دے گا جنّوں اور انسانوں میں سے اور یہ مخالفین ہمیشہ اس میں رہیں گے اور تو بڑی تعریف والا ہے تو نے فضل و کرم کرتے ہوئے بلا سابقہ یہ فرمایا کہ کیا وہ شخص جو مومن ہے وہ فاسق جیسا ہو سکتا ہے؟یہ دونوں برابر نہیں میرے معبود میرے آقامیں تیری قدرت جسے تو نے توانا کیا اور تیرا فرمان جسے تو نے یقینی و محکم بنایا اور تو غالب ہے اس پر جس پر اسے جاری کرے اسکے واسطے سے سوال کرتا ہوں بخش دے اس شب میں اور اس ساعت میں میرے تمام وہ جرم جو میں نے کیے تمام وہ گناہ جو مجھ سے سرزد ہوئے وہ سب برائیاں جو میں نے چھپائی ہیں جو نادانیاں میں نے جہل کی وجہ سے کیں ہیں علی الاعلان یا پوشیدہ، رکھی ہوں یا ظاہر کیں ہیں اور میری بدیاں جن کے لکھنے کا تو نے معزز کاتبینکو حکم دیا ہے جنہیں تو نے مقرر کیا ہے کہ جو کچھ میں کروں اسے محفوظ کریں اور ان کو میرے اعضاء کے ساتھ مجھ پر گواہ بنایا اور انکے علاوہ خود تو بھی مجھ پر ناظر اور اس بات کا گواہ ہے جو ان سے پوشیدہ ہے حالانکہ تو نے اپنی رحمت سے اسے چھپایا اور اپنے فضل سے اس پر پردہ ڈالاوہ معاف فرما اور میرے لیے وافر حصہ قرار دے ہر اس خیر میں جسے تو نے نازل کیا یا ہر اس احسان میں جو تو نے کیا یا ہر نیکی میں جسے تو نے پھیلایا رزق میں جسے تو نے وسیع کیا یا گناہ میں جسے تو معاف نے کیا یا غلطی میں جسے تو نے چھپایا یارب یا رب یا رب اے میرے معبود میرے آقا اورمیرے مولا اور میری جان کے مالک اے وہ جسکے ہاتھ میں میری لگام ہے اے میری تنگی و بے چارگی سے واقف اے میری ناداری و تنگدستی سے باخبر یارب یارب یارب میں تجھ سے تیرے حق ہونے، تیری پاکیزگی، تیری عظیم صفات اور اسماء کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میرے رات دن کے اوقات اپنے ذکر سے آباد کر اور مسلسل اپنی حضوری میں رکھ اور میرے اعمال کو اپنی جناب میں قبولیت عطا فرما حتی کہ میرے تمام اعمال اور اذکار تیرے حضور ورد قرار پائیں اور میرا یہ حال تیری بارگاہ میں ہمیشہ قائم رہے اے میرے آقا اے وہ جس پر میرا تکیہ ہے اے جس سے میں اپنے حالات کی تنگی بیان کرتا ہوں یارب یارب یارب میرے ظاہری اعضاء کو اپنی حضوری میں قوی اور میرے باطنی ارادوں کو محکم و مضبوط بنا دے اور مجھے توفیق دے کہ تجھ سے ڈرنے کی کوشش کروں اور تیری حضوری میں ہمیشگی پیدا کروں تاکہ تیری بارگاہ میں سابقین کی راہوں پر چل پڑ و ں اور تیری طر ف جا نے والوں سے آگے نکل جا ؤں تیرے قرب کا شوق رکھنے والوںمیں زیادہ شوق والا بن جاؤں تیرے خالص بندوں کی طرح تیرے قریب ہو جاؤں اہل یقین کی مانند تجھ سے ڈروں اور تیرے آستانہ پر مومنوں کے ساتھ حاضر رہوں اے معبود جو میرے لئے برائی کا ارادہ کرے تو اسکے لئے ایسا ہی کر جو میرے ساتھ مکر کر ے تو اسکے ساتھ بھی ایسا ہی کر مجھے اپنے بند و ں میں قر ار دے جو نصیب میں بہتر ہیں جومنزلت میں تیرے قریب ہیں جو تیرے حضور تقرب میں مخصوص ہیں کیونکہ تیرے فضل کے بغیر یہ درجات نہیں مل سکتے بواسطہ اپنے کرم کے مجھ پر کرم کر بذریعہ اپنی بزرگی کے مجھ پر توجہ فرما بوجہ اپنی رحمت کے میری حفاظت کر میری زبان کو اپنے ذکر میں گویا فرما اور میرے دل کو اپنا اسیر محبت بنا دیمیری دعا بخوبی قبول فرما مجھ پر احسان فرما میرا گناہ معاف کر دے اور میری خطا بخش دے کیونکہ تو نے بندوں پر عبادت فرض کی ہے اور انہیں دعا مانگنے کا حکم دیا اور قبولیت کی ضمانت دی پس اے پروردگار میں اپنا رخ تیری طرف کر رہا ہوں اور تیرے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہوں تو اپنی عزت کے طفیل میری د عا قبول فرما میری تمنائیں برلا اور اپنے فضل سے لگی میری امید نہ توڑ میرے دشمن جو جنّوں اور انسانوں سے ہیں ان کے شر سے میری کفایت کر اے جلدرا ضی ہونے والے مجھے بخش دے جو دعا کے سوا کچھ نہیں ر کھتا بے شک تو جو چا ہے کرنے والاہے اے وہ جس کا نام دوا جسکا ذکر شفا اور اطاعت تونگری ہے رحم فرما اس پرجس کا سرمایہ محض امید ہے اور جس کا ہتھیار گریہ ہے اے نعمتیں پوری کرنے والے اے سختیاں دور کرنے والے اے تاریکیوں میں ڈرنے والوں کیلئے نور اے وہ عالم جسے پڑھایا نہیں گیا محمد آل(عمحمد پر رحمت فرما مجھ سے وہ سلوک کر جس کا تو اہل ہے خدا اپنے رسول پر اور بابرکت آئمہ پرسلام بھیجتا ہے بہت زیادہ سلام وتحیات جو انکی آل(عمیں سے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ وَبِقُوَّتِکَ الَّتِی قَھَرْتَ بِہا کُلَّ شَیْءٍ وَخَضَعَ لَہا کُلُّ شَیْءٍ، وَذَلَّ لَہا کُلُّ شَیْءٍ، وَبِجَبَرُوتِکَ الَّتِی غَلَبْتَ بِہا کُلَّ شَیْءٍ وَبِعِزَّتِکَ الَّتِی لاَ یَقُومُ لَہا شَیْءٌ، وَ بِعَظَمَتِکَ الَّتِی مَلَأَتْ کُلَّ شَیْءٍ، وَ بِسُلْطانِکَ الَّذِی عَلاَ کُلَّ شَیْءٍ،وَ بِوَجْھِکَ الْباقِی بَعْدَ فَنَاءِ کُلِّ شَیْءٍ، وَبِأَسْمَائِکَ الَّتِی مَلأَتْ أَرْکَانَ کُلِّ شَیْءٍ، وَبِعِلْمِکَ الَّذِی أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ، وَبِنُورِوَجْھِکَ الَّذِی أَضَاءَ لَہُ کُلُّ شَیْءٍ یَا نُورُ یَا قُدُّوسُ، یَا أَوَّلَ الْاَوَّلِینَ ، وَیَا آخِرَ الْاَخِرِینَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیَ الذُّنُوبَ الَّتِی تَھْتِکُ الْعِصَمَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیَ  الذُّنُوبَ الَّتِی تُنْزِلُ النِّقَمَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیَ الذُّنُوبَ الَّتِی تُغَیِّرُ النِّعَمَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیَ الذُّنُوبَ الَّتِی تَحْبِسُ الدُّعَاءَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیَ الذُّنُوبَ الَّتِی تُنْزِلُ الْبَلاَءَ ۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِی کُلَّ ذَ نْبٍ أَذْ نَبْتُةُ وَکُلَّ خَطِیئَةٍ أَخْطَأْتُہا ۔ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَتَقَرَّبُ إِلَیْکَ بِذِکْرِکَ، وَأَسْتَشْفِعُ بِکَ إِلَی نَفْسِکَوَأَسْأَ لُکَ بِجُودِکَ أَنْ تُدْنِیَنِی مِنْ قُرْبِکَ، وَأَنْ تُوزِعَنِی شُکْرَکَ وَأَنْ تُلْھِمَنِی ذِکْرَکَ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ سُؤَالَ خَاضِعٍ مُتَذَلِّلٍ خَاشِعٍ أَنْ تُسامِحَنِی وَتَرْحَمَنِی وَتَجْعَلَنِی بِقَسْمِکَ رَاضِیاً قانِعاً، وَفِی جَمِیعِ الْاَحْوَالِ مُتَواضِعاً اَللّٰھُمَّ وَأَسْأَ لُکَ سُؤَالَ مَنِ اشْتَدَّتْ فَاقَتُہُ، وَأَ نْزَلَ  بِکَ عِنْدَ الشَّدایِدِ حَاجَتَہُ، وَعَظُمَ فِیَما عِنْدَکَ رَغْبَتُہُ۔ اَللّٰھُمَّ عَظُمَ سُلْطَانُکَ وَعَلاَ مَکَانُکَ وَخَفِیَ مَکْرُکَ، وَظَھَرَ أَمْرُکَ وَغَلَبَ قَھْرُکَ وَجَرَتْ قُدْرَتُکَ وَلاَ یُمْکِنُ الْفِرارُ مِنْ حُکُومَتِکَ اَللّٰھُمَّ لاَ أَجِدُ لِذُنُوبِی غَافِراً، وَلاَ لِقَبائِحِی سَاتِراً، وَلاَ لِشَیْءٍ مِنْ عَمَلِیَ الْقَبِیحِ بِالْحَسَنِ مُبَدِّلاً غَیْرَکَ لاَ إِلہَ إِلاَّ أَ نْتَ سُبْحَانَکَوَبِحَمْدِکَ، ظَلَمْتُ نَفْسِی، وَتَجَرَّأْتُ بِجَھْلِی، وَسَکَنْتُ إِلَی قَدِیمِ ذِکْرِکَ لِی وَمَنِّکَ عَلَیَّ ۔ اَللّٰھُمَّ مَوْلاَیَ کَمْ مِنْ قَبِیحٍ سَتَرْتَہُ،وَکَمْ مِنْ فَادِحٍ مِنَ الْبَلاَءِ أَقَلْتَہُ، وَکَمْ مِنْ عِثَارٍ وَقَیْتَہُ، وَکَمْ مِنْ مَکْرُوہٍ دَفَعْتَہُ، وَکَمْ مِنْ ثَنَاءٍ جَمِیلٍ لَسْتُ أَھْلاً لَہُ نَشَرْتَہُ اَللّٰھُمَّ عَظُمَ بَلاَئِی وَأَ فْرَطَ بِی سُوءُ حالِی وَقَصُرَتْ بِی أَعْمالِی،وَقَعَدَتْ بِی أَغْلالِی ، وَحَبَسَنِی عَنْ نَفْعِی بُعْدُ آمالِی، وَخَدَعَتْنِی الدُّنْیا بِغُرُورِہا، وَنَفْسِی بِجِنایَتِہا، وَمِطالِی یَا سَیِّدِی فَأَسْأَ لُکَ بِعِزَّتِکَ أَنْ لاَ یَحْجُبَ عَنْکَ دُعائِی سُوءُ عَمَلِی وَفِعالِی وَلاَ تَفْضَحْنِی بِخَفِیِّ مَا اطَّلَعْتَ عَلَیْہِ مِنْ سِرِّی وَلاَ تُعاجِلْنِی بِالْعُقُوبَةِ عَلی مَا عَمِلْتُہُ  فِی خَلَواتِی مِنْ سُوءِ فِعْلِی وَ إِسائَتِی وَدَوامِ تَفْرِیطِی وَجَہالَتِی، وَکَثْرَ ةِ شَھَواتِی وَغَفْلَتِی، وَکُنِ اَللّٰھُمَّ بِعِزَّتِکَ لِی فِی کُلِّ الْاَحْوالِ رَؤُوفاً، وَعَلَیَّ فِی جَمِیعِ الاَمُورِ عَطُوفاً إِلھِی وَرَبِّی  مَنْ لِی غَیْرُکَ أَسْأَلُہُ کَشْفَ ضُرِّی، وَالنَّظَرَ فِی أَمْرِی ۔ إِلھِی وَمَوْلایَ أَجْرَیْتَ عَلَیَّ حُکْماً اتَّبَعْتُ فِیہِ ھَویٰ نَفْسِی، وَلَمْ أَحْتَرِسْ فِیہِ مِنْ تَزْیِینِ عَدُوِّی، فَغَرَّنِی بِمَا أَھْوی وَأَسْعَدَھُ عَلَی ذلِکَ الْقَضاءُ، فَتَجاوَزْتُ بِما جَری عَلَیَّ مِنْ ذلِکَ بَعْضَ حُدُودِکَ،وَخالَفْتُ بَعْضَ أَوامِرِکَ،فَلَکَ الحُجَّةُ عَلَیَّ فِی جَمِیعِ ذلِکَ وَلاَ حُجَّةَ لِی فِیما جَریٰ عَلَیَّ فِیہِ قَضَاؤُکَ،وَأَ لْزَمَنِی حُکْمُکَ وَبَلاؤُکَ، وَقَدْ أَتَیْتُکَ یَا إِلھِی بَعْدَ تَقْصِیرِی وَ إِسْرافِی عَلی نَفْسِی،مُعْتَذِراً نادِماً مُنْکَسِراً مُسْتَقِیلاً مُسْتَغْفِراً مُنِیباً مُقِرّاً مُذْعِناً مُعْتَرِفاً، لاَ أَجِدُ مَفَرّاً مِمَّا کَانَ مِنِّی وَلاَ مَفْزَعاً أَتَوَجَّہُ إِلَیْہِ فِی أَمْرِی غَیْرَ قَبُو لِکَ عُذْرِی وَ إِدْخالِکَ إِیَّایَ فِی سَعَةٍ مِنْ رَحْمَتِکَ اَللّٰھُمَّ فَاقْبَلْ عُذْرِی وَارْحَمْ شِدَّةَ ضُرِّی وَفُکَّنِی مِنْ شَدِّ وَثاقِی یَا رَبِّ ارْحَمْ ضَعْفَ بَدَنِی وَرِقَّةَ جِلْدِی وَدِقَّةَ عَظْمِی، یَا مَنْ بَدَأَ خَلْقِی وَذِکْرِی وَتَرْبِیَتِی وَبِرِّی وَتَغْذِیَتِی، ھَبْنِی لاِبْتِداءِ کَرَمِکَ وَسالِفِ بِرِّکَ بِی یَا إِلھِی وَسَیِّدِی وَرَبِّی أَتُراکَ مُعَذِّبِی بِنَارِکَ بَعْدَ تَوْحِیدِکَ، وَبَعْدَ مَا انْطَوی عَلَیْہِ قَلْبِی مِنْ مَعْرِفَتِکَ، وَلَھِجَ بِہِ لِسَانِی مِنْ ذِکْرِکَ وَاعْتَقَدَھُ ضَمِیرِی مِنْ حُبِّکَ  وَبَعْدَ صِدْقِ اعْتِرافِی وَدُعَائِی خَاضِعاً لِرُبُوبِیَّتِکَ ھَیْھاتَ أَنْتَ أَکْرَمُ مِنْ أَنْ تُضَیِّعَ مَنْ رَبَّیْتَہُ أَوْ تُبَعِّدَ مَنْ أَدْنَیْتَہُ أَوْ تُشَرِّدَ مَنْ آوَیْتَہُ أَوْ تُسَلِّمَ إِلَی الْبَلاَءِ مَنْ کَفَیْتَہُ وَرَحِمْتَہُ، وَلَیْتَ شِعْرِی یَا سَیِّدِی وَ إِلھِی وَمَوْلایَ، أَ تُسَلِّطُ النَّارَ عَلَی وُ جُوہٍ خَرَّتْ لِعَظَمَتِکَ سَاجِدَةً، وَعَلَی أَلْسُنٍ نَطَقَتْ بِتَوْحِیدِکَ صَادِقَةً، وَبِشُکْرِکَ مَادِحَةً، وَعَلَی قُلُوبٍ اعْتَرَفَتْ بِإِلھِیَّتِکَ مُحَقِّقَةً،وَعَلَی ضَمَائِرَ حَوَتْ مِنَ الْعِلْمِ بِکَ حَتَّی صَارَتْ خَاشِعَةً، وَعَلَی جَوارِحَ سَعَتْ إِلَی أَوْطانِ تَعَبُّدِکَ طَائِعَةً، وَ أَشارَتْ بِاسْتِغْفارِکَ مُذْعِنَةً، مَا ھَکَذَا الظَّنُّ بِکَ، وَلاَ أُخْبِرْنا بِفَضْلِکَ عَنْکَ یَا کَرِیمُ یَا رَبِّ وَأَ نْتَ تَعْلَمُ ضَعْفِی عَنْ قَلِیلٍ مِنْ بَلاءِ الدُّنْیا وَعُقُوباتِہا، وَمَا یَجْرِی فِیہا مِنَ الْمَکَارِھِ عَلَی أَھْلِہا، عَلی أَنَّ ذلِکَ بَلاءٌ وَمَکْرُوہٌ قَلِیلٌ مَکْثُہُ، یَسِیرٌ بَقاؤُھُ، قَصِیرٌ مُدَّتُہُ،فَکَیْفَ احْتِمالِی لِبَلاءِ الاَخِرَةِ وَجَلِیلِ وُقُوعِ الْمَکَارِھِ فِیہا وَھُوَ بَلاءٌ تَطُولُ مُدَّتُہُ وَیَدُومُ مَقامُہُ، وَلاَ یُخَفَّفُ عَنْ أَھْلِہِ، لِاَنَّہُ لاَ یَکُونُ إِلاَّ عَنْ غَضَبِکَ وَانْتِقامِکَ وَسَخَطِکَ، وَہذا ما لاَ  تَقُومُ لَہُ السَّماواتُ وَالْاَرْضُ، یَا سَیِّدِی فَکَیْفَ بِی وَأَ نَا عَبْدُکَ الضَّعِیفُ الذَّلِیلُ، الْحَقِیرُ الْمِسْکِینُ الْمُسْتَکِینُ یَا إِلھِی وَرَبِّی وَسَیِّدِی وَمَوْلایَ، لاَِیِّ الاَْمُورِ إِلَیْکَ أَشْکُو، وَ لِمَا مِنْہا أَضِجُّ وَأَبْکِی، لِاِلِیمِ الْعَذابِ وَشِدَّتِہِ، أَمْ لِطُولِ الْبَلاَءِ وَمُدَّتِہِ۔ فَلَئِنْ صَیَّرْتَنِی لِلْعُقُوبَاتِ مَعَ أَعْدائِکَ، وَجَمَعْتَ بَیْنِی وَبَیْنَ أَھْلِ بَلاَئِکَ، وَفَرَّقْتَ بَیْنِی وَبَیْنَ أَحِبَّائِکَ وَأَوْ لِیائِکَ،فَھَبْنِی یَا إِلھِی وَسَیِّدِی وَمَوْلایَ وَرَبِّی، صَبَرْتُ عَلَی عَذابِکَ، فَکَیْفَ أَصْبِرُ عَلَی فِراقِکَ،وَھَبْنِی صَبَرْتُ عَلی حَرِّ نَارِکَ، فَکَیْفَ أَصْبِرُ عَنِ النَّظَرِ إِلَی کَرامَتِکَ أَمْ کَیْفَ أَسْکُنُ فِی النَّارِ وَرَجائِی عَفْوُکَ فَبِعِزَّتِکَ یَا سَیِّدِی وَمَوْلایَ أُقْسِمُ صَادِقاً لَئِنْ تَرَکْتَنِی نَاطِقاً لَاَضِجَّنَّ إِلَیْکَ بَیْنَ أَھْلِہا ضَجِیجَ الْاَمِلِینَ وَلَاَصْرُخَنَّ إِلَیْکَ صُراخَ الْمُسْتَصْرِخِینَ وَلَااَبْکِیَنَّ عَلَیْکَ بُکَاءَ الْفَاقِدِینَ، وَلاَنادِیَنَّکَ أَیْنَ کُنْتَ یَا وَ لِیَّ الْمُؤْمِنِینَ یَا غَایَةَ آمالِ الْعارِفِینَ یَا غِیاثَ الْمُسْتَغِیثِینَ یَا حَبِیبَ قُلُوبِ الصَّادِقِینَ وَیَا إِلہَ الْعالَمِینَ أَفَتُراکَ سُبْحَانَکَ یَا إِلھِی وَبِحَمْدِکَ تَسْمَعُ فِیہا صَوْتَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ سُجِنَ فِیہا بِمُخالَفَتِہِ، وَذاقَ طَعْمَ عَذابِہا بِمَعْصِیَتِہِ، وَحُبِسَ بَیْنَ أَطْباقِہا بِجُرْمِہِ وَجَرِیرَتِہِ، وَھُوَ یَضِجُّ إِلَیْکَ ضَجِیجَ مُؤَمِّلٍ لِرَحْمَتِکَ وَیُنادِیکَ بِلِسانِ أَھْلِ تَوْحِیدِکَ، وَیَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِرُبُوبِیَّتِکَ یَا مَوْلایَ فَکَیْفَ یَبْقی فِی الْعَذابِ وَھُوَ یَرْجُو مَا سَلَفَ مِنْ حِلْمِکَ أَمْ کَیْفَ تُؤْ لِمُہُ النَّارُ وَھُوَ یَأْمُلُ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ أَمْ کَیْفَ یُحْرِقُہُ لَھِیبُہا وَأَ نْتَ تَسْمَعُ صَوْتَہُ وَتَری مَکانَہُ أَمْ کَیْفَ یَشْتَمِلُ عَلَیْہِ زَفِیرُہا وَأَ نْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَہُ أَمْ کَیْفَ یَتَقَلْقَلُ بَیْنَ أَطْباقِہا وَأَ نْتَ تَعْلَمُ صِدْقَہُ أَمْ کَیْفَ تَزْجُرُھُ زَبانِیَتُہا وَھُوَ یُنادِیکَ یَا رَبَّہُ أَمْ کَیْفَ یَرْجُو فَضْلَکَ فِی عِتْقِہِ مِنْہا فَتَتْرُکُہُ فِیہا، ھَیْہاتَ ما ذلِکَ الظَّنُ بِکَ، وَلاَ الْمَعْرُوفُ مِنْ فَضْلِکَ، وَلاَ مُشْبِہٌ لِمَا عَامَلْتَ بِہِ الْمُوَحِّدِینَ مِنْ بِرِّکَ وَ إِحْسانِکَ، فَبِالْیَقِینِ أَقْطَعُ،لَوْلاَ مَا حَکَمْتَ بِہِ مِنْ تَعْذِیبِ جَاحِدِیکَ، وَقَضَیْتَ بِہِ مِنْ إِخْلادِ مُعانِدِیکَ، لَجَعَلْتَ النَّارَ کُلَّہا بَرْداً وَسَلاماً، وَمَا کانَ لاََِحَدٍ فِیہا مَقَرّاً وَلاَ مُقاماً، لَکِنَّکَ تَقَدَّسَتْ أَسْماوٴُکَ أَقْسَمْتَ أَنْ تَمْلَاَہا مِنَ الْکَافِرِینَ، مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، وَأَنْ تُخَلِّدَ فِیھَا الْمُعانِدِینَ، وَأَنْتَ جَلَّ ثَناؤُکَ قُلْتَ مُبْتَدِیاً، وَتَطَوَّلْتَ بِالْاِنْعامِ مُتَکَرِّماً، أَفَمَنْ کَانَ مُوَْمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لاَ یَسْتَوُونَ إِلھِی وَسَیِّدِی، فَأَسْأَ لُکَ بِالْقُدْرَةِ الَّتِی قَدَّرْتَہا وَبِالْقَضِیَّةِ الَّتِی حَتَمْتَہا وَحَکَمْتَہا، وَغَلَبْتَ مَنْ عَلَیْہِ أَجْرَیْتَہا، أَنْ تَھَبَ لِی فِی ھَذِھِ اللَّیْلَةِ وَفِی ھَذِھِ السَّاعَةِ کُلَّ جُرْمٍ أَجْرَمْتُہُ، وَکُلَّ ذَنْبٍ أَذْ نَبْتُہُ، وَکُلَّ قَبِیحٍ أَسْرَرْتُہُ، وَکُلَّ جَھْلٍ عَمِلْتُہُ کَتَمْتُہُ أَوْ أَعْلَنْتُہُ أَخْفَیْتُہُ أَوْ أَظْھَرْتُہُ وَکُلَّ سَیِّئَةٍ أَمَرْتَ بِإِثْباتِھَا الْکِرامَ الْکاتِبِینَ الَّذِینَ وَکَّلْتَھُمْ بِحِفْظِ مَا یَکُونُ مِنِّی وَجَعَلْتَھُمْ شُھُوداً عَلَیَّ مَعَ جَوارِحِی وَکُنْتَ أَ نْتَ الرَّقِیبَ عَلَیَّ مِنْ وَرائِھِمْ وَالشَّاھِدَ لِما خَفِیَ عَنْھُمْ وَبِرَحْمَتِکَ أَخْفَیْتَہُ وَبِفَضْلِکَ سَتَرْتَہُ، وَأَنْ تُوَفِّرَ حَظِّی، مِنْ کُلِّ خَیْرٍ تُنْزِلُہُ، أَوْ إِحْسانٍ تُفْضِلُہُ، أَوْ بِرٍّ  تَنْشِرُھُ، أَوْ رِزْقٍ تَبْسِطُہُ، أَوْ ذَ نْبٍ تَغْفِرُھُ، أَوْ خَطَاًَ تَسْتُرُھُ، یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا إِلھِی وَسَیِّدِی وَمَوْلایَ وَمالِکَ رِقِّی یَا مَنْ بِیَدِھِ نَاصِیَتِی، یَا عَلِیماً بِضُرِّی وَمَسْکَنَتِی یَا خَبِیراً بِفَقْرِی وَفاقَتِی  یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا رَبِّ أَسْأَ لُکَ بِحَقِّکَ وَقُدْسِکَ وَأَعْظَمِ صِفاتِکَ وَأَسْمائِکَ، أَنْ تَجْعَلَ أَوْقاتِی فِی اللَّیْلِ وَالنَّہارِ بِذِکْرِکَ مَعْمُورَةً، وَبِخِدْمَتِکَ مَوْصُولَةً وَأَعْمالِی عِنْدَکَ مَقْبُولَةً،حَتَّی تَکُونَ أَعْمالِی وَأَوْرادِی کُلُّہا وِرْداً وَاحِداً، وَحالِی فِی خِدْمَتِکَ سَرْمَداً۔ یَا سَیِّدِی یَا مَنْ عَلَیْہِ مُعَوَّلِی، یَا مَنْ إِلَیْہِ شَکَوْتُ أَحْوالِی یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا رَبِّ قَوِّ عَلی خِدْمَتِکَ جَوارِحِی وَ اشْدُدْ عَلَی الْعَزِیمَةِ جَوانِحِی، وَھَبْ لِیَ الْجِدَّ فِی خَشْیَتِکَ، وَالدَّوامَ فِی الاتِّصالِ بِخِدْمَتِکَ، حَتّی أَسْرَحَ إِلَیْکَ فِی مَیادِینِ السَّابِقِینَ، وَأُسْرِعَ إِلَیْکَ فِی المُبَادِرِینَ وَأَشْتاقَ إِلی قُرْبِکَ فِی الْمُشْتاقِینَ وَأَدْنُوَ مِنْکَ دُنُوَّ الْمُخْلِصِینَ، وَأَخافَکَ مَخافَةَ الْمُوقِنِینَ وَأَجْتَمِعَ فِی جِوارِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ اَللّٰھُمَّ وَمَنْ أَرادَنِی بِسُوءٍ فَأَرِدْھُ، وَمَنْ کادَنِی فَکِدْھُ وَاجْعَلْنِی مِنْ أَحْسَنِ عَبِیدِکَ نَصِیباً عِنْدَکَ وَأَقْرَبِھِمْ مَنْزِلَةً مِنْکَ، وَأَخَصِّھِمْ زُلْفَةً لَدَیْکَ، فَإِنَّہُ لاَ یُنالُ ذلِکَ إِلاَّ بِفَضْلِکَ،وَجُدْ لِی بِجُودِکَ، وَاعْطِفْ عَلَیَّ بِمَجْدِکَ، وَاحْفَظْنِی بِرَحْمَتِکَ، وَاجْعَلْ لِسانِی بِذِکْرِکَ لَھِجاً، وَقَلْبِی بِحُبِّکَ مُتَیَّماً وَمُنَّ عَلَیَّ بِحُسْنِ إِجابَتِکَ وَأَقِلْنِی عَثْرَتِی وَاغْفِرْ زَلَّتِی فَإِنَّکَ قَضَیْتَ عَلی عِبادِکَ بِعِبادَتِکَ، وَأَمَرْتَھُمْ بِدُعائِکَ، وَضَمِنْتَ لَھُمُ الْاِجابَةَ، فَإِلَیْکَ یارَبّ نَصَبْتُ وَجْھِی، وَ إِلَیْکَ یَا رَبِّ مَدَدْتُ یَدِی، فَبِعِزَّتِکَ اسْتَجِبْ لِی دُعائِی، وَبَلِّغْنِی مُنایَ، وَلاَ تَقْطَعْ مِنْ فَضْلِکَ رَجائِی،وَاکْفِنِی شَرَّ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ مِنْ أَعْدائِی،یَا سَرِیعَ الرِّضا،اغْفِرْ لِمَنْ لاَ یَمْلِکُ إِلاَّ الدُّعاءَ، فَإِنَّکَ فَعَّالٌ لِما تَشَاءُ، یَا مَنِ اسْمُہُ دَوَاءٌ، وَذِکْرُھُ شِفاءٌ وَطَاعَتُہُ غِنیً اِرْحَمْ مَنْ رَأْسُ مالِہِ الرَّجاءُ وَسِلاحُہُ الْبُکَاءُ یَا سَابِغَ النِّعَمِ، یَا دَافِعَ النِّقَمِ، یَا نُورَ  الْمُسْتَوْحِشِینَ فِی الظُّلَمِ، یَا عَالِماً لاَ یُعَلَّمُ، صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَافْعَلْ بِی مَا أَ نْتَ أَھْلُہُ، وَصَلَّی اللهُ عَلی رَسُو لِہِ وَالْاَئِمَّةِ الْمَیامِینَ مِنْ آلِہِ وَسَلَّمَ تَسْلِیماً کَثِیراً 

دعائے نور صغیر - بخار سے شفا پانے کی دعا

 سیدابن طاؤس نے مہج الدعوات میں سلمان سے ایک روایت کی ہے کہ جس کے آخر میں ایک خبر مذکور ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدہ زہرا(ع)نے مجھے ایک ورد بتایا جو انہوں نے رسول الله سے حفظ کیا ہوا تھا ، جسے آپ صبح و شام پڑھا کرتی تھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اس دنیا میں تمہیں کبھی بخار نہ چڑھے تو اس کلام کو ہمیشہ پڑھاکرو اور وہ کلام یہ ہے :
خدا کے نام سے( شروع کرتا ہوں)جو بڑا مہربا ن نہایت رحم والا ہے
بِسْمِ اللهِ الرَحْمنِ الرَحیمْ
خدا کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے خداوند نور کے نام کے واسطے سے اس خدا کے نام کے واسطے سے جو نور کا نور ہے اس
 خدا کے نام کے واسطے سے جو نور پر نور ہے اس خدا کے نام کے واسطے سے جو کاموں کو سنوارنے والا ہے اس خدا کے نام کے واسطے سے جس نے نور کو نور
سے پیدا کیاحمد اسی خدا کیلئے ہے جس نے نور کو نور سے پیدا کیا اور نور کو کوہ طور پر نازل کیا ایک لکھی ہوئی کتاب میں ایک پھیلے ہوئے ورق میں اندازے
 کے مطابق ایک دانشمند پیغمبر پر حمد اسی خدا کے لیے ہے جو عزت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے فخر کے ساتھ مشہور ہے اور جس کا تنگی و فراخی میں شکرکیا جاتا ہے
 ہمارے آقا محمد پر اور ان کی آل(عپرخدا کی رحمت ہو۔
 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ بِسْمِ اللهِ النُّورِ، بِسْمِ اللهِ نُورِ النُّورِ، بِسْمِ اللهِ نُورٌ عَلی نُورٍ، بِسْمِ
اللهِ الَّذِی ھُوَ مُدَبِّرُ الْاَمُورِ بِسْمِ اللهِ الَّذِی خَلَقَ النُّورَ مِنَ النُّورِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی خَلَقَ النُّورَ
مِنَ النُّورِ وَأَنْزَلَ النُّورَ عَلَی الطُّورِ فِی کِتابٍ مَسْطُورٍ فِی رَقٍّ مَنْشُورٍ بِقَدَرٍ مَقْدُورٍ عَلی نَبِیٍّ
مَحْبُورٍ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی ھُوَ بِالْعِزِّ مَذْکُورٌ وَبِالْفَخْرِ مَشْھُورٌ وَعَلَی السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ مَشْکُورٌ۔
صَلَّی اللهُ عَلی سَیِّدِنا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الطَّاھِرِینَ۔
سلمان کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ ورد سیدہ زہرا (سلام اللہ علیھا) سے حاصل کیا تو قسم بخدا کہ میں نے یہ مکہ ومدینہ میں ایسے ایک ہزار افراد کو بتایا کہ جو بخار میں مبتلا تھے جن کو اس کے پڑھنے سے بحکم خدا شفا حاصل ہوئی۔

حدیث شریف کساء

   
حدیث شریف کساء     



جابر بن عبدالله انصاری بی بی فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا)بنت رسول الله ﷺ سے روایت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ میں جناب فاطمة ا لزہراء (سلام اللہ علیھا) سے سنا ہے کہ وہ فرما رہی تھیں کہ ایک دن میرے بابا جان جناب رسول خدا میرے گھر تشریف لائے اور فرمانے لگے:” سلام ہو تم پر اے فاطمہ(ع)“ میں نے جواب دیا:”آپ پر بھی سلام ہو“۔ پھر آپ نے فرمایا:” میں اپنے جسم میں کمزوری محسوس کررہا ہوں“ میں نے عرض کی:” باباجان خدا نہ کرے جو آپ میں کمزوری آئے“ آپ نے فرمایا:”اے فاطمہ(ع)! مجھے ایک یمنی چادر لاکر اوڑھا دو“ تب میں یمنی چادر لے آئی اور میں نے وہ بابا جان کو اوڑھادی اور میں دیکھ رہی تھی کہ آپکاچہرہ مبارک چمک رہا ہے جس طرح چودھویں رات کو چاند پوری طرح چمک رہا ہو ، پھر ایک ساعت ہی گزری تھی کہ میرے بیٹے حسن(ع) وہاں آگئے اور وہ بولے سلام ہو آپ پر اے والدہ محترمہ(ع)! میں نے کہا اور تم پر سلام ہو اے میری آنکھ کے تارے اور میرے دل کے ٹکڑے۔ وہ کہنے لگے امی جان(ع) ! میں آپکے ہاں پاکیزہ خوشبو محسوس کر رہا ہوں جیسے وہ میرے نانا جان رسول خدا کی خوشبو ہو۔ میں نے کہا ہاں وہ تمہارے نانا جان چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ اس پر حسن(ع) چادر کی طرف بڑھے اور کہا سلا م ہو آپ پر اے نانا جان، اے خدا کے رسول! کیا مجھے اجازت ہے کہ آپ کے پاس چادر میں آجاؤں؟ آپ نے فرمایا تم پر بھی سلام ہو  اے میرے بیٹے اور اے میرے حوض کے مالک میں تمہیں اجازت دیتا ہوں پس حسن(ع) آپکے ساتھ چادر میں پہنچ گئے پھر ایک ساعت ہی گزری ہوگی  کہ میرے بیٹے حسین(ع) بھی وہاں آگئے اورکہنے لگے: سلام ہو آپ پر اے والدہ محترمہ(ع)۔ تب میں نے کہا اور تم پربھی سلام ہو اے میرے بیٹے، میرے  آنکھ کے تارے اور میرے لخت جگر۔ اس پردہ مجھ سے کہنے لگے:امی جان(ع)! میں آپ کے ہاں پاکیزہ خوشبو محسوس کررہا ہوں جیسے میرے نانا جان رسول خدا کی خوشبو ہو۔ میں نے کہا: ہاں تمہارے نانا جان اور بھائی جان اس چادرمیں ہیں۔ پس حسین(ع) چادر کے نزدیک آئے اور بولے: سلام ہو آپ پر اے نانا جان! سلام ہو آپ پر اے وہ نبی جسے خدانے منتخب کیا ہے۔ کیا مجھے اجازت ہے کہ آپ دونوں کیساتھ چادر میں داخل ہوجاؤں؟ آپ نے فرمایا اور تم پر بھی سلام ہو اے میرے بیٹے اوراے میری امت کی شفاعت کرنے والے ہیں۔ تمہیں اجازت دیتا ہوں ۔ تب حسین(ع) ان دونوں کے پاس چادر میں چلے گئے اس کے بعد ابوالحسن(ع) علی بن ابیطالب(ع) بھی وہاں آگئے اور بولے سلام ہو آپ پر اے رسول خدا کی دختر! میں نے کہا آپ پر بھی سلام ہو اے اورابولحسن (ع)، اے مومنوں کے امیر وہ کہنے لگے اے فاطمہ(ع)! میں آپ کے ہاں پاکیزہ خوشبو محسوس کر رہا ہوں جیسے میرے برادر اور میرے چچا زاد ،رسول خدا کی خوشبو ہو میں نے جواب دیا ہاں وہ آپ کے دونوں بیٹوں سمیت چادر کے اندر ہیں پھر علی چادر(ع) کے قریب  ہوئے اور کہا سلام ہوآپ پر اے خدا کے رسول۔ کیا مجھے اجازت ہے کہ میں بھی آپ تینوں کے پاس چادر میں آجاؤں؟ آپ نے ان سے کہا اور تم پر بھی سلام ہو، اے میرے بھائی، میرے ،قائم مقام ،میرے جانشین اور میرے علم بردار میں تمہیں اجازت دیتا ہوں ۔پس علی(ع) بھی چادر میں پہنچ گئے ۔ پھر میں چادر کے نزدیک آئی اور میں نے کہا: سلام ہو آپ پر اے بابا جان، اے خدا کے رسول کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ کے پاس چادر میں آجاؤں؟ آپ نے فرمایا: اور تم پر بھی سلام ہو میری بیٹی اور میری پارہ اے جگر، میں نے تمہیں اجازت دی تب  میں بھی چادر میں داخل ہوگئی۔ جب ہم سب چادر میں اکٹھے ہوگئے تو میرے والد گرامی رسول الله نے چادر کے دونوں کنارے پکڑے  اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: اے خدا! یقیناً یہ ہیں میرے اہل بیت(ع) ، میرے خاص لوگ، اور میرے حامی،ان کا گوشت میرا گوشت اور ان کا خون میرا خون ہے جو انہیں ستائے وہ مجھے ستاتا ہے اور جو انہیں رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے ۔ جو ان سے لڑے میں بھی اس سے لڑوں گا جو ان سے صلح رکھے میں بھی اس سے صلح رکھوں گا، میں ان کے دشمن کا دشمن اور ان کے دوست  کا دوست ہوں کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ پس اے خدا تو اپنی عنائتیں اور اپنی برکتیں اور اپنی رحمت اور اپنی بخشش اور اپنی خوشنودی میرے اور ان کیلئے قرار دے، ان سے ناپاکی کو دور رکھ، انکو پاک کر، بہت ہی پاک اس پر خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا: اے میرے فرشتو اور اے آسمان میں رہنے والو بے شک میں نے یہ مضبوط آسمان پیدا نہیں کیا اور نہ پھیلی ہوئی زمین، نہ چمکتا ہوا چاند، نہ روشن تر سورج، نہ گھومتے ہوئے سیارے، نہ تھلکتا ہوا سمندر اور نہ تیرتی ہوئی کشتی، مگر یہ سب چیزیں ان پانچ نفوس کی محبت میں پیدا کی ہیں جو اس چادر کے نیچے ہیں۔ اس پر جبرائیل(ع) امین نے پوچھا اے پروردگار! اس چادر میں کون لوگ ہیں؟ خدائے عز وجل نے فرمایاکہ وہ نبی کے اہلب(ع)یت اور رسالت کا خزینہ ہیں۔ یہ فاطمہ(ع) اور ان کے بابا، ان کے شوہر(ع)، اور ان کے دو بیٹے(ع) ہیں۔ تب جبرئیل(ع) نے کہااے پروردگار! کیا مجھے اجازت ہے کہ زمین پر اتر جاؤں تا کہ ان میں شامل ہوکر چھٹا فردبن جاؤں؟ خدائے تعالیٰ نے فرمایا: ہاں ہم نے تجھے اجازت دی، پس جبرئیل امین زمین پر اتر آئے اور عرض  کی: سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول! خدا ئے بلند و برتر آپ کو سلام کہتا ہے، آپ کو درود اور بزرگواری سے خاص کرتا ہے، اور آپ سے کہتا ہے مجھے اپنے عزت و جلال کی قسم کہ بے شک میں نے نہیں پیدا کیا مضبوط آسمان اور نہ پھیلی ہوئی زمین، نہ چمکتا ہوا چاند، نہ روشن تر سورج نہ گھومتے  ہوئے سیارے، نہ تھلکتا ہوا سمندر اور نہ تیرتی ہوئی کشتی مگر سب چیزیں تم پانچوں کی محبت میں پیدا کی ہیں اور خدا نے مجھے اجازت دی ہے کہ آپ کے ساتھ چادر میں داخل ہو جاؤں تو اے خدا کے رسول کیا آپ بھی اجازت دیتے ہیں؟ تب رسول خدا نے فرمایاباباجان سے کہا کہ یقیناً کہ تم پر بھی سلام ہو اے خدا کی وحی کے امین(ع)! ہاں میں تجھے اجازت دیتا ہوں پھر جبرائیل (ع)بھی ہمارے ساتھ چادر میں داخل ہوگئے اور میرے  خدا آپ لوگوں کو وحی بھیجتا اور کہتا ہے واقعی خدا نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ لوگوں سے ناپاکی کو دور کرے اے اہل بیت(ع) اور آپ کو پاک و پاکیزہ رکھے تب علی(ع) نے میرے باباجان سے کہا:اے خدا کے رسول مجھے بتایئے کہ ہم لوگوں کا اس چادر کے اندر آجانا خدا کے ہاں کیا فضیلت رکھتا ہے؟ تب حضرت رسول خدا نے فرمایا اس خدا کی قسم جس نے مجھے سچا نبی بنایااور لوگوں کی نجات کی خاطر مجھے رسالت کے لیے چنا۔ اہل زمین کی  محفلوں میں سے جس محفل میں ہماری یہ حدیث بیان کی جائے گی اور اسمیں ہمارے شیعہ اوردوست دار جمع ہونگے تو ان پر خدا کی رحمت نازل ہوگی  فرشتے ان کو حلقے میں لے لیں گے اور جب تک وہ لوگ محفل سے رخصت نہ ہونگے وہ ان کے لیے بخشش کی دعا کریں گے۔ اس پر علی(ع) بولے: خدا کی قسم ہم کامیاب ہوگئے اور رب کعبہ کی قسم ہمارے شیعہ بھی کامیاب ہوں گے تب حضرت رسول نے دوبارہ فرمایا:اے علی(ع) اس خدا کی قسم جس نے مجھے سچا نبی بنایا اور لوگوں کی نجات کی خاطر مجھے رسالت کے لیے چنا، اہل زمین کی محفلوں میں سے جس محفل میں ہماری یہ حدیث بیان کی جائے گی اور اس میں ہمارے شیعہ اور دوستدار جمع ہوں گے تو ان میں جو کوئی دکھی ہوگا خدا اس کا دکھ دور کر دے گا جو کوئی غمز دہ ہوگا، خدا اس کو غم سے چھٹکارا دے گا، جو کوئی حاجت مند ہوگا خدا اس کی حاجت پوری کرے گا تب علی(ع) کہنے لگے بخدا ہم نے کامیابی اور برکت پائی اور رب کعبہ کی قسم کہ اسی طرح ہمارے شیعہ بھی دنیا و آخرت میں کامیاب و سعادت مند ہوں گے۔

عَنْ فاطِمَةَ الزَّھْراءِ عَلَیْھَا اَلسَّلَامُ بِنْتِ رَسُولِ الله قالَ سَمِعْتُ فاطِمَةَ أَنَّھا قالَتْ دَخَلَ عَلَیَّ أَبِی رَسُولُ اللهِ فِی بَعْضِ الْاََیَّامِ فَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَافاطِمَةُ فَقُلْتُ عَلَیْکَ اَلسَّلَامُ۔ اقالَ إِنِّی أَجِدُ فِی بَدَنِی ضَعْفاً۔ فَقُلْتُ لَہُ أُعِیذُکَ بِاللهِ یَا أَبَتاھُ مِنَ الضَّعْفِ۔ فَقالَ یَا فاطِمَةُ ایتِینِی بِالْکِساءِ الْیَمانِی فَغَطَّینِی بِہ ِفَأَتَیْتُہُ بِالْکِساءِ الْیَمانِی فَغَطَّیْتُہُ بِہِ وَصِرْتُ أَنْظُرُ إِلَیْہِ وَإِذا وَجْھُہُ یَتَلَأْلَأُکَأَنَّہُ الْبَدْرُ فِی لَیْلَةِ تَمامِہِ وَکَمالِہِ فَمَا کانَتْ إِلاَّساعَةً وَإِذا بِوَلَدِیَ الْحَسَنِ  قَدْ أَقْبَلَ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَا أُمَّاھُ فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَاقُرَّةَ عَیْنِی  و َثَمَرَةَ فُؤَادِی۔ فَقَالَ یَا أُمَّاھُ إِنَّی أَشَمُّ عِنْدَکِ رائِحَةً طَیِّبَةً کَأَنَّھا رائِحَةُ جَدِّی رَسُولِ الله فَقُلْتُ نَعَمْ إِنَّ جَدَّکَ تَحْتَ الْکِساءِ فَأَقْبَلَ الْحَسَنُ نَحْوَ الْکِساءِ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ  یَا جَدَّاھُ یَا رَسُولَ اللهِ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَدْخُلَ مَعَکَ تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا وَلَدِی وَیَا صاحِبَ حَوْضِی قَدْ أَذِنْتُ لَکَ فَدَخَلَ مَعَہُ تَحْتَ الْکِساءِ فَمَا کانَتْ إِلاَّ ساعَةً وَإِذا بِوَلَدِیَ الْحُسَیْنِ قَدْ أَقْبَلَ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَا أُمَّاھُ۔فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا وَلَدِی وَیَا قُرَّةَ عَیْنِی وَثَمَرَةَ فُؤَادِی۔ فَقَالَ لِی یَا أُمَّاھُ إِنَّی أَشَمُّ عِنْدَکِ رائِحَةً طَیِّبَةً کَأَنَّھا رائِحَةُ جَدِّی رَسُولِ اللهُ۔ فَقُلْتُ نَعَمْ إِنَّ جَدَّکَ وَأَخاکَ تَحْتَ الْکِساءِ۔ فَدَنَا الْحُسَیْنُ نَحْوَ الْکِساءِ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا جَدَّاھُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنِ اخْتارَھُ اللهُ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَکُونَ مَعَکُما تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَاوَلَدِی وَیَا شافِعَ أُمَّتِی قَدْ أَذِنْتُ لَکَ۔فَدَخَلَ مَعَھُما تَحْتَ الْکِساءِ فَأَ قْبَلَ عِنْدَ ذلِکَ أَبُو الْحَسَنِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طالِبٍ وَ قالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَابِنْتَ رَسُولِ اللهِ فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا أَبَاالْحَسَنِ وَیَاأَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ۔فَقالَ یَا فاطِمَةُ إِنِّی أَشَمُّ عِنْدَکِ رائِحَةً طَیِّبَةً کَأَنَّھا رائِحَةُ أَخِی وَابْنِ عَمِّی رَسُولِ الله۔فَقُلْتُ نَعَمْ ھَا ھُوَ مَعَ وَلَدَیْکَ تَحْتَ الْکِساءِ فَأَقْبَلَ عَلِیٌّ نَحْوَ الْکِساءِ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللهِ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَکُونَ مَعَکُمْ تَحْتَ الْکِساءِ قالَ لَہُ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا أَخِی ویَا وَصِیِّی وَخَلِیفَتِی وَصاحِبَ لِوَائِی قَدْ أَذِنْتُ لَکَ فَدَخَلَ عَلِیٌّ تَحْتَ  الْکِساءِ ثُمَّ أَتَیْتُ نَحْوَ الْکِساءِ وَقُلْتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَتاھُ یَارَسُولَ اللهِ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَکُونَ مَعَکُمْ تَحْتَ الْکِساءِ قالَ! وَعَلَیْکِ اَلسَّلَامُ یَابِنْتِی وَیَا بِضْعَتِی قَدْ أَذِنْتُ لَکِ فَدَخَلْتُ تَحْتَ الْکِساءِ فَلَمَّا اکْتَمَلْنا جَمِیعاً تَحْتَ الْکِساءِ أَخَذَ أَبِی رَسُولُ الله بِطَرَفَی  الْکِساءِ وَأَوْمَأَ بِیَدِھِ الْیُمْنَی إِلَی السَّماءِ وَقالَ اَللّٰھُمَّ إِنَّ ھَؤُلاءِ أَھْلُ بَیْتِی وَخاصَّتِی وَحامَّتِی لَحْمُھُمْ لَحْمِی وَدَمُھُمْ دَمِی یُؤْلِمُنِی مَا یُؤْلِمُھُمْ وَیَحْزُنُنِی مَا یَحْزُنُھُمْ أَنَاحَرْبٌ لِمَنْ حارَبَھُمْ  وَسِلْمٌ لِمَنْ سالَمَھُمْ وَعَدُوٌّ لِمَنْ عَاداھُمْ وَمُحِبٌّ لِمَنْ أَحَبَّھُمْ إِنَّھُمْ مِنِّی وَأَنَا مِنْھُمْ فَاجْعَلْ صَلَواتِکَ وَبَرَکاتِکَ وَرَحْمَتَکَ وَغُفْرانَکَ وَرِضْوانَکَ عَلَیَّ وَعَلَیْھِمْ وَأَذْھِبْ عَنْھُمُ  الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْھِیراً۔ فَقالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ یَا مَلائِکَتِی وَیَا سُکَّانَ سَمٰوَاتِی إِنَّی مَا  خَلَقْتُ سَماءً مَبْنِیَّةً وَلاَ أَرْضاً مَدْحِیَّةً وَلاَ قَمَراً مُنِیراً وَلاَ شَمْساً مُضِییَةً وَلاَ فَلَکاً یَدُورُ وَلاَ بَحْراً یَجْرِی وَلاَ فُلْکاً یَسْرِی إِلاَّ فِی مَحَبَّةِ ھَؤلاءِ الْخَمْسَةِ الَّذِینَ ھُمْ تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ الْاَمِینُ جَبْرائِیلُ یَارَبِّ وَمَنْ تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ عَزَّ وَجَلَّ ھُمْ أَھْلُ بَیْتِ النُّبُوَّةِ وَمَعْدِنُ الرِّسالَةِ ھُمْ فاطِمَةُ وَأَبُوھاوَبَعْلُھاوَبَنُوھا۔فَقالَ جَبْرائِیلُ یَارَبِّ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَھْبِطَ إِلَی الْاَرْضِ لاِکُونَ مَعَھُمْ سادِساً فَقالَ قَدْ أَذِنْتُ لَکَ۔ فَھَبَطَ الْاَمِینُ جَبْرائِیلُ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللهِ الْعَلِیُّ الْاَعْلی یُقْرِئُکَ السَّلامَ وَیَخُصُّکَ بِالتَّحِیَّةِ وَالْاِکْرامِ وَیَقُولُ لَکَ وَعِزَّتِی وَجَلالِی إِنَّی مَا خَلَقْتُ سَماءً مَبْنِیَّةً وَلاَ أَرْضاً مَدْحِیَّةً وَلاَ قَمَراً مُنِیراً وَلاَ شَمْساً مُضِیئَةً وَلاَ فَلَکاً یَدُورُ وَلاَ بَحْراً یَجْرِی وَلاَ فُلْکاً یَسْرِی إِلاَّ لاِجْلِکُمْ وَمَحَبَّتِکُمْ وَقَدْ أَذِنَ لِی أَنْ أَدْخُلَ مَعَکُمْ فَھَلْ تَأْذَنُ لِی یَا رَسُولَ الله فَقالَ رَسُولُ الله وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا  أَمِینَ وَحْی اللهِ إِنَّہُ نَعَمْ قَدْ أَذِنْتُ لَکَ۔ فَدَخَلَ جَبْرائِیلُ مَعَنا تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ لاِبِی إِنَّ اللهَ قَدْ أَوْحَی إِلَیْکُمْ یَقُولُ إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ  تَطْھِیراً۔فَقالَ عَلِیٌّ لاِبِی یَا رَسُولَ الله أَخْبِرْنِی مَا لِجُلُوسِنا ھذَا تَحْتَ الْکِساءِ مِنَ الْفَضْلِ عِنْدَالله فَقالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَالَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ نَبِیَّاًوَاصْطَفانِی بِالرِّسالَةِ نَجِیّاً مَا ذُکِرَ خَبَرُنا ھذَا فِی مَحْفِلٍ مِنْ مَحافِلِ أَھْلِ الْاََرْضِ وَفِیہِِ جَمْعٌ مِنْ شِیعَتِنا وَمُحِّبِینا إِلاَّ وَنَزَلَتْ عَلَیْھِمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْ بِھِمُ الْمَلائِکَةُ وَاسْتَغْفَرَتْ لَھُمْ إِلی أَنْ یَتَفَرَّقُوا۔ فَقالَ عَلِیٌّ  إِذنْ وَاللهِ فُزْنَا وَفازَ شِیعَتُنا وَرَبِّ الْکَعْبَةِ۔ فَقالَ أَبِی رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ یَا عَلِیُّ وَالَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ نَبِیّاً وَاصْطَفَانِی بِالرِّسالَةِ نَجِیّاً مَا ذُکِرَ خَبَرُنا ھذَا فِی مَحْفِلٍ مِنْ مَحَافِلِ أَھْلِ الْاَرْضِ وَفِیہِ جَمْعٌ مِنْ شِیعَتِنا وَمُحِبِّینا وَفِیھِمْ مَھْمُومٌ إِلاَّ وَفَرَّجَ اللهُ ھَمَّہُ وَلاَ مَغْمُومٌ إِلاَّ وَکَشَفَ اللهُ غَمَّہُ وَلاَ طالِبُ حاجَةٍ إِلاَّ وَقَضَی اللهُ حاجَتَہُ۔ فَقالَ عَلِیٌّ إِذن وَالله فُزْنا وَسُعِدْنا وَکَذلِکَ شِیعَتُنا فازُوا وَسُعِدُوا فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ

ہفتہ، 29 مارچ، 2014

جنتي غذا اور بي بي زہرا( س) کا وجود مبارک

حضرت زہرا کے وجود مبارک ميں جنت کي طبيعت


حضرتِ فاطمہ سلام اللہ علیہا 

حضرت زہرا سلام اللہ عليہا اور باقي انسانوں کے مابين تفاوت يہ ہے کہ زہرا ء سلام اللہ عليھا کے جسماني اور مادي وجود مبارک ميں جنت کي طبيعت پوشيدہ ہے يعني زہرا کا وجود جنت کے ميوہ يا پھل سے بنا ہے جبکہ باقي سارے انسانوں کا وجود دنيوي غذا اور مادي آثارکا نتيجہ ہے لہٰذا حضرت زہرا سلام اللہ عليھا کے وجود اور باقي انسانوں کے وجود ميں بہت بڑا فرق ہے۔ زہرا (س) کے وجود ميں جنت کے آثار ہيں جب کہ باقي انسانوں کے وجود، ايسي خصوصيت سے محروم ہيں کہ اس مطلب کو مرحوم مجلسي نے اس طرح ذکر فرمايا ہے کہ ايک دن حضرت پيغمبر اکرم غ– اپنے مسند پر بيٹھے ہو ئے تھے کہ اتنے ميں جبرئيل نازل ہو ئے اور کہا کہ خدا نے آپ کو سلام بھيجا ہے اور فرمايا ہے کہ چاليس دن آپ جناب خديجہ سے الگ رہا کريں اور عبادت اور تہحد ميں مشغول رہيں پيغمبر اکرم غ– خدا کے حکم کے مطابق چاليس دن تک جناب خديجہ کے گھر جانا چھوڑ ديا اور يہ مدت رات کو نماز اور عبادات ميں گزاري جبکہ دن کو  روزہ رکھتے تھے آپ نے عمار کے توسط سے جناب خديجہ کو پيغام بھيجا کہ اے معزز خاتون تو خيال نہ کرنا کہ ميرا تم سے کنارہ کشي کرنا کسي دشمني اور کدورت کي وجہ سے ہے بلکہ يہ عليحدگي اور کنارہ گيري حکم خدا کي وجہ سے ہے کہ جس کي مصلحت سے خدا ہي آگاہ ہے اے خديجہ تو بزرگوار خواتين ميں سے ايک ہو اللہ تعالي تمہارے وجود پر روزانہ کئي مرتبہ فرشتوں سے ناز کرتا ہے لہٰذا رات کو گھر کے دروازے بند کرکے آرام فرمائے اور ميرا انتظار نہ کيجئے-( بحار الانوار ج 15 صفحہ 78)

ميں خدا کي طرف سے دوبارہ دستور آنے کا منتظر ہوں ميں اس مدت کو فاطمہ بنت اسد کے گھر ميں گزاروں گا جناب خديجہ بھي حضرت پيغمبر اکرم غ– کي ہدايت پر عمل کرتے ہوئے اس مدت ميں اپنے محبوب کي جدائي ميں روتي ہوئي گذاري ليکن

جب چاليس دن کي مدت ختم ہو گئي تو اللہ تعالي کي طرف سے فرشتے نازل ہو ئے اور جنت سے غذا لائے کہا کہ آج رات اس جنتي غذا کو تناول فرمائيں جناب رسول خدا نے اس روحاني اور بہشتي غذا سے افطار کيا اورجب آپ کھانے کے بعد دوبارہ نماز اور عبادت کيلئے کھڑے ہوئے تو جبرئيل نازل ہو ئے اور کہا اے خدا کے حبيب آج رات مستحبي نمازوں کو چھوڑ دو اور جناب خديجہ کے پاس تشريف لے جائے کيونکہ خداوند کا (اس عبادت اورجنتي غذا کے نتيجے ميں ) يہ ا رادہ ہے کہ آپ کے صلب مطہر سے ايک پاکيزہ بچي کا نور کائنات ميں طلوع ہو، تاکہ کائنات کي سعادتمندي کا باعث بنے پيغمبر اکر م غ–  نے جونہي جبرئيل کا يہ دستور سنا فوراً خديجہ کے گھر کي طرف روانہ ہوئے جناب خديجہ کا بيان ہے کہ ميں حسب معمول اس رات کو بھي دروازہ بند کرکے اپنے بستر پر آرام کر رہي تھي کہ اتنے ميں دروازہ کھٹکھٹانے کي آواز آئي ميں نے کہا کو ن ہے ؟اتنے ميں پيغمبر کي دلنشين آواز ميرے کانو ں ميں آئي آپ فرما رہے تھے کہ دروازہ کھولو کہ ميں محمد(غ–) ہوں ميں نے فوراً دروازہ کھولا آپ خندہ پيشاني کے ساتھ گھر ميں داخل ہوئے اور حکم خدا کے مطابق فاطمہ کا نور پيغمبر اکرم غ–کے صلب مطہرسے خديجہ کے رحم ميں منتقل ہوا-( بحار ج 16ص 78 چاپ بيروت)

اگرچہ کچھ دوسر ي روايات ميں اس طرح بيان ہو ا ہے کہ جب پيغمبر اکرم معراج پر تشريف لے گئے تو خدا نے اپنے حبيب کي خدمت ميں جبرئيل کے ہاتھوں جنت کا ايک سيب بھيجا اور فرمايا اے جبرئيل رسول سے کہہ دو کہ آج رات اس سيب کو تناول فرمائيں پھر خديجہ کے ساتھ سو جائيں آپ نے خدا کے حکم کے مطابق سيب کو تناول فرمايا اور زہرا کا وجود آپ کے صلب سے مادر کے شکم ميں منتقل ہوا کہ اس روايت کو علماء شيعہ ميں سے صدو ق نے علل الشرائع ميں جناب علي ابن ابراہيم نے تفسير قمي ميں نقل کيا ہے اور سني علماء ميں سے بھي افراد ذيل نے نقل کيا ہے مثلاً رشيد الدين طبري ، بغدادي ، نيشاپوري، ذہبي (مستدرک حاکم ،ذخائر العقبي، طبري ،تاريخ بغداد، مناقب ،ميزان 1لاعتدال) -

لہٰذا يہ بات فريقين کے ہاں مسلم ہے کہ زہرا سلام اللہ عليھا کا وجود جنت کے سيب يا غذا سے بنا ہے -

  

نام کتاب: حيات حضرت زھراء پرتحقيقانہ نظر

مصنف: محمد باقر مقدسي

مشکلات اور سختیوں سے نجات کے لئے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے منقول مجرب دعا

مشکلات اور سختیوں  سے نجات کے لئے
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے منقول  مجرب دعا
کتاب'' الکلم الطیب'' میں لکھتے ہیں : میں نے ایک بزرگ او رمورد اطمینان سید کی تحریر دیکھی جس میں لکھا تھا:میں نے ١٠٩٣ھ قمری ماہ رجب کو برادر محترم اور دانشورامیر اسماعیل بن حسین بیک بن علی عبن سلیمان جابری انصاری سے سناکہ وہ کہتے ہیں : شیخ متقی حاج علی مکّی کہتے ہیں:
میں کچھ دشمنوں کے درمیان احقاق حق کی وجہ سے گرفتار ہوگیامیرے دشمنوں نے میرے حقوق پائمال کئے اور مجھے اپنی جان کا خوف ہوا جس کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔اسی دوران ایک دن مجھے میری جیب میں ایک دعا ملی،میںاس لئے حیران ہوا کہ میں نے کسی سے دعا نہیں مانگی تھی، لہٰذا حیرت زدہ تھا، لیکن رات کو عالم خواب میں ایک شخص کو شائستہ اور زہاد افراد کے لباس میں دیکھا وہ کہہ رہے تھے: ہم نے تمہیں فلاں دعا دی ہے، اسے پڑھو تاکہ تم شدت وپریشانی سے نجات پا سکو۔
مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کہنے والا کون ہے؟ اس وجہ سے میرا تعجب اور بڑھا دوسری مرتبہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کو خواب میں دیکھا وہ فرمارہے تھے:
ہم نے تمہیں جو دعا دی ہے اس کوپڑھو او ر جسے چاہو تعلیم دو۔
 ہم نے متعددبار دعا پڑھی او رمیرے امور حل ہوگئے اس عمل کاہم نے تجربہ کیا لیکن ایک مدت کے بعد مجھ سے یہ دعا گم ہوگئی جس کامجھے بہت افسوس ہوا اورمیں اپنے عمل کی بدی پر نادم وپشیمان تھا۔
لیکن ایک شخص آیا او راس نے کہا تمہاری دعا فلاں جگہ گرگئی ہے مجھے نہیں یا د کہ وہاں میں کبھی گیا بھی تھا ،میں اس جگہ گیا اور دعا اٹھائی اوراس کے شکر کے لئے سجدۂ شکر بجالایا ، اور وہ دعا یہ ہے :
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ
رَبِ اَسئَلُکَ مَدَداً روحانیّاً تَقوی بِهِ قوایَ الکُلِیة و الجُزئیة ، حَتی اَقهَرَ بِمَبادی نَفسی کُلُ نَفسٍ قاهِرَةٍ فَتَنقَبِضَ لی اِشارَةُ َقائِقِها، اِنقباضاً تَسقُط بِه قُواها ، حَتی لا بَیقی فِی الکَونِ ذُو رُوحٍ اِلّا وَ نارُ قَهری قَد اَحرَقَت ظُهُورَه.یا شَدیدُ یا شَدیدُ یا ذَالبَطشِ الشَدید یا قاهِرُ یا قَهّار، اَسئَلُکَ بِما اَودَعتَهُ عِزرائیلَ مِن اَسمائِک اَلقَهریة ، فَانفَعَلَت لَه  النُفُوس بِالقَهرِ اَن تودِعَنی هذا السِّرِّ فی هذهِ السّاعّةِ حَتی اُلَیِن بِه کِلَّ صَعبٍ وَ اُذَلِّل بِه کُلَّ مَنیع ،بِقُوَتِکَ یا ذَا القُوَةِ المَتین.
اگرا مکان ہو تو یہ دعاسحر کے وقت تین مرتبہ ،صبح کے وقت تین مرتبہ اور رات میں تین مرتبہ پڑھیں اور اگربہت سخت مشکل ہو تو اس کے پڑھنے کے بعد تیس مرتبہ یہ دعا پڑھیں:
 يا رَحْمانُ يا رَحيمُ ، يا أَرْحَمَ الرَّاحِمينَ ، أَسْئَلُكَ اللُّطْفَ بِما جَرَتْ بِهِ الْمَقاديرُ .


منبع: صحیفه مهدیه : 346  /  مولف: سید مرتضی مجتهدی سیستانی
دوسرا  منبع : وبلاگ اول و آخر عشقا مهدی صاحب زمان عجل الله تعالی فرجه الشریف