منگل، 18 مارچ، 2014

گریہ امام حسین علیہ السلام کی اہمیت ۔

٭امام رضاؑ نے فرمایا : محروم وہ مہینہ ہے جس میں زمانہ جاہلیت تک میں لوگ جنگ و قتل و غارت حرام سمجھتے تھے۔ لیکن اس مہینے میں ہمارے خون کو حلال سمجھا گیا' ہماری ہتک حرمت کی گئی' ہمارے بچوں اور خواتین کو اسیر کیا گیا' ہمارے خیموں کو آگ لگائی گئی اور جو کچھ ان میں تھا سب تاراج کردیا گیا اور ہمارے بارے میں رسول اللہؐ کی حرمت کا پاس و لحاظ نہ رکھا گیا۔
اسی دن حسینؑ ابن علیؑ کی شہادت نے ہماری آنکھوں کو مجروح کیا' ہمارے اشکوں کو جاری کیا۔ ہمارے عزیز کو سرزمین کرب و بلا میں خوار کیا گیا اور روز قیامت تک ہمارے لئے غم و اندوہ چھوڑ دیا گیا۔
پس گریہ کرنے والے کو حسینؑ جیسے مظلوم پر گریہ کرنا چاہئے' کیونکہ ان پر گریہ و زاری بڑے بڑے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے۔
آپؑ نے مزید فرمایا : ماہ محرم میں ہمارے والد گرامی (امام موسیٰ کاظمؑ) کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں دیکھ سکتا تھا اور پہلی محرم سے دس محرم تک مسلسل آپؑکا غم
 اندوہ بڑھتا چلا جاتا تھا۔ عاشور کا دن آپؑ کے لئے مصیبت و اندوہ اور گریہ و بکا کا دن ہوتا تھا اور اس دن آپؑ با ربار فرماتے تھے کہ آج وہ دن ہے جس میں حسین ابن علیؑ قتل کئے گئے۔ (امالی صدوق۔ مجلس ٢٧۔ حدیث٢)
٭ امام رضاؑ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا : ''اے شبیب اگرکسی چیز پر رونا چاہتے ہو تو حسین ابن علیؑ کی مصیبت پر گریہ کرو' کیونکہ انہیں ان (ظالموں) نے گوسفند کی مانند ذبح کیا اور ان کے ساتھ ان کے خاندان کے ایسے اٹھارہ افراد کو قتل کیا جن کی روئے زمین پر کوئی مثال نہ تھی۔ ساتوں آسمان اور زمین نے حسینؑ کے سوگ میں گریہ کیا۔ اے شبیب اگر تم حسینؑ پر گریہ کرو' اس طرح کہ تمہاری آنکھوں سے اشک رواں ہو جائیں تو خداوند عالم تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ (امالی صدوق۔ مجلس ٢٧۔ حدیث ٥)
٭ ابو عمارہ فرماتے ہیں : ایک روز میں امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوا۔ حضرتؑ نے مجھ سے فرمایا: اے ابو عمارہ! حسین! کے مرثیہ کے کچھ اشعار مجھے سناؤ۔ میں نے آپؑ کے حکم پر مرثیہ پڑھا تو آپؑ رونے لگے۔ میں نے اور پڑھا' آپؑ اشک بہاتے رہے۔ بخدا میں مسلسل شعر پڑھتا جاتا تھا اور حضرتؑ گریہ و زاری فرماتے جاتے تے۔ یہاں تک کہ گھر کے اندر سے بھی رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ پورے گھر میں گریہ و بکا بپا تھا۔ جب سب خاموش ہو گئے تو امامؑ نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا: اے ابو عمارہ! جو کوئی امام حسینؑ کے مرثیہ کا شعر پڑھے اور پچاس افراد کو رلائے تو ایسے شخص کے لئے بہشت واجب ہو گئی اور جو کوئی حسینؑ کے سوگ میں شعر پڑھے اور تین افراد کو رلائے تو اس کے لئے جنت ہے' او رجو کوئی حسینؑ کی مصیبت پر شعر پڑھے اور بیس افراد کو رلائے تو بہشت اس کا ٹھکانہ ہوگی' اور جو کوئی حسینؑ پر شعر پڑھے اور دس افراد کو رلائے تو بہشت اس کا مسکن ہوگی اور جو کوئی حسینؑ کے سوگ میں شعر پڑھے اور اسے سن کو کوئی ایک فرد رو پڑے تو اس کے لئے جنت ہے' اور جو کوئی مرثیہ خوانی کرے اور خود روئے تو اس کی جزا بہشت ہوگی اور جو کوئی حسینؑ کے مرثی کا شعر پڑھے اور تباکی کرے (یعنی رونے والی صورت بنائے) تو اس کی جزا بہشت ہے۔ (امالی صدوق۔ مجلس ٣٩۔ حدیث ٨)
ایسی بکثرت احادیث ہیں ہم انہی چنداحادیث پر یہاں اکتفا کریں گے۔
غم حسینؑ میں آہ و بکا اور حسین ابن علیؑ کی عزاداری کو علما اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ علامہ طباطبائی جیسے جلیل القدر عالم کا یہ طریقہ تھا کہ محرم اور صفر کے ایام میں تحقیقات' تدریس اور روز مرہ امور کی انجام دہی چھوڑ دیتے تھے اور سیاہ کپڑے پہنا کرتے تھے۔ (مجلہ پاسدار اسلام۔ شمارہ٢١٩۔ ص ٣٥)
آج بھی حوزہ ہائے علمیہ میں بڑے بڑے علما اپنے گھروں میں'مدارس میں اور امام بارگاہوں میں مجالس عزا کا انعقاد کرتے ہیں اور ان مجالس کے دوران عزاداروں کی خدمت سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
علما کا یہ معمول ہے کہ اپنی وصیتوں میں بھی عزاداری اور مجالس عزائے حسینؑ کے انعقاد کی تاکید کرتے ہیں۔ بلکہ یہاں تک وصیت کرتے ہیں کہ تھوڑی سی خاک شفا یا وہ رومال جس سے انہوں نے اپنے اشکِ عزا صاف کئے ہیں' انہیں ان کے ساتھ قبر میں دفن کیا جائے۔ (آیت اللہ محمد رضا گلپایگانی اور آیت اللہ نجفی مرعشی کے وصیت نامے ملاحظہ ہوں)
عراق کے ایک بڑے مجاہد عالم علامہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء جو بہت سی معروف کتابوں کے مصنف ہیں اور ''اصل و اصول شیعہ'' نامی معرکتہ الاراء کتاب بھی جن کی تالیف ہے،وہ ایک مقام پر عزاداری کو احیائے دین کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: عزائے حسینؑ کے بار ے میں اٹھائے جانے والے شبہات امویوں اور وہابیوں کی سازشوں کہ حصہ ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ حیلے، بہانے کارگر ہو گئے اور ان شعار میں تعطل آگیا تو یہ ایسی مجالس کے خاتمے کا پیش خیمہ ہوں گے جن سے دین کا احیاء وابستہ ہے اور بالآ خر ائمہؑ کے نام کے خاتم کا موجب ہوں گے۔ (مواکب الحسینیہ ازعلامہ کاشب الغطاء ۔ ص ١٠۔ نقل از ہستہ نامہ بعثت ۔ سال ١٦۔ شمارہ ٨)
امام خمینیؒ فرماتے ہیں: سید الشہداء ؑ کے مصائب کا بیان' سید الشہداءؑ کے مکتب کی حفاظت کے لئے ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ سید الشہداءؑ کے مصائب بیان نہ کئے جائیں وہ اس بات سے یکسر واقف نہیں کہ سید الشہداؑ کا مکتب کیا تھا اور نہیں جانتے کہ اس کے کیا معنی ہیں۔ سید الشہداءؑ کے مکتب کو اس عزاداری نے، اس سینہ زنی نے، ان دستوں نے محفوظ رکھا ہے۔ (صحیفہ نور۔ ج ٨۔ ص ٦٩)
یہاں تک ہم نے عزاداری کی اہمیت پر کچھ روشنی ڈالی ہے اب عزاداری کے مقصد کےبارے میں کچھ عرض کریں گے۔
یوں تو بالکل سامنے کی بات ہے کہ عزاداری کا مقصد' رخ اور سمت وہی ہونی چاہئے جو امام حسینؑ کی تحریک کا مقصد،رخ اور سمت تھی، پھر بھی مزید وضاحت کی خاطر ہم اس سلسلے میں قولِ معصومؑ اور علما کے اقوال سے مدد لیں گے۔ اس بارے میں موجود ائمہؑ کی متعدد احادیث میں سے صرف ایک حدیث پیش خدمت ہے۔
امام جعفر صادقؑ اپنے ایک صحابی فضیل سے دریافت کیا : اے فضیل کیا تم لو گ ہمارے جد بزرگوار حسین ابن علیؑ کے لئے مجالس عزا کا انعقاد کرتے ہو اور ان مجالس میں ان کی مصیبت کا ذکر کرتے ہو؟ فضیل نے کہا: جی ہاں مولا! ہماری جانیں آپؑ پر فدا ہوں' ہم ایسی مجالس منعقد کرتے ہیں۔ امامؑ نے فرمایا: ہم ان مجالس کو پسند کرتے ہیں۔ (ان کے ذریعے) ہمارے امر (ولایت و امامت٭ کو زندہ کرو۔ خدا اس شخص پر رحم فرمائے جو ہمارے امر کو زندہ کرے۔
یہ عزاداری کے مقصد اور ہدف کو واضح کرنے والی صرف ایک حدیث ہے' علماء نے اس حدیث میں استعمال ہونے والے لفظ ''احیائے امر'' کے معنی ولایت و حکومت ائمہؑ کا احیا کئے ہیں۔ یعنی عزاداری کے ذریعے ائمہؑ کی ولایت و حکومت کا احیاء کیا جائے۔ اس بارے میں دوسری احادیث بھی عزاداری کا یہی مقصد قرار دیتی ہیں' ہم یہاں فی الحال انہیں چھوڑتے ہوئے عزاداری کے مقصد کے بارے میں علما کے اقوال نقل کرتے ہیں۔
استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ نے فرمایا ہے : شہید کے لئے رونے کے معنی' اس کی شجاعت میں شرکت' اس کی روح سے ہم آہنگی اور اس کے شوق شہادت سے موافقت کے ہیں۔ (فلسفہئ شہادت۔ ص ٥٤)
استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ  ایک اور مقام پر شعائر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے امام حسینؑ کے وہ اقوال جو آپؑ نے اپنی قربانی کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے فرمائے، نقل کرنے کے بعدعزاداری کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: ''(امام حسینؑ کے) ان ارشادات کی روشنی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ائمہ اطہارؑ نے امام حسینؑ کی عزاداری کے سلسلے میں اتنا اہتمام کیوں کیا ہے؟ اور یہ عمل اجر و ثواب کا موجب کیوں ہے۔ کیا یہ احکام صرف اس لئے دیئے گئے ہیں کہ چند مصیبت زدہ لوگوں سے اظہار ہمدردی کیاجائے' جیسا کہ عام سوگواری میں ہوتا ہے کہ جب (مثلاً) ہمارے والدین میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو لوگ تعزیت کرتے ہیں اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ نہیں قطعی نہیں۔۔۔۔۔۔ (دراصل) ائمہ اطہارؑ نے یہ احکام اس لئے دیئے ہیں تاکہ عاشورا کی تحریک اور یہ مکتب زندہ رہے۔ تاکہ ہر سال جب نیا سال شروع ہو تو گو کہ امام حسینؑ بنفس نفیس لوگوں کے درمیان موجود نہ ہوں' لیکن پھر بھی وہ ایک علامت کے طور پر' ایک قوت کی شکل میں زندہ رہیں' تاکہ ہم ان سے الہام حاصل کرتے ہوئے مظلوموں اور مستضعفین عالم کی حمایت کریں اور طاغوتی قوتوں سے برسرپیکار ہوں' تاکہ دین اسلام اپنی حقیقی صورت میں باقی رہے۔'' (فلسفہئ شہادت۔ ص ٨٠)
امام خمینیؒ نے اپنی متعدد تقریروں میں عزاداری کو ایک سیاسی عمل (یعنی اسلامی سیاست کو تقویت پہنچانے والا عمل) قرار دیا ہے۔ آپ کے چند اقوال پیش خدمت ہیں:
''ہمارا (یوں) جمع ہونا اور گریہ کرنا ایک سطحی عمل نہیں، ہرگز نہیں، ہم سیاسی گریہ کرنے والی قوم ہیں' ہم وہ قوم ہیں جو ان اشکوں سے سیلاب بنا کر اسلام کے خلاف کھڑی ہونے والی رکاوٹوں کو پاش پاش کرتی ہے۔'' (صحیفہ نور۔ ج ٨۔ ص ٢٩)
''یہ مجالس عزا صرف اس لئے نہیں ہیں کہ ہم سیدالشہداءؑ پر گریہ کریں اور اجر و ثواب سمیٹیں' البتہ ان (مجالس) کا ایک مقصد یہ بھی ہے ۔۔۔۔۔۔ ان میں اہم ترین چیز سیاسی پہلو ہے۔'' (صحیفہ نور۔ ج ١٠۔ ص ٢٠٨)
''رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی'' کی مصداق رفتہ رفتہ عزاداری بھی اپنے اصل مقصد سے ہٹنا شروع ہو گئی' اور موجودہ دور میں تو اس کی حالت بہت ہی زیادہ خراب ہے' البتہ طمطراق' عوام کی شرکت اور ظاہری رونقوں کے اعتبار سے نہیں بلکہ معنوی اعتبار سے، فلسفے اور مقصد کے لحاظ سے۔ اسی صورتحا ل کے پیش نظر ہمارے مطالعے کی حد تک تقریباً سو سال پہلے ہی سے علمائے کرام نے عزاداری کی روش پر تنقید کا آغاز کیا' اس کے لئے شرعی اصول اور پیمانے بیان کئے' اس کی تحریفات کی جانب اشارہ کیا اور ان کی روک تھام کے لئے کوششیں کیں۔
میرزا محدث نوری کی کتاب ''لولوومرجان'' جس کا ترجمہ اردو میں ''آداب اہل منبر'' کے نام سے دستیاب ہے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
 لبنان کے بزرگ عالم دین اور فقیہ علامہ سید محسن امین نے عزاداری کو صاف ستھرا رکھنے کی غرض سے کتاب ''التنزیہ'' لکھی' انہوں نے اس کتاب میں تحریر کیا کہ:
''بڑے گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان مستحب امور کی جگہ بدعتیں کھڑی کر دے' عزاداری کے دوران ایسے امور انجام دیئے جاتے ہیں جو جائز نہیں (مثلاً قمہ زنی) ایسے کاموں کا حرام ہونا ثابت ہے اور اگر بالفرض یہ حرام نہ ہوں لیکن بے شک و شبہ ان چیزوں میں سے ہیں جو مذہب کے لئے ذلت و رسوائی کا باعث ہوتی ہیں' لوگوں کو اس دین سے بیزار کرتی ہیں' اسلام کے خلاف بولنے والوں کی زبان کھولتی ہیں اور آخر کار اسلام کی ہتک حرم ت کا سبب بنتی ہیں۔
دین اسلام' دین عقل ہے' حقیقی مسلمان کے معنی ہیں ایسا انسان جو کامل عقل کا مالک ہو۔ لہٰذا ہر ایسا عمل جو عقل کے برخلاف ہو وہ بے شک و شبہ حرام ہے۔ مزید یہ کہ اگر یہ اعمال جائز ہوتے تو لازما کم از کم کچھ علما ءتو انہیں انجام دیتے، جبکہ حال یہ ہے کہ نجف اشرف کے تمام چوٹی کے علما جیسے آیت اللہ کاشف الغطاء، آیت اللہ العظمیٰ میرزای قمی، آیت اللہ العظمیٰ شیخ انصاری، آیت اللہ العظمیٰ میرزا نائنی ان اعمال کو حرام سمجھتے ہیں۔'' (التنزیہ۔ ص ٧۔ نقل از ہفتہ نامہ بعثت ۔ سال ١٦۔ شمارہ ٨)
''مرحوم آیت اللہ العظمیٰ محسن الحکیم نے عزاداری کے امو رکے بارے میں فتویٰ دیتے ہوئے ان کے جوازکو چار حدود میں قید کیا ہے۔(یعنی عزاداری کے وہ امور جائز ہیں جن میں ان چاروں کا خیال رکھا جائے)
١۔ ان میں ضرر اور نقصان کا خوف نہ ہو۔ ٢۔ ان پر عزاداری کا عنوان صادق آتا ہو۔ ٣۔یہ مذاق اڑنے کا باعث نہ ہوں۔ ٤۔یہ دوسروں میں عداوت اور دشمنی ایجاد نہ کریں۔
اس کے باوجود انہوں نے فرمایا ہے کہ عزاداری کو حتیٰ ایسے مباح امور سے بھی صاف رکھا جائے جو دوسروں کی جانب سے شکوک و شبہات ابھارنے اور اعتراض کا موجب ہوں۔'' (فتاویٰ العلماء والا علام فی تشجیح الشعائر الحیسنیہ نقل از ہفتہ نامہ بعثت ۔ سال ١٦۔ ص ٨)
یہاں تک ہم نے ائمہ معصومینؑ اور علماء کے اقوال کی روشنی میں عزاداری کی اہمیت'
 اس کے مقصد اور اس میں پیدا ہونے والے بگاڑ کے بارے میں علما کے موقف اور اسے راہ راست پر رکھنے کے سلسلے میں ان کی ہدایات کو بیان کیا۔ اب اس گفتگو کی روشنی میں ذرا اپنی موجودہ عزاداری کی صورتحال پر غورفرمایئے۔ البتہ ایک تنقید اور نکتہ چینی کے عادی فرد کی طرح نہیں' بلکہ ایک فرض شناس اور ذمے دار انسان کے عنوان سے' ایک دردمند او دلسوز مومن کے طور پر۔
۔ عزاداری کا انعقاد کرنے والے اکثر عزادار کیا انہی مقاصد کے لئے عزاداری برپا کرتے ہیں' جو ائمہؑ نے بیان کئے ہیں یا جن کی وضاحت علما نے کی ہے؟
۔ مجالس عزا میں کی جانے والی تقاریر کے موضوعات کیا امام حسینؑ کے مقصد (دین کی بقا اور سربلندی)کو تقویت پہنچانے والے ہوتے ہیں؟
۔ ان تقریروں میں امام حسینؑ کی تحریک کا کتنا ذکر ہوتا ہے؟
۔ ان تقریروں میں اصلاح امت' احیائے شریعت اور عدالت اجتماعی جیسے اصولوں اور ان سے وابستگی اور ان کی خاطر جانفشانی کی کتنی بات ہوتی ہے جن کے تحفظ کے لئے امامؑ نے عظیم قربانی پیش کی؟
۔ عزاداری کے اجتماعات اور ان میں کی جانے والی تقاریر میں مذہب کی تبلیغ کا عنصر کس قدر پیش نظر ہوتا ہے؟
۔ہم زیارتوں کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں۔ ان کا احترام و تکریم اپنی جگہ اور ہونا بھی چاہئے لیکن ان کے ساتھ ہمارے طرز عمل سے کہیں ان کی پوجا کا تاثر تو نہیں ابھرتا؟ آیت اللہ خامنہ ای کے بقول: مرجع تقلید آیت اللہ العظمیٰ آقائی بروجردیؒ مزارِ ائمہؑ کی چوکھٹ کا بوسہ لینے سے بھی منع فرماتے تھے۔۔۔۔۔۔ گو (میرے نزدیک) یہ ایک مستحب عمل ہے' اس کے باوجود وہ کہا کرتے تھے کہ یہ کام نہ کیجئے کیونکہ دوسرے یہ خیال نہ کریں کہ ہم ائمہؑ کی قبور مطہرہ کو سجدہ کرتے ہیں اورکہیں اس بناء پر دشمن شیعوں کے خلاف شکوک و شبہات نہ پھلائیں (دینی طلاب کے ایک جلسے سے خطاب ٢٩ ذی الحج ١٤١٤ھ ۔ نقل از کتاب فلسفہئ عزاداری و قیام امام حسینؑ ۔ ص ٢٤)
کیا ہمارا یہ طرز عمل لوگوں کو ہم پر انگلی اٹھانے کا موقع تو نہیں دیتا؟
کیا اس وجہ سے طرح طرح کے بے بنیاد الزامات تو ہم پر نہیں لگائے جارہے؟
 ۔ علما کا عزاداری میں کتنا حصہ ہے؟
۔کیا عزاداری کی نئی رسوم ایجاد کرتے ہوئے علما سے رجوع کیا جاتا ہے؟
۔ ہمارے دینی مدارس عزاداری میں کیا کردار رکھتے ہیں؟
عزاداری میں بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے کرتا دھرتا عام طور پر دین سے نابلد عوام ہیں اور اس کو راہ راست پر رکھنے اور اس میں داخل ہونے والے بگاڑ سے بچاؤ کا حل یہ ہے کہ دین شناس لوگ اس کی باگ ڈور سنبھالیں، یہ لوگ صرف تنقید کرکے، ناک بھوں چڑھا کے ایک طرف نہ ہو جائیں بلکہ اس مقدس پلیٹ فارم کی اصلاح کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ ان لوگوں کے فرائض میں سے ہے' بصورت دیگر حسین ابن علیؑ کے مشن کو آگے بڑھانے کے یہ بے مثال اور موثر ترین انتظام اگر الٹے نتائج دینے لگا تو یہ لوگ بھی اس گناہ عظیم میں برابر کے شریک ہوں گے۔
عزاداری کے اصول و آداب
کسی بھی عمل سے اس کے مطلوب اور مقررہ نتائج حاصل کرنے کے لئے لازم ہے کہ اس عمل کو اس کے متعین قواعد و آداب کے ساتھ انجام دیا جائے۔
ظاہر ہے عزاداری سید الشہداء کو اس اصول سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا عزاداری سے بھی اس کے مطلوب نتائج حاصل کرنے کے لئے اس کے دوران بعض اصول و آداب کی پابندی لازم ہے۔ یہ اصول و آداب کیا ہیں؟ انہیں کہاں سے اخذ کیا جائے؟ اس مسئلے پر غورفکر کہ بعد ہم تین ایسے مصادر (
Sources)کا تعین کرپائے ہیں جن سے عزاداری منانے کے اصول و قواعد اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ یہ تین مصادر ہمیں عزاداری کے ذریعے پیش کئے جانے والے مضمون، اسکے منانے کے انداز وکیفیت اور اس کے مراسم کی صحت و درستگی کی حدود سے روشناس کراتے ہیں۔ یہ مصادر درج ذیل ہیں۔
١۔ حسین ابن علیؑ کی تحریک کے مقاصد۔
٢۔ عزاداری کے بارے میں ائمہؑ کی ہدایات
٣۔ عزاداری کی مراسم کے بارے میں علماء کی ہدایات و نصائع
ذیل کی سطور میں ہم انتہائی اختصار کے ساتھ ان مصادر سے حاصل ہونے والے اصول و آداب پر روشنی ڈالیں گے۔
١۔ حسین ابن علیؑ کی تحریک کے مقاصد: سید الشہداء کے فرض منصبی کو ملحوظ رکھا جائے' آپؑ کی تحریک کا واقعاتی جائزہ لیا جائے اور اس تحریک کے دوران آپؑ کے فرامین، مکتوبات اور اقدامات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپؑ کی تحریک امت کے سیاسی و اجتماعی نظام کی اصلاح کے لئے تھی۔ آپؑ بنی امیہ کے اقتدار کے نتیجے میں شریعت کی پامالی،حدود الہیٰ کے تعطل اور عوام کے ساتھ ظلم و ناانصافی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ آپؑ دیکھ رہے تھے کہ امت کا اقتدار یزید جیسے فاسق و فاجر شخص کے حوالے کر دیا گیا ہے' امت کے امو رایک ایسے شخص کے سپرد کر دیئے گئے ہیں۔ جو کسی طرح اس عہدے کا اہل نہیں اور بیعت کے ذریعے اس کے اقتدار کی تصدیق (
indosmen) دراصل اسلام کی موت کے پروانے پر دستخط کے مترادف ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس صورتحال پر خاموشی بھی ناقابل معافی جرم ہے۔ لہٰذا آپؑ نے یزید کے خلاف تحریک شروع کی اور اپنی حکمت عملی سے اسلام کو نابودی کے خطرے سے نجات دلائی۔
٢۔ عزاداری کے بارے میں ائمہ کی ہدایات: روایات سے ظاہر ہے ائمہ معصومینؑ اپنے اصحاب اور ماننے والوں کو عاشورہ محرم غم و اندوہ' حزن و ملال کے ساتھ گزارنے کی ہدایت کرتے تھے' مصائب کربلا کے بیان اور انہیں سن کر اشک فشانی کی تاکید کرتے تھے' ان ایام میں ابا عبداللہ الحسینؑ کے مصائب کے بیان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ ائمہؑ اپنے گھروں میں ان مصائب کو سننے' سنانےکا اہتما کرتے' یہ مصائب سن کر آنسو بناتے اور اس اشک فشانی پر انتہائی اجروثواب اور آخرت میں نجات کی نوید دیتے۔
٣۔ عزاداری کی مراسم کے لئے بارے میں علماء کی ہداہات و نصائح : علماء امامیہ ایام عزا کے خصوصی اہتمام کے ساتھ ساتھد عزاداری کی رسوم کو غیر شرعی امور اور نامناسب اخراعات سے محفو ظ رکھنے کے لئے بھی کوشاں رہے ہیں۔ لہٰذا جید اور ذمے دار علما نے عزاداری میں صرف ان امور کی شمولیت کو جائز قرار دیا ہے۔ جن سے کسی قسم کے ضرر اور نقصان کو خوف نہ ہو۔ یعنی نہ تو وہ مذہب کے لئے نقصاندہ ہوں اور نہ جسمانی نقصان کا باعث ہوں اور جن پر عزاداری کا عنوان صادق آتا ہو۔ یعنی وہ اظہارِ غم و اندوہ کے منافی نہ ہوں۔ اسی طرح یہ امور مذہب کے تمسخر کا موجب بھی نہ ہوں۔ یعنی انہیں دیکھ کر لوگوں کو مذہب کا مذاق اڑانے کا موقع نہ ملے۔ نیز مسلمانوں کے درمیان نفرت و عداوت کا سبب نہ ہوں۔
حتیٰ علما نے ایسے مباح امور کو انجام دینے سے بھی اجتناب کی تاکید ہے جنہیں دیکھ کر مخالفوں کو خوامخواہ سوال و اعتراض اٹھانے اور شکوک و شبہات پھیلانے کا موقع ملے۔
ان تین مصادر کی روشنی میں جو اصول وضع کئے جاسکتے ہیں' وہ یہ ہیں:
٭عزاداری پر رنج و الم اور سوگواری کی فضا طاری ہو۔ اس کے اجتماعات اور رسومات دیکھنے والے پر غم و اندوہ کا تاثر پیدا کریں۔ تاکہ ایک طرف اس کے ذریعے اسلام کی خاطر اٹھائی جانے والی اہل بیتؑ کی مصیبت اجاگر ہو اور دوسری طرف اس فضا میں بیان کیا جانے والا پیغام سننے والوں کے دل کی گہرائی میں اتر جائے۔
٭عزاداری محض غم کی داستان کا بیان نہیں بلکہ اس کا پیغام مسلمانوں کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں دین کی حکمرانی کا قیام ہے۔ لہٰذا اس کے دوران' خطیبوں کی تقاریر اور شعراء کے کلام میں حسین ابن علیؑ ان کے اصحابؓ اہل حرم کے مصائب کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کی ترویج اور مسلمانوں کے اجتماعی معاملات و مسائل کے بارے میں بھی گفتگو ہو۔ تقاریر اور اشعار ایسے مواد پر مشتمل ہوں جو عزاداروں کو وقت کے حسین کی مدد و نصرت اور اس یزید کی مخالفت پر کم بستہ بھی کریں۔ عزاداری کا بنیادی اور اصل مقصد بھی یہی ہے۔ حسین ابن علیؑ اپنی تحریک کے ذریعے مسلمانوں میں ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے جس کے ماننے والے مسلمانوں کے امور و معاملات سے کسی طور غافل اور لاتعلق نہ ہوں' اسلام او رمسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے رجحانات اور ان کے خلاف ہونے والے اقدامات سے نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ انہیں ناکام بنانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہ کریں۔
٭ عزاداری کے اجتماعات اور رسموں میں شرعی اصول اور دینی اقدار پیش نظر رہیں۔ کوئی ایسا عمل انجام نہ دیا جائے جو احکام دینی کے خلاف اور ان سے متصادم ہو' دین کوکمز ور کرنے والا ہو' مسلمانوں میں انتشار و افتراق پھیلانے کا موجب ہو' اور ہمارے
 مذہب کو تماشا بناتا ہو۔
چند تجاویز
مذکورہ اصولوں کی روشنی میں اپنے یہاں عزاداری کے بارے میں چند تجاویز پیش خدمت ہیں:
٭حسین ابن علیؑ کی تحریک مسلمانوں کو اموی اقتدار سے نجات دلانے، شریعت کی بالادستی، اسلامی احکام کے نفاذ اور اپنے حق کی بازیابی کے لئے تھی۔ لہٰذا ہماری مجالس، ہمارے نوحے اور مرثیے ایسے مضامین پر مشتمل ہوں جو لوگوں میں ان مقاصد کا شعور پیدا کریں، ان مقاصد کی اہمیت ان کے اذہان میں بٹھائیں' اور ان اہداف سے وابستہ کر کے انہیں ان کے حصول کے لئے متحرک کریں۔ یقین جانئے اگر ہماری عزاداری ان خطوط پر منعقد ہو تو اس کے ذریعے بڑی تعداد میں ایسے افراد کی تربیت کی جاسکتی ہے جو اسلام اور مسلمانوں اور خود ہماری ملت کو موجودہ زوال و انحطاط کی اس کیفیت سے نجات دلانے کے لئے جدوجہد کو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر انجام دیں گے۔ یہی نہیں بلکہ پہلے سے ان مقاصد کے لئے متحرک قوتیں بھی عزاداری کے اجتماعات کو ستائش و تحسین کی نظر سے دیکھ کر اس میں شمولیت پر آمادہ ہوں گی۔
٭عزاداری کی رسوم اور ان کے اجتماعات سے رنج و الم اور سوگواری ظاہر ہو۔ سیاہ لباس کے ساتھ ساتھ ہمارے چہرے سے بھی غم و اندوہ کا اظہار ہو۔ ہم جہاں سے گزریں دیکھنے والوں کو محسوس ہو کہ اپنی کسی عزیز ترین ہستی کے غم میں ڈوبے ہوئے لوگ ہیں۔ لیکن اگر اس کے برعکس ہم شو و غل مچاتے،ہسنتے ٹھٹھے لگاتے ہوئے گزریں تو لوگوں پر یہ تاثر نہیں پڑے گا۔
٭عزاداری کے دوران شرعی اصولوں کی پابندی کا سنجیدہ اہتمام ہونا چاہئے تاکہ اس کے اجتماعات پر مذہبی رنگ غالب رہے۔ مثلاً عام مشاہدہ ہے کہ بہت سی مجالس کا وقت مقرر کرتے ہوئے اوقات نماز کا خیال نہیں رکھا جاتا' جس کی وجہ سے بعض مجالس عین نماز کے وقت شروع ہوتی ہیں اور بسا اوقات مجالس اور جلوس کے درمیان نماز کا وقت آجاتا ہے۔ بلکہ کچھ جلوس تو عین اس وقت برآمد ہو رہے ہوتے ہیں جب مسجد سے اذان کی آواز بلند ہورہی ہوتی ہے۔اس طرح دیکھنے والے غیروں پر عزاداروں کی دینی احکام سےبے توجہی کاتاثر پڑتا ہے اور اپنے لوگوںمیں نماز سے تساہل کا رجحان تقویت پاتا ہے۔ جبکہ ائمہ نے نماز میں سستی کو انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔
٭جلوس عزا کے دوران ہر قسم کے غیر شرعی اور غیر مہذب اعمال سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ یہ جلوس مقصد حسینؑ کی تشہیر کے لئے نکالے جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر لوگوں میں امام حسینؑ سے محبت اور ان کے مکتب سے لگاؤ پیدا ہونا چاہئے۔ لیکن اگر ان کے دوران غیر شرعی' غیر مہذب اور لوگوں کے لئے باعث اذیت و آزار کام ہوں تو لوگوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
٭اسی طرح جلوسوں کے دوران غیر ضروری طور پر راستے نہیں بلاک کرنے چاہئیں۔ ایسے مقامات سے جلوسوں کو مقررہ وقت اور ہر ممکن سرعت کے ساتھ گزارنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔
٭لاؤڈ اسپیکر کے استعمال میں بھی ضرورت اور لوگوں کی آرام و آسائش کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ بالخصوص ایسے اوقات مین ضرور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے جن میں لوگ عام طور پر آرام کرتے اور طالب علم مطالعے میں مصروف ہوتے ہیں۔
٭عزاداری حسینی پیغام کو عام کرنے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس کے دوران ہمار اکوئی عمل ایسا نہ ہو جو اس پیغام کو دوسروں تک پہنچانے میں رکاوٹ بنے۔ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا کے کسی طور انہیں اپنا ہمنوا نہیں بنایا جاسکتا۔ لہٰذا دوسروں کو کچوکے لگانے والی گفتگو خواہ وہ خفیف اشاروں کنایوں کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو،حسینی پیغام کو عام کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ایسی گفتگو سے پرہیزدینی تقاضا بھی ہے اور تبلیغ کی حکمت بھی۔


مؤلف : شہید سید سعید حیدر زیدی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں