جمعہ، 14 مارچ، 2014

حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت

    مورخین کااتفاق ہے کہ امام حسن اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نیشین ہوگئے تھے ، لیکن امیرمعاویہ آپ کو ہمیشہ اپنا سیاسی حریف سمجھتے رہے مختلف کتب تواریخ میں ایسی باتیں موجود ہیں جن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت زہر خورانی سے ہوئی اور کتب تاریخ سے اس بات کے اشارات بھی ملتے ہیں کہ آپ کی شہادت بھی اسی بات کا شاخسانہ تھی کہ امیر معاویہ انہیں اپنا حریف سمجھتے تھے
 
    امام حسن مصالحہ معاویہ کے بعدمدینہ میں مستقل طورپرفروکش ہوگئے تھے آپ کواطلاع ملی کہ بصرہ میں رہنے والے محبان علی کے اوپرچنداوباشوں نے شبخون مارکران کے ۳۸ آدمی ہلاک کردئیے ہیں امام حسن اس خبرسے متاثرہوکربصرہ کے لیے روانہ ہوگئے آپ کے ہمراہ عبداللہ ابن عباس بھی تھے ،راستے میں بمقام موصلی سعدموصلی جوجناب مختارابن ابی عبیدہ ثقفی کے چچاتھے کے وہاں قیام فرمایا اس کے بعدوہاں سے روانہ ہوکردمشق سے واپسی پرجب آپ موصل پہنچے توباصرارشدیدایک دوسرے شخص کے ہاں مقیم ہوئے روایت میں ہے کہ اس شخص نے مال و دولت کے لالچ میں امام حسن کو اپنے ہاں قیام کے دوران میں تین بار کھانے میں زہردیا، لیکن آپ بچ گئے ۔

    سعد موصلی کو کسی وجہ سے شک ہوا اورمیزبان سے پوچھا کیا معاملہ ہے، اس نے لاعلمی ظاہرکی مگراس کے عذرکوباورنہ کیا گیا اوراس کی زدوکوب کی گئی یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا اس کے بعدآپ روانہ مدینہ ہوگئے۔

    مدینہ میں اس وقت مروان بن حکم والی تھا وہ بھی امام حسن کی جان کا درپے تھا مروان نے ایک رومی دلالہ جس کانام ”الیسونیہ“ تھا کوطلب کیااوراس سے کہا کہ تو جعدہ بنت اشعث کے پاس جاکراسے میرایہ پیغام پہنچادے کہ اگرتوامام حسن کوکسی صورت سے شہید کردے گی توتجھے ایک ہزاردینارسرخ اورپچاس خلعت مصری عطا کیے جائیں گے اوراس کے ساتھ ساتھ سودینا نقد بھیج دئیے دلالہ نے وعدہ کیا اور جعدہ کے پاس جاکراس سے وعدہ لے لیا، امام حسن اس وقت گھرمیں نہ تھے اوربمقام عقیق گئے ہوئے تھے اس لیے دلالہ کوبات چیت کااچھاخاصا موقع مل گیا اوروہ جعدہ کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔

    الغرض مروان نے زہربھیجااورجعدہ نے امام حسن کوشہد میں ملاکر دیدیا امام علیہ السلام نے اسے کھاتے ہی بیمارہوگیے اورفوراروضہ رسول پرجاکر صحت یاب ہوئے زہرتوآپ نے کھالیا لیکن جعدہ سے بدگمان بھی ہوگئے، آپ کوشبہ ہوگیا جس کی بناپرآپ نے اس کے ہاتھ کاکھانا پینا چھوڑدیا اوریہ معمول مقررکرلیاکہ حضرت قاسم کی ماں یاحضرت امام حسین کے گھر سے کھانا منگا کرکھانے لگے ۔

    تھوڑے عرصہ کے بعد آپ جعدہ کے گھرتشر یف لے گئے اس نے کہاکہ مولا حوالی مدینہ سے بہت عمدہ خرمے آئے ہیں حکم ہوتوحاضرکروں آپ چونکہ خرمے کوبہت پسندکرتے تھے فرمایالے آ،وہ زہرآلودخرمے لے کرآئی اورپہچانے ہوئے دانے چھوڑکرخودساتھ کھانے لگی امام نے ایک طرف سے کھانا شروع کیا اوروہ دانے کھاگئے جن میں زہرتھا اس کے بعد امام حسین کے گھر تشریف لائے اورساری رات تڑپ کربسرکی، صبح کوروضة رسول پرجاکردعامانگی اور صحتیاب ہوئے

    امام حسن نے بارباراس قسم کی تکلیف اٹھانے کے بعداپنے بھائیوں سے تبدیلی آب وہواکے لیے موصل جانے کامشورہ کیااورموصل کے لیے روانہ ہوگئے، آپ کے ہمراہ حضرت عباس اورچند ہواخواہان بھی گئے، ابھی وہاں چندیوم نہ گزرے تھے کہ شام سے ایک نابینا بھیج دیاگیا اوراسے ایک ایسا عصا دیا گیاجس کے نیچے لوہالگایاہواتھا جوزہرمیں بجھاہواتھا اس نابینا نے موصل پہنچ کر امام حسن کے دوستداران میں سے اپنے کوظاہرکیا اورموقع پاکر ان کے پیرمیں اپنے عصاکی نوک چبھودی زہرجسم میں دوڑگیا اور آپ علیل ہوگئے، جراح علاج کے لیے بلایاگیا، اس نے علاج شروع کیا، نابینا زخم لگاکر روپوش ہوگیاتھا، چودہ دن کے بعدجب پندرہویں دن وہ نکل کرشام کی طرف روانہ ہواتو حضرت عباس علمدارکی اس پرنظرجاپڑی آپ نے اس سے عصاچھین کراس کے سرپراس زورسے ماراکہ سرشگافتہ ہوگیااوروہ اپنے کیفروکردارکوپہنچ گیا ۔

    اس کے بعد جناب مختار اوران کے چچا سعد موصلی نے اس کی لاش جلادی چنددنوں کے بعدحضرت امام حسن مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔

    مدینہ منور میں آپ ایام حیات گزاررہے تھے کہ ”ایسونیہ“ نے پھرباشارئہ مروان جعدہ سے سلسلہ جنبائی شروع کردی اورزہرہلاہل اسے دے کرامام حسن کاکام تمام کرنے کی خواہش کی، امام حسن چونکہ اس سے بدگمان ہوچکے تھے اس لےے اس کی آمدورفت بندتھی اس نے ہرچندکوشش کی لیکن موقع نہ پاسکی بالآخر، شب بست وہشتم صفر ۵۰ کووہ اس جگہ جاپہنچی جس مقام پرامام حسن سورہے تھے آپ کے قریب حضرت زینب وام کلثوم سورہی تھیں اورآپ کی پائیتی کنیزیں محوخواب تھیں، جعدہ اس پانی میں زہرہلاہل ملاکرخاموشی سے واپس آئی جوامام حسن کے سرہانے رکھاہواتھا اس کی واپسی کے تھوڑی دیربعدہی امام حسن کی آنکھ کھلی آپ نے جناب زینب کوآوازدی اورکہا ائے بہن، میں نے ابھی ابھی اپنے نانااپنے پدر بزرگوار اور اپنی مادرگرامی کوخواب میں دیکھاہے وہ فرماتے تھے کہ اے حسن تم کل رات ہمارے پاس ہوگے، اس کے بعدآپ نے وضوکے لیے پانی مانگااورخوداپناہاتھ بڑھاکرسرہانے سے پانی لیا اورپی کرفرمایاکہ اے بہن زینب ”این چہ آپ بودکہ ازسرحلقم تابناقم پارہ پارہ شد“ ہائے یہ کیساپانی ہے جس نے میرے حلق سے ناف تک ٹکڑے ٹکڑے کردیاہے اس کے بعدامام حسین کواطلاع دی گئی وہ آئے دونوں بھائی بغل گیرہوکرمحوگریہ ہوگئے، اس کے بعدامام حسین نے چاہاکہ ایک کوزہ پانی خودپی کرامام حسن کے ساتھ ناناکے پاس پہنچیں، امام حسن نے پانی کے برتن کوزمین پرپٹک دیاوہ چورچورہوگیاراوی کابیان ہے کہ جس زمین پرپانی گراتھا وہ ابلنے لگی تھی ۔

    الغرض تھوڑی دیرکے بعد امام حسن کوخون کی قے آنے لگی آپ کے جگرکے ٹکڑے طشت میں آگئے آپ زمین پرتڑپنے لگے، جب دن چڑھاتوآپ نے امام حسین سے پوچھاکہ میرے چہرے کارنگ کیساہے ”سبز“ ہے آپ نے فرمایاکہ حدیث معراج کایہی مقتضی ہے، لوگوں نے پوچھاکہ مولاحدیث معراج کیاہے فرمایاکہ شب معراج میرے نانا نے آسمان پر دو قصر ایک زمردکا، ایک یاقوت سرخ کادیکھاتوپوچھاکہ ائے جبرئیل یہ دونوں قصرکس کے لیے ہیں، انہوں نے عرض کی ایک حسن کے لیے اوردوسرا حسین کے لیے پوچھادونوں کے رنگ میں فرق کیوں ہے؟ کہاحسن زہرسے شہیدہوں گے اورحسین تلوارسے شہادت پائیں گے یہ کہہ کرآپ سے لپٹ گئے اوردونوں بھائی رونے لگے اورآپ کے ساتھ درودیواربھی رونے لگے۔

    اس کے بعدآپ نے جعدہ سے کہا افسوس تونے بڑی بے وفائی کی، لیکن یادرکھ کہ تونے جس مقصد کے لیے ایساکیاہے اس میں کامیاب نہ ہوگی اس کے بعد آپ نے امام حسین اوربہنوں سے کچھ وصیتیں کیں اور آنکھیں بند فرمالیں پھرتھوڑی دیرکے بعدآنکھ کھول کرفرمایاائے حسین میرے بال بچے تمہارے سپرد ہیں پھربند فرما کرناناکی خدمیں پہنچ گئے ”اناللہ واناالیہ راجعون“ ۔

    امام حسن کی تجہیز و تکفین

    الغرض امام حسن کی شہادت کے بعدامام حسین نے غسل و کفن کاانتظام فرمایا اور نماز جنازہ پڑھی گئی امام حسن کی وصیت کے مطابق انہیں سرور کائنات کے پہلومیں دفن کرنے کے لیے اپنے کندھوں پراٹھاکر لے چلے ابھی پہنچے ہی تھے کہ بنی امیہ خصوصامروان وغیرہ نے آگے بڑھ کر پہلوئے رسول میں دفن ہونے سے روکا اور بعض روایات میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب سے بھی مانع ہونے کا ذکر آیا ہے
  
    بات حد سے بڑھ جاتی لیکن امام حسین علیہ السلام نے معاملہ سنبھالہ اور کہا کہ اگر یہاں دفن کرنے کی اجازت نہیں ملتی تو کوٰی بات نہیں ہم مزید جھگڑا نہیں چاہتے اور اپنا معاملہ اللہ کے سبرد کرتے ہیں اور صبر کرتے ہیں۔


       ناچار نعش مبارک کوجنت البقیع میں لاکر دفن کردیاگیا۔   شہادت کے وقت آپ کی عمر ۴۷ سال کی تھی۔

    آپ کی ازواج اور اولاد

    آپ نے مختلف اوقات میں ۹ بیویاں کیں، آپ کی اولادمیں ۸ بیٹے اور ۷ بیٹیاں تھیں، یہی تعداد ارشاد مفید ص ۲۰۸، نورالابصارص ۱۱۲ طبع مصرمیں ہے ۔

    علامہ طلحہ شافعی مطالب السؤل کے ص ۲۳۹ پرلکھتے ہیں کہ امام حسن کی نسل زید اور حسن مثنی سے چلی ہے امام شبلنجی کاکہناہے کہ آپ کے تین فرزند، عبداللہ، قاسم، اورعمرو، کربلا میں شہیدہوئے ہیں۔

    جناب زیدبڑے جلیل القدر اور صدقات رسول کے متولی تھے انہوں نے ۱۲۰ ھء میں بعمر ۹۰ سال انتقال فرمایاہے ۔

    جناب حسن مثنی نہایت جلیل القدر فاضل متقی اورصدقات امیرالمومنین کے متولی تھے آپ کی شادی امام حسین کی بیٹی جناب فاطمہ سے ہوئی تھی آپ نے کربلاکی جنگ میں شرکت کی تھی اوربے انتہا زخمی ہوکر مقتلوں میں دب گئے تھے جب سرکاٹے جارہے تھے تب ان کے ماموں ابواحسان نے آپ کوزندہ پاکر عمرسعد سے لے لیاتھا آپ کوخلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے ۹۷ ھء میں زہردیدیاتھا جس کی وجہ سے آپ نے ۵۲ سال کی عمرمیں انتقال فرمایا آپ کی شہادت کے بعد آپ کی بیوی جناب فاطمہ ایک سال تک قبر پرخیمہ زن رہیں

حوالہ جات
(ارشاد مفید ص ۲۱۱ و نورالابصار ص ۲۶۹) ۔
  (تاریخ مروج الذہب مسعودی جلد ۲ ص ۳۰۳ ،مقاتل الطالبین ص ۵۱ ، ابوالفداء ج ۱ ص ۱۸۳ ،روضةالصفاج ۳ ص ۷ ، حبیب السیر جلد ۲ ص ۱۸ ،طبری ص ۶۰۴ ،استیعاب جلد ۱ ص ۱۴۴) ۔
 تاریخ کامل جلد ۳ ص ۱۸۲
(نورالابصارص ۱۱۲) 
(تاریخ ابوالفداء جلد ۱ ص ۱۸۳، روضة المناظرجلد ۱۱ ص ۱۳۳،
تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۲۸

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں