قوم ثمود اور اس كے پيغمبر جناب صالحع كى جو''وادى القرى '' ميں رہتے تھے جو ''مدينہ'' اور '' شام'' كے درميان واقع ہے يہ قوم اس سرزمين ميں خوشحال زندگى بسر كر رہى تھى ليكن اپنى سركشى كى بناء پرصفحہ ہستى سے يوں مٹ گئي كہ آج اس كا نام ونشان تك باقى نہيں رہا_
قرآن اس سلسلے ميں فرماتا ہے : ''قوم ثمودنے خدا كے رسولوں كو جھٹلايا ''_
كيونكہ تمام انبياء كى دعوت حق ايك جيسى تھى اور اس قوم كا اپنے پيغمبر جناب صالح كى تكذيب كرنا در حقيقت تمام رسولوں كى تكذيب كے مترادف تھا_
جبكہ ان كے ہمدرد پيغمبر صالح نے ان لوگوں سے كہاآيا تقوى اختيار نہيں كرتے ہو ؟'
وہ جو كہ تمہارے بھائي كى طرح تمہاراہادى اورراہبر تھا اس كى نظر ميں نہ برترى جتانا تھا اور نہ ہى مادى مفادات ، اسى لئے قرآن نے جناب صالحع عليہ السلام كو '' اخوہم '' سے تعبير كيا ہے جناب صالح نے بھى دوسرے انبياء كى مانند اپنى دعوت كا آغاز تقوى اور فرض كے احساس سے كيا _
پھر اپنا تعارف كرواتے ہوئے فرماتے ہيں :''ميں تمہارے لئے امين پيغمبر ہوں ''
ميرا ماضى ميرے اس دعوى كى بين دليل ہے _
اسى لئے تم تقوى اختيار كرو ،خداسے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ''
كيونكہ ميرے مد نظر رضائے الہي، تمہارى خيرو خوبى اور سعادت كے سوا اور كچھ نہيں _
بنابريں '' اس دعوت كے بدلے ميں تم سے كوئي اجرت نہيں مانگتا_''
ميں تو كسى اور كے لئے كام كرتاہوں اور ميرا اجر بھى اسى كے پاس ہے '' ہاںتو ميرا اجر صرف عالمين كے پروردگار كے پاس ہے ''
يہ جناب صالح عليہ السلام كى داستان كا ابتدائي حصہ تھا جو دو جملوں ميں بيان كيا گيا ہے ايك دعوت كا پيش كرنا اوردوسرے رسالت كو بيان كرنا _
پھر دوسرے حصے ميں افراد قوم كى زندگى كے قابل تنقيد اور حساس پہلوئوں كى نشاندہى كرتے ہوئے انھيںضمير كى عدالت كے كٹہرے ميں لاكھڑاكيا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے: ''آيا تم يہ سمجھتے ہو كہ ہميشہ امن وسكون اور نازونعمت كى زندگى بسركرتے رہوگے ''_
كيا تم يہ سمجھتے ہو كہ تمہارى يہ مادى اور غفلت كى زندگى ہميشہ كے لئے ہے اور موت ، انتقام اور سزا كا ہاتھ تمہارے گريبانوں تك نہيں پہنچے گا ؟
''كياتم گمان كرتے ہو كہ يہ باغات اور چشمے ميں اور يہ كھيت اور كھجور كے درخت جن كے پھل شيريں وشاداب اور پكے ہوئے ہيں ، ہميشہ ہميشہ كے لئے باقى ر ہيں گے _''
پھر ان پختہ اور خوشحال گھروں كو پيش نظر ركھتے ہوئے كہتے ہيں: ''تم پہاڑوں كو تراش كر گھر بناتے ہو اور اس ميں عياشى كرتے ہو _''
جبكہ قوم ثمودشكم كى اسيراور نازو نعمت بھرى خوشحال زندگى سے بہرہ مند تھى _
فاسد اور اسراف كرنے والوں كى اطاعت نہ كرو
حضرت صالح عليہ السلام اس تنقيد كے بعد انھيں متبنہ كرتے ہو ئے كہتے ہيں : '' حكم خدا كى مخالفت سے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ، اور مسرفين كا حكم نہ مانو، وہى جو زمين ميں فساد كرتے ہيں اور اصلاح نہيں كرتے_ ''يہ دھيان ميں رہے كہ خدانے قوم ''عاد'' كے بعد تمہيں ان كا جانشين اور خليفہ قرار ديا ہے اور زمين ميں تمہيں جگہ دى ہے ''
يعنى ايك طرف تو تم كواللہ كى نعمتوں كا خيال رہناچاہيئے، دوسرے يہ بھى ياد رہے كہ تم سے پہلے جو قوم تھى وہ اپنى سركشى اور طغيانى كے باعث عذاب الہى سے تباہ وبرباد ہوچكى ہے_
پھر اس كے بعد انہيں عطا كى گئي كچھ نعمتوں كا ذكر كياگيا ہے ،ارشاد ہوتا ہے: '' تم ايك ايسى سرزمين ميں زندگى بسر كرتے ہو جس ميں ہموار ميدان بھى ہيں جن كے اوپر تم عاليشان قصر اور آرام دہ مكانات بناسكتے ہو ، نيز اس ميں پہاڑى علاقے بھى ہيں جن كے دامن ميں تم مضبوط مكانات تراش سكتے ہو جو سخت موسم ، اورسرديوں كے زمانے ميں تمہارے كام آ سكتے ہيں ''_
اس تعبير سے يہ پتہ چلتاہے كہ وہ لوگ قوم عاد سردى اور گرمى ميں اپنى سكونت كى جگہ بدل ديتے تھے فصل بہار اور گرميوں ميں وسيع اور پربركت ميدانوں ميں زراعت كرتے تھے اور پرندے اور چوپائے پالنے ميں مشغول رہا كرتے تھے اس وجہ سے وہ وہاں خوبصورت اور آرام دہ مكانات بناتے تھے جو انہوں نے پہاڑوں پر تراش كربنائے تھے اور يہ مكانات انہيں سيلابوں اور طوفانوں سے محفوظ ركھتے تھے يہاں وہ اطمينان سے سردى كے دن گزار ديتے تھے_ آخر ميں فرمايا گيا ہے :
'' خداوند كريم كى ان سب نعمتوں كو ياد كرو اور زمين ميں فساد نہ كرو اور كفران نعمت نہ كرو''_
آپ حضرات، گمراہ قوم كے سامنے حضرت صالح عليہ السلام كى منطقى اور خيرخواہى پر مبنى گفتگو ملاحظہ فرماچكے ہيں جناب صالحع كے جواب ميں اس قوم كى گفتگو بھى سينے انھوں نے كہا: ''اے صالح : تم سحرزدہ ہوكر اپنى عقل كھو چكے ہو، لہذا غير معقول باتيں كرتے ہو ''
ان كا يہ عقيدہ تھا كہ بسا اوقات جادو گر لوگ جادو كے ذريعے انسان كى عقل و ہوش كو بيكار بناديتے ہيں صرف انھوں نے جناب صالح پر ہى يہ تہمت نہيں لگائي بلكہ اور لوگوں نے بھى دوسرے انبياء پر ايسى تہمتيں لگائي ہيں ،حتى كہ خود پيغمبر اسلام ص كى ذات تك كو متہم كيا_
جى ہاں ان كے نزديك عقل مند انسان وہ ہوتا ہے جو ماحول ميں ڈھل جائے ابن الوقت بن جائے اور خود تمام برائيوں پر منطبق ہو جائے اگر كوئي انقلابى مرد خدا فاسد عقائد اور غلط نظام كے بطلان كے لئے قيام كرتا تو وہ اپنى اس منطق كى رو سے اسے ديوانہ ،مجنون اور سحر زدہ كہتے_
اسى طرح قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتاہے'' اس خود پسند طبقے نے اللہ كى وحدانيت كا انكار كيا كہ آخرت كى ملاقات كو جھٹلايا،حالانكہ ہم نے انہيں دنيا كى بہت سى نعمتوں سے مالا مال كرركھا تھا وہ كہنے لگے كہ يہ تمہارى ہى طرح كا انسان ہے جو تم كھاتے ہو يہ بھى كھاتاہے_ اور جو تم پيتے ہو يہ بھى پيتا ہے''_
بے شك وہ اشراف كا خوشحال طبقہ جو قرآن مجيد كى اصطلاح ميں صرف ظاہربين تھا اور كور باطن تھا وہ اس عظيم پيغمبر كے مشن كو اپنے مفاد كا مخالف ،ناجائز منافع خوارى ، استحصال اور بے جابالادستى سے متصادم ديكھ رہاتھا ،يہ طبقہ اپنى پر عيش زندگى كى وجہ سے اللہ سے كوسوں دور چلاگيا تھا اور آخرت كا منكرتھا _
انہوں نے اللہ كے نمائندوں كے انسان ہونے اور ديگرانسانوں كى طرح كھانے پينے كو ان كى رسالت كى نفى كى دليل قرارديا حالانكہ يہ بات ان مايہ ناز شخصيتوں كى نبوت ورسالت كى پرزور تائيد تھى كہ وہ
عام لوگوں ميں سے ہوں تاكہ انسان كى ضروريات اور مسائل سے اچھى طرح آگاہ ہوں ،مزيد برآں وہ ايك دوسرے سے كہتے تھے:''اگر تم اپنے ہى جيسے آدمى كے مطيع بنوگے تويہ بڑى نقصان دہ بات ہوگى ''_
يہ كور باطن اتنا نہيں سمجھتے تھے كہ خود تويہ توقع كررہے ہيں كہ لوگ ان كے شيطانى عزائم كى تكميل اور پيغمبر سے مقابلے كے لئے ان كى پيروى كريں، مگر اس شخصيت كى اطاعت و پيروى كو جو مركز وحى سے وابستہ ہے اور جس كا دل نور علم پروردگار عالمين سے منور ہے انسان كے لئے ذلت، ننگ و عار اور حريت كے منافى بتا رہے تھے _
كيا ہم دوبارہ زندہ كئے جائيں گے
اس كے بعد انھوں نے معاد اور قيامت كا انكار كيا ، جس كو ماننا ہميشہ سے خود سر اور ہوا و ہوس كے رہبروں كے لئے مشكل رہا ہے اور كہا :
''كيا يہ شخص تم سے يہ وعدہ كرتا ہے كہ مرنے كے بعد مٹى اور بوسيدہ ہڈى ہوجانے كے بعد تم ايك بار پھر قبروں سے نكلو گے اور ايك نئي زندگى پائو گے _''يہ بہت دور اور بہت دور كى بات ہے وہ و عدے جو تم سے كئے گئے ہيں وہ، بالكل بے بنياد اور كھوكھلے ہيں
مجموعى طور پر كيا يہ ممكن ہے كہ ايك آدمى جو مرگيا ہو ، مٹى كے ساتھ مٹى ہوگيا ہو ، اس كے اجزاء ادھر ادھر بكھرگئے ہوں ، وہ دوبارہ زندہ ہو سكتا ہے ؟ نہيں يہ محال ہے ، يہ محال بات ہے _
آخرميں اپنے نبى پر ايك مجموعى الزام لگاتے ہوئے انہوں نے كہا يہ ايك جھوٹا شخص ہے ، جس نے اللہ پر بہتان باندھا ہے اور ہم اس پر ہرگز ايمان نہيں لائيں گے ''
نہ اس كى رسالت اللہ كى طرف سے ہے نہ قيامت سے متعلق اس كے وعدے سچے ہيں اور نہ ہى دوسرے احكام ايسے ہيں ، كوئي عقلمند آدمى اس پر كيسے ايمان لاسكتا ہے _
اے صالحع ہم تم پراميد ركھتے تھے
انہوں نے حضرت صالح كو غير موثر بنانے كے لئے يا كم از كم ان كى باتوں كو بے تاثير كرنے كے لئے ايك نفسياتى حربہ استعمال كيا وہ آپ كو دھوكا دينا چاہتے تھے ، كہنے لگے :''اے صالح اس سے پہلے تو ہمارى اميدوں كا سرمايہ تھا _''
مشكلات ميں ہم تيرى پناہ ليتے تھے، تجھ سے مشورہ كرتے تھے، تيرے عقل وشعور پر ايمان ركھتے تھے، اور تيرى خير خواہى اور ہمدردى ميں ہميں ہرگز كوئي شك نہ تھا _
ليكن افسوس كہ تم نے ہمارى اميدوں پر پانى پھيرديا ،دين بت پرستى كى اور ہمارے خدائوں كى مخالفت كركے كہ جو ہمارے بزرگوں كا رسم ورواج تھا اور ہمارى قوم كے افتخارات ميں سے تھا تونے ظاہر كر ديا كہ تو بزرگوں كے احترام كا قائل نہيں ہے نہ ہمارى عقل پر تمہيں كوئي اعتماد ہے اور نہ ہى تو ہمارے طور طريقوں كا حامى ہے _''كيا سچ مچ تو ہميں ان كى پرستش سے روك ديناچاہتا ہے جن كى عبادت ہمارے آبائو اجداد كيا كرتے تھے_''
تم كتنے نحس قدم ہو
بہرحال اس سركش قوم نے اس عظيم پيغمبر كى ہمدردانہ نصيحتوں كو دل كے كانوں سے سننے اور ان پر عمل درآمد كرنے كى بجائے واہيات اور بے كار باتوں كے ذريعے ان كا مقابلہ كرنے كى ٹھان لي، منجملہ اور باتوں كے انھوں نے كہا:'' ہم تمھيں اور جو لوگ تمہارے ساتھ ہيں سب كو ايك برى فال سمجھتے ہيں''_
معلوم ايسا ہوتا ہے كہ وہ سال خشك سالى اور قحط سالى كا تھا اسى لئے وہ صالح عليہ السلام سے كہنے لگے: ''كہ يہ سب كچھ تمہارے اور تمہارے ساتھيوں كے نامبارك قدموں كى بدولت ہوا ہے ''_ تم منحوس لوگ ہو، ہمارے معاشرے ميں تم ہى بد بختى اور نحوست لائے ہو ،وہ برى فال كو اس بہانے سے جو درحقيقت بے كار اور شرير لوگوں كا بہانہ ہوتا ہے ، جناب صالح عليہ السلام كے بہترين دلائل كو كمزور كرنا چاہتے تھے _
ليكن جناب صالع ح نے جواب ميں كہا : ''برى فال اور تمہارا نصيب تو خدا كے پاس ہى ہے''_
اسى نے تمہارے اعمال كى وجہ سے تمہيں ان مصائب ميں ڈال ديا ہے اور تمہارے اعمال ہى تمہارى اس سزا كا سبب بنے ہيں _
در حقيقت تمہارے لئے يہ خدا كى ايك عظيم آزمائشے ہے جى ہاں : '' تم ہى ايسے لوگ ہو جن كى آزمائشے كى جائے گى ''_
يہ خدا كى آزمائشے ہوتى ہے اور خبردار كرنے والى چيزيں ہوتى ہيں تاكہ جو لوگ سنبھل جانے كى صلاحيت ركھتے ہيں وہ سنبھل جائيں ، خواب غفلت سے بيدار ہوجائيں ، غلط راستے كو چھوڑكر خدائي راستے كو اختيار كرليں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں