جمعہ، 28 مارچ، 2014

خاندان رسالت کے فضائل صحیحین کی روشنی میں , کتب اھل سنت کا مطالعہ.

کتب اھل سنت کا مطالعہ



خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں
موٴلف محمد صادق نجمی
مترجم: محمد منیر خان
خاندان رسالت کے فضائل صحیحین کی روشنی میں
1۔ آیت تطھیراوراھل بیت پیغمبر(ص)
2۔”قالت عائشة:خرج النبی(ص)غداة وعلیہ مرط مرحل من شعراسود، فجاء الحسن ابن علی،فادخلہ،ثم جاء الحسین،فدخل معہ،ثم جااٴت فاطمة سلام الله علیھافادخلھا،ثم جاء علی،فادخلہ،ثم قال: [1]
حضرت عائشہ کھتی ھیں :
ایک مرتبہ حضرت رسول خدا (ص)بوقت صبح گھر سے اس حا لت میں خارج ہوئے کہ آپ کالی چادر اوڑھے ہوئے تھے ، اسی هنگام حضرت امام حسن ابن علی (ع) آپ کے پاس تشریف لائے، آپ نے شہزادے کو زیرچادر داخل کرلیا ،اس کے بعد حضرت امام حسین (ع)آئے ، وہ بھی زیر چادر آپ کے ساتھ داخل ھو گئے ،اس کے بعد حضرت فاطمہ زھرا (ع) تشریف لائیں ، آپ(ص) نے ان کو بھی زیر چادر داخل کرلیا، اس کے بعد حضرت علی (ع) آئے ، آپ(ص) نے انھیں بھی زیر چادر بلا لیا، اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی: [2]
مذکورہ حدیث مسلم کے علاوہ اھل سنت کی کتب تفاسیر و احادیث میں تواترکے ساتھ نقل کی گئی ھے، جیسا کہ ھم نے بحث”رسول(ص) خداازنظرآیات و احادیث“ میں اس جانب اشارہ کیا تھا ۔
بھر کیف اس آیت کے رسول وآل رسول علیهم السلام کی شان میں نازل ہونے کے بارے کوئی شک وشبہ نھیں چنانچہ جلد اول میں ھم نے اس آیت کے ذیل میں سنیوں کے بعض مدارک کی طرف اشارہ کیا ھے اور اسی جگھاس نکتہ کو بیان کیا کہ اس آیت کے ذریعہ خدا ومند متعال نے اھل بیت(ع) کو ھر گناہ سے پاک رکھنے کی ضمانت لی ھے اور آپ کو معصوم قرار دیا ھے اور یہ کہ آ یت ِ تطھیر اس بات پر بھی دلالت کرتی ھے کہ اھلبیت (ع)کبھی سہواً بھی کسی گناہ کا ارتکاب نھیں کرتے کیونکہ سھو و نسیان حکم تکلیفی(عقاب) کو تو برطر ف کر سکتے ھیں لیکن رجس اور حرمت کے ا ثر وضعی اوراس کی ذاتی نجاست کو مرتفع نھیں کر سکتے۔
۲۔ اھل بیت علیهم السلام اور آیہٴ مباھلہ
۲۔,,…عن عامر بن سعدبن وقاص عن ابیہ؛قال:امرمعاویة بن ابی سفیان سعداً:فقال:ما منعک ان تسب ابا تراب؟فقال:اماما ذکرت ثلاثاً قالھن لہ رسول اللّٰہ ،فلن اسبہ،لان تکون لی واحدہ منهن احب الی من حمر النعم ، سمعت رسول اللّٰہ(ص) یقول لہ خلفہ فی بعض مغازیہ،فقال علی:یارسول اللّٰہ(ص)!خلفتنی مع النساء والصبیان؟فقال لہ رسول اللّٰہ(ص):” اَمَاْ تَرَضیٰ َانْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَاْرُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّااَنَّہ ُلَانَبُوَّةَ بَعْدِیْ“وسمعتہ یقول یوم خیبر:” لاعطین الرایة رجلاًیحب اللّٰہ ورسولہ و یحبہ اللّٰہ ورسولہ“قال فتطاولنا لھا،فقال:ادعوا لی علیا،فاتی بہ ارمد، فبصق فی عینہ،ودفع الرایة الیہ، ففتح اللّٰہ علیہ،ولما نزلت ہذہ الآیہ: [4] دعیٰ رسول(ص) اللّٰہ عَلِیاًّ،وفاطمة،وحسناوحسینا،ً فقال:اَللّٰہُم َّہٰوٴلآءِ اَهلی“ [3]
ایک روز معاویہ ابن ابی سفیان نے سعد بن ابی وقاص سے کھا: تجھے کس چیز نے روکا ھے کہ ابو تراب (علی (ع)) کو گالی نھیں دیتا؟!“ سعد بن ابی وقاص نے کھا : رسول(ص) خدا نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ایسی تین فضیلتیں بیان کی ھیں جب بھی وہ فضیلتیں مجھے یاد آجاتی ھیں تو میں گالی دینے سے باز رھتا ہوںاور اگر ان میں سے ایک فضیلت بھی میں رکھتا ہوتا تو میرے لئے وہ سرخ اونٹوں سے بھتر ہوتی اور وہ تین فضیلتیں یہ ھیں :
۱۔ حضرت علی (ع)ھارون امت محمدیہ
:ایک مرتبہ رسول خدا(ص) کسی ایک جنگ میں جانے کے لئے آمادہ ہوئے تو حضرت علی علیہ السلام کومدینہ میں اپنا جانشین مقرر فرمایا، اس وقت حضرت علی (ع) نے رسول(ص) سے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے آپ بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رھے ھیں ؟ اس وقت میں نے اپنے دونوں کانوں سے سنا کہ رسول(ص) نے فرمایا:” اے علی (ع)!کیا تم اس بات سے راضی نھیں کہ تمھاری منزلت میرے نزدیک وھی ھے جو موسی (ع) کے نزدیک ھارون (ع) کی تھی ،بس فرق اتنا ھے کہ تم میرے بعد پیغمبرنھیں ھو لیکن ھارون (ع)، موسیٰ(ع) کے بعد پیغمبر تھے“۔
۲۔ مردِ میدان خیبر:اسی طرح جنگ خیبر کے روز میں نے رسول(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:
”کل میں یہ َعلم اس شخص کو دوں گا جو مرد ہوگااور اللہ و رسول (ص)کو دوست رکھتا ہوگا اور اللہ و رسول(ص) اس کو دوست رکھتے ہوں گے۔“
سعد ابن ابی وقاص معاویہ سے کھتے ھیں :ھم سب لوگ اس دن اس َعلم کی تمنا رکھتے تھے، لیکن رسول(ص) خدا نے فرمایا: علی (ع) کو میرے پاس بلاوٴ !حضرت علی علیہ السلام کو آپ کے پا س اس حال میں لایا گیا کہ آپ (ع) کی آنکھیں درد میں مبتلا تھیں ، رسول(ص) نے اپنا لعاب دهن علی (ع) کی آنکھوں میں لگایا اور علم دے دیا، چنانچہ خدا نے حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھوں جنگ خیبر میں اسلام کو کامیابی عطا فرمائی ۔
۳۔ مصداق آیہ ٴمبا ھلہ: جو میں نے دهن ِرسول(ص) سے سنی وہ یہ ھے کہ جب آیہٴمباھلہ نازل ہوئی تو رسول(ص) نے علی، فاطمہ ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا خدایا!یہ میرے اھل بیت ھیں ۔
۳۔ حدیث غد یر اور اھل بیت علیهم السلام
حدثنی یزید بن حیان؛ قال:انطلقت اناوحُصَین بن سَبْرَةَوعمر بن مسلم، الی زید بن ارقم،فلمّا جلسناالیہ، قال لہ حُصَین: یازید !لقد لقیت خیرا کثیرا، راٴیت رسول(ص)َ اللّٰہ، وسمعت حدیثہ،وغزوت معہ،و صلیت خلفہ، لقد لقیت یا زیدُ !خیرا کثیرا،ً حدثنا یا زید! م ا سمعت من رسول(ص) اللّٰہ، قال یابن اخی:واللّٰہ لقد کَبِرت سنی،وقَدُمَ عھدی،و نسیت بعض الذی اٴعِی من رسول(ص) اللّٰہ، فماحدّثتُکم فاقبلوا،ومالا۔،فلاتکلفونیہ۔ثم قال:قام رسول(ص) اللّٰہ یوما فینا خطیباًبِماءٍ یُدْعیٰ خماًبین مکة و المدینة، فحَمِد اللّٰہ َو اَثْنیٰ علیہ و وعظ و ذکَّر،ثم قال: اَما بعدُ:الَاَ یا ایھا الناس! فانما انا بشر یوشک ان یاٴتِیَ رسول(ص) ربی، فاُجیب،و اَنَا تاَرِکٌ فِیْکُمُ ثَقَلَیْن اَوَّلُہُماَ کتاَبُ اللّٰہ ،فِیْہِ الہُدیٰ وَ النُّورِ، فَخُذُوا بکِتاَب اللّٰہِ وَاسْتَمْسِکُوُاْ بہ، فَحَث بِکِتاَبِ اللّٰہ وَ رَغَّبَ فِیْہِ، ثم قاَلَ: وَ اَهل بَیْتیِ اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہ فی اَهل بَیتْیِ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰہ فیِ اَهل بَیْتیِ اُذَکِرُکُمُ اللّٰہ فِی اَهل بَیْتی ثلَاَثاٌ،فقال لہ حصین :و من اھل بیتہ؟ یازید !اٴَلَیس نسائُہ من اھل بیتہ؟ قال: نسائہ من اھل بیتہ، و لکن اھل بیتہ من حُرِم الصّدقة بعدہ ،قال :و من ھم؟ قال: ھم آلُ عَلی،وآل عقیل، و آل جعفر،وآل عباس، قال: کل ہٰوٴلاء حُرِم الصدقةُ،قال: نعم…۔“
مسلم نے روایت کی ھے کہ یزید بن حیاَّن کھتے ھیں :
ایک مرتبہ میں و حُصَین بن سبرہ اور عامربن مسلم، زید بن ارقم کے پاس گئے اور زید بن ارقم کی مجلس میں بیٹھ گئے، حصین زید سے اس طرح گفتگو کرنے لگے:
”اے زید بن ارقم !تو نے خیر کثیر کو حا صل کیا ھے کیو نکہ تورسول خدا(ص) کے دیدار سے مشرف ھو چکا ھے اور حضرت(ص) کی گفتگو سے لطف اندوز ہوچکاھے، تونے رسول (ص)کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی اور حضرت(ص) کی اقتداء میں نماز پڑھی اس طرح تو نے خیر کثیر کو حا صل کیا ھے لہٰذا جو تونے رسول(ص) سے سنا ھے اسے ھمارے لئے بھی نقل کر!زید بن ارقم کھتے ھیں : اے برادر زادہ !اب تو میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری عمر گزر چکی ھے، چنانچہ بھت کچھ کلام رسول(ص) میں فراموش کرچکا ہوں، لہٰذا جو بھی کہہ رھا ہوں اسے قبول کرلینااور جھاں سکوت کرلوں اصرار نہ کرنا،اس کے بعد زید بن ارقم کھتے ھیں : ایک روز رسول اسلام(ص)مکہ اور مدینہ کے درمیان میدان غدیر خم میں کھڑے ہوئے اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور بعد از حمد و ثنا و موعظہ و نصیحت فرمائی: اے لوگو ! میں بھی تمھاری طرح بشر ہوں لہٰذا ممکن ھے کہ موت کا فرشتہ میرے سراغ میں بھی آئے اور مجھے موت سے ھم کنار ہونا پڑے ،(لیکن یہ یاد رکھو) یہ دو گرانقدر امانتیں میں تمھارے درمیان چھوڑے جا رھا ہوں، ان میں سے پھلی کتاب خدا ھے جو ھدایت کرنے والی اور روشنی دینے والی ھے، لہٰذا کتاب خدا کا دامن نہ چھوٹنے پائے اس سے متمسک رھو اور اس سے بھرہ مند رہو، اس کے بعد آپ نے فرمایا:
اے لوگو!دوسری میری گرانقدر امانت میرے اھل بیت(ع) ھیں اور میرے اھل بیت (ع)کے بارے میں خد ا سے خوف کرنااور ان کو فراموش نہ کرنا (یہ جملہ تین مرتبہ تکرار کیا)زید نے جب حدیث تمام کردی، تو حصین نے پوچھا: اھل بیت رسول(ص) کون ھیں جن کے بارے میں اس قدر سفارش کی گئی ھے؟ کیا رسول(ص) کی بیویاں اھل بیت میں داخل ھیں ؟
زید ابن ارقم نے کھا: ھاں رسول(ص) کی بیویاں بھی اھل بیت(ع) میں ھیں مگر ان اھل بیت(ع) میں نھیں جن کی سفارش رسول(ص) فرمارھے ھیں ، بلکہ یہ وہ اھل بیت(ع) ھیں جن پر صدقہ حرام ھے۔
حصین نے پوچھا : وہ کون حضرات ھیں جن پر صدقہ حرام ھے؟زید بن ارقم نے کھا :وہ اولاد علی (ع)، فرزندان عقیل و جعفر و عباس ھیں !حصین نے کھا: ان تمام لوگوں پر صدقہ حرام ھے ؟ زید نے کھا ھاں۔[5]
عرض موٴلف
اس حدیث کو مسلم نے متعددسندوں کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ھے لیکن افسوس کہ حدیث کا وہ جملہ جو غدیر خم سے متعلق تھاحذف کردیا ھے، حا لانکہ حدیث غدیر کے سیکڑوں راویوں میں سے ایک راوی زید بن ارقم بھی ھیں جو یہ کھتے تھے :
اس وقت رسول(ص) نے فرمایا : خدا وند متعال میرا اور تمام مومنین کا مولا ھے، اس کے بعد علی (ع) کا ھاتھ پکڑا اور فرمایا :جس کا میں مولا ہوں یہ علی (ع)اس کے مولا و آقا ھیں ، خدایا ! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس کو دشمن رکھے تو اس کو دشمن رکھ۔[6]
البتہ زید بن ارقم نے اپنے عقیده کے لحا ظ سے اھل بیت(ع) کے مصداق میں بھی فرق کر دیا ھے، حا لانکہ خود رسول(ص) نے اھل بیت (ع)سے مراد آیہٴ تطھیر اور آیہٴ مباھلہ کے ذیل میں بیان فرما دیا ھے،جیساکہ آپ نے آیہٴ تطھیر کی شان ِ نزول کے ذیل میں گزشتہ صفحات میں ملاحظہ فرمایا ۔
شدیدتعصب کی عینک
واقعہٴغدیر خم اور حدیث ثقلین ان موضوعات و واقعات میں سے ھیں جن کو علمائے اھل سنت نے اپنی معتبر اور بنیادی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ نقل کیا ھے،سینکڑوں کتب تاریخ وحدیث اور تفسیر میں علمائے اھل سنت نے ان واقعات اور روا یات کودسیوں سند کے ساتھ قلمنبد فرمایا ھے، لیکن امام بخاری اور مسلم کی کوتاہ نظری یہ ھے کہ (جیسا کہ ھم نے جلد اول میں بیان کیا) آپ حضرات نے اپنی آنکھوں پر ایسی تعصب کی عینک لگائی کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی بنیادی اور روز روشن کی طرح واضح و آشکار فضائل جیسے حدیث ِغدیرخم ، وحدیث ِ ثقلین وغیرہ نظر نہ آئے !! چنانچہ جو حدیث صحیح مسلم میں آئی ھے اس میں مسلم نے تاریخ اسلام کے مشہور واقعہٴ غدیر کے بعض حصے توڑ مروڑ کر ذکر کئے ھیں ۔
مناسب ھے کہ ھم اس جگہ عالم اھل سنت امام غزالی ابوحا مد کے قول کو نقل کردیں جو ھماری گفتگو سے مربوط ھے ،آپ فرماتے ھیں :
اھل سنت کے اکثر علماء نے رسول(ص) کے اس قول کو نقل کیا ھے جسے آپ(ص) نے میدان غدیر میں صحا بہ کے جم غفیر کے درمیان ارشاد فرمایا: ”مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہُ فَھٰذَاْ عَلِیٌ مَوْلَاہُ “
اس کے بعد تحریر کرتے ھیں :
بنی کے اس جملے کے بعد حضرت عمر اٹھے اور فرمایا:
”بخ بخ لک یا امیرالموٴ منین اصبحت مولای و مولا کل مومن و مو منة“
مبارک ھو مبارک ھو اے مومنوں کے امیر( علی (ع)) آج آپ میرے اور تمام مومنین مرد وعورت کے مولا بن گئے ۔
امام غزالی فرماتے ھیں :
اس جملہ کا مفہوم حضرت عمر کا علی (ع) کو حا کم مانتے ہوئے ان کی حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ھے،لیکن بعد میں حب ِ ریاست اور پر چم ِ خلافت کے اٹھا نے کے شوق نے ان کو آلیا اور لشکر کشی اورفتوحا ت کی حرص نے کاسہ ٴ ہوا وہوس کو ان کے ھاتھوں میں تھمادیااور اس طرح یہ اسلام سے منحرف ہوکر زمانہ ٴجاھلیت کی طرف پلٹ گئے اور رسول(ص) کے ساتھ جو عھد و پیمان (غدیر میں )کیا تھا،اس کو فراموش کر کے قلیل قیمت میں فروخت کردیا یہ کتنا بر ا سودا ھے:
”ثم بعد ہٰذا غلب الہوی لحب الریاسة و حمل الخلافة ، عقود البنود وخفقان الہوی …“[7]
۴۔ اھل بیت (ع)”صلوات“ میں شریک ِ رسول(ص)ھیں
اھل سنت کی متعدد کتابوں میں نقل کیا گیا ھے کہ حضرت رسالتمآب (ص)نے تمام مسلمانوں کو حکم فرمایا ھے: جب آپ(ص) پر صلوات بھیجی جائے تو آپ کے اھل بیت علیھم السلا م کو بھی صلوات میں ضرور شریک کیا جائے ،یعنی تنھا رسول(ص) پر صلوات بھیجنا صحیح نہ ہوگا ،جب تک کہ آپ کے اھل بیت (ع)پر صلوات نہ بھیجی جائے گی،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقام نبوت کی تعظیم وتکریم کے ساتھ ساتھ اھل بیت(ع) ِعصمت و طھارت کی بھی تعظیم وتکریم لازم ھے اوراس معاملہ میں آپ (ص)کے اور آپ کے خاندان کے درمیان کسی بھی طرح کا فاصلہ کرنا صحیح نھیں ھے ، چنانچہ کتب اھل سنت میں ایسی بھت ساری روایات موجود ھیں ،لیکن ھم صرف صحیحین سے چند نمونے پیش کر تے ھیں :
۱۔,,…حدثنا الحکم ؛قال: سمعت عبد الرحمٰن بن ابی لیلی؛ ٰقال: لقینی کعب بن عجرة فقال:الااھدی لک ھدیة ً؟ان النبی(ص) خرج علینا فقلنا، یا رسول الله ! لقد علمنا کیف نسلم علیک،فکیف نصلی علیک ؟ فقال(ص): قولوا!”اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ ،کَمَاْصَلَّیْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاہِیْمَ، اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰہُمَّ بَاْرِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّد،کَمَاْ بَاْرَکْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاْہِیْم،َ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ ۔“
حکم نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے نقل کیا ھے :
( ایک دن) کعب ابن عجرہ سے میری( عبد الرحمٰن ابن ابی لیلیٰ) ملاقات ھو ئی، تو اس نے مجھ سے کھا : کیا تو چاھتا ھے کہ تجھے ایک تحفہ پیش کروں؟وہ تحفہ یہ ھے کہ ایک مرتبہ رسول(ص)خدا ھمارے درمیان تشریف لائے، ھم لوگوں نے سلام کیا اور پوچھا:یا رسول الله (ص)!ھم نے آپ پر سلام کرنا تو سمجھ لیا !مگر صلوات کس طرح بھیجی جائے؟ آپ(ص)نے جواب میں فرمایا:
” اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ،کَمَاْصَلَّیْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاہِیْمَ،اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰہُمَّ بَاْرِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ،کَمَاْ بَاْرَکْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاْہِیْم،َ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔“
” اے میرے معبود !رحمت نازل کر محمد وآل محمد پر،جس طرح تو نے رحمت نازل کی ابراھیم کی آل پر،بےشک تو بزرگ اور قابل حمد ھے، اے میرے معبود!اپنی برکت نازل فرما محمد وآل محمد پر، جس طرح تونے ابراھیم کی آل پر نازل کی ،بےشک تو صاحب مجد اور لائق تعریف ھے۔“[8]
۲۔,,… عن ابی مسعود الانصاری؛قال: اٴَتانارسول الله ،(ص)ونحن فی مجلس سعد بن عبادة ،فقال لہ بشر بن سعد،امرنا الله عزّوجلّ ان نصلی علیک یارسول الله !(ص) قال:فسکت رسول الله ،حتی تمنینا انہ لم یسئلہ،ثم قال رسول الله (ص): قولوا: اَللّٰھمَّ صَلّ علی محمد وعلی آل محمد ،کما صلیت علی آل ابراھیم،وبارک علیٰ محمدوعلیٰ آل محمد،کما بارکت علیٰ آل ابراھیم فی العالمین،انک حمید مجید ،والسلام کما علمتم۔“
مسلم نے ابومسعود انصاری سے نقل کیا ھیکہ ابومسعود کھتے ھیں :
ھم سعد بن عبادہ کی نشست میں بیٹھے تھے کہ رسول(ص) تشریف لائے ،تو بشر بن سعد نے کھا : یا رسول اللہ(ص)!ھم کو خدا نے آپ پر صلوات بھیجنے کا دستور دیا ھے، مگر ھم کس طرح صلوات بھیجیں ؟
ابو مسعود کھتے ھیں :
رسول(ص) نے اس وقت سکوت فرمایااور اتنی دیر ساکت رھے کہ ھم نے کھا : کا ش بشریہ سوال نہ کرتا،اس وقت آنحضرت(ص) نے فرمایا: صلوات اس طرح بھیجو :
” اللّٰھم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ کَمَاْ صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاْہِیْمَ وَبَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَّ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ آلِ اِبْرَاہِیْمَ فِیْ العَالَمِیْنَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ“
اور سلام اسی طرح بھیجو جو تم جانتے ہو۔[9]
عرض موٴلف
اھل سنت کی کتب صحا ح و مسانیداور تواریخ و تفاسیرمیں دسیوں حدیثیں رسول(ص) اور آل رسول(ص) پر صلوات بھیجنے کے طریقہ کے بارے میں وارد ہوئی ھیں اوران سب میں جامع ترین تفسیر، دُرِّ منثور (سورہ ٴاحزاب کی تفسیر میں ) ھے۔
لیکن آنحضرت(ص)کی آنکھیں بند ہونے کے بعد حکومت اور جاہ طلبی نے اس قدر مسلمانوں کو اندھا کردیا کہ جتنا ھو سکتا تھا اھل بیت (ع)کے فضائل کو چھپایا جانے لگا !چنانچہ صلوات میں بھی دھیرے دھیرے اھل بیت(ص) کے نام کو حذف کرکے، صرف رسول (ص)پر ناقص اور دم بریدہ صلوات بھیجنے پراکتفاء کرنے لگے ،حا لانکہ رسول(ص)خدانے ایسی صلوات بھیجنے سے بارھا منع فرمایا تھا، مگر افسو س آج بھی مسلمانوں کی یھی سیرت ھے کہ رسول(ص) پر دم بریدہ صلوات بھیج کر دشمنی اھل بیت(ع) کاکھلم کھلا ثبوت دے رھے ھیں ، جب کہ علمائے اھل سنت کی آنکھوں کے سامنے آج بھی یہ حدیثیں موجود ھیں ، بلکہ خود یہ لوگ ان حدیثوں کو نقل بھی کرتے ھیں ، لیکن عملی میدان میں اپنی گفتگو اور تحریروں کے اندر ان احادیث کے مضمون اور حکم رسول (ص)کی صریحا مخالفت کرتے ہوئے رسول(ص) پر صلوات بھیجنے کے بارے میں اپنے اباوٴاجداد کی سنت پر عمل کرتے ھیں !لہٰذا اس جگہ دقت کرنے سے ھماری سمجھ میں صرف ایک ھی چیز آتی ھے اوروہ ھے اپنے آباوٴ اجداد کی طرحا ھل بیت(ع) کے بارے میں شدید تعصب میں مبتلا ہونا!
[10]
” اور جب ان سے کھا جاتا ھے :جو کتاب خدا نے نازل کی ھے اس کی پیروی کرو ،تو وہ (چھوٹتے ھی یہ) کھتے ھیں : نھیں ھم تو اسی طریقہ پر چلیں گے جس پر ھم نے باپ داداؤں کو پایا، بھلا اگرچہ شیطان ان کے باپ داداؤں کو جهنم کے عذاب کی طرف بلاتارھا ہو، تو پھر کیا وہ ان کی پیروی کریں گے۔“
۵۔ کتب اھل سنت میں بارہ اماموں کا ذکر
اھل سنت کی معتبر کتابوں میں بارہ اما م خصوصاً امام مھدی ارواحنا لہ الفداء (عج) کے اوصاف کے بارے میں متعدد روایات موجود ھیں،یھاں تک کہ ان احادیث کی وجہ سے بعض علمائے اھل سنت نے اپنی اپنی کتابوں میں آخری امام کیلئے ایک مستقل فصل قرار دی ھے اور بعض نے امام عصر(ع) کے بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی ھیں،لیکن فی الحال ھم صحیحین سے اس بارے میں نقل شدہ روایات پیش کر نے پر اکتفا ء کرتے ھیں :
۱۔,,…عن عبد الملک؛ سمعت جابر بن سمرة ؛قال: سمعت النبی(ص)یقول: یکون اثنیٰ عشرامیرا، فقال کلمة، لم اسمعھا،فقال ابی: انہ قال: کلھم من قریش“ [11]
عبد الملک نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ھے:
میں نے رسول خدا(ص) سے سنا : آپ نے فرمایا: (میرے بعد میرے) بارہ امیر و خلیفہ ہوں گے، جابر کھتے ھیں : دوسرا کلمہ میں نے ٹھیک سے نھیں سنا جس میں آنحضرت(ص) نے ان بارہ خلفاء کے بارے میں بتلایا تھا کہ وہ کس قبیلہ سے ہوں گے، لیکن بعد میں میرے پدر بزگوار نے مجھ سے کھا: وہ جملہ جو تم نے نھیں سنا وہ یہ تھا کہ وہ تمام خلفاء قریش سے ہوں گے۔
مسلم نے بھی اس حدیث کو آٹھ سندوں کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ھے اور ا ن میں سے ایک حدیث میں اس طرح آ یا ھے:
”…جابر بن سمرة؛ قال:انطلقتُ الی رسول(ص) اللّٰہ ومعی ابی، فسمعتہ، یقول: لایَزَالُ ہذَا الدین عَزِیزاً مَنِیعاً اِلیٰ اِثْنیٰ عَشَرَ خلیفة،ً قال کلمة ،صَمَّنِیْہَا الناس،ُ فقلتُ لابی ما قال؟ قال :کلھم من قریش“ [12]
جابر بن سمرہ کھتے ھیں :
ایک مرتبہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ خدمت رسول خدا(ص) میں مشرف ہوا تو میں نے رسول(ص) سے سنا :آپ فرما رھے تھے: یہ دین الہٰی بارہ خلفاء تک عزیز اور غالب رھے گا،اس کے بعد دوسرا جملہ میں نہ سن سکا کیو نکہ صدائے مجلس سننے سے حا ئل ہوگئی تھی، لیکن میرے پدر بزرگوار نے کھا :وہ جملہ یہ تھا:یہ تمام بارہ خلفاء قریش سے ہوں گے۔
عرض موٴلف
اس حدیث کومختلف مضامین کے ساتھ اھل سنت کی اھم کتابوں میں کثرت کے ساتھ نقل کیا گیا ھے اور یہ حدیث مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے بطلان اور مذھب شیعہ کے حق ہونے پر ایک محکم و مضبوط دلیل ھے، اس لئے کہ اس حدیث کا مضمون مذھب شیعہ کے علاوہ کسی اور فرقہ ٴ اسلامی کے رهنماؤں سے منطبق نھیں ہوتا،کیونکہ اھل سنت خلفائے راشدین (جو چار ھیں ) کے قائل ھیں ، یا پھر امام حسن مجتبی (ع) کی خلافت کو ملا دیں توپانچ ہوتے ھیں ، لیکن حدیث میں رسول(ص) نے بارہ فرمائے ھیں ، لہٰذا ان کے مذھب سے یہ حدیث منطبق نھیں ہوتی اور اگر خلفائے بنی امیہ و بنی عباس کو ملایا جائے توسب سے پھلے یہ کہ ان کی تعداد بارہ سے زیادہ ہوتی ھے۔دوسرے یہ کہ ان میں سے اکثرخلفاء اھل فسق و فجور تھے، انھوں نے اپنی ساری عمر گناہوں ،قتل، غارتگری و خونریزی ، شراب نوشی اور زناکاری میں گزاری لہٰذا رسول(ص) ان کو کیسے اپنا جانشین قرار دے سکتے ھیں ؟! پھرجس طرح یہ حدیث اھل سنت حضرات کے خلفاء کی تعداد سے منطبق نھیں ہوتی اسی طرح فرقہٴزیدیہ،اسماعیلیہ ، فطحیہ، سے بھی منطبق نھیں ہوتی ،کیونکہ ان کے مذھب کے خلفاء کی تعداد ۱۲ سے کم ھے، لہٰذا صرف شیعہ اثنا عشریہ کے خلفاء کی تعداد سے منطبق ہوتی ھے، ان میں سر فھرست مولائے متقیان حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور آخر حضرت مھدی حجة ابن الحسن العسکری (عج) ارواحنا لہ الفداء ھیں ۔
۲۔ … جابر بن عبدالله وابوسعید قالا: قال رسول الله :یکون فی آخر الزمان خلیفة یقسم المال ولا یعدہ۔ [13]
جابر بن عبد اللہ اور ابوسعید نے رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ھے :
آپ(ص) نے ارشاد فرمایا: آخری زمانہ میں میرا ایک جانشین و امام ہوگا جو مال و ثروت کو( ناپ و تول کے ساتھ ) تقسیم کرے گا نہ کہ گنے گا۔
۳۔ … عن ابی سعید؛ قال: قال رسول الله : من خلفاء کم خلیفة یحشو المال حشیاً ولا یعدہ عداً۔ [14]
ابو سعید نے رسول خدا(ص) سے دوسری حدیث نقل کی ھے ؛ آنحضرت(ص) نے فرمایا: تمھار ے خلفاء اور ائمہ میں سے ایک خلیفہ و امام وہ ہوگا جو مال کو مٹھی سے تقسیم کرے گا نہ کہ عدد و شمار سے۔
امام زمانہ (عج) کے بارے میں فاضل نَوَوی شارح صحیح مسلم؛ مذکور ہ حدیث کی لغت حل کرنے کے بعد لکھتے ھیں :
سونا اور چاندی کی اس قسم کی تقسیم ک ا سبب یہ ھے کہ اس وقت ان حضرت(ع) کی وجہ سے کثرت سے فتوحا ت ہوں گی جن سے غنائم اورمال وثروت فراوانی سے حا صل ہوگا اور آپ اس وقت اپنی سخاوت اور بے نیاز ی کا اس طرح مظاھرہ فرمائیں گے، اس کے بعد کھتے ھیں : سنن ترمذی و ابی واؤد میں ایک حدیث کے ضمن میں اس خلیفہ کا نام (مھدی) مرقوم ھے، اس کے بعد اس حدیث کو سنن ترمذ ی سے نقل کرتے ھیں کہ رسول(ص) نے فرمایا :قیامت واقع نھیں ہوگی جب تک میرے اھل بیت ( خاندان )سے میرا ھمنام، جانشین ظاھر ھو کر عرب پر مسلط نہ ھو جائے۔
اس کے بعد نووی کھتے ھیں :
ترمذی نے اس حدیث کو صحیح جانا ھے اور سنن داوٴد میں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی تحریر ھے : ” وہ خلیفہ اس زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔“
۴۔ امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ھیکہ آنحضرت نے فرمایا:
”کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ اِبنُ مَرْیَم فِیکُم وَاِمامُکم مِنْکُمْ“[15]
تمھارا اس وقت خوشی سے کیا حال ہوگا جب ابن مریم حضرت عیسی تمھارے درمیان نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہوگا؟
ابن حجر نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ھے کہ امام شافعی اپنی کتاب ”المناقب“ میں تحریر کرتے ھیں
اس امت میں امام مھدی (ع)کا وجود اور آپ کا حضرت عیسی (ع) کو نماز پڑھانا حد تواتر کے طور پر ثابت ھے۔[16]
ابن حجر اس کے بعد کھتے ھیں :
بدر الدین عینی اس حدیث کی مفصل شرح کرنے کے بعد اس طرح نتیجہ گیری کرتے ھیں :
”حضرت عیسی (ع) کا اس امت مسلمہ کے امام مھدی(ع) کے پیچھے قیامت سے نزدیک آخری زمانہ میں نماز پڑھنا ،اس بات کی دلیل ھے کہ جو لوگ قائل ھیں کہ زمین کبھی حجت خد ا سے خالی نھیں ، وہ درست ھے اور ان کا یہ عقیده حق بجانب ھے۔“[17]
اور امام نووی”کتاب تہذیب الاسماء“ میں کلمہٴعیسیٰ کے ذیل میں تحریر کرتے ھیں:
” حضرت عیسیٰ(ع) کا آخری زمانہ میں امام مھدی(ع) کے پیچھے نماز پڑھنے کیلئے آنا اسلام کی تائید اور تصدیق کی خاطر ھے ،نہ کہ اپنی نبوت اور مسیحت کو بیان کرنے کے لئے اور خدا وند متعال حضرت عیسیٰ(ع) کو امام مھدی (ع) کے پیچھے نماز پڑھواکر رسول (ص)اکرم کے احترام میں اس امت اسلام کو قابل افتخار بنانا چاھتا ھے۔“[18]
قارئین محترم! یہ تھی چند حدیثیں جوصحیحین میں وارد ہوئی ھیں ،جن سے بعض عقیدہٴتشیع کی تائیدہوتی ھے،لیکن مذکورہ مطالب کو صحیح بخاری اورصحیح مسلم کے بعض متعصب شا رحین اور عصر حا ضر کے چند نام نھاد سنی مصنفین ہضم کرنے سے قاصر نظر آتے ھیں (اورنہ جانے کیوں ان مطالب کی بنا پر عارضہٴ شکم ِ درد میں مبتلا دکھائی دیتے ھیں!)اور بجائے اس کے کہ یہ لوگ ان حدیثوں کے مفہوم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے،انھوں نے ایسی ایسی الٹی،سیدھی،ضد و نقیض اور غیر قابل ِ قبول توجیھات و تاویلات نقل کی ھیں جو صریحا عقل و نقل کے خلاف ھیں ۔
چنانچہ عصرحا ضر کے بعض محققین جب ان توجیھات کے فساد کی طرف متوجہ ھو ئے تو انھوں نے سرے سے مذکورہ حدیثوں کی شرح کرنے سے گریز کرتے ہوئے ایک دوسرا راستہ اپنایا! مثلاً شیخ محمود ابوریہ اپنی کتاب میں اس حدیث کی شرح کرنے سے گریز کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ھیں :
”یہ روایات مشکل ترین حدیثوں میں سے ھیں،جن کا سمجھنا بھت دشوار ھے، بلکہ اس کے واقعی مفہوم کو درک کرنا ھمارے امکان میں ھے ھی نھیں، لہٰذا ان حدیثوں کی تشریح کے بجائے ھ میں اپنا گرانقدروقت اور اپنی قیمتی عمر دوسرے مفیدعلمی مطالب میں صرف کر نی چاھیئے۔‘ ‘[19]
عرض موٴلف
جی ھاں!جو احادیث ان کے عقیده کے خلاف ہوتی ھیں، وہ ان کے نزدیک قابل ِ بحث و تمحیث اور لائق تشریح و تو ضیح نھیں ہوا کرتیں!!ان کا واقعی مفہوم درک(ہضم ) کرنا ان کے بس میں نھیں ہوتا!!حقائق بیان کرنے سے یونھی جان چرائی جاتی ھے ،اللہ بچائے ایسے ناحق شناسوں سے ۔
_________________________
حوالاجات
[1] سورہٴ احزاب، آیت۳۳،پ۲۲۔
[2] صحیح مسلم جلد۷،کتاب فضایل الصحا بة، باب” فضائل اھل بیت النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم“ ح ۲۴۲۴۔
[3] سورہٴ آل عمران،آیت۶۱، پ۴۔
[4] صحیح مسلم جلد۷ ، کتاب فضائل الصحا بة،باب” فضائل علی علیہ السلام“ حدیث۲۴۰۴۔ ۲۴۰۵۔ ۲۴۰۶۔ ۲۴۰۷۔
مسلم نے مذکورہ روایات کو دیگر متن و طریق کے ساتھ بھی نقل کیا ھے۔
[5] صحیح مسلم ج۷،کتاب فضایل الصحا بة، باب” فضائل علی علیہ السلام“ حدیث۲۴۰۸۔
[6] مستدرک حا کم، جلد۳ ،ذکر زید بن ارقم ،ص۵۳۳۔ مسند احمد ابن حنبل ،جلد۴ ،حدیث زید بن ارقم ،ص۳۷۲ ۔
[7] سرالعالمیَنْ وکشف ما فی الدارین ، باب فی المقالة الرابعة فی ترتیب الخلافة ص۲۱ ، مولفہ امام غزالی ،مطبوعة نعمان پریس ، دوسرا ایڈیشن ، ۱۹۶۵ء ،نجف عراق۔
[8] صحیح بخاری: جلد ۸، کتاب الدعوات، باب(۳۱)” الصلاة علی النبی(ص)“حدیث ۵۹۹۶۔۵۹۹۷۔ جلد ۳ ،کتاب الانبیاء، باب” یزفون النسلان فی المشی“(آیت نمبر۹۴) حدیث۳۱۹۰۔ جلد ۶، کتاب التفسیر تفسیر، سورہ احزاب، باب۱۰” آیة ان الله و ملائکتہ یصلون علی النبی “(ص)حدیث ۵۴۲۰ ،۴۵۱۹۔ صحیح مسلم جلد۲ ،کتاب الصلوة، باب” الصلٰوة بعد التشھد علی النبی“ حدیث ۴۰۵،۴۰۶،۴۰۷۔
[9] صحیح مسلم ج۱، کتاب الصلوٰة،باب” الصلوٰت النبی(ص)بعد التشھد“ح ۴۰۵، ۴۰۶،۴۰۷۔
[10] سورہٴلقمان،آیت ۲۱،پ۲۱۔
[11] صحیح بخاری ج۹، کتاب الاحکام، باب(۵۲)”استخلاف“ حدیث۶۷۹۶۔ صحیح مسلم ج۶، کتاب الامارة، باب(۱۱)” الناس تبع القریش و الخلافة فی قریش“حدیث ۱۸۲۱۔
[12] صحیح مسلم ج ۶ ،کتاب الامارہ ،باب۱حدیث۱۸۲۱۔(کتاب الامارة کی حدیث نمبر۹) ۔
[13] صحیح مسلم جلد۸ ،کتاب الفتن ،باب” لاتقوم الساعة حتی یمر الرجل…“ حدیث۲۹۱۳۔۲۹۱۴۔
[14] صحیح مسلم جلد۸ ،کتاب الفتن، باب ”لاتقوم الساعة حتی یمر الرجل…“ حدیث۲۹۱۳،۲۹۱۴۔
[15] صحیح بخاری جلد۴ ،کتاب الانبیاء ،باب ”نزول عیسی ابن مریم “حدیث ۳۲۶۵۔
[16] فتح ا لباری شرحا لبخاری ج۷ ،کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی : واذکر فی الکتاب مریم …ص ۳۰۵۔
[17] عمدة القاری جلد۱۶ ،کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی : واذکر فی الکتاب مریم …۔
[18] الا صابة جلد۴،عیسی المسیح بن مریم الصدیقة بنت عمران ، ص۶۳۸۔
[19] اضواء علی السنة المحمدیہ ، مصنفہ، شیخ محمود ابوریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں