بدھ، 12 مارچ، 2014

حضرت امام علی رضا عليہ السلام حصہ دوئم


شہرطوس میں آپ کانزول وورود

جب اس سفرمیں چلتے چلتے شہرطوس پہنچے تووہاںدیکھاکہ ایک پہاڑسے لوگ پتھرتراش کرہانڈی وغیرہ بناتے ہیں آپ اس سے ٹیک لگا کرکھڑے ہوگئے اورآپ نے اس کے نرم ہونے کی دعاکی وہاں کے باشندوں کاکہناہے کہ اس پہاڑکاپتھربالکل نرم ہوگیااوربڑی آسانی سے برتن بننے لگے۔

امام رضا کادارالخلافہ مرومیں نزول

امام علیہ السلام طے مراحل اورقطع منازل کرنے کے بعد جب مروپہنچے جسے سکندرذوالقرنین نے بروایت معجم البلدان آبادکیاتھا اورجواس وقت دارالسلنطت تھا تومامون نے چندروزضیافت تکریم کے مراسم اداکرنے کے بعد قبول خلافت کاسوال پیش کیا حضرت نے اس سے اسی طرح انکارکیا جس طرح امیرالمومنین چوتھے موقعہ پرخلافت پیش کئے جانے کے وقت انکارفرمارہے تھے مامون کوخلافت سے دستبردارہونا ،درحقیقت منظورنہ تھا ورنہ وہ امام کواسی پرمجبورکرتا۔

چنانچہ جب حضرت نے خلافت کے قبول کرنے سے انکارفرمایا،تواس نے ولی عہدی کاسوال پیش کیا حضرت اس کے بھی انجام سے ناواقف نہ تھے نیزبخوشی جابرحکومت کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا آپ کے خاندانی اصول کے خلاف تھا حضرت نے اس سے بھی انکارفرمایا مگراس پرمامون کااصرارجبرکی حدتک پہنچ گیا اوراس نے صاف کہہ دیاکہ ”لابدمن قبولک“ اگرآپ اس کومنظورنہیں کرسکتے تواس وقت آپ کواپنی جان سے ہاتھ دھوناپڑے گا جان کاخطرہ قبول کیاجاسکتاہے جب مذہبی مفادکاقیام جان دینے پرموقوف ہوورنہ حفاظت جان شریعت اسلام کابنیادی حکم ہے امام نے فرمایا، یہ ہے تومیں مجبورا قبول کرتاہوں مگرکاروبارسلطنت میں بالکل دخل نہ دوں گا ہاں اگرکسی بات میں مجھ سے مشورہ لیاجائے تونیک مشورہ ضروردوں گا ۔

اس کے بعدیہ ولی عہدی صرف برائے نام سلطنت وقت کے ایک ڈھکوسلے سے زیادہ کوئی وقعت نہ رکھتی تھی جس سے ممکن ہے کچھ عرصہ تک سیاسی مقصد میں کامیابی حاصل کرلی گئی ہومگرامام کی حیثیت اپنے فرایض کے انجام دینے میں بالکل وہ تھی جوان کے پیش روحضرت علی مرتضی اپنے زمانے کے بااقتدارطاقتوں کے ساتھ اختیارکرچکے تھے جس طرح ان کاکبھی کبھی مشورہ دیدنا ان حکومتوں کو صحیح وناجائزنہیں بناسکتا ویسے ہی امام رضاعلیہ السلام کااس نوعیت سے ولیعہدی کاقبول فرمانا اس سلطنت کے جوازکاباعث نہیں ہوسکتاتھا صرف مامون کی ایک راج ہٹ تھی جوسیاسی غرض کے پیش نظراس طرح پوری ہوگئی مگرامام نے اپنے دامن کوسلطنت ظلم کے اقدامات اورنظم ونسق سے بالکل الگ رکھا۔

تواریخ میں ہے کہ مامون نے حضرت امام رضاعلیہ السلام سے کہاکہ شرطیں قبول کرلیں اس کے بعدآپ نے دونوں ہاتھوں کوآسمان کی طرف بلندکئے اور بارگاہ اہدیت میں عرض کی پروردگار توجانتاہے کہ اس امرکومیں نے بہ مجبوروناچاری اورخوف قتل کی وجہ سے قبول کرلیاہے۔

خداونداتومیرے اس فعل پرمجھ سے اسی طرح مواخذہ نہ کرناجس طرح جناب یوسف اورجناب دانیال سے بازپرس نہیں فرمائی اس کے بعدکہامیرے پالنے والے تیرے عہدکے سواکوئی عہدنہیں اورتیری عطاکی ہوئی حیثیت کے سواکوئی عزت نہیں خدایاتومجھے اپنے دین پرقائم رہنے ک توفیق عنایت فرما، خواجہ محمدپارساکاکہناہے کہ ولی عہدی کے وقت آپ رورہے تھے ملاحسین لکھتے ہیں کہ مامون کی طرف سے اصراراور حضرت کی طرف سے انکارکاسلسلہ دوماہ جاری رہا اس کے بعدولی عہدی قبول کی گئی۔

جلسلہ ولی عہدی کا انعقاد

یکم رمضان 201 ھجری بروزپنجشنبہ جلسہ ولیعہدی منعقدہوا،بڑی شان وشوکت اورتزک واحتشام کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی سب سے پہلے مامون نے اپنے بیٹے عباس کواشارہ کیااوراس نے بیعت کی، پھراورلوگ بیعت سے شرفیاب ہوئے سونے اورچاندی کے سکے سرمبارک پرنثارہوئے اورتمام ارکان سلطنت اورملازمین کوانعامات تقسیم ہوئے مامون نے حکم دیاکہ حضرت کے نام کاسکہ تیارکیاجائے، چنانچہ درہم ودیناپرحضرت کے نام کانقش ہوا، اورتمام قلمرومیں وہ سکہ چلایاگیاجمعہ کے خطبہ میں حضرت کانام نامی داخل کیاگیا۔

یہ ظاہرہے کہ حضرت کے نام مبارک کاسکہ عقیدت مندوں کے لیے تبرک اورضمانت کی حیثیت رکھتاتھا اس سکہ کوسفروحضرمیں حرزجان کے لیے ساتھ رکھنا یقینی امرتھا صاحب جنات الخلودنے بحروبرکے سفرمیں تحفظ کے لیے آپ کے توسل کاذکرکیاہے اسی کی یادگارمیں بطورضمانت بعقیدہ تحفظ  اب بھی سفر میں بازوپرامام ضامن ثامن کاپیسہ باندھتے ہیں۔

علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ 33 ہزارعباسی مردوزن وغیرہ کی موجودگی میں آپ کوولی عہدخلافت بنادیاگیا اس کے بعداس نے تمام حاضرین سے حضرت امام علی رضاکے لیے بیعت لی اوردربارکالباس بجائے سیاہ کے سبزقراردیاگیا جوسادات کاامتیازی لباس تھا فوج کی وردی بھی بدل دی گئی تمام ملک میں احکام شاہی نافذہوئے کہ مامون کے بعدعلی رضاتخت وتاج کے مالک ہیں اوران کالقب ہے ”الرضامن آل محمد“ حسن بن سہل کے نام بھی فرمان گیاکہ ان کے لیے بیعت عام لی جائے اورعموما اہل فوج وعمائدبنی ہاشم سبزرنگ کے پھرہرے اورسبزکلاہ وقبائیں استعمال کریں۔

علامہ شریف جرجانی نے لکھاہے کہ قبول ولی عہدی کے متعلق جوتحریرحضرت امام علی رضاعلیہ السلام نے مامون کولکھی اس کامضمون یہ تھا کہ ”چونکہ مامون نے ہمارے ان حقوق کوتسلیم کرلیاہے جن کوان کے آباؤاجدادنے نہیں پہچاناتھا لہذامیں نے اس کی درخواست ولی عہدی قبول کرلی اگرچہ جفروجامعہ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ کام انجام کونہ پہنچے گا“۔

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ قبول ولیعہدی کے سلسلہ میں آپ نے جوکچھ تحریرفرمایاتھا اس پرگواہ کی حیثیت سے فضل بن سہل ،سہل بن فضل ،یحی بن اکثم، عبداللہ بن طاہر، ثمامہ بن اشرس،بشربن معتمر،حمادبن نعمان وغیرہم کے دستخط تھے انہوں نے یہ بھی لکھاہے کہ امام رضاعلیہ السلام نے اس جلسہ ولیعہدی میں اپنے مخصوص عقیدت مندوں کوقریب بلاکرکان میں فرمایاتھا کہ اس تقریب پردل میں خوشی کوجگہ نہ دو.
(صواعق محرقہ ص 122 ، مطالب السول ص 282 ، نورالابصار ص 142 ، اعلام الوری ص193 ، کشف الغمہ ص 112 ، جنات الخلودص 31 ،المامون ص82 ، وسیلت النجات ص 379 ، ارحج المطالب ص454 ، مسندامام رضا ص 7 ، تاریخ طبری ،شرح مواقف ،تاریخ آئمہ ص 472 ،تاریخ احمدی ص354 ،شواہدالنبوت، ینابع المودت ،فصل الخطاب ،حلیت الاولیا، روضت الصفا، عیون اخباررضا، دمعہ ساکبہ ، سوانح امام رضا۔)

حضرت امام رضاعلیہ السلام کی ولی عہدی کادشمنوں پراثر

تاریخ اسلام میں ہے کہ امام رضاعلیہ السلام کی ولی عہدی کی خبرسن کربغدادکے عباسی یہ خیال کرکے کہ خلافت ہمارے خاندان سے نکل چکی ہے کمال دل سوختہ ہوئے اورانہوں نے ابراہیم بن مہدی کوبغداکے تخت پربٹھادیااورمحرم 202 ہجری میں مامون کی معزولی کااعلان کردیا بغداداوراس کے نواح میں بالکل بد نظمی پھیل گئی. غنڈے دن دھاڑے لوٹ مارکرنے لگے جنوبی عراق اورحجازمیں بھی معاملات کی حالت ایسی ہی خراب ہورہی تھی فضل وزیراعظم سب خبروں کوبادشاہ سے پوشیدہ رکھتاتھا مگرامام رضاعلیہ السلام نے اسے خبردارکردیا بادشاہ وزیرکی طرف سے بدگمان ہوگیامامون کوجب ان شورشوں کی خبرہوئی توبغدادکی طرف روانہ ہوگیا سرخس میں پہنچ کراس نے فضل بن سہل وزیرسلطنت کو حمام میں قتل کرادیا
(تاریخ اسلام جلد 1 ص 41) ۔

شمس العلماء شبلی نعمانی حضرت امام رضاکی بیعت ولی عہدی کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس انوکھے حکم نے بغدادمیں ایک قیامت انگیزہلچل مچادی اورمامون سے مخالفت کاپیمانہ لبریزہوگیا بعضوں نے (سبزرنگ وغیرہ کے اختیارکرنے کے حکم کی بہ جبرتعمیل کی مگرعام صدایہی تھی کہ خلافت خاندان عباس کے دائرہ سے باہرنہیں جاسکتی (المامون ص 82) ۔

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام جب ولی عہدخلافت مقررکئے جانے لگے مامون کے حاشیہ نشین سخت بدظن اوردل تنگ ہوگئے اوران پریہ خوف چھاگیاکہ اب خلافت بنی عباس سے نکل کر بنی فاطمہ کی طرف چلی جائے گی اوراسی تصورنے انہیں حضرت امام رضاعلیہ السلام سے سخت متنفرکردیا
(نورالابصارص 143) ۔

واقعہ حجاب

مورخین لکھتے ہیں کہ اس واقعہ ولی عہدی سے لوگوں میں اس درجہ بغض وحسداورکینہ پیداہوگیاکہ وہ لوگ معمولی معمولی باتوں پراس کامظاہرہ کردیتے تھے علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام کاولی عہدی کے بعدیہ اصول تھا کہ آپ مامون سے اکثرملنے کے لیے تشریف لے جایاکرتے تھے اورہوتایہ تھا کہ جب آپ دہلیزکے قریب پہنچتے تھے توتمام دربان اورخدام آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے اورسلام کرکے پردہ در اٹھایاکرتے تھے ایک دن سب نے مل کرطے کرلیا کہ کوئی پردہ نہ اٹھائے چنانچہ ایساہی ہوا جب امام علیہ السلام تشریف لائے توحجاب نے پردہ نہیں اٹھایامطلب یہ تھا کہ اس سے امام کی توہین ہوگی، لیکن اللہ کے ولی کوکوئی ذلیل نہیں کرسکتاجب ایساواقعہ آیاتوایک تندہوانے پرداہ اٹھایااورامام داخل دربارہوگئے پھرجب آپ واپس تشریف لائے توہوانے بدستورپردہ اٹھانے میں سبقت کی اسی طرح کئی دن تک ہوتارہا بالآخرہ وہ سب کے سب شرمندہ ہوگئے اورامام علیہ السلام کی خدمت مثل سابق کرنے لگے
(نورالابصارص 143 ،مطالب السؤل ص282 ،شواہدالنبوت ص197) ۔

حضرت امام رضاعلیہ السلام اورنمازعید

ولی عہدی کوابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ عیدکاموقع آگیامامون نے حضرت سے کہلابھیجاکہ آپ سواری پرجاکرلوگوں کونمازعیدپڑھائیں حضرت نے فرمایاکہ میں نے پہلے ہی تم سے شرط کرلی ہے کہ بادشاہت اورحکومت کے کسی کام میں حصہ نہیں لوں گااورنہ اس کے قریب جاؤں گا اس وجہ سے تم مجھ کو اس نمازعیدسے بھی معاف کردوتوبہترہے ورنہ میں نمازعیدکے لے اسی طرح جاؤں گا جس طرح میرے جدامجدحضرت محمد رسول اللہ صلعم تشریف لے جایاکرتے تھے مامون نے کہاکہ آپ کواختیارہے جس طرح چاہیں جائیں اس کے بعداس نے سواروں اورپیادوں کوحکم دیاکہ حضرت کے دروازے پہ حاضرہوں۔

جب یہ خبرشہرمیں مشہورہوئی تولوگ عیدکے روزسڑکوں اورچھتوں پرحضرت کی سواری کی شان دیکھنے کوجمع ہوگئے، اکی بھیڑلگ گئی عورتوں اورلڑکوں سب کوآرزو تھی کہ حضرت کی زیارت کریں اورآفتاب نکلنے کے بعدحضرت نے غسل کیااورکپڑے بدلے، سفیدعمامہ سرپرباندھا،عطرلگایااورعصاہاتھ میں لے کرعیدگاہ جانے پرآمادہ ہوگئے اس کے بعدنوکروں اورغلاموں کوحکم دیاکہ تم بھی غسل کرکے کپڑے بدل لواوراسی طرح پیدل چلو۔

اس انتظام کے بعدحضرت گھرسے باہرنکلے پائجامہ آدھی پنڈلی تک اٹھالیا کپڑوں کوسمیٹ لیا، ننگے پاؤں ہوگئے اورپھردوتین قدم چل  کرکھڑے ہوگئے اورسرکو آسمان کی طرف بلند کرکے کہا اللہ اکبراللہ اکبر، حضرت کے ساتھ نوکروں، غلاموں اورفوج کے سپاہیوں نے بھی تکبرکہی راوی کابیان ہے کہ جب امام رضاعلیہ السلام تکبیرکہتے تھے توہم لوگوں کومعلوم ہوتاتھا کہ درودیواراورزمین آسمان سے حضرت کی تکبیرکاجواب سنائی دیتاہے اس ہیبت کودیکھ کریہ حالت ہوئی کہ سب لوگ اورخود لشکروالے زمین پرگرپڑے سب کی حالت بدل گئی لوگوں نے چھریوں سے اپنی جوتیوں کے کل تسمے کاٹ دئیے اورجلدی جلدی جوتیاں پھینک کرننگے پاؤں ہوگئے شہربھرکے لوگ چینخ چینخ کررونے لگے ایک کہرام بپاہوگیا۔

اس کی خبرمامون کوبھی ہوگئی اس کے وزیرفضل بن سہل نے اس سے کہاکہ اگرامام رضااسی حالت سے عیدگاہ تک پہنچ جائیں گے تومعلوم نہیں کیافتنہ اورہنگام برپاہوجائے گا سب لوگ ان کی طرف ہوجائیں گے اورہم نہیں جانتے کہ ہم لوگ کیسے بچیں گے وزیرکی اس تقریرپرمتنبہ ہوکرمامون نے اپنے پاس سے ایک شخص کوحضرت کی خدمت میں بھیج کرکہلابھیجاکہ مجھ سے غلطی ہوگئی جوآپ سے عیدگاہ جانے کے لیے کہا اس سے آپ کوزحمت ہورہی ہے اورمیں آپ کی مشقت کوپسندنہیں کرتا بہترہے کہ آپ واپس چلے آئیں اورعیدگاہ جانے کی زحمت نہ فرمائیں پہلے جوشخص نمازپڑھاتاتھا وہ پڑھائے گا یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام واپس تشریف لائے اورنمازعیدنہ پڑھاسکے
(وسیلت النجات ص382 ، مطالب السول ص 282 واصول کافی)۔

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں ،فرجع علی رضاالی بیتہ ورکب المامون فصلی بالناس “ کہ امام رضاعلیہ السلام دولت سراکوواپس تشریف لائے اورمامون نے جاکرنماز پڑھائی
(نورالابصارص 143) ۔

حضرت امام رضا کی مدح سرائی اوردعبل خزاعی اورابونواس

عرب کے مشہورشاعرجناب دعبل خزاعی کانام ابوعلی دعبل ابن علی بن زرین ہے .دعبل آل محمدکے مدح خاص تھے اورابونواس ہارون رشیدامین ومامون کاندیم تھا۔

دعبل خزاعی کے بے شماراشعارمدح آل محمدمیں موجودہیں علامہ شبلنجی تحریرفرماتے ہیں کہ جس زمانہ میں حضرت امام رضاعلیہ السلام ولی عہدسطلنت تھے دعبل خزاعی ایک دن دارالسلطنت مرومیں آپ سے ملے اورانہوں نے کہاکہ حضورمیں نے آپ کی مدح میں 120 اشعارپرمشتمل ایک قصیدہ لکھاہے میری تمناہے میں اسے سب سے پہلے حضورہی کوسناؤں حضرت نے فرمایابہتر ہے، پڑھو:

جب دعبل قصیدہ پڑھ چکے توامام علیہ السلام نے ایک سواشرفی کی تھیلی انہیں عطافرمائی دعبل نے شکریہ اداکرنے کے بعد اسے واپس کرتے ہوئے کہاکہ مولا میں نے یہ قصیدہ قربت الی اللہ کہاہے میں کوئی عطیہ نہیں چاہتا خدانے مجھے سب کچھ دے رکھاہے البتہ حضوراگرمجھے جسم سے اترے ہوئے کپڑے عنایت فرما دیں ،تووہ میری عین خواہش کے مطابق ہوگا آپ نے ایک جبہ عطاکرتے ہوئے فرمایاکہ اس رقم کوبھی رکھ لو یہ تمہارے کام آئے گی دعبل نے اسے لے لیا۔

تھوڑے عرصہ کے بعد دعبل مروسے عراق جانے والے قافلے کے ساتھ ہوکر روانہ ہوئے راستہ میں چوروں نے اورڈاکوں نے حملہ کرکے سب کچھ لوٹ لیا اورچند آدمیوں کوگرفتاربھی کرلیا جن میں دعبل بھی تھے ڈاکوؤں نے مالی تقسیم کرتے وقت دعبل کاایک شعرپڑھا دعبل نے پوچھایہ کس کاشعرہے انہوں نے کسی کاہوگا دعبل نے کہاکہ یہ میراشعرہے اس کے بعدانہوں نے ساراقصیدہ سنادیا ان لوگوں نے دعبل کے صدقے میں سب کوچھوڑدیا اورسب کامال واپس کردیا یہاں تک کہ یہ نوبت آئی کہ ان لوگوں نے واقعہ سن کرامام رضاکادیاہواجبہ خریدناچاہا،اوراس کی قیمت ایک ہزاردینارلگائی دعبل نے جواب دیا کہ یہ میں نے بطورتبرک اپنے پاس رکھاہے اسے فروخت نہ کروں گا بالآخرباربار گرفتارہونے کے بعد انہوں نے اسے ایک ہزاراشرفی پرفروخت کردیا ۔

علامہ شبلنجی بحوالہ ابوصلت ہروی لکھتے ہیں کہ دعبل نے جب امام رضاکے سامنے یہ قصیدہ پڑھاتھاتوآپ رورہے تھے اورآپ نے دوبیتوں کے بارے میں فرمایاتھاکہ یہ اشعارالہامی ہیں (نورالابصارص 138) ۔

علامہ عبدالرحمن لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے قصیدہ سنتے ہوئے نفس زکیہ کے تذکرہ پرفرمایاکہ ائے دعبل اس جگہ ایک شعرکااوراضافہ کرو، تاکہ تمہاراقصیدہ مکمل ہوجائے انہوں نے عرض کی مولافرمائیے ارشادہوا:

دعبل نے گھبراکے پوچھامولا، یہ کس کی قبرہوگی، جس کاحضورنے حوالہ دیاہے فرمایاائے دعبل یہ قبرمیری ہوگی اورمیں عنقریب اس عالم میں غربت میں جب کہ میرے اعزاواقرباء بال بچے مدینہ میں ہیں شہیدکردیاجاؤں گا اورمیری قبریہیں بنے گی اے دعبل جومیری زیارت کو آئے گاجنت میں میرے ہمراہ ہوگا
(شواہدالنبوت ص199) ۔

ابونواس کے متعلق علماء اسلام لکھتے ہیں کہ ایک دن اس کے دوستوں نے اس سے کہا کہ تم اکثرشعارکہتے ہواورپھرمدح بھی کیاکرتے ہولیکن افسوس کی بات ہے کہ تم نے حضرت امام رضاعلیہ السلام کی مدح میں اب تک کوئی شعرنہیں کہااس نے جواب دیاکہ حضرت کی جلالت قدرہی نے مجھے مدح سرائی سے روکاہے میری ہمت نہیں پڑتی کہ آپ کی مدح کروں یہ کہہ کراس نے چندشعرپڑھے جس کاترجمہ یہ ہے:

لوگوں نے مجھ سے کہاکہ عمدہ کلام کے ہررنگ اورمذاق کے اشعارسب لوگوں سے سننے والوں کے سامنے موتی جھڑتے ہیں پھرتم نے حضرت کے فضائل ومناقب میں کوئی قصیدہ کیوں نہیں کہا؟ تومیں نے سب کے جواب میں کہہ دیاکہ بھائیوجن جلیل الشان امام کے آبائے کرام کے خادم جبرئیل ایسے فرشتے ہوں ان کی مدح کرنامجھ سے ممکن نہیں ہے ۔

اس کے بعداس نے چنداشعارآپ کی مدح میں لکھے جس کاترجمہ یہ ہے:

یہ حضرات آئمہ طاہرین خداکے پاک وپاکیزہ کئے ہوئے ہیں اوران کالباس بھی طیب وطاہر ہے جہاں بھی ان کاذکرہوتاہے وہاں ان پردرودکانعرہ بلندہوجاتاہے جب حسب ونسب بیان ہوتے وقت کوئی شخص علوی خاندان کانہ نکلے تواس کوابتدائے زمانہ سے کوئی فخرکی بات نہیں ملے گی جب خدانے سب سے زیادہ شریف بھی قراردیااورسب پرفضیلت بھی دی، میں سچ کہتاہوں کہ آپ حضرات ہی ملااعلی ہیں اورآپ ہی کے پاس قرآن مجیدکاعلم اورپاروں  کے مطالب ومفاہیم ہیں“
(وفیات الاعیان جلد 1 ص 322 ،نورالابصارص 138 طبع مصر)۔

مذاہب عالم کے علماء سے حضرت امام رضاکے علمی مناظرے

مامون رشیدکوخودبھی علمی ذوق تھا اس نے ولی عہدی کے مرحلہ کوطے کرنے کے بعدحضرت امام علی رضاعلیہ السلام سے کافی استفادہ کیاپھراپنے ذوق کے تقاضے پراس نے مذاہب عالم کے علماء کودعوت مناظرہ دی اورہرطرف سے علماء کوطلب کرکے حضرت امام رضاعلیہ السلام سے مقابلہ کرایاعہدمامون میں امام علیہ السلام سے جس قدرمناظرے ہوئے ہیں ان کی تفصیل اکثرکتب میں موجودہے اس سلسلہ میں احتجاجی طبرسی ،بحار،دمعہ ساکبہ، وغیرہ جیسی کتابیں دیکھی جاسکتی ہیں ،میں اختصارکے پیش نظرصرف دوچارمناظرے لکھتاہوں۔

عالم نصاری سے مناظرہ

مامون رشیدکے عہدمیں نصاری کاایک بہت بڑاعالم ومناظرشہرت عامہ رکھتاتھا جس کانام ”جاثلیق“ تھااس کی عادت تھی کہ متکلمین اسلام سے کہا کرتاتھا کہ ہم تم دونوں نبوت عیسی اوران کی کتاب پرمتفق ہیں اوراس بات پربھی اتفاق رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پرزندہ ہیں اختلاف ہے توصرف نبوت محمد مصطفی صلعم میں ہے تم ان کی نبوت کااعتقادرکھتے ہو اورہمیں انکارہے پھرہم تم ان کی وفات پرمتفق ہوگئے ہیں اب ایسی صورت میں کونسی دلیل تمہارے پاس باقی ہے جوہمارے لیے حجت قرارپائے یہ کلام سن کراکثرمناظرخاموش ہوجایاکرتے تھے ۔

مامون رشیدکے اشارے پرایک دن وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام سے بھی ہم کلام ہواموقع مناظرہ میں اس نے مذکورہ سوال دھراتے ہوئے کہاکہ پہلے آپ یہ فرمائیں کہ حضرت عیسی کی نبوت اوران کی کتاب دونوں پرآپ کاایمان واعتقادہے یانہیں آپ نے ارشادفرمایا، میں اس عیسی کی نبوت کایقینا اعتقادرکھتاہوں جس نے ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلعم کی نبوت کی اپنے حوارین کوبشارت دی ہے اوراس کتاب کی تصدیق کرتاہوں جس میں یہ بشارت درج ہے جوعیسائی اس کے معترف نہیں اورجوکتاب اس کی شارح اورمصدق نہیں اس پرمیراایمان نہیں ہے یہ جواب سن کرجاثلیق خاموش ہوگیا۔

پھرآپ نے ارشادفرمایاکہ ائے جاثلیق ہم اس عیسی کوجس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی بشارت دی ،نبی برحق جانتے ہیں مگرتم ان کی تنقیص کرتے ہو، اورکہتے ہو کہ وہ نمازروزہ کے پابندنہ تھے جاثلیق نے کہا کہ ہم تویہ نہیں کہتے وہ توہمیشہ قائم اللیل اورصائم النہاررہاکرتے تھے آپ نے فرمایاعیسی توبنابراعتقادنصاری خودمعاذاللہ خداتھے تویہ روزہ اورنمازکس کے لیے کرتے تھے یہ سن کرجاثلیق مبہوت ہوگیااورکوئی جواب نہ دے سکا۔

البتہ یہ کہنے لگاکہ جومردوں کوزندہ کرے جذامی کوشفادے نابیناکوبیناکردے اورپانی پرچلے کیاوہ اس کاسزاوارنہیں کہ اس کی پرستش کی جائے اوراسے معبود سمجھاجائے آپ نے فرمایاالیسع بھی پانی پرچلتے تھے اندھے کوڑی کوشفادیتے تھے اسی طرح حزقیل پیغمبرنے35 ہزارانسانوں کوساٹھ برس کے بعدزندہ کیا تھا قوم اسرائیل کے بہت سے لوگ طاعون کے خوف سے اپنے گھرچھوڑکرباہرچلے گئے تھے حق تعالی نے ایک ساعت میں سب کوماردیا بہت دنوں کے بعدایک نبی استخوان ہائے بوسیدہ پرگزرے توخداوندتعالی نے ان پروحی نازل کی کہ انہیں آوازدوانہوں نے کہاکہ ائے استخوان بالیہ”استخوان مردہ) اٹھ کھڑے ہووہ سب بحکم خدااٹھ کھڑے ہوئے اسی طرح حضرت ابراہیم کے پرندوں کو زندہ کرنے اورحضرت موسی کے کوہ طورپرلے جانے اوررسول خداکے احیاء اموات فرمانے کاحوالہ دے کرفرمایاکہ ان چیزوں پرتورات انجیل اورقرآن مجیدکی شہادت موجودہے اگرمردوں کوزندہ کرنے سے انسان خداہوسکتا ہے تو یہ سب انبیاء بھی خداہونے کے مستحق ہیں یہ سن کروہ چپ ہوگیااوراس نے اسلام قبول کرنے کے سوااورکوئی چارہ نہ دیکھا۔

عالم یہودسے مناظرہ

عالم یہودمیں سے ایک عالم جس کانام”راس الجالوت“ تھا کواپنے علم پربڑا غروراورتکبرونازتھاوہ کسی کوبھی اپنی نظرمیں نہ لاتاتھاایک دن اس کامناظرہ اورمباحثہ فرزندرسول حضرت امام رضاعلیہ السلام سے ہوگیاآپ سے گفتگوکے بعداس نے اپنے علم کی حقیقت جانی اورسمجھاکہ میں خودفریبی میں مبتلاہوں۔

امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہونے کے بعد اس نے اپنے خیال کے مطابق بہت سخت سوالات کئے جن کے تسلی بخش اوراطمینان آفرین جوابات سے بہرہ ورہوا جب وہ سوالات کرچکاتو امام علیہ السلام نے فرمایاکہ اے راس الجالوت ! تم تورات کی اس عبارت کاکیامطلب سمجھتے ہوکہ ”آیانورسیناسے روشن ہوا جبل ساعیرسے اورظاہرہواکوہ فاران سے“ اس نے کہاکہ اسے ہم نے پڑھاضرورہے لیکن اس کی تشریح سے واقف نہیں ہوں۔

آپ نے فرمایاکہ نورسے وحی مرادہے طورسیناسے وہ پہاڑمرادہے جس پرحضرت موسی خداسے کلام کرتے تھے جبل ساعیرسے محل ومقام عیسی علیہ السلام مراد ہے کوہ فاران سے جبل مکہ مرادہے جوشہرسے ایک منزل کے فاصلے پرواقع ہے پھرفرمایاتم نے حضرت موسی کی یہ وصیتت دیکھی ہے کہ تمہارے پاس بنی اخوان سے ایک نبی آئے گا اس کی بات ماننااوراس کے قول کی تصدیق کرنااس نے کہا ہاں دیکھی ہے آپ نے پوچھاکہ بنی اخوان سے کون مرادہے اس نے کہا معلوم نہیں، آپ نے فرمایاکہ وہ اولاداسماعیل ہیں، کیوں کہ وہ حضرت ابراہیم کے ایک بیٹے ہیں اوربنی اسرائیل کے مورث اعلی حضرت اسحاق بن ابراہیم کے بھائی ہیں اورانہیں سے حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

اس کے بعدجبل فاران والی بشارت کی تشریح فرماکرکہاکہ شعیانبی کاقول توریت میں مذکورہے کہ میں نے دوسواردیکھے کہ جن کے پرتوسے دنیاروشن ہوگئی، ان میں ایک گدھے پرسواری کئے تھااورایک اونٹ پر، اے راس الجالوت تم بتلاسکتے ہوکہ اس سے کون مرادہیں؟ اس نے انکارکیا، آپ نے فرمایاکہ راکب الحمارسے حضرت عیسی اورراکب الجمل سے مرادحضرت محمدمصطفی صلعم ہیں۔

پھرآپ نے فرمایاکہ تم حضرت حبقوق نبی کے اس قول سے واقف ہو کہ خدااپنابیان جبل فاران سے لایااورتمام آسمان حمدالہی کی (آوازوں) سے بھرگئے اسکی امت اوراس کے لشکرکے سوارخشکی اورتری میں جنگ کرینگے ان پرایک کتاب آئے گی اورسب کچھ بیت المقدس کی خرابی کے بعدہوگا اس کے بعدارشادفرمایاکہ یہ بتاؤکہ تمہارے پاس حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت کی کیادلیل ہے اس نے کہاکہ ان سے وہ امورظاہرہوئے ،جوان سے پہلے کے انبیاء پرنہیں ہوئے تھے مثلادریائے نیل کاشگافتہ ہونا،عصاکاسانپ بن جانا، ایک پتھرسے بارہ چشمہ جاری ہوجانااوریدبیضاوغیرہ ،

آپ نے فرمایاکہ جوبھی اس قسم کے معجزات کوظاہرکرے اورنبوت کامدعی ہو،اس کی تصدیق کرنی چاہیے اس نے کہانہیں آپ نے فرمایاکیوں؟ کہااس لیے کہ موسی کوجوقربت یامنزلت حق تعالی کے نزدیک تھی وہ کسی کونہیں ہوئی لہذاہم پرواجب ہے کہ جب تک کوئی شخص بعینہ وہی معجزات وکرامات نہ دکھلائے ہم اس کی نبوت کااقرارنہ کریں ،ارشادفرمایاکہ تم موسی سے پہلے انبیاء مرسلین کی نبوت کاکس طرح اقرارکرتے ہو حالانکہ انہوں نے نہ کوئی دریاشگافتہ کیا، نہ کسی پتھرسے چشمے نکالے نہ ان کاہاتھ روشن ہوا،ا ورنہ ان کاعصااژدھابنا،راس الجالوت نے کہاکہ جب ایسے اموروعلامات خاص طورسے ان سے ظاہرہوں جن کے اظہارسے عموماتمام خلائق عاجزہو،تووہ اگرچہ بعینہ ایسے معجزات ہوں یانہ ہوں ان کی تصدیق ہم پرواجب ہوجائے گی حضرت امام رضاعلیہ السلام نے فرمایاکہ حضرت عیسی بھی مردوں کوزندہ کرتے تھے کورمادرنوزادکوبینابناتے تھے مبروص کوشفادیتے تھے مٹی کی چڑیابناکرہوامیں اڑاتے تھے وہ یہ امورہیں جن سے عام لوگ عاجزہیں پھرتم ان کوپیغمبرکیوں نہیں مانتے؟

راس الجالوت نے کہاکہ لوگ ایساکہتے ہیں، مگرہم نے ان کوایساکرتے دیکھانہیں ہے فرمایاتوکیاآیات ومعجزات موسی کوتم نے بچشم خوددیکھاہے آخروہ بھی تومعتبرلوگوں کی زبانی سناہی ہوگاویساہی اگرعیس کے معجزات ثقہ اورمعتبرلوگوں سے سنو،توتم کوان کی نبوت پرایمان لاناچاہئے اوربالکل اسی طرح حضرت محمدمصطفی کی نبوت ورسالت کااقرارآیات ومعجزات کی روشنی میں کرناچاہیئے سنوان کاعظیم معجزہ قرآن مجیدہے جس کی فصاحت وبلاغت کاجواب قیامت تک نہیں دیاجاسکے گا یہ سن کروہ خاموش ہوگیا۔

عالم مجوسی سے مناظرہ

مجوسی یعنی آتش پرست کاایک مشہورعالم ہربذاکبر حضرت امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرعلمی گفتگوکرنے لگاآپ نے اس کے سوالات کے مکمل جوابات عنایت فرمائے اس کے بعداس سے سوال کیاکہ تمہارے پاس رزتشت کی نبوت کی کیادلیل ہے اس نے کہاکہ انہوں نے ہماری ایسی چیزوں کی طرف رہبری فرمائی ہے جس کی طرف پہلے کسی نے رہنمائی نہیں کی تھی ہمارے اسلاف کہاکرتے تھے کہ زرتشت نے ہمارے لیے وہ ا مورمباح کئے ہیں کہ ان سے پہلے کسی نے نہیں کئے تھے آپ نے فرمایاکہ تم کو اس امرمیں کیاعذرہوسکتاہے کہ کوئی شخص کسی نبی اوررسول کے فضائل وکمالات تم پرروشن کرے اورتم اس کے ماننے میں پس وپیش کرو، مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم نے معتبرلوگوں سے سن کرزرتشت کی نبوت مان لی اسی طرح معتبرلوگوں سے سن کرانبیاء اوررسل کی نبوت کے ماننے میں تمہیں کیاعذرہوسکتاہے؟ یہ سن کروہ خاموش ہوگیا۔

آپ کی تصانیف

علماء نے آپ کی تصانیف میں صحیفتہ الرضا،صحیفتہ الرضویہ، طب الرضااور مسندامام رضاکاحوالہ دیاہے اوربتایاہے کہ یہ آپ کی تصانیف ہیں صحیفتہ الرضاکاذکر علامہ مجلسی علامہ طبرسی اورعلامہ زمخشری نے کیاہے اس کااردوترجمہ حکیم اکرام الرضالکھنوی نے طبع کرایاتھااب جوتقریباناپیدہے۔


مامون رشیدعباسی اورحضرت امام رضاعلیہ السلام کی شہادت

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ غیرمعصوم ارباب اقتدارہوس حکمرانی میں کسی قسم کاصرفہ نہیں کرتے اگرحصول حکومت یاتحفظ حکمرانی میں باپ بیٹے، ماں بیٹی یامقدس سے مقدس ترین ہستیوں کوبھینٹ چڑھادے ،تووہ اس کی پرواہ نہیں کیاکرتے اسی بناء پرعرب میں مثل کے طورپرکہاجاتاہے کہ الملک عقیم، علامہ وحیدالزمان حیدرآبادی لکھتے ہیں کہ الملک عقیم بادشاہت بانجھ ہے یعنی بادشاہت حاصل کرنے کے لیے باپ بیٹے کی پرواہ نہیں کرتابیٹاباپ کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ ایسابھی ہوجاتاہے کہ بیٹاباپ کومارکرخودبادشاہ بن جاتاہے (انواراللغت  پارہ 8 ص 173) ۔

اب اس ہوس حکمرانی میں کسی مذہب اورعقیدہ کاسوال نہیں ہروہ شخص جواقتدارکابھوکاہوگاوہ اس قسم کی حرکتیں کرے گا۔

مثال کے لیے اسلامی تواریخ کی روشنی میں حضوررسول کریم کی وفات کے فورابعدکے واقعات کودیکھیے جناب سیدہ کے مصائب وآلام اوروجہ شہادت پرغور کیجیے امام حسن کے ساتھ برتاؤپرغورفرمائیے ،واقعہ کربلااورشہادت کے واقعات کوملاحظہ کیجیے ان امورسے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ حکمرانی کے لیے کیاکیا مظالم کیے جاسکتے ہیں اورکیسی کیسی ہستیوں کی جانیں لی جاسکتی ہیں اورکیاکچھ کیاجاسکتاہے تواریخ میں موجودہے کہ مامون رشیدعباسی کی دادی نے اپنے بیٹے خلیفہ ہادی کو 24 سال کی عمرمیں زہردلوکرماردیامامون رشیدکے باپ ہارون رشیدنے اپنے وزیروں کے خاندان کوتباہ وبربادکردیا
(المامون ص 20) ۔

مروان کی بیوی نے اپنے خاوندکوبسترخواب پردوتکیوں سے گلاگھٹواکرمروادیا ولیدبن عبدالملک نے فرزندرسول امام زین العابدین کوزہرسے شہیدکیا..ہشام بن عبدالملک نے امام محمدباقرکوزہرسے شہیدکیا ..امام جعفرصادق کومنصوردوانقی نے زہرسے شہیدکیا .. امام موسی کاظم کوہارون رشیدنے زہرسے شہیدکیا .. امام علی رضاعلیہ السلام کومامون عباسی نے زہردیے کرشہیدکیا...امام محمدتقی کومعتصم باللہ نے ام الفضل بنت مامون کے ذریعہ سے زہردلوایا...  امام علی نقی کومعتمدعباسی نے زہرسے شہیدکیا ... اسی طرح امام حسن عسکری کوبھی زہرسے شہیدکیاگیا غرضیکہ حکومت کے سلسلے میں یہ سب کچھ ہوتارہتاہے . اورنگ زیب کودیکھیے اس نے اپنے بھائی کوقتل کرادااوراپنے باپ کوسلطنت سے محروم کرکے قیدکردیاتھا اسی نے شہیدثالث حضرت نوراللہ شوشتری (آگرہ)کی زبان گدی سے کھچوائی تھی بہرحال جس طرح سب کے ساتھ ہوتارہا حضرت امام رضاعلیہ السلام کے ساتھ بھی ہوا۔

تاریخ شہادت

حضرت امام رضاعلیہ السلام کی شہادت 23/ ذی قعدہ 203 ہجری مطابق818 ء یوم جمعہ کوبمقام طوس واقع ہوئی ہے
 (جلاء العیون ص 280 ،انوراالنعمانیہ ص 127 ، جنات الخلود ص 31) ۔

آپ کے پاس اس وقت عزاء واقربا اولادوغیرہ میں سے کوئی نہ تھا ایک توآپ خودمدینہ سے غریب الوطن ہوکرآئے دوسرے یہ کہ دارالسلطنت مرومیں بھی آپ نے وفات پائی بلکہ آپ سفر کی حالت میں بعالم غربت فوت ہوئے اسی لیے آپ کوغریب ا لغرباء کہتے ہیں۔

واقعہ شہادت کے متعلق مورخین نے لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے فرمایاتھا کہ ”فمایقتلنی واللہ غیرہ“ خداکی قسم مجھے مامون کے سواء کوئی اورقتل نہیں کرے گا اورمیں صبرکرنے پرمجبورہوں .
(دمعہ ساکبہ جلد 3 ص 71) ۔علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ ہرثمہ بن اعین سے آپ نے اپنی وفات کی تفصیل بتلائی تھی اوریہ بھی بتایاتھا کہ انگوراورانارمیں مجھے زہردیاجائے گا(نورالابصارص144) ۔


علامہ معاصرلکھتے ہیں کہ ایک روزمامون نے حضرت امام رضاعلیہ السلام کواپنے گلے سے لگایااورپاس بٹھاکران کی خدمت میں بہترین انگوروں کاایک طبق رکھا اوراس میں سے ایک خوشااٹھاکرآپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہاابن رسول اللہ یہ انگورنہایت ہی عمدہ ہیں تناول فرمائیے آپ نے یہ کہتے ہوئے انکارفرمایاکہ جنت کے انگوراس سے بہترہیں اس نے شدید اصرارکیااورآپ نے اس میں سے تین دانے کھالیے یہ انگورکے دانے زہرآلودتھے انگورکھانے کے بعد آپ اٹھ کھڑے ہوئے ،مامون نے پوچھاآپ کہاں جارہے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا جہاں تونے بھیجاہے وہاں جارہاہوں قیام گاہ پرپہنچنے کے بعد آپ تین دن تک تڑپتے رہے .
 (تاریخ آئمہ ص 674) ۔

شہادت امام رضاکے موقع پرامام محمدتقی کاخراسان پہنچنا

ابومخنف کابیان ہے کہ جب حضرت امام رضاعلیہ السلام کو خراسان میں زہردیدیااورآپ بسترعلالت پرکروٹیں لینے لگے ،توخداوندعالم نے امام محمدتقی کووہاں بھیجنے کابندوبست کیاچنانچہ امام محمدتقی جب کہ مسجدمدینہ میں مشغول عبادت تھے ایک ہاتف غیبی نے آوازدی کہ ”اگرمی خواہی پدرخودرازندہ دریابی قدم درراہ نہ“ اگرآپ اپنے والدبزرگوارسے ان کی زندگی میں ملناچاہتے ہیں توفوراخراسان کے لیے روانہ ہوجائیں یہ آوازسنناتھا کہ آپ مسجدسے برآمدہوکر داخل خانہ ہوئے اورآپ نے اپنے اعزاواقرباکوشہادت پدرسے آگاہ کیا ،گھرمیں کہرام برپاہوگیااس کے بعدآپ وہاں سے روانہ ہوکرایک ساعت میں خراسان پہنچے وہاں پہنچ کردیکھاکہ دربان نے دروازہ بندکررکھاہے آپ نے فرمایاکہ دروازہ کھول دو میں اپنے پدربزرگوارکی خدمت میں جاناچاہتاہوں آپ کی آوازسنتے ہی امام علیہ السلام خوداپنے بسترسے اٹھے اوردروزاہ کھول کرامام محمدتقی کواپنے گلے سے لگالیا اوربے پناہ گریہ کیا امام محمدتقی پدربزرگوارکی بے بسی ،بے کسی اورغربت پرآنسوبہانے لگے پھرامام علیہ السلام تبرکات امامت فرزندکے سپردکرکے 50 برس کی عمر میں راہی ملک بقاہوگئے”اناللہ واناالیہ راجعون“۔
(کنزالانساب ص 95) ۔


انتقال کے بعدحضرت امام محمدتقی علیہ السلام باعجازتشریف لائے اورنمازجنازہ پڑھائی اورآپ واپس چلے گئے بادشاہ نے بڑی کوشش کی کہ آپ سے ملے مگرنہ مل سکا
(مطالب السول ص 288)

اس کے بعدآپ کوبمقام طوس محلہ سنابادمیں دفن کردیاگیا جوآج کل مشہدمقدس کے نام سے مشہورہے اوراطراف عالم کے عقیدت مندوں کے حوائج کامرکزہے۔

حضرت امام رضاعلیہ السلام کے بعض مرویات وارشادات

حضرت امام رضاعلیہ السلام سے بے شماراحادیث مروی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:

1 ۔ بچوں کے لیے ماں کے دودھ سے بہترکوئی دودھ نہیں ۔

2 ۔ سرکہ بہترین سالن ہے جس کے گھرمیں سرکہ ہوگاوہ محتاج نہ ہوگا۔

3 ۔ ہرانارمیں ایک دانہ جنت کاہوتاہے

4 ۔ منقی صفراکودرست کرتاہے بلغم کودورکرتاہے پٹھوں کومضبوط کرتاہے نفس کوپاکیزہ بناتااوررنج وغم کودورکرتاہے

5 ۔شہدمیں شفاہے ،اگرکوئی شہدہدیہ کرے توواپس نہ کرو ۶ ۔ گلاب جنت کے پھولوں کا سردار ہے۔

6 ۔ بنفشہ کاتیل سرمیں لگاناچاہئے اس کی تاثیرگرمیوں میں سرداورسردیوں میں گرم ہوتی ہے۔

7 ۔ جوزیتون کاتیل سرمیں لگائے یاکھائے اس کے پاس چالیس دن تک شیطان نہ آئے گا۔

8 ۔ صلہ رحم اورپڑوسیوں کے ساتھ اچھاسلوک کرنے سے مال میں زیادتی ہوتی ہے۔

9 ۔ اپنے بچوں کاساتویں دن ختنہ کردیاکرواس سے صحت ٹھیک ہوتی ہے اورجسم پرکوشت چڑھتاہے ۔

10 ۔ جمعہ کے دن روزہ رکھنا دس روزوں کے برابرہے۔

11 ۔ جوکسی عورت کامہرنہ دے یامزدورکی اجرت روکے یاکسی کوفروخت کردے وہ بخشانہ جاوے گا۔

12 ۔ شہدکھانے اوردودھ پینے سے حافظہ بڑھتاہے۔

13 ۔ گوشت کھانے شفاہوتی ہے اورمرض دورہوتاہے۔

14 ۔ کھانے کی ابتداء نمک سے کرنی چاہئے کیونکہ اس سے ستربیماریوں سے حفاظت ہوتی ہے جن میں جذام بھی ہے۔

15 ۔ جودنیامیں زیادہ کھائے گاقیامت میں بھوکارہے گا۔

16 ۔ مسورسترانبیاء کی پسندیدہ خوراک ہے اس سے دل نرم ہوتاہے اورآنسوبنتے ہیں ۔

 17 ۔ جوچالیس دن گوشت نہ کھائے گابداخلاق ہوجائےگا۔

18 ۔ کھاناٹھنڈاکرکے کھاناچاہئے۔

19. کھانے پیالے کے کنارے سے کھانا چاہئے۔

20 ۔ عمرطول کے لیے اچھاکھانا،اچھی جوتی پہننااورقرض سے بچنا،کثرت جماع سے پرہیزکرنا مفیدہے۔

21 ۔ اچھے اخلاق والاپیغمبراسلام کے ساتھ قیامت میں ہوگا۔

 22 ۔ جنت میں متقی اورحسن خلق والوں کی اورجہنم میں پیٹواور زناکاروں کی کثرت ہوگی۔

23 ۔ امام حسین کے قال بخشے نہ جائیں گے ان کابدلہ خدالے گا۔

24 ۔ حسن اورحسین علیہم السلام جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدربزرگواران سے بہترہیں۔

25 ۔ اہل بیت کی مثال سفینہ نوح جیسی ہے ،نجات وہی پائے گا جواس پرسوارہوگا۔

26 ۔ ہرمومن کاکوئی نہ کوئی پڑوسی اذیت کاباعث ضرورہوگا۔

27 ۔ خداسے روزی صدقہ دیے کرمانگو۔

28 ۔ سب سے پہلے جنت میں وہ شہدااورعیال دارجائیں گے جوپرہیزگارہوں گے اورسب سے پہلے جہنم میں حاکم غیرعادل اورمالدارجائیں گے
(مسندامام رضاطبع مصر 1341 ہجری)

29۔ بالوں کی سفیدی کاسرکے اگلے حصے سے شروع ہونا سلامتی اوراقبال مندی کی دلیل ہے اوررخساروں ڈاڑھی کے اطراف سے شروع ہونا سخاوت کی علامت ہے اورگیسوؤں سے شروع ہونا شجاعت کانشان ہے اورگدی سے شروع ہونانحوست ہے۔

30 ۔ قضاوقدرکے بارے میں آپ نے فضیل بن سہیل کے جواب میں فرمایاکہ انسان نہ بالکل مجبورہے اورنہ بالکل آزادہے
(نورالابصار ص 140)

(مضمون کی تیاری کے لئے اسلامی تاریخ و احادیث کی کتابوں کے علاوہ مختلف ویب سائٹس اور وکیپیڈیا سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ) ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں