ہفتہ، 15 مارچ، 2014

كربلا ايك لازوال تحريك

امام حسين عليہ السلام نے قيام كيا، تاكہ اس عظيم فريضے پر عمل كريں، جس كا معني اسلامي سماج ميں بڑي گمراہي كا مقابلہ، اسلامي نظام كا تحفظ اور سماج كي تعمير نو ہے۔ يہ كام قيام امر بالمعروف و نہي عن المنكر كے ذريعے ہوتا ہے، بلكہ يہ امر بالمعروف اور نہي عن المنكر كا ايك بڑا مصداق ہے، البتہ اس فريضے پر عمل درآمد كبهي حكومت پر اور كبهي شہادت پر منتج ہوتا ہے۔ امام حسين عليہ السلام دونوں كے لئے تيار تهے۔ امام حسين عليہ السلام نے عملي لحاظ سے پوري تاريخ اسلام كو ايك بہت بڑا سبق ديا ہے اور درحقيقت اسلام كو اپنے اور ديگر تمام زمانوں ميں محفوظ كر ديا۔ اب جہاں بهي اس قسم كي بدعنواني ہوگي، امام حسين وہاں زندہ ہيں اور اپني روش اور عمل سے كہہ رہے ہيں كہ آپ كو كيا كرنا ہے۔ اسي لئے امام حسين اور كربلا كي ياد كو زندہ ركها جانا چاہئے، كيونكہ كربلا كي ياد ہمارے سامنے امر بالمعروف و نہي عن المنكر كے درس كا عملي نمونہ پيش كرتي ہے۔
امام حسين عليہ السلام كي عظيم ہستي اور لازوال تحريك كے بارے ميں انسان جتنا بهي سوچتا ہے، غور و فكر اور تحقيق و مطالعہ كا ميدان اتنا ہي وسيع و عريض نظر آتا ہے۔ اس عظيم و تعجب خيز واقعے كے بارے ميں اب بهي بہت سي باتيں ہيں كہ جن پر ہميں غور كرنا چاہئے اور اس پر بات كرني چاہئے۔ اگر باريك بيني سے اس واقعے پر نظر ڈاليں تو شايد يہ كہا جاسكے كہ انسان امام حسين عليہ السلام كي چند مہينوں پر محيط تحريك سے، جس كي شروعات مدينے سے مكہ كي سمت سفر سے ہوئي اور اختتام كربلا ميں جام شہادت نوش كرنے پر ہوا، ہزاروں درس حاصل كرسكتا ہے۔
اگر ہم امام حسين عليہ السلام كے كاموں كو باريك بيني سے ديكهيں تو اس سے سو باب اور سو عنوان نكل سكتے ہيں، جن ميں سے ہر عنوان اور ہر باب ايك قوم ، ايك تاريخ اور ايك ملك كے لئے، نظام چلانے اور خدا كي قربت كے حصول كا باعث بن سكتا ہے۔

يہي وجہ ہے كہ حسين ابن علي (ع) مقدس ہستيوں كے درميان سورج كي طرح چمك رہے ہيں۔ انبياء، اولياء، آئمہ، شہداء اور صالحين پر نظر ڈاليں! اگر وہ لوگ چاند و ستاروں كي مانند ہيں تو امام حسين (ع) ان كے بيچ سورج كي طرح چمك رہے ہيں۔ امام حسين عليہ السلام كي تحريك ميں ايك اہم و اصلي سبق يہ ہے كہ امام حسين (ع) نے قيام كيوں كيا۔؟ امام حسين عليہ السلام سے كہا گيا: مدينہ اور مكہ ميں آپ كي بہت عزت كي جاتي ہے اور يمن ميں شيعوں كي بڑي تعداد ہے، كسي ايسي جگہ چلے جائيں، جہاں آپ يزيد سے كوئي مطلب نہ ركهيں، اور يزيد بهي آپ سے كوئي مطلب نہ ركهے۔ آپ كے اتنے مريد و شيعہ ہيں، جائيں آرام دہ زندگي گزاريں، عبادت كريں، تبليغ كريں!

آپ نے قيام كيوں كيا؟ معاملہ كيا ہے؟ كچه لوگ يہ كہنا پسند كرتے ہيں كہ امام (ع) يزيد كي فاسد و بدعنوان حكومت كو گرا كر خود ايك حكومت بنانے كا ارادہ ركهتے تهے۔ يہ امام حسين عليہ السلام كے قيام كا ہدف تها۔ يہ بات، آدهي صحيح ہے۔ اگر اس بات كا مطلب يہ ہے كہ آپ نے حكومت كي تشكيل كے لئے قيام كيا تو جو حكومت كي تشكيل كي غرض سے آگے بڑهتا ہے، وہ وہيں تك جاتا ہے، جہاں وہ يہ سمجهتا ہے كہ كام ہو جانے والا ہے۔ جيسے ہي اسے احساس ہوتا ہے كہ اس كام كي انجام دہي كا امكان نہيں ہے تو اس كا فرض يہ ہوتا ہے كہ وہ واپس لوٹ جائے، اگر ہدف حكومت كي تشكيل ہو تو وہاں تك انسان كے لئے آگے بڑهنا جائز ہے اور جہاں سے آگے بڑهنا ممكن نہ ہو، وہيں سے واپس لوٹ جانا چاہئے۔ اب جو لوگ يہ كہتے ہيں كہ امام (ع) كے قيام كا مقصد حق پر مبني اسلامي حكومت كا قيام تها، اگر ان كي مراد يہ ہے تو يہ صحيح نہيں ہے، كيونكہ امام حسين عليہ السلام كي پوري تحريك ميں يہ چيز دكهائي نہيں ديتي۔

دوسري طرف كہا جاتا ہے كہ نہيں جناب، حكومت كيا ہے، امام كو علم تها كہ وہ حكومت كي تشكيل ميں كامياب نہيں ہوں گے، بلكہ وہ تو قتل اور شہيد ہونے كے لئے آئے تهے! يہ بات كہ امام (ع) نے شہيد ہونے كے لئے قيام كيا، كوئي نئي بات نہيں ہے۔ انہوں نے سوچا كہ اب رك كر كچه نہيں كيا جا سكتا تو چلو شہيد ہو كر ہي كچه كر ديا جائے! يہ بات بهي ہماري اسلامي كتب و مدارك ميں نہيں ہے كہ جاؤ خود كو موت كے منہ ميں ڈال دو۔ ہماري يہاں ايسا كچه نہيں ہے۔ مقدس شريعت ميں ہم جس قسم كي شہادت سے آشنا ہيں اور جس كي نشاندہي قرآن مجيد اور روايتوں ميں كي گئي ہے، اس كا معني يہ ہے كہ انسان كسي واجب يا اہم مقصد كے لئے نكلے اور اس راہ ميں موت كے لئے بهي تيار رہے۔ يہ وہي صحيح اسلامي شہادت ہے، ليكن يہ صورت كہ آدمي نكل پڑے تاكہ مارا جائے اور شاعرانہ لفظوں ميں اس كا خون رنگ لائے اور اس كے چهيٹے قاتل كے دامن پر پڑيں تو يہ ايسي باتيں نہيں ہيں، جن كا تعلق اس عظيم واقعے سے ہے۔ اس ميں بهي كچه حقائق ہيں، ليكن امام حسين عليہ السلام كا مقصد يہ نہيں ہے۔

مختصر يہ كہ نہ ہم يہ كہہ سكتے ہيں كہ امام حسين عليہ السلام نے تشكيل حكومت كے لئے قيام كيا تها اور ان كا مقصد حكومت كي تشكيل تها اور نہ ہي يہ كہہ سكتے ہيں كہ امام نے شہيد ہونے كے لئے قيام كيا تها بلكہ بات كچه اور ہے۔ جن لوگوں كا يہ كہنا ہے كہ مقصد حكومت تها يا مقصد شہادت تها تو ان لوگوں نے مقصد اور نتيجہ كو خلط ملط كر ديا ہے۔ جي نہيں، مقصد يہ سب نہيں تها۔ امام حسين عليہ السلام كا مقصد دوسرا تها، ليكن اس دوسرے مقصد تك رسائي كے لئے ايك ايسے كام كي ضرورت تهي، جس كا شہادت يا حكومت ميں سے كوئي ايك نتيجہ سامنے آتا۔ البتہ آپ دونوں كے لئے تيار تهے۔

انہوں نے حكومت كے مقدمات بهي فراہم كئے اور كر رہے تهے اور اسي طرح شہادت كے مقدمات بهي فراہم كئے اور كر رہے تهے۔ اس كے لئے تيار ہو رہے تهے اور اس كے لئے بهي۔ جو بهي ہوتا صحيح ہوتا اور كوئي مسئلہ نہ ہوتا، ليكن ان ميں سے كوئي بهي مقصد نہيں تها بلكہ دو نتائج تهے، مقصد كچه اور تها۔ اگر ہم امام حسين عليہ السلام كے مقصد كو بيان كرنا چاہيں تو ہميں اس طرح سے كہنا چاہئے كہ آپ كا مقصد تها ديني واجبات ميں سے ايك عظيم واجب پر عمل اور وہ ايسا واجب عمل تها جسے امام حسين عليہ السلام سے قبل كسي نے بهي يہاں تك كہ خود پيغمبر اعظم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے بهي انجام نہيں ديا تها۔ نہ پيغمبر اسلام (ص) نے اس واجب كو انجام ديا تها، نہ اميرالمومنين(ع) نے اور نہ ہي امام حسن مجتبي (ع) نے۔

يہ ايك ايسا واجب تها جس كا اسلام كے اقدار، افكار اور علم كے ڈهانچے ميں نہايت اہم كردار ہے۔ حالانكہ يہ واجب، نہايت اہم اور بنيادي ہے، ليكن پهر بهي امام حسين عليہ السلام كے زمانے تك اس واجب پر عمل نہيں ہوا تها۔ امام حسين عليہ السلام كو اس واجب پر عمل كرنا تها، تاكہ پوري تاريخ كے لئے ايك سبق ہو جائے۔ مثال كے طور پر پيغمبر اعظم (ص) نے حكومت تشكيل دي اور تشكيل حكومت پوري تاريخ اسلام كے لئے درس بن گئي۔ پيغمبر (ص) نے صرف اس كا حكم ہي صادر نہيں كيا بلكہ اللہ كي راہ ميں جہاد كيا اور يہ تاريخ اسلام اور بشريت كے لئے ہميشہ كے لئے ايك درس بن گيا۔ اس واجب پر بهي امام حسين عليہ السلام كے ذريعے عمل ہونا تها، تاكہ مسلمانوں اور پوري تاريخ كے لئے عملي سبق ہو جائے۔

اب سوال يہ ہے كہ كيوں امام حسين عليہ السلام يہ كام كريں؟ كيونكہ اس واجب پر عمل كے حالات، امام حسين عليہ السلام كے زمانے ميں ہي فراہم ہوئے تهے۔ اگر يہ حالات امام حسين عليہ السلام كے زمانے ميں پيش نہيں آتے، مثال كے طور پر امام علي نقي عليہ السلام كے زمانے ميں يہ حالات پيش آتے۔ اگر امام حسن مجتبي يا امام صادق عليهما السلام كے زمانے ميں بهي پيش آتے تو يہ لوگ بهي اس واجب پر عمل كرتے۔ امام حسين عليہ السلام كے زمانے سے قبل يہ حالات پيش نہيں آئے اور امام حسين عليہ السلام كے بعد بهي تمام ديگر ائمہ كے دور ميں غيبت تك يہ حالات پيش نہيں آئے!

اس وقت فطري طور پر اس واجب پر عمل درآمد كا ان دو ميں سے كوئي ايك نتيجہ ہوتا: يا اس كا نتيجہ يہ ہوتا كہ امام حسين عليہ السلام اقتدار و حكومت تك پہنچ جاتے۔ امام حسين عليہ السلام تيار تهے۔ اگر آپ كو اقتدار حاصل بهي ہو جاتا تو آپ اسے مضبوطي سے تهام ليتے اور پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم اور امير المومنين (ع) كي طرح سماج كي رہنمائي كرتے، ليكن يہ بهي ہوسكتا تها كہ اس واجب پر عمل درآمد سے حكومت حاصل نہيں ہوتي، شہادت ملتي، اس كے لئے بهي امام حسين عليہ السلام تيار تهے۔

امير معاويہ كے بعد اقتدار جس نے سنبهالا، وہ ايسا شخص تها جو ظاہري اسلام كا بهي خيال نہيں ركهتا تها! شراب پيتا تها اور غلط كام انجام ديتا تها۔ علي الاعلان جنسي بدعنواني كرتا تها، قرآن كے خلاف بات كرتا تها، قرآن اور دين كي رد ميں اشعار پڑهتا تها اور كهل كر اسلام كي مخالفت كرتا تها، ليكن چونكہ اس كا نام مسلمانوں كے خليفہ كے طور پر ليا جاتا تها، اس لئے وہ اسلام كے نام كو ہٹانا نہيں چاہتا تها۔ وہ اسلام پر عمل كرنے والا تها نہ اس كے دل ميں اسلام سے ہمدردي تهي، بلكہ وہ اپنے اعمال سے، اس گڑهے كي طرح، جس سے ہميشہ گندہ پاني نكلے اور اطراف كے پاني كو آلودہ كرے، اسلامي سماج كو گندہ كر رہا تها، اس كے وجود سے پورا اسلامي سماج گندگي سے پر ہو جاتا!

بدعنوان حاكم ايسا ہوتا ہے، كيونكہ حاكم، چوٹي پر ہوتا ہے اور اس سے جو كچه نكلتا ہے، وہيں پر نہيں ٹهہرتا، بلكہ نيچے گرتا ہے اور ہر جگہ چها جاتا ہے! عام لوگ، اپني جگہ پر ہوتے ہيں، البتہ جس كا بالاتر مقام ہوتا ہے، جس كي سماج ميں زيادہ حيثيت ہوتي ہے، اس كي بدعنواني كا نقصان اتنا ہي زيادہ ہوتا ہے۔ عام لوگوں كي بدعنواني ممكن ہے خود ان كے لئے يا ان كے اطراف كے كچه لوگوں پر موثر ہو، ليكن جو ليڈر و رہنما ہوتا ہے اگر وہ بدعنوان ہو جائے، تو اس كي بدعنواني پهيلتي اور پورے ماحول كو خراب كر ديتي ہے۔ اسي طرح سے اگر وہ نيك ہوتا ہے تو اس كي نيكي پهيلتي ہے اور ہر جگہ اس كے اثرات ديكهے جاتے ہيں۔

ايسا شخص اتني بدعنوانيوں كے ساته، معاويہ كے بعد پيغمبر اعظم (ص) كا خليفہ بن بيٹها ہے! اس سے بڑا انحراف كيا ہوسكتا ہے۔ امام حسين عليہ السلام نے قيام كيا، تاكہ اس عظيم فريضے پر عمل كريں، جس كا معني اسلامي سماج ميں بڑي گمراہي كا مقابلہ، اسلامي نظام كا تحفظ اور سماج كي تعمير نو ہے۔ يہ كام قيام امر بالمعروف و نہي عن المنكر كے ذريعے ہوتا ہے، بلكہ يہ امر بالمعروف اور نہي عن المنكر كا ايك بڑا مصداق ہے، البتہ اس فريضے پر عمل درآمد كبهي حكومت پر اور كبهي شہادت پر منتج ہوتا ہے۔ امام حسين عليہ السلام دونوں كے لئے تيار تهے۔ امام حسين عليہ السلام نے عملي لحاظ سے پوري تاريخ اسلام كو ايك بہت بڑا سبق ديا ہے اور درحقيقت اسلام كو اپنے اور ديگر تمام زمانوں ميں محفوظ كر ديا۔ اب جہاں بهي اس قسم كي بدعنواني ہوگي، امام حسين وہاں زندہ ہيں اور اپني روش اور عمل سے كہہ رہے ہيں كہ آپ كو كيا كرنا ہے۔ اسي لئے امام حسين اور كربلا كي ياد كو زندہ ركها جانا چاہئے، كيونكہ كربلا كي ياد ہمارے سامنے امر بالمعروف و نہي عن المنكر كے درس كا عملي نمونہ پيش كرتي ہے۔

طول تاريخ ميں اسلامي ممالك ميں اس قسم كے حالات كئي بار پيش آئے۔ آج بهي شايد عالم اسلام ميں ايسے بہت سے علاقے ہيں، جہاں ايسے حالات ہيں كہ جن ميں مسلمانوں كو امر بالمعروف و نہي عن المنكر كے فريضے پر عمل كرنا چاہئے، اگر وہ يہ كام كرليں تو اس كا مطلب يہ ہوگا كہ انہوں نے اپنا فرض پورا كر ديا اور اسلام كو وسعت دي اور اس كي بقا كو يقيني بنا ديا۔ جو قوم فكري اور نظرياتي قيد ميں ہو، جس قوم كے رہنماء بدعنوان ہوں، جس قوم پر دين كے دشمن حكومت كر رہے ہوں اور اس كے مستقبل اور فيصلوں كے ذمہ دار ہوں، تو اسے امام حسين عليہ السلام كو اپنا آئيڈيل بنانا چاہيے، كيونكہ نواسہ رسول، جگرگوشہ بتول نے بتا ديا ہے كہ ان حالات ميں كيا فريضہ ادا كرنا چاہئے۔

تحرير: ڈاكٹر آر اے سيد

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں