ہفتہ، 15 مارچ، 2014

بی بی نرجس خاتون تاریخ کی با عظمت شخصیت


مقدمہ:


 تمام حمد و ثنا ہے اس خالق مطلق کے لئے جس نے انسان کو خلق کرنے کے بعد لا وارث نہیں چھوڑا بلکہ اس کو منزل کمال تک پہنچانے کے لئے ھادیان برحق اور رہنمایان طریق ھدایت کا سلسلہ رکھا، تاکہ انسان منزل کمال تک پہنچ جائے۔یہی وجہ تھی کہ خدا نے ہمارے لئے’’ایک لاکھ ۲۴ ہزار ‘‘انبیاء کا سلسلہ کھاائمہ معصومینؑ کو بطور ھادی و رھنما ہمارے لئے منتخب کیا۔ یہ موضوع چونکہ بہت کم لکھا اور پڑھا جاتا ہے لہٰذا لوگوں کی توجہ بھی کم ہوتی ہے۔فی الحال گفتگو حضرت ولی عصر حجۃ ابن الحسن ؑ کی والدۂ ماجدہ کے متعلق ہے اس کے باوجود کہ یہ موضوع تاریخی و معنوی دونوں پہلؤں کا حامل ہے لیکن پھر بھی اس پر بہت کم قلم اٹھایا گیا ہے ۔موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس حقیر نے آپ کی مادر گرامی حضرت نرجس خاتون کی تاریخی اور روایتی پہلؤں کو اس مختصر سے مقالہ میں قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے۔


حضرت بی بی نرجس کا مختصر تعارف:


آپ کے لئے اس سے بڑا شرف کیا ہو سکتا ہے کہ آپ ایک معصوم کی ماں ہیں۔ آپ کے حسب و نسب کے بارے میں تمام شیعہ مؤرخین اور بعض اھل سنت مؤرخین کا اتفاقی نظریہ ہے کہ آپ کا نسبی تعلق ایک شہنشاہی اور دینی گھرانے سے تھا جسکی اصل عیسیٰ مسیح سے ملتی تھی اور آپ امام حسن عسکریؑ کی زوجیت میں آئیں اگرچہ یہاں پر ایک مفصل تاریخی گفتگو ہے جسکو بیان کیا جائیگا آپ نے امام حسن عسکریؑ کی زوجیت میں اس طرح زندگی گزاری کی آپ کو مختلف القاب سے پکارا جانے لگا تھا وہ القاب یہ ہیں۔ نرجس،سوسن،صیقل،صقیل،حکیمہ، ملیکہ ،حدیثہ، ریحانہ اور خمط(۲) ان القاب کو پڑھنے کے بعد بی بی کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس لئے کہ ائمہ کے گھروں میں بے جا القاب کسی کو نہیں دئے جاتے اسکے کوئی نہ کوئی پس پردہ راز ضرور پوشیدہ ہوتا ہے۔


بی بی نرجس کے القاب کی وجہ تسمیہ:


بی بی کے القاب کے سلسلہ میں محققین نے مخلتف نظریات دئے ہیں دو نظریات مندرجہ ذیل ہیں۔


بی بی سے بے لوث محبت سبب بنی کہ امام انہیں اچھے اور بہترین نام سے پکاریں اور اگر آپ غور کریں تو بی بی کے سارے نام پھولوں سے لئے گئے ہیں چوں کہ سارے لوگ ان ناموں کو سنے ہوئے تھے لہٰذا پہچاننے میں دقت نہیں ہوتی تھی ۔

بعض محققین کہتے ہیں کہ چونکہ نرجس خاتون سے امام مہدی کی ولادت ہونے والی تھی اس بناء پر دوسری کنیزوں سے الگ تھیں اور حکومت انکی دشمن تھی لہٰذا اپنی اور اپنے اس محترم بیٹے کی حفاظت کے لئے مختلف نام رکھے تاکہ حاکمان وقت سمجھ نہ سکے کہ حاملان مھدی کون عورت ہے۔اور امام کے گھر والےبھی انکو مختلف ناموں سے پکارتے تھے تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ مختلف نام مختلف لوگوں کے ہیں نہ کہ کسی ایک فرد کے

بی بی نرجس خاتون تاریخ کی با عظمت شخصیت:

شیخ صدوق نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ حضرت نرجس امام قائم علیہ السلام کی ماں ہیں اور جنکا نام ملیکہ بنت یشوعابن قیصرالملک تھا۔ وہ روایت جو آپ کے بارے میں آئی ہے اس طرح ہے ’حدثنا محمد بن علی بن خاتم النوفلی قال: حدثنا ابو العباس احمد بن عیسیٰ الوشاؤالبغدادی قال: حدثنا احمد بن طاھرالقمی قال: حدثنا ابو الحسینؑ بن بحر شیبانی قال: وردت کربلا ستہ و ثمانین مأتین۔محمد بن بحر یشبانی کہتا ہے میں سال ۲۱۲ھ میں کربلا گیا تا کہ امام حسینؑ کی زیارت کروں زیارت کرنے کے بعد بغداد گیا تاکہ قریش کی قبروں کی زیارت کروں بغداد میں دو باعظمت شخصیتوں سے ملاقات ہوئی ایک وہ جو سلیمان بن نخاس ابو ایوب انصاری کے فرزندوں میں سے تھا اور دوسرا امام ھادی اور امام عسکری ؑ کے دوستوں میں سے تھا میں نے اس سے خواہش ظاھر کی کہ مجھے امام ھادی علیہ السلام کے کرامات اور فضائل سے آشنا کرے جو اس نےدیکھے ہیں اس نے کہا ہمارے مولا اور آقا امام ھادی مجھے تجارت اور غلام فروشی کے مسائل سے آشنا کراتے تھے اور میں بغیر انکی اجازت کے خرید و فروخت نہیں کرتا تھا ایک دن رات میں امام ھادی نے مجھے اپنے گھر بلایا تقریبا آدھی رات گزر چکی تھی میں نے کپرے پہنے اور امام کی خدمت میں پہنچا میں نے دیکھا پردے کے پیچھے امام ھادی علیہ السلام اپنے فرزند ابو محمد اور اپنی بہن حکیمہ خاتون سے محو گفتگو تھے میں بیٹھ گیا امام ھادی نے فرمایا اے بشر تم انصاری کے فرزندوں میں سے ہو اور حامی ولایت رہے ہو اور ہم اھل بیتؑ کے معتمد شخص ہو میں چاھتا ہوں تم کو ایک ایسی فضیلت سے نواز دوں جو فضیلت ہمارے کسی شیعہ کے پاس نہیں ہے تم کو ایک عصمتی راز سے مطلع کرتا ہوں اور ایک کنیز کی خریداری کے لئے تمکو وکیل بناتا ہوں بشر کہتا ہے کہ امام نے ایک خط رومی زبان میں لکھا اور اسکو لپیٹا اور اپنی انگوٹھی سے اس پر مہر لگائی اور ایک پیلے رنگ کا رومال دیا جس میں ۲۲۰ دینار تھے اور فرمایا : اے بشر اسے لو اور بغداد جاؤ اور فلاں دن ظہر کے وقت نہر فرات کے پل پر حاضر ہو جاؤ اسی وقت وہاں ایک کشتی آئے گی اسمیں بہت زیادہ اسیر ہوں گے اور انکے خریدار بنی عباس کے بھیجے ہوئے نمائندے ہوں گے اور کچھ عرب کے جوان ہوں گے اسی وقت تم ایک شخص کو دیکھو گے جسکا نام عمر بن زید ہے اور جو غلام فروشی کرتا ہے ایک کنیز بھی ہو گی جو ان صفات کی حامل ہوگی لباس حریر پہنی ہوئی ہو گی اور اپنے کو خریداروں سے دور کر رہی ہو گی اسی لمحہ تم ایک گریہ و نالہ کی بلند آواز سنو گے جو ایک نازک پردے کے پیچھے سے آرہی ہوگی اسی وقت ایک خریدار آگے بڑھے گا اور کہے گا اس کنیز کی عفت اور پاکدامنی نے مجھے جلب کر لیا ہے اس کو ۳۰۰ دینار میں مجھے دے دو وہ کنیز عربی زبان میں کہے گی کہ اگر تو حضرت سلیمان بھی ہوتا تو بھی میں تیرے طرف رغبت نہ رکھتی غلام فروش کہتا ہے کہ اے کنیز ماجرا کیا ہے ؟ کنیز کہتی ہے جلدی مت کرو کوئی ایسا خریدار ملنے دو جس سے میرے دل کو سکون ملے امام ھادی نے کہا اے بشر تم اسی وقت غلام فروش کے قریب جانا اور اسے یہ خط دے دینا اور کہنا اس خط کو اس کنیز کو دیکھائے تا کہ صاحب خط کی عظمت کا اندازہ ہو جائے بشر کہتا ہے میں نے امام ھادی کی باتوں پر عمل اور وہاں پہنچ گیا امام نے جو کچھ بھی فرمایا تھا میں نے وہاں پہ مشاھدہ کیا میں نے خط کو اس کنیز کو دے دیا جیسے ہی اسکی نگاہ اس رومی خط پہ پڑی وہ کنیز رونے لگی اور عمر بن زید سے کہا مجھے اس صاحب خط کے ہاتھ بیچ دے اگر ایسا نہیں کیا تو میں خود کو ھلاک کر دونگی بشر کہتا ہے میں نے اسی قیمت میں جو امام ھادی نے مجھے دی تھی اس کنیز کو خیریدا اور اسکو لے کر بغداد آیا میں نے دیکھا وہ کنیز کافی خوش تھی اور وہ خط جو امام نے دیا تھا اسے اپنے چہرہ سے مس کرتی تھی اور چومتی رہتی تھی میں نے کہا کافی تعجب کی بات ہے تم خط کو چوم رہی ہو اگر چہ صاحب خط سے نا آشنا ہو وہ کہتی ہے جو میں بیان کر رہی ہوں وہ سنو ’’میں ملکہ یشو عا کی لڑکی ہوں جو قیصر روم کا بیٹا ہے میری ماں حواریین میں سے ہے اور میرا نسب جناب عیسی سے ملتا ہے میرے جد قیصر روم چاہتے تھے میری شادی میرے چچا زاد بھائی سے کر دیں مگر ایسا حادثہ پیش آیا جس سے لوگ خوف زدہ ہو گئے شادی کے دن محل میں ۳۰۰ سے زیادہ لوگ موجود تھے جس میں نصاریٰ اور حواریین کے بزرگ افراد موجود تھے وہاں پہ ایک تخت سجایا گیا جو جوہرات اور موتیوں سے بھرا ہو اتھا جیسے ہی اس تخت پہ میرے چچا زاد بھائی کو لایا گیا وہ صلیب جو وہاں رکھی تھی گری اور تخت کے پائے ٹوٹ گئے میرا چچا زاد بھائی بے ہوش ہو گیا میرے جد قیصر نے بڑی کوششیں کیں مگر یہ نکاح نہ ہو سکا خوف اور ڈر کے نشان لوگوں کے چہرے سے صاف ظاہر تھے اسی رات میں نے خواب دیکھا کہ حضرت عیسیؑ مسیح اور انکے وصی شمعون اور کچھ حواریین انکے ساتھ میرے محل میں آئیں ہیں اور تخت کی جگہ ایک منبر ہے جس سے نور ساطع تھا کچھ دیر ہوئی تھی کہ میں نے دیکھا کہ حضرت محمد مصطفیؐ اور انکے وصی اور انکے کچھ فرزند محل میں داخل ہوئے جناب عیسیؑ مسیح نے معانقہ کیا حضرت حضرت محمد نے فرمایا : اے روح اللہ میں تمہارے وصی کی شمعون کی بیٹی کا رشتہ لے کر آیا ہوں اور اپنے بیٹے امام حسن عسکری ؑ کی طرف اشارہ کیا حضرت عیسیؑ نے شمعون سے کہا : اے شمعون اس سے بڑا شرف کیا ہو سکتا ہے کہ خاتم الانبیاء تیری لڑکی کا رشتہ لے کر آئے ہیں شمعون نے فورااپنی رضایت کااعلان کیا حضرت محمدؐ منبر پر گئے اور میرا عقد اپنے بیٹے امام حسن عسکری سے پڑھ دیا اور حضرت عیسیؑ اور حواریین جو وہاں پر تھے انہیں گواہ بنایا ۔ جب میں سو کے اٹھی کافی ڈری ہوئی تھی میں اس خواب کو کسی سے نقل نہیں کیا بلکہ اپنے دل میں ایک راز کی طرح چھپا لیا اس دن کے بعد سے میرے دل میں امام حسن عسکری ؑ کی محبت کا سمندر جوش مارنے لگا میں شدید بیمار پڑ گئی تھی میرے جد نے بڑے بڑے طبیبوں کو دعوت دی کہ میرا علاج کر سکیں مگر میرے علاج سے وہ عاجر تھے میرے جد قیصر نے کہا اے ملکہ جو بھی خوہش دل میں ہے بتاؤ میں نے کہا اے پدر بزرگوار آپ اگر ان مسلمان اسیروں کو جو آپ کے زندان میں موجود ہیں انہیں آزاد کر دیں شاید عیسیؑ مسیح اور انکی ماں مجھے شفا دے دیں میرے والد نے میری خواہش پہ عمل کرتے ہوئے اسیروں کو آزاد کر دیا میں ظاھرا تھوڑا سا کھانا کھایا اگر چہ میری حالت صحیح نہیں تھی میرے والد کافی خوش تھے اور اس دن سے مسلمان اسیروں کا کافی احترام کرنے لگے تھے اے بشر ابھی ۱۴ دن بھی نہیں گزرے تھے میں نے دوبارہ خواب دیکھا کہ پیغمبر اکرم ؐ کی باعظمت بیٹی اور انکے ساتھ جناب مریمؑ اور کچھ بہشتی حوریں میری عیادت کو آئیں جناب مریم نے مجھے بتایا کہ یہ تمہارے شوہر کی جدہ فاطمہؐ بنت محمد ہیں میں نے فورا بی بی کا دامن پکڑ لیا اور رونے لگی اور کہا اے بی بی آپ کے فرزند امام حسن عسکریؑ میری عیادت کو کیوں نہیں آئے؟ جناب فاطمہؐ نے فرمایا اے ملکہ تم نصاریٰ کے درمیا ن زندگی گزار رہی ہو اگر چاہتی ہو تمہارا خدا ،عیسیؑ، جناب مریمؑ اور ہم تم سے خوش رہیں اور میرا فرزند تمہاری عیادت کو آئے تم خدائے یکتا اور اسکے نبی محمد ؐ کی گواہی دو میں نے بی بی کے بتائے ہوئے دستور پر عمل کیا حضرت فاطمہ نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا اور فرمایا انظار کرو میرا فرزند جلد ہی تمہاری عیادت کو آئے گا اے بشر اسکے بعد سے کوئی ایسی شب نہیں گزری جس میں امام حسن عسکریؑ مجھے دیکھنے نہ آئے ہو بشر بن سلیمان نے پوچھا اے ملکہ آپ کیسے اسیر ہو گئیں؟ کنیز نے کہا اے بشر ایک رات میں نے خواب میں امام حسن عسکری ؑ کو دیکھا انھوں نے فرمایا: فلاں روز تمہارے جد قیصر مسلمانوں سے جنگ کے لئے لشکر بھیجنے والے ہیں تم کنیزوں کے لباس میں اس لشکر میں ملحق ہو جاؤ میں نے امام کے دستور پر عمل کیا اور مسلمانوں کے ہاتھ اسیر ہو گئی اور اب تک کسی سے نہیں بتایا کہ میں قیصر روم کی پوتی ہوں ایک بوڑھے آدمی نے میرا نام پوچھا تو میں نے کہا میرا نام نرگس ہے اس نے کہا کنیزوں والا نام ؟بشر کہتا ہےمیں نے جب اس با عظمت خاتون کو امام علی نقی ؑ کی خدمت میں پہنچا دیا تو امام نے اس خاتون سے کہا میں چاہتا ہوں تمہیں دس ہزار دینار دوں یا ایک خوش خبری سناؤں؟ وہ کنیز کہتی ہے اے امام عصر مجھے ایک لڑکا عطا کردیں امام نے فرمایا : میں تمہیں ایک ایسے فرزند کی خوش خبری دیتا ہوں جو پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا نرجس خاتون نے پوچھا یہ فرزند کس سے ہو گا؟ امام نے فرمایا: اسی فرزند سے جس کا عقد رسول اکرمؐ نے فلاں شب کو تمہارے ساتھ پڑھا تھا کیا تم اس شخص کو پہچانتی ہو ؟ ملکہ کہتی ہے کیوں نہیں آپ کے لخت جگر امام حسن عسکریؑ اور میں جس دن سے آپ کی جدہ کے ہاتھوں پہ اسلام لائی ہوں کوئی ایسی رات نہیں گزری جس میں آپ کے فرزند مجھے دیکھنے نہ آئیں ہوں اسی وقت امام نے کافور کو بلایا اور فرمایا : حکیمہ کو میرے پاس آنے کو کہو جیسے ہی حکیمہ آئیں امام نے فرمایا میری بہن یہ وہی عورت ہے جس کے بارے میں میں نے بتایا تھا حکیمہ نے نرجس کو اپنی آغوش میں لے لیا امام نے فرمایا اے حکیمہ انکو اپنے گھر لے جاؤ اور مذہبی فرائض اور مستحب اعمال سے آگاہ کرو اور اسے یاد دلاتی رہنا کہ یہ میرے فرزند امام حسن عسکری کی زوجہ اور قائم آل محمدکی ماں ہے


نرجس خاتون اور علماء قدیم:

اس روایت کو سب سے پہلے شیخ صدوق نے اپنی کتاب کمال الدین اور تمام النعمۃ میں نقل کیا ہے کہ امام زمانہ کی ماں ایک رومی مسیحی کی لڑکی تھیں جنکی ماں بھی مسیحی تھیں اور وہ ایک جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ اسیر کی گئیں اور بطور کنیز امام ھادی نے انہیں خریدا اور شیخ صدوق کے بعد بہت سے بزرگ علماء نے اس حدیث کو نقل کیا ہے جیسے طبری شیعی(۵) ،شیخ طوسی(۶)،فقال نیشاپوری(۷)،ابن شہر آشوب (۸)اورعبد الکریم نیلی (۹)ان سب کی سند کمال الدین صدوق ،یا الغیبہ طوسی تک پہنچتی ہے ۔


نرجس خاتون کے سلسلہ میں علماء کے نظریات:

۔ نعمانی(۱۰)، مسعودی،شیخ مفید(۱۱)اور ابن خلکان نے امام زمانہ کی ماں کے بارے میں نقل کیا ہے کہ نرجس خاتون وہ کنیز تھیں جن کی تربیت حکیمہ کے گھر میں ہوئی تھی


۔ کلینی کی نظر یہ ہے کہ نرجس خاتون ایک کالی کنیز تھیں جو سوڈان کے کسی علاقے سے تعلق رکھتی تھیں۔


۔ شہید اول کا نظریہ یہ ہے کہ امام زمانہ کی ماں کا نام صیقل ہے اور کہتے ہیں کہ جیسا کہ نقل ہو ہے کہ انکا نام مریم بنت زید العلویہ ہے۔


 ۔ ابن خلکان کہتا ہے امام زمانہ کی ماں کا نام خمط ہے


۔ شیخ طوی، طبری اور شیخ صدوق کے بعد اکثر علماء کہتے ہیں کہ امام مھدی کی ماں نرگس جو روم کے بادشاہ کی لڑکی تھی ۔


ان پانچ نظریات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔


۔ امام زمانہ کی ماں ایک ایسی کنیز تھیں جو حکیمہ خاتون کے گھر میں تربیت پائیں۔


۔ امام زمانہ کی ماں زید علوی کی بیٹی تھیں۔


۔ امام زمانہ کی ماں ایک کنیز جس کانام نرگس تھا جو رومی بادشاہ کی اولاد میں سےتھیں۔


فخر رازی کا نظریہ:

وہابیوں کا امام زمانہ کے سلسلے میں جو اشکال ہیں وہ یہ ہے کہ امام مہدی ؑ امام حسن عسکری کی نسل سے ہے جو ۲۵۵ ہجری میں دنیا میں آئے یا نہیں ؟اگر چہ اسکا جواب خود علماء اہل سنت نے دیا ہے کہ امام مہدی ۲۵۵ ہجری میں نرجس خاتون اور امام حسن عسکری کے وسیلہ سے دنیا میں آئیں ہیں اور جو بات جالب ہے وہ یہ ہے کہ فخر رازی کہتا ہے  نسبی حوالے سے خواہ ماں کی طرف سے ہو یا باپ کی طرف سے ہو کسی طرح کا کوئی اشکال پایا نہیں جاتا ۔


نتیجہ:


ساری تحقیقات کتابوں کے مطالعہ روایتوں اور علماء قدیم کے اہم نظریات کو پڑھنے کے بعد حقیر اس نتیجہ تک پہنچا ہے کہ حضرت نرجس خاتون بنت یشوعا جو قائم آلہ محمد کی ماں ہیں جنکا شمار تاریخ کی با عظمت ماؤں میں سے ہے جتنے بھی اشکالات نرجس خاتون پہ کئے گئے ہیں انکی کی کوئی خاص دلیل بتائی نہیں گئی ہے جہاں بات کنیزی کی ہے تو تاریخ میں بہت سی ایسی کنیزیں گزری ہیں جنکا کردار ہمارے لئے نمونۂ عمل ہے بات نسبت کی ہے کہ کس کی کنیز ہے ؟ اور کہاں پر زندگی گزار رہی ہے ؟ کیوں کہ خاندان عصمت و طہارت میں تربیت پانے والی کنیزیں اپنے کو اس منزل کمال تک پہنچا دیتی ہیں کہ وہ معصومؑ کی ماں کا درجہ پا جاتی ہیں اگر آپ کے سامنے جناب فضہ کی زندگی ہے تو خود فیصلہ کریں کہ جناب فضہ حبش کی ملکہ تھیں مگر پیمبرؐ کے گھر میں بطور کنیز آئیں انکے اوپر اہل بیتؑ کی تربیت کا ایسااثر ہوا کہ چالیس سال قرآن میں گفتگو کیں حضرت نرجس خاتون بھی کسی عام شخصیت کی کنیز نہیں تھیں بلکہ خاندان عصمت سے تعلق رکھنے والے امام ھادیؑ کی کنیز تھیں جو انکی بہن حکیمہ کے زیر سایہ پرورش پارہی تھیں نرجس خاتون نے عبادت کے ذریعہ اپنے کو اس منزل تک پہنچا دیا کہ ایک معصوم کی ولادت کا ذریعہ بن گئیں۔


اقتباسات


۱۔ سورہ ھود ،۸۶


۲۔درسنامہ مھدویت


۳۔پژوہش در زندگیٔ امام مھدیؑ و نگرشی بہ غیبت صغریٰ ص۔۲۰۴ و ۲۰۵


۴۔کتاب غیبت شیخ طوسیؒ،کمال الدین و تمام النعمۃ شیخ صدوقؒ جلد نمبر ۔۲ ص،۱۳۲۔۱۴۳


۵۔طبری دلائل الامامۃ منشورات حیدریۃ ص،۲۶۲


۶۔ شیخ طوسی الغیبۃ ص،۴۰۸


۷۔ فقال نیشاپوری روضۃ الواعضین جلد۔۱ ص۔۲۵۲


۸۔ ابن شہر آشوب مناقب آل محمد ابی طالب جلد۔۲ ص۔۴۴۰


۹۔ نیلی منتخب الانوار ص۔۱۰۵


۱۰۔ نعمانی الغیبۃ ترجمہ غفاری نشر صدوق ص۔۳۲۳


۱۱۔ شیخ مفید الارشاد مؤسسہ احیاؤالتراث جلد۔۲ ص۔۲۳۹


۱۲۔ ابن خلقان و فیات الاعیان جلد۔۴ ص۔۱۷۶


۱۳۔ فخر رازی الشجرۃ المبارکۃ انساب الطالبیۃ موقع وراق مطابق نرم افزار مکتب شاملۃ ص۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں