پیر، 17 مارچ، 2014

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ

ء1932بمطابق 1351ہجری میں عراق کے اس وقت کے بادشاہ شاہ فیصل کو خواب میں صحابیِ رسول حضرت حذیفہ ابن الیمانی (معروف بہ حذیفہ یمانی) کی زیارت ہوئی جس میں انہوں نے بادشاہ کو کہا کہ اے بادشاہ میری قبر میں دجلہ کا پانی آ گیا ہے اور جابر بن عبداللہ کی قبر میں دجلہ کا پانی آ رہا ہے چنانچہ ہماری قبر کشائی کر کے ہمیں کسی اور جگہ دفن کر دو۔ اس کے بعد ان دونوں اصحابِ رسول کی قبریں تقریبا ساری دنیا کے اسلامی ممالک کے سربرہان اور ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں کھولی گئیں جن میں مفتیِ اعظم فلسطین، مصر کے شاہ فاروق اول اور دیگر اہم افراد شامل تھے۔ دو نوں اصحابہ اکرام حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کے اجسام حیرت انگیز طور پر ترو تازہ تھےکفن مبارک کو بھی مٹی نے چھوا نہیں تھا ان کی کھلی آنکھوں سے ایسی روشنی خارج ہو رہی تھی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ ہزاروں لوگوں کو ان کی زیارت بھی کروائی گئی جن کے مطابق ان دونوں کے کفن تک سلامت تھے اور یوں لگتا تھا جیسے وہ زندہ ہوں۔ ان دونوں اجسام کو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کے بالکل قریب سلمان پاک نامی جگہ پر دوبارہ دفنا دیا گیا جو بغداد سے تیس میل کے فاصلے پر ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں