جمعہ، 14 مارچ، 2014

قصہ حضرت موسى اور حضرت خضر عليہ السلام ( حصہ اوّل )

حضرت خضر عليہ السلام

ابى بن كعب نے ابن عباس كى وساطت سے پيغمبر اكرم(ص) كى ايك حديث اس طرح نقل كى ہے:
''ايك دن موسى عليہ السلام بنى اسرائيل سے خطاب كررہے تھے_ كسى نے آپ(ع) سے پوچھا روئے زمين پر سب سے زيادہ علم كون ركھتا ہے_تو موسى عليہ السلام نے كہا مجھے اپنے آپ سے بڑھ كر كسى كے عالم ہونے كا علم نہيں_ اس وقت موسى عليہ السلام كو وحى ہوئي كہ ہمارا ايك بندہ مجمع البحرين ميں ہے كہ جو تجھ سے زيادہ عالم ہے_ اس قت موسى عليہ السلام نے درخواست كى كہ ميں اس عالم كى زيارت كرنا چاہتا ہوں_اس پر اللہ نے انہيں ان سے ملاقات كى راہ بتائي''
يہ درحقيقت حضرت موسى عليہ السلام كو تنبيہ تھى كہ اپنے تمام تر علم و فضل كے باوجود اپنے آپ كو افضل ترين نہ سمجھيں
حضرت موسى عليہ السلام اور خضر عليہ السلام كہ جو اس زمانے كے بڑے عالم تھے ان كا واقعہ بھى عجيب ہےيہ واقعہ نشاندہى كرتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام جيسے اولو العزم پيغمبر كہ جو اپنے ماحول كے آگاہ ترين اور عالم ترين فرد تھے،بعض پہلوئوں سے ان كا علم بھى محدود تھا لہذا وہ استاد كى تلاش ميں نكلے تاكہ اس سے درس ليں،استاد نے بھى ايسے درس ديئے كہ جن ميں سے ہر ايك دوسرے سے عجيب تر ہے_ اس داستان ميں بہت سے اہم نكات پوشيد ہ ہيں

حضرت موسى ، جناب خضر كى تلاش ميں

حضرت موسى عليہ السلام كو كسى نہايت اہم چيزى كى تلاش تھي_وہ اس كى جستجو ميں دربدر پھر رہے تھے_وہ عزم بالجزم اور پختہ ارادے سے اسے ڈھونڈ رہے تھے_وہ ارادہ كئے ہوئے تھے كہ جب تك اپنا مقصود نہ پاليں چين سے نہيں بيٹھيں گے
حضرت موسى عليہ السلام جس كى تلاش پر مامور تھے اس كا آپ (ع) كى زندگى پر بہت گہرا اثر ہوا اور اس نے آپ(ع) كى زندگى كا نيا باب كھول ديا_جى ہاںوہ ايك مرد عالم و دانشمند كى جستجو ميں تھے_ايسا عالم كہ جو حضرت موسى عليہ السلام كى آنكھوں كے سامنے سے بھى حجاب ہٹا سكتا تھا اور انہيں نئے حقائق سے روشناس كرواسكتا تھا اور ان كے لئے علوم و دانش كے تازہ باب كھول سكتا تھا
اتفاقاً ايك حديث كہ جو امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے اسميں صراحت كے ساتھ بتايا گيا ہے كہ حضرت موسى (ع) حضرت خضر(ع) سے زيادہ عالم تھے يعنى علم شريعت ميں
شايد اس سوال كا جواب نہ پانے كى وجہ سے اور نسيان سے مربوط سوال كا جواب نہ پانے كے سبب بعض نے ان آيات ميں جن موسى عليہ السلام كا ذكر ہے اسے موسى بن عمران تسليم كرنے سے انكار كرديا ہے
ايك حديث كہ جو حضرت على بن موسى رضا عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے اس سے بھى يہ نكتہ معلوم ہوتا ہے كہ ان دونوں بزرگوں كا دائرہ كار اور قلمرو ايك دوسرے سے مختلف تھى اور ہر ايك دوسرے سے اپنے كام ميں زيادہ عالم تھا
ہم اس سلسلے ميں جلد پڑھيں گے كہ اس عالم بزرگ كى جگہ معلوم كرنے كے لئے حضرت موسى عليہ السلام كے پاس ايك نشانى تھى اور وہ اس نشانى كے مطابق ہى چل رہے تھے
قرآن كہتا ہے :وہ وقت ياد كرو جب موسى نے اپنے دوست اور ساتھى جوان سے كہاكہ ميں تو كوشش جارى ركھوں گا جب تك''مجمع البحرين''تك نہ پہنچ جائوں،اگر چہ مجھے يہ سفر لمبى مدت تك جارى ركھنا پڑے''
مجمع البحرين كا مطلب ہے دو دريائوں كا سنگم_اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے كہ ''بحرين''سے يہاں كون سے دو دريا ہيں_اس سلسلے ميں تين مشہور نظريئےيں:
1_خليج عقبہ اور خليج سويز كے ملنے كى جگہ_ہم جانتے ہيں كہ بحيرہ احمر دو حصوں ميں تقسيم ہوجاتا ہے_ايك حصہ شمال مشرق كى طرف بڑھتا رہتا ہے اور دوسرا شمال مغرب كى طرف پہلے حصے كو خليج عقبہ كہتے ہيں اور دوسرے كو خليج سويز اور يہ دونوں خليجيں جنوب ميں پہنچ كر آپس ميں مل جاتى ہيں اور پھر بحيرہ احمر اپنا سفر جارى ركھتا ہے
2_اس سے بحر ہند اور بحيرہ احمر كے ملنے كى طرف اشارہ ہے كہ جو باب المندب پر جاملتے ہيں
3_يہ بحيرہ روم اور بحر اطلس كے سنگم كى طرف اشارہ ہے كہ جو شہر طنجہ كے پاس جبل الطارق كا تنگ دہانہ ہے
تيسرى تفسير تو بہت ہى بعيد نظر آتى ہے كيونكہ حضرت موسى عليہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے جبل الطارق كا فاصلہ اتنا زيادہ ہے كہ اس زمانے ميں حضرت موسى عليہ السلام اگر عام راستے سے وہاں جاتے تو كئي ماہ لگ جاتے
دوسرى تفسير ميں جس مقام كى نشاندہى كى گئي ہے اس كا فاصلہ اگر چہ نسبتاً كم بنتا ہے ليكن اپنى حد تك وہ  بھى زيادہ ہے كيونكہ شام سے جنوبى يمن ميں فاصلہ بھى بہت زيادہ ہے
پہلا احتمال زيادہ صحيح معلوم ہوتاہے كيونكہ حضرت موسى عليہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے يعنى شام سے خليج عقبہ تك كوئي زيادہ فاصلہ نہيں ہے_ويسے بھى قرآنى آيات سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام نے كوئي زيادہ سفر طے نہيں كيا تھا اگر چہ مقصد تك پہنچنے كے لئے بہت زيادہ سفركے لئے بھى تيار تھے

عرصہ دراز تك جناب خضر عليہ السلام كى تلاش

بعض لوگوں نے جناب موسى عليہ السلام كے اس قول كے ،كہ انھوں نے كہا:''ميں اس وقت تك كوشش كروں گا بج تك اپنا مقصد حاصل نہ كرلوں ''كے بارے ميں كہا ہے :كہ لفظ''حقب'' ، ''عرصہ دراز''كے معنى ميں ہے_ بعض نے اس كى 80 /سال سے تفسير كى ہے_ اس لفظ سے حضرت موسى عليہ السلام كا مقصد يہ تھا كہ مجھے جس كى تلاش ہے ميں اسے ڈھونڈھ كے رہوں گا چاہے اس مقصد كے لئے مجھے سالہا سال تك سفر جارى ركھنا پڑے
''بہر حال جس وقت وہ ان دو دريائوں كے سنگم پر جاپہنچے تو ايك مچھلى كہ جو ان كے پاس تھى اسے بھول گئے''
ليكن تعجب كى بات يہ ہے كہ'' مچھلى نے دريا ميں اپنى راہ لى اور چلتى بني''
يہ مچھلى جو ظاہراً ان كے پا س غذا كے طور پر تھي_ كيا بھونى ہوئي تھى اور اسے نمك لگا ہوا تھا يا يہ تازہ مچھلى تھى كہ جو معجزانہ طور پر زندہ ہوكر اچھل كر پانى ميں جاكر تيرنے لگي
اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے_بعض كتب تفاسير ميں يہ بھى ہے كہ اس علاقے ميں آب حيات كا چشمہ تھا_ اس كے كچھ قطرات مچھلى پر پڑگئے جس سے مچھلى زندہ ہوگئي_
ليكن يہ احتمال بھى ہے كہ مچھلى ابھى پورى طرح مرى نہ تھى كيونكہ بعض مچھلياں ايسى بھى ہوتى ہيں جو پانى سے نكلنے كے بعد بہت دير تك نيم جاں صورت ميں رہتى ہيں اور اس مدت ميں پانى ميں گر جائيں تو ان كى معمول كى زندگى پھر شروع ہوجاتى ہے
آخر كار موسى عليہ السلام اور ان كے ہمراہى دو دريائوں كے سنگم سے آگے نكل گئے تو لمبے سفر كے باعث انہيں خستگى كا احساس ہوا اور بھوك بھى ستانے لگي_ اس وقت موسى عليہ السلام كو ياد آيا كہ غذا تو ہم ہمراہ لائے تھے، لہذا انہوں نے اپنے ہمسفر دوست سے كہا: ہمارا كھانا لايئےس سفرنے تو بہت تھكا ديا ہے
اس وقت ''ان كے ہمسفر نے انہيں خبردى كہ آپ كو ياد ہے كہ جب ہم نے اس پتھر كے پاس پناہ لى تھي(اور آرام كيا تھا)تو مجھے مچھلى كے بارے ميں بتانا ياد نہ تھا اور شيطان ہى تھا جس نے يہ بات مجھے بھلادى تھي ہوا يہ كہ مچھلى نے بڑے حيران كن طريقے سے دريا كى راہ لى اور پانى ميں چلتى بني''
يہ معاملہ چونكہ موسى عليہ السلام كے لئے اس عالم بزرگ كو تلاش كرنے كے لئے نشانى كى حيثيت ركھتا تھا لہذا موسى عليہ السلام نے كہا:''يہى تو ہميں جاہئے تھا اور يہى چيزتو ہم ڈھونڈتے پھرتے تھے''
''اور اس وقت وہ تلاش كرتے ہوئے اسى راہ كى طرف پلٹے''

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں