جناب اویس قرانی کا شمار زاہدوں اور بزرگ تابعین میں سے ہوتا ہے کہ جنہوں نے جنگ صفین میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ہم رکاب جنگ کی۔
عبدالرحمن سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے :جنگ صفین میں شام کے لشکر میں سے ایک شخص باہر آیا اور اس نے عراق کے لشکر کی طرف رخ کر کے کہا:کیا اویس قرنی تم لوگوں میں ہیں؟
ہم نے اس سے کہا:ہاں۔
شامی شخص نے کہا:میں نے رسول خداۖ سے سنا تھاکہ آپ نے فرمایا:
''خیر التابعین اویس القرنی''
بہترین تابعی اویس قرنی ہیں۔
وہ یہ کہہ کر شام کے لشکر سے خارج ہو گیا اور ہمارے پاس آ کر ہم سے ملحق ہو گیا۔
اصبغ بن نباتہ سے روایت ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا:میں صفین میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ تھا کہ ننانوے افراد نے آنحضرت کی بیعت کی اور آنحضرت نے فرمایا:
سوواںشخص کہاں ہے؟کہ رسول خداۖ نے مجھے خبر دی تھی کہ اس دن سو افرادمیری بیعت کریں گے؟
اصبغ کہتے ہیں: اسی وقت ایک شخصآگے آیا کہ جس نے دو اونیلباس زیب تن ہوئے تھے اور دو تلواریں حمائل ہوئیں تھیں، اس نے کہا: اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں تا کہ آپ کی بیعت کروں۔
امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: کس لئے میری بیعت کرنا چاہتے ہو؟
اس نے عرض کیا:تا کہ میں اپنی جان آپ پر قربان کر سکوں۔
فرمایا:تم کون ہو؟ عرض کیا: میں اویس قرنی ہوں۔
اس کے بعد انہوں نے آنحضرت کی بیعت کی اور آنحضرت کے سامنے اس طرح سے جنگ کی کہ آخر کار شہید ہو گئے اور ان کا جنازہ پیادوں کے درمیان ملا۔
''مناقب ابن شہر آشوب''میں ہے کہ : انہوں ے دو تلواریں حمائل ہوئیں تھیں اور وہ دشمن پر پتھر پھینکنے کے لئے فلاخنی (غلیل کی طرح کا آلہ) بھی ساتھ لائے تھے۔
''حلیة الأولیاء'' میں بھی اصبغ سے روایت ہوا ہے:اویس قرنی رسول اکرمۖ کے پاس نہیںآئے ، اس کی وجہ ان کی اپنی ماں سے اطاعت تھی۔ اویس کی روش یہ تھی کہ جب شام ہوتی تو وہ کہتے : آج رات رکوع کی رات ہے اور پھر صبح تک رکوع کرتے اور جب رات ہوتی تو اس دن کی خوراک اور پوشاک میں سے جو چیز بھی بچ جاتی ، وہ سب صدقہ دے دیتے تھے اور پھر کہتے تھے:
أللّٰھُمَّ مَنْ مٰاتَ جُوعاً فَلاٰ تُؤٰاخِذْنِی بِہِ، وَ مَنْ مٰاتَ عُرْیٰاناً فَلاٰ تُؤٰاخِذْنِْ بِہِ۔
خدایا؛ جو کوئی بھوکا مرجائے مجھے تو میرا اس سے مؤاخذہ نہ کرنا اور جو کوئی برہنہ مر جائے میرا اس سے بھی مؤاخذہ نہ کرنا۔
دوسری روایت میں ہے کہ ایک دن رسول خداۖ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
أَبْشِرُوا بِرَجُلٍ مِنْ اُمَّتِ یُقٰالُ لَہُ:اُوَیْسُ الْقَرَنِْ؛ فَاِنَّہُ یَشْفَعُ لِمِثْلِ رَبِیْعَةِ وَمُضَر۔
میں تمہیں اپنی امت کے ایک شخص کے بارے میں بشارت دیتا ہوں کہ جسے اویس قرنی کہتے ہیں ۔ اور جو (قیامت کے دن ) ربیعہ اور مضر جیسے دو قبیلوں (بہت زیادہ آبادی والے قبائل) کی شفاعت کریں گے۔([1])
اس روایت کی بناء پر اویس قرنی جنگ صفین میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی خدمت میں تھے اور انہوں نے آنحضرت کی بیعت کی ہے۔ لیکن ہم جو دوسری روایت نقل کر رہے ہیں، اس میں آپ نے جنگ صفین سے پہلے ہی کوفہ میں آنحضرت کی بیعت کی تھی۔
جنگ صفین میں جناب اویس قرنی کی شہادت
جنگ صفین میں رسول اکرمۖ کے کئی بزرگ اصحاب شریک ہوئے اور انہوں نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پرچم تلے اکٹھے ہو کر معاویہ اوراس کے گماشتوں سے جنگ کی اور جام شہادت نوش کیا۔
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر میں صحابیوں کے علاوہ تابعین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی اور انہوں نے مولائئے کائنات علیہ السلام کا دفاع کرتے ہوئے معاویہ اور شام کے لشکر سے جنگ کی۔
ان بزرگوں میں سے ایک ایسا شخص ہے جس نے خود سازی کی اور جس کا دل ولاء پیغمبر اور آل پیغمبر صلوات اللہ علیہم اجمعین سے سرشار تھا، اور وہ اویس قرنی ہیں۔
جناب اویس قرنی ایک مشہور شخصیت ہیں اگرچہ انہوں نے رسول خداۖ کو نہیں دیکھا تھالیکن پھر بھی وہ آنحضرت کے شیدائی تھے اور یہ بزرگ آنحضرت سے بہت زیادہ الفت و محبت کرتے تھے۔
وہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے زمانے میں آنحضرت کے ساتھیوں کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے آنحضرت کی نصرت کے لئے کمر کس لی۔
ایک دن امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کوفہ میں لوگوں معاویہ سے جنگ (جو جنگ صفین کے نام سے مشہور ہے) کے لئے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے ۔ کوفہ کے لوگوں میں سے ایک شخص آنحضرت کے پاس آیا اور اس نے اپنا نام ''اویس قرنی'' بتایا ۔ اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
ایک دن پیغمبر اکرمۖ نے مجھ سے فرمایا تھا:
ان أدرک رجلاًمن أمتہ یقال لہ''اویس قرنی''، من حزب اللّٰہ و رسولہ ، یموت علی الشہادة یدخل ف شفاعتہ مثل ربیعة و مضر۔
بیشک تم میری امت میں سے اویس قرنی نام کے ایک شخص سے ملاقات کروگے ۔ وہ خدا اور رسول خدا ۖ کی حزب میں سے ہے، اسے شہید کیا جائے گا اور قیامت کے اس کی شفاعت سے اتنیزیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے جیسے ربیعہ اور مضر کے قبیلے کے لوگ ۔ جناب اویس قرنی نے جنگ صفین میں شرکت کی اور شہید ہوئے۔([1])
اس روایت میں اہم نکات
رسول اکرمۖ کی یہ پیشنگوئی نہ صرف جناب اویس قرنی کی عظمت اور ان کی راہ کی حقانیت کی دلیل ہے بلکہ جنگ صفین میں جناب اویس قرنی کی شہادت (رسول خداۖ کی پیشنگوئی میں اس بارے میں غور کرنے سے کہ ان کی موت شہادت سے ہو گی) ان بے شمار دلیلوں میں سے ہے کہ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی راہ ہی راہ حق ہے اور صرف وہی لوگ اس راہ پر چل سکتے ہیں کہ
جو آنحضرت کے فرمانبردار ہوں۔
اس روایت سے کچھ نکات اخذکئے جاتے ہیں کہ جنہیں ہم بیان کرتے ہیں:
١۔ جناب اویس قرنی کا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کے
بارے میں رسول خداۖ کا خبر دینا۔
٢۔ آپ نے جناب اویس قرنی کو خدا اور رسول خداۖ کی حزب میں سے قرار دیاہے جب کہ وہ مکان کے اعتبار سے آنحضرت کے نزدیک نہیں تھے۔اس بناء پر مکان کے لحاظ سے دوری اور نزدیکی لیاقت اور عدم لیاقت کی دلیل نہیں ہے۔
٣۔ رسول خداۖ کا اویس قرنی کے مستقبل کے بارے میں خبر دینا کہ ان کی زندگی کا خاتمہ شہادت پر ہو گا۔''یموت علی الشہادة''۔
٤۔ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی حقانیت اور آپ کے زیر پرچم جان دینے والے افرادشہیدہیں ۔
٥۔ اس روایت سے شفاعت کا مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ آپ نے فرمایا:
''یدخل ف شفاعتہ''۔
٦۔ شفاعت کا مسئلہ صرف معصومین علیہم السلام سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ ان کے بزرگ اولیاء بھی بہت سے افراد کی شفاعت کر سکتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد قبیلۂ ربیعہ اور مضر کی طرح زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔
٧۔ گذشتہ مطالب کے علاوہ یہ روایت ان کے لئے بہت اچھی رہنما ہے کہ جو شک و تردید میں دچار ہوئے اور معاویہ کے پروپیگنڈوں کی وجہ سے راہ حق کوراہ باطلسے جدا نہکر سکے۔ کیونکہ وہ یہ سمجھ سکتے تھے کہ عمار یاسر اور اویس قرنی جیسے افراد (جو جس گروہ میں بھی ہوں وہ حق پر ہو گا) کس گروہ میں ہیں تا کہ ان کے وجود کے ذریعہ اس گروہ کے حق ہونے کے بارے میں جان سکیں۔
قابل توجہ ہے کہ اس روایت کو جاننے والے متعددافراد معاویہ کے لشکر سے جدا ہو کر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر سے ملحق گئے کہ جن میں جناب اویس قرنی بھی شامل تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں