حجة الوداع
جب
نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اکرم(صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم) کو حضیرة القدس ”جنت “میں منتقل ھونے کا
یقین ھو گیا توآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے
بیت اللہ الحرام کا حج اور امت کے لئے ایک سیدھے راستہ کا
معین کرنا لازم سمجھا،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)
۱۰ سن ھ میں آخری حج کر نے کی غرض سے نکلے اور
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے امت کے لئے اپنے اس دنیا سے
آخرت کی طرف عنقریب کو چ کرنے کے سلسلہ میں یوں اعلان
فرمایا :”اِنِّی لَا اَدْرِي لَعَلِّي لَااَلْقَاکُمْ بَعْدَ
عَامِیْ ھٰذَا بِھٰذا الْمَوْقِفِ اَبَداً۔۔“”مجھے
نھیں معلوم کہ میں اس سال کے بعداس جگہ تمھیں دیکھ سکوں
گا “۔
حجاج
خوف و گھبراہٹ کے ساتھ چل پڑے وہ بڑے ھی رنجیدہ تھے اور یہ کہتے
جا رھے تھے : نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنی
موت کی خبر دے رھے ھیں ،نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و
سلم) نے ان کے لئے ھدایت کا ایسا راستہ معین فرمادیا تھا
جس سے وہ فتنوں سے دور رھیںاور یہ فرماکر ان کی اچھی
زندگی گذرنے کی ضمانت لے رھے تھے : ”ایھا النَّاسُ،
اِنِّیْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ،کِتَابَ اللّٰہِ
وَعِتْرَتِيْ اَھْلَ بَیْتِي ۔۔۔“ ۔
”اے لوگو! میں تمھارے
درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رھا ھوں ،کتاب خدا اور
میری عترت میرے اھل بیت(ع) ھیں
۔۔۔“۔
کتاب
اللہ سے متمسک رھنا ،اس میں بیان شدہ احکام پر عمل کرنااور اھل
بیت نبوت سے محبت دوستی کرناکہ اسی میں امت کی گمرا
ھی سے نجات ھے حج کے اعمال تمام کرنے کے بعد نبی(صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم) نے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس
میںآپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اسلامی
تعلیمات اوراس کے احکام بیان فرمائے اورآخرمیں فرمایا
:”لاترجعوا بعدی کفّاراً مُضَلِّلِیْنَ یَمْلِکُ بَعْضُکُمْ
رِقَابَ بَعْضٍ اِنِّي خَلَّفْتُ فِیْکُم ْ مَااِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِہِ لَنْ
تَضِلُّوْا:کِتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتيْ اَھْلَ بَیْتِي،اَ لَاھَلْ
بَلَّغْتُ؟“۔
”میرے بعد کا فر نہ ھو جانا
،لوگوں کو گمراہ نہ کرنا ،ایک دوسرے سے جنگ نہ کرنا ،میں تمھارے
درمیان وہ چیزیں چھوڑ کر جا رھا ھوں اگر تم اُن سے متمسک رھوگے
تو ھر گز گمراہ نہ ھو گے :اللہ کی کتاب اور میری عترت
،میرے اھل بیت(ع) ھیں ،آگاہ ھو جاؤ کیا میں
نے(احکام الٰھی ) پھنچا دیا؟“
سب
نے ایک ساتھ مل کر بلند آواز میں کھا : ھاں ۔
آنحضرت(صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا :”اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ
۔۔اِنَّکُمْ مَسْؤُلُوْنَ فَلْیَبْلُغِ الشَّاھِدُ مِنْکُمُ
الْغَائِبَ“۔[1]
”خدایا ! گواہ رھنا
۔۔تم حاضرین کی ذمہ داری یھے کہ اس
پیغام کو غائبین تک پھنچادیں “۔ھم اس خطبہ کا کچھ
حصہحیاة الامام امیر المومنین(ع) میں ذکر چکے ھیں
۔
غدیر خم
حج
کے ارکان بجالانے کے بعد نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ حج کے قافلے مدینہ
کی طرف واپس آرھے تھے ،جب غدیر خم کے مقام پر پھنچے تو جبرئیل
اللہ کے حکم سے نازل ھوئے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے
قافلہ کو اسی مقام پر روک کر حضرت علی(ع) کو اپنے بعد اس امت کا
خلیفہ اور امام بنا دیجئے اور اس کے انجام دینے میں بالکل
تاخیر نہ فرما ئیںچنانچہ اس وقت یہ آیت نازل ھو ئی
:< یَااٴَیُّہَاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ
إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ
رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاس۔۔>۔[2]
”اے پیغمبر آپ اس حکم کو پھنچا
دیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے، اگر آپ
نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں
پھنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا “
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم) نے اس امر کوبہت اھمیت دی اور پختہ ارادہ کے ساتھ اُس پر
عمل کا فیصلہ کیا آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے
اپنے قافلہ کو اسی گرمی کی شدت سے مرجھائے ھوئے درختوں کے
نیچے روک دیا اور دوسرے قافلوں کو بھی وھاں ٹھھر کر اپنے خطبہ
سننے کی تلقین فرما ئی ،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و
سلم) نے نماز ادا کرنے کے بعد اونٹوں کی کجاووں سے منبر بنانے کا حکم
دیاجب منبر بن کر تیار ھو گیا تو آپ(صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم) نے منبر پر جا کر ایک خطبہ ارشاد فرمایاجس میں
اعلان فرمایا کہ جس نے اسلام کی راہ میں مشکلیں برداشت
کیں اور اس راستہ میں ان کے گمراہ ھونے کا خطرہ تھا میں نے ان
کو اس خطرے سے نجات دلا ئی ،پھر اُن سے یہ فرمایا:میں
دیکھوںگاکہ تم میرے بعد ثقلین کے ساتھ کیسا برتاؤ کر و گے
؟“۔
قوم
میں سے ایک شخص نے پوچھا :یا رسول اللہ(صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم) ثقلین کیا ھے ؟
”ثقل اکبر :اللہ کی کتاب ھے جس
کا ایک سرا اللہ عز و جل کے قبضہ قدرت میں ھے اور دوسرا سرا تمھارے
ھاتھوں میں ھے تم اس سے متمسک رھنا توگمراہ نھیں ھوگے ،اور
دوسری چیز ثقل اصغر :میری عترت ھے ،اور لطیف و
خبیر خدا نے مجھے خبر دی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا
نھیں ھوں گے یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ھوں
،میں نے اپنے پروردگار سے اس سلسلہ میں دعا کی ھے اور ان دونوں
سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ھلاک ھو جاؤ گے اور نہ ھی اُن کے بارے میں کو تا
ھی کر نا کہ اس کا نتیجہ بھی ھلا کت ھے ۔
اس
کے بعد آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے وصی اور اپنے
شھر علم کے دروازے امام امیر المو منین(ع) کی مسلمانوں پر
ولایت واجب قرار دی ،اُن کو اس امت کی ھدایت کے لئے
معین کرتے ھوئے فرمایا : اے لوگو! مومنین کے نفسوں پرتصرف کے
سلسلہ میںخود اُن سے اولیٰ کون ھے ؟
سب
نے ایک ساتھ کھا :اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ھیں ۔
رسول
اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:بیشک اللہ
میرا مو لاھے ،میں مو منین کا مو لا ھوں ،میں اُن کے
نفسوں سے زیادہ اولیٰ و بہتر ھوں پس جس جس کا میں مو لا
ھوںیہ علی(ع)بھی اس کے مو لا ھیں ۔
آپ(صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس جملہ کی تین مرتبہ تکرارکی
،پھرمزید فرمایا:
”اللّٰھُم وَال من والاہ،وعادمن
عاداہ،واحبَّ مَنْ احبَّہُ،وَابغض من ابغضہ،وَانصرمن نصرہ، واخذُلْ مَنْ خذلہ
وادْرِالحقّ مَعَہُ حیثُ دارَ،اَلا فلیبلغ الشاھدُ
الغَائِبَ۔۔۔“۔
”اے خدا!جو اسے دوست رکھے تو اسے دوست
رکھ ،جو اس سے دشمنی رکھے تواسے دشمن رکھ ،جو اس سے محبت کرے تواس سے محبت
کر ،جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ ،جو اس کی مدد کرے تواس کی
مدد کر ، جو اس کو رسوا کرے تو اس کو رسوا و ذلیل کر ،پالنے والے !حق کو اس
طرف موڑدے جدھر یہ جا ئیں آگاہ ھوجاؤ حاضرین غائبین تک
یہ پیغام پھنچا دیں “۔
خطبہ
کا اختتام اس امت کے لئے عام مرجعیت اور اپنے بعد مسلمانوں کے امور انجام
دینے کے لئے رھبر و رھنما معین فرمانے پر ھوا ۔
تمام
مسلمانوں نے قبول کیا ،امام(ع) کی بیعت کی اورتمام
مسلمانوں نے مبارکباد پیش کی ،نبی(صلی اللہ علیہ و
آلہ و سلم) نے امھات المو منین کو بھی بیعت کرنے کا حکم
دیا ۔[3]عمر
بن خطاب نے آگے بڑھ کر امام(ع) کو مبارکباد دی، مصافحہ کیا اور اپنا
یہ مشھور مقولہ کھا :مبار ک ھو اے علی بن ابی طالب(ع) آج آپ
میرے اور ھر مو من و مومنہ کے مو لا ھوگئے ھیں ۔[4]
حسان
بن ثابت نے یہ اشعار پڑھے :
”یُنادِیْھِمُ یَوْمَ الغَدِیْرِ
نَبِیُّھُمْ
بِخُمٍّ وَاَسْمِعْ
بِالرَّسُوْلِ مُنادِیاً
فقال فمَنْ مَولاکُم و
نبِیُّکُمْ
فقالُوا وَلَمْ یُبْدُوا
ھُنَاک التِعَامِیَا
اِلٰھُکَ مَوْ لانا
وَاَنْتَ نَبِیُّنَا
وَلَمْ تَلْقَ مِنَّا فِی
الْوِلَایَةِ عاصِیا
فقال لہ قُم یا عليّ
فاِنَّنِي
رَضِیْتُکَ مِنْ بَعْدِيْ
اِمَاماً وھادیا
فمنْ کُنْتُ مَولاہُ
فھٰذا ولیُّہُ
فکونوا لہُ اَتْبَاعَ صِدْقٍ
مَوَالِیا
ھُناکَ دعا اللّھمَّ وال
ولِیَّہُ
وکُنْ للذي عادَي علیّاً
مُعا دِیا[5]
”غدیر کے دن اُن کو اُن کا
نبی میدان خم میں پُکار رھاتھا۔
نبی(صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا اے لوگو!تمھارا مو لا و نبی
کون ھے ؟لوگوں نے بیساختہ کھا۔
آپ(صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا خدا ھمارا مو لا ھے اور آپ(صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم) ھمارے نبی ھیں ،اور آپ(صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم) ھم سے کسی مخالفت کا مشاھدہ نھیں کریں
گے۔
اس
وقت حضور نے مو لائے کا ئنات سے فرمایا:اے علی(ع) کھڑے ھوجاؤ
کیونکہ میں نے تم کو اپنے بعد کے لئے امام اور ھادی منتخب کر
لیا ھے۔
جس
کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی(ع) بھی مو لا ھیں تو
اُس کے سچے پیروکار اوردوست دارھوجاؤ۔
اُس
وقت آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے دعا فرما ئی: خدا
یا علی(ع) کے دوستدار کو دوست رکھ اور علی(ع) کے دشمن کو دشمن
رکھ“
علامہ
علا ئلی کے بقول بیشک غدیر خم میں امام کی
بیعت کرنا رسالتِ اسلام کا جزء ھے جس نے اس کا انکار کیااس نے اسلام
کا انکار کیا ۔
ابدی غم
جب
نبی اپنے پروردگار کی رسالت اور امیر المو منین(ع) کو اس
امت کا رھبر و مرجع معین فرماچکے تو روز بروز آپ کمزور ھوتے گئے
،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو شدید بخار
ھوگیا،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) چادر اوڑھے ھوئے تھے جب
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ازواج نے اپنے ھاتھ سے
نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ھاتھ کو دیکھااسوقت
بخار کی حرارت کااحساس ھوا،[6]جب
مسلمانوں نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی عیادت
کی توآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ان کو اپنی موت
کی خبر دی، اور ان کو یوں دائمی وصیت فرما ئی
: ”ایھا الناس،یوشک اَنْ اقبض قبضاً سریعاً فینطلق بي
وقدمت الیکم القول مَعْذِرَةً اِلَیْکُمْ،اَلَااِنِّيْ مُخَلِّفُ
فیکم کِتاب اللّٰہ عزَّوَجلَّ وَعِتْرَتِيْ اَھْلَ بَیْتِيْ
۔۔۔‘ ‘۔
”اے لوگو ! عنقریب میں
داعی اجل کو لبیک کھنے والا ھوں ۔۔۔آگاہ ھوجاؤ
میں تمھارے درمیان اللہ عز و جلّ کی کتاب اور اپنی عترت
اپنے اھل بیت کو چھوڑے جا رھا ھوں “۔
موت
آپ سے قریب ھو تی جا رھی تھی ،آپ کو واضح طور پر یہ
معلوم تھا کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اصحاب کا ایک
گروہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اھل بیت(ع) سے خلافت
چھیننے کے سلسلہ میں جد و جھد کر رھا ھے، آپ(صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم) نے ان سے شھر مدینہ کو خالی کرانے میں
بہتری سمجھی ،ان کو غزوئہ روم کےلئے بھیجنا چا ھا ،لشکر
تیار کیا گیا ،جس کی ذمہ داری نوجوان اسامہ بن
زید کو سونپی گئی ،بڑے اصحاب اس میں شامل ھونے سے کترانے
لگے ،انھوں نے اپنے مشورہ کے تحت لشکر تیار کیاکیونکہ ان کا اُس
لشکر سے ملحق ھونا دشوار تھا ،اس وقت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و
سلم) منبر پر تشریف لے گئے اور ان سے یوں خطاب فرمایا :”نَفِّذُ
وْا جَیْشَ اُسَامَةَ ۔۔“،”لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ تَخَلَّفَ
عَنْ جَیْشِ اُسَامَةَ ۔۔“۔ ”اسامہ کے لشکر سے جا کر ملحق
ھو جاو “، ” جس نے اسامہ کے لشکر سے تخلف کیا اس پر خدا کی لعنت ھے
“۔
نبی(صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اس طرح سخت انداز میں کی
گئی ان نصیحتوں کا اُن پر کوئی اثر نھیں ھوا ،اور انھوں
نے نبی کے فرمان پر کان نھیں دھرے ، اس سلسلہ میں اھم بحثوں کو
ھم نے اپنی کتاب ”حیاةالامام الحسن “ میں بیان کر
دیا ھے ۔
جمعرات ،مصیبت کا دن
نبی
اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے وصی اور باب
مدینة العلم کے لئے غدیر کے دن کی بیعت اور
شوریٰ کے دروازوں کو بند کرنے کے لئے یہ بہتر سمجھا
اورآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا
:”اِئتُوْنِیْ بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاةِ لَاَکْتُبَ لَکُمْ کِتَاباً لَنْ
تَضِلُّوا بَعْدَہُ اَبَداً ۔۔۔“۔
”مجھے کاغذ اور قلم لا کر دو تاکہ
میں تمھارے لئے ایسا نوشتہ تحریر کردوں جس کے بعد تم کبھی
گمراہ نہ ھو ‘ ‘۔
مسلمانوں
کے لئے یہ بہت بڑی نعمت تھی ،سرور کا ئنات اس طرح اپنی
امت کو گمراھی سے بچنے کی ضمانت دے رھے تھے تاکہ امت ایک
ھی راستہ پر چلے جس میں کسی طرح کا کو ئی بھی موڑ
نہ ھو، امت اسلامیہ کی ھدایت اور اصلاح کے لئے اس نوشتہ سے بہتر
کو نسا نوشتہ ھو سکتا ھے ؟یہ نوشتہ علی(ع) کے بارے میں آپ
کی وصیت اور اپنے بعد امت کے لئے ان کے امام ھونے کے سلسلہ میں
تھا ۔
بعض
اصحاب ،نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے مقصد سے با خبر تھے
کہ نبی اس نوشتہ کے ذریعہ اپنے بعد علی(ع) کو اپنا خلیفہ
بنا نا چا ہتے ھیں ،لہٰذا اس بات کی یہ کہکر تردید
کر دی:”حسبناکتاب اللّٰہ ۔۔۔”ھمارے لئے کتاب خدا
کافی ھے ۔۔۔“
اس
قول کے سلسلہ میں غور و فکر کرنے والے اس کے کھنے والے کی انتھا تک
پھنچ جا ئیں گے کیونکہ اس کو مکمل یقین ھو گیا کہ
نبی اس نوشتہ کے ذریعہ اپنے بعد علی(ع) کو خلیفہ بنانا چا
ہتے ھیں اور اگر اس کو یہ احتمال بھی ھوتا کہ نبی سرحدوں
یا کسی دینی شعائرکی حفاظت کے بارے
میںوصیت کر نا چا ہتے ھیں تو اس میں یہ کھنے
کی ھمت نہ ھو تی ۔
بھر
حال حاضرین میں بحث و جدال ھونے لگا ایک گروہ کہہ رھا تھا کہ
نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حکم کی تعمیل
کی جا ئے اور دوسرا گروہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و
سلم)او رنوشتہ کے درمیان حائل ھوناچاہتا تھا ،کچھ امھات مو منین اور
بعض عو رتیں نبی کے آخری وقت میں آنحضرت(صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم) کے حکم کے سامنے اس طرح کی جرات سے منع کر تے ھوئے
کہہ رھی تھیں : کیا تم رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و
آلہ و سلم) کا فرمان نھیں سن رھے ھو ؟ کیا تم رسول اللہ(صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حکم کو عملی جامہ نھیں پھناؤگے ؟
اس
جنگ و جدل کے بانی عمر نے عورتوں پر چیختے ھوئے کھا :اِنَّکُنَّ
صویحبات یوسف اذامرض عصرتن اعینکنَّ،واذاصحّ رکبتن عنقہ
۔”تم یوسف کی سھیلیاں ھوجب وہ بیمار ھوجاتے
ھیں تو تم رونے لگتی ھو اور جب وہ صحت مند ھوجاتے ھیں تو ان
کی گردن پر سوار ھو جا تی ھو “
رسول
اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس کی طرف دیکھ کر
فرمایا:”ان کو چھوڑ دو یہ تم سے بہتر ھیں
۔۔۔“۔
حاضرین
کے درمیان جھگڑا شروع ھو گیا عنقریب تھا کہ نبی اپنے مقصد
میں کا میاب ھوجائیں تو بعض حاضرین نبی کے اس فعل
میںحا ئل ھو تے ھوئے کھنے لگے :”نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ
و سلم) کو ہذیان ھو گیا ھے“۔[7]
نبی
اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سامنے اس سے بڑی اور
کیا جرات ھو سکتی ھے ،مر کز نبوت پر اس سے زیادہ اور کیا
ظلم و ستم اور زیاد تی ھو سکتی ھے کہ نبی پر” ہذیان
ھو نے کی تھمت لگا ئی جائے ،جن کے بارے میں خدا فرماتا ھے :
< مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَی ۔وَمَا یَنْطِقُ عَنْ
الْہَوَی ۔إِنْ ہُوَ إِلاَّ وَحْيٌ
یُوحَی۔ عَلَّمَہُ شَدِیدُ الْقُوَی>۔[8]
”تمھارا ساتھی نہ گمراہ ھوا ھے
اور نہ بہکا،اور وہ اپنی خواھش سے کلام بھی نھیں کر تا ھے ،اس کا
کلام وھی وحی ھے جو مسلسل نازل ھو تی رہتی ھے ،اسے
نھایت طاقت والے نے تعلیم دی ھے “۔
(معاذاللہ )نبی کو ہذیان
ھوگیا ھے جن کے متعلق خداوند عالم فرماتا ھے :< إِنَّہُ لَقَوْلُ
رَسُولٍ کَرِیمٍ ۔ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَکِینٍ
>۔[9]
”بیشک یہ ایک معزز
فرشتے کا بیان ھے ،وہ صاحب قوت ھے اور صاحب عرش کی بارگاہ کا
مکین ھے “۔
قارئین
کرام! ھمیں اس واقعہ کو غور کے ساتھ دیکھنا چا ہئے جذبات سے
نھیں ،کیونکہ اس کا تعلق ھمارے دینی امور سے ھے ،اس سے
ھمارے لئے حقیقت کا انکشاف ھو تا ھے اور اسلام کا مقابلہ کرنے والوں کے مکر
پر دلیل قائم ھو تی ھے ۔
بھر
حال ابن عباس امت کے نیکو کار افراد میں سے ھیںجب ان کے سامنے
اس واقعہ کا تذکرہ ھواتو ان کا دل حزن و غم اور حسرت و یاس سے پگھل کر رہ
گیا وہ رونے لگے یھاں تک کہ ان کے رخساروں پر
مو
تیوں کی طرح آنسو کے قطرے بھنے لگے اور وہ یہ کہتے جارھے تھے
:جمعرات کا دن، جمعرات کے دن کیاھو گیا ،رسول اللہ(صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے :”اِئتُوْنِيْ بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاةِ
لَاَکْتُبَ لَکُمْ کِتَاباً لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ اَبَداً
۔۔۔“۔
”مجھے کاغذ اور قلم لا کر دو تاکہ
میں تمھارے لئے ایسا نوشتہ تحریر کردوں جس کے بعد تم کبھی
گمراہ نہ ھو“ مجمع نے جواب دیا : رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ
و سلم) کو ہذیان ھو گیا ھے ۔(العیاذ باللہ )[10]
سب
سے زیادہ یہ گمان کیا جا رھا تھا کہ اگر نبی(صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم) امام(ع) کے حق میں کو ئی نو شتہ
تحریر فرمادیتے تو لکھنے سے کو ئی فائدہ نہ ھوتا،اس لئے انھوں
نے نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی کو ئی پروا
نہ کر تے ھوئے ان پرہذیان کی تھمت لگا دی اور واضح طور پر
نبی کی قداست کومجروح کر دیا۔
جنت کا سفر
اب
رسول ، لطف الٰھی سے آسمان کی طرف رحلت کر نے والے تھے ،جس نور
سے دنیا منور تھی وہ جنت کی طرف منتقل ھونے جا رھا تھا ،ملک
الموت آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی روح کو لینے
کےلئے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے قریب ھو رھے تھے،
لہٰذا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے وصی اور
اپنے شھر علم کے دروازے سے مخاطب ھو کر فر مایا :
”ضَعْ رَاسِیْ فِيْ حِجْرِکَ،
فَقَدْ جَاءَ اَمْرُاللّٰہِ،فَاِذَافَاضَتْ نَفْسِيْ
فَتَنَاوَلْھَا،وَامْسَحْ بِھَا وَ جْھَکَ،ثُمَّ وَجِّھْنِيْ الیٰ
الْقِبْلَةِ،وَتَوَلَّ اَمْرِيْ،وَصَلِّ عَلَیَّ اَوَّلَ
النَّاسِ،وَلَاتُفَارِقْنِيْ حتّی تَوَارِیْنِي فِيْ رَمْسِيْ
وَاسْتَعْنِ بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ “۔
”میرا سر اپنی آغوش
میں رکھ لو ،اللہ کا امر آچکا ھے جب میری روح پرواز کرجائے تو
مجھے رکھ دینا،اس سے اپنا چھرہ مس کرنا،پھر مجھے رو بقبلہ کر دینا،تم
میرے ولی امر ھو ،تم مجھ پر سب سے پھلے صلوات بھیجنے والے ھو
،اور مجھے دفن کرنے تک مجھے نہ چھوڑنااور اللہ سے مدد مانگو“۔
امام(ع)
نے نبی کا سر مبارک اپنی گود میں رکھا ،آنحضرت(صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم) کا داھنا ھاتھ تحت الحنک سے ہٹا کر سیدھا کیا
، ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ آپ کی عظیم
روح پرواز کر گئی اور اما م(ع) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ
و سلم)کے چھرئہ اقدس پر اپنا ھاتھ پھیرا ۔[11]
زمین
کانپ گئی ،نو رعدالت خاموش ھو گیا ۔۔۔غم و اندوہ
کی دنیا میں یہ کیسا یاد گار دن تھا
ایسا دن کبھی نہ آیا تھا ۔
مسلمانوں
کی عقلیں زائل ھوگئیں ،مدینہ کی بزرگ عورتوں نے
اپنے چھروں پر طمانچے مار مار کر رونا شروع کیا وہ چیخ چیخ کر
رو رھی تھیں،امھات المومنین نے اپنے سروں سے چا دریں
اُتار دیں،وہ اپنا سینہ پیٹ رھی تھیں اور انصار
کی عورتیں چیخ چیخ کر اپنے حلق پھاڑے ڈال رھی
تھیں ۔ [12]
سب
سے زیادہ رنجیدہ و غمگین اھل بیت(ع) اور آپ(صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی جگر گو شہ فاطمة الزھرا سلام اللہ
علیھا تھیں، آپ(ع) اپنے پدر بزرگوار کے لاشہ پر رو رو کر یوں
بین کر رھی تھیں :
”واابتاہ “ !”اے پدر بزرگوار“۔
”وانبيّ رحمتاہ “۔”اے نبی
رحمت “۔
”الآن لایاتي الوحي “۔
”اب جبرئیل وحی لے کر
نھیں آئیں گے “۔
الآن
ینقطع عنَّاجبرئیلُ “۔
”اب ھم سے جبرئیل کا رابطہ ختم
ھو جا ئیگا“۔
”اَللّٰھُمَّ اَلْحِقْ روحي
بروحہ،وَاشفعني بالنظرالیٰ وجھہ،ولَاتَحرِمْنِيْ اَجْرَہُ وَ شفاعتَہُ
یَوْمَ
القِیَامَةِ “[13]۔
”پروردگار میری روح کو
میرے پدر بزرگوار سے ملحق کر دے ،اور میری میرے پدر
بزرگوار کے چھرے پر نظر ڈالنے سے شفاعت کرنا ،اور مجھے قیامت کے دن اس کے
اجر اور ان کی شفاعت سے محروم نہ کرنا “۔
آپ
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جنازہ کے گرد گھوم رھی
تھیں اور یوں خطاب کر رھی تھیں:
”وَاَبَتَاہُ ! الیٰ
جِبْرِئِیْلَ اَنْعَاہُ “۔اے پدر بزرگوار !جبرئیل نے
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی موت کی خبر دی
۔
”وَاَبَتَاہُ ! جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ
مَاوَاہُ “۔اے پدر بزرگوار آپ کا ملجاء و ماوای جنت الفردوس ھے
۔
”وَاَبَتَاہُ! اَجَابَ رَبّاًدَعَاہُ
“۔[14]اے
پدر بزرگوارآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے پرورگار کی
آواز پر لبیک کھی۔
اورحیرانی
اور اس عالم میںکہ آپ مصیبت کی بنا پرحواس باختہ ھو گئی
تھیں آپ کی ایسی حالت ھو گئی تھی لگتا تھا کہ
آ پ کے جسم سے روح مفارقت کرگئی ھو ۔
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جنازہ کی تجھیز
امام(ع)اپنے
چچا زاد بھا ئی کے جنازے کی تجھیز کر رھے تھے، حالانکہ آپ(ع)
کی انکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری تھا ، آپ(ع) آنحضرت(صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جسم اقدس کو غسل دیتے وقت کہتے جا رھے تھے:
”بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ،لَقَدْ
اِنْقَطَعَ بِمَوْتِکَ مَالَمْ یَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَیْرِکَ مِنَ
النَّبُوَّةِ وَالاَنْبَاءِ وَاَخْبَارِالسَّمَاءِ خَصَّصَتْ حَتَّیٰ
صِرْتَ مُسَلِّیاًعَمَّنْ سِوَاکَ وَعَمَّمْتَ حَتَّیٰ
صَارَالنَّاسُ فِیْکَ سِوَاءٌ۔وَلَوْلَا اَنَّکَ اَمَرْتَ
بِالصَّبْرِ،وَنَھَیْت عنِ الْجَزَ عِ لَا َنْفَدْنَا عَلَیْکَ مَاءَ
الشَّؤُنِ وَلَکَانَ الدَّاء مُمَاطِلاً، وَالْکَمَدُ مُخَالِفاً“ ۔[15]
”میرے ماں باپ آپ پر فدا ھو جا
ئیں یا رسول اللہ آپ کی موت سے وہ تمام چیزیں منقطع
ھوگئیں جو آپ کے علاوہ کسی نبی کی موت سے منقطع نہ ھو
ئیں، جیسے آسمانی خبریں ،آپ اس طرح سمٹے کہ تمام لوگوں سے
گو شہ نشین ھو گئے اور اس طرح پھیلے کہ لوگ آپ کی نظر میں
یکساں ھو گئے، اگر آپ نے صبر کا حکم نہ دیا ھوتا اور نالہ و
فریاد کر نے سے نہ روکا ھوتاتو روتے روتے ھماری آنکھوں سے آنسو ختم ھو
گئے ھوتے اور ھم بیمارھوجاتے“
غسل
دینے کے بعد آپ(ع) نے نحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جسم
اطھر کو کفن پھنایا اور تابوت میں رکھا ۔
جسم اطھر پر نماز جنازہ
سب
سے پھلے اللہ نے عرش پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی
نماز جنازہ پڑھی ،اس کے بعد جبرئیل ،پھر اسرافیل اور اس کے بعد
ملائکہ نے گروہ گروہ [16]کر
کے نماز جنازہ ادا کی ،جب مسلمان نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ
و سلم) کے جنازہ پر نماز جنازہ پڑھنے کےلئے بڑھے تو امام(ع) نے اُن سے
فرمایا :”لایَقُوْمُ عَلَیْہِ اِمامُ مِنْکُمْ،ھُوَ اِمامُکُمْ
حَیّاًوَمَیِّتاً“،”تم میں سے کو ئی امامت کے لئے آگے نہ
بڑھے اس لئے کہ آپ حیات اور ممات دونوں میں امام ھیں
“لہٰذا وہ لوگ ایک ایک گروہ کر کے نماز ادا کر رھے تھے ،اور ان
کا کو ئی پیش امام نھیں تھا ، مخصوص طور پر مولائے کائنات حضرت
علی(ع) نے نماز جنازہ پڑھا ئی اور وہ لوگ صف بہ صف نماز پڑھ رھے تھے
اور امام کے قول کو دُھراتے جا رھے تھے جس کی نص یہ ھے:”السَّلَامُ
عَلَیکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ
وَبَرَکَاتُہُ۔۔اَللَّھُمَّ اِنّاَ نَشْھَدُ اَنَّہُ قَدْ بَلَّغَ
مَااُنْزِلَ اِلَیْہِ،وَنَصَحَ لاُمَّتِہِ،وَجَاھَدَ فِیْ
سَبِیْلِ اللّٰہِ حَتّیٰ اَعَزَّاللّٰہَ
دِیْنَہُ وَتَمَّتْ کَلِمَتُہُ۔اَللَّھُمَّ فَاجْعَلْنَامِمَّنْ
یَتَّبِعَ مَااَنْزَلَ اِلَیْہِ،وَثَبِّتْنَا بَعْدَہُ، وَاجْمَعْ
بَیْنَنَابیْنََہُ“
”سلام ھو آپ پر اے اللہ کے
نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اس کی رحمت اور برکت
ھو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر،۔۔۔بیشک
ھم گو ا ھی دیتے ھیں کہ جو کچھ آپ(صلی اللہ علیہ و
آلہ و سلم) پر نازل ھوا وہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے پھنچا
دیا،امت کی خیر خوا ھی کی ،اللہ کی راہ
میں جھاد کیا یھاں تک کہ اللہ نے آپ(ع) کے دین کو
قوی اور مضبوط بنا دیا،اور اس کی بات مکمل ھو گئی ،اے خدا
ھم کوان لوگوں میں سے قرار دیا جن پر تو نے نازل کیا اور انھوں
نے اس کی اتباع کی ،ھم کو بعد میں اس پر ثابت قدم رکھ ،اور ھم
کو ان کو آخرت میں ایک جگہ جمع کرنا “نماز گذار کہہ رھے تھے
:آمین۔[17]
مسلمان
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے جنازے کے پاس سے گذرتے
ھوئے ان کو وداع کرتے جارھے تھے ، جو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و
سلم) سے قریب تھے اُن پر حزن و ملال کے آثار نمایاں تھے کیونکہ
ان کو نجات دلانے والا اور ان کامعلم دنیا سے اٹھ چکا تھا ،جس نے ان کےلئے
بڑی محنت و مشقت کے ساتھ منظم شھری نظام کی بنیاد
رکھی،اب وہ داعی اجل کو لبیک کہہ چکا تھا ۔
جسم مطھر کی آخری پناہ گاہ
جب
مسلمان اپنے نبی کے جسم اقدس پر نماز پڑھ چکے تو امام(ع) نے نبی اکر
م(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کےلئے قبر کھودی ، اور قبر کھودنے
کے بعدجسم اطھر کو قبر میں رکھاتواُ ن کی طاقت جواب دے گئی
،آپ(ع) قبر کے اندر کھڑے ھوئے قبر کی مٹی کو اپنے آنسووں سے تر کرتے
ھوئے فرمایا :”اِنَّ الصَّبْرَلجَمِیْلٌ اِلَّاعَنْکَ،وَاِن
الْجَزَعَ لقَبِیْحُ اِلَّاعَلَیْکَ،وَاِنَّ الْمُصَابَ بِکَ
لَجَلِیْلُ،وَاِنَّہُ قَبْلَکَ وَبَعْدَکَ لَجَلَلُ “۔[18]
”آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ
و سلم) کے علاوہ سب پر صبر کرنا جمیل ھے ،آپ(ع) کے علاوہ پر آہ و نالہ کرنا
درست نھیں ھے ، آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر مصاب ھونا
جلالت و بزرگی ھے اور بیشک اس میں آپ(صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم) سے پھلے اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد
بزرگی ھے “۔
اس
یادگار دن میں عدالت کے پرچم لپیٹ دئے گئے ،ارکان حق کا نپ گئے
،اور کا ئنات کو نورانی کرنے والا نور ختم ھو گیا ،وہ نور ختم
ھوگیا جس نے انسانی حیات کی روش کواس تاریک
واقعیت سے جس میں نور کی کو ئی کرن نھیں تھی
ایسی با امن حیات میں بدل دیاجو تمدن اور انصاف سے
لھلھا رھی تھی اس میں مظلوموں کی آھیں اور محروموں
کی کراھیں مٹ رھی تھیں ،خدا کی نیکیاں
بندوں پر تقسیم ھو رھی تھیںجن نیکیوں کا کو
ئی شخص اپنے لئے ذخیرہ نھیں کر سکتا ۔
سقیفہ کا اجلاس
دنیائے
اسلام میں مسلمانوں کا کبھی اتنا سخت امتحان نھیں
لیاگیاجتنا سخت امتحان سقیفہ کے ذریعہ لیا
گیا ،وہ سقیفہ جس سے مسلمانوں کے درمیان فتنوں کی آگ بھڑک
اٹھی ،اور ان کے درمیان قتل و غارت کا دروازہ کھل گیا ۔
انصار
نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی وفات کے دن
سقیفہ بنی ساعدہ میں میٹنگ کی جس میں انھوں
نے اوس اور خزرج کے قبیلوں کو شریک کرکے یہ طے کیاکہ
خلافت ان کے درمیان سے نھیں جا نی چا ہئے ، مدینہ والوں
کو مھا جرین کا اتباع کرتے ھوئے علی(ع) کی بیعت
نھیں کر نا چاہئے جن کو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)
نے خلیفہ بنایا تھا اور غدیر خم کے میدان میں
علی الاعلان ان کو خلیفہ معین فرمایا تھا ،انھوں نے
ایک ھی گھر میں نبوت و خلافت کے جمع ھونے کا انکار کیا
،جیساکہ بعض بزرگان نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے
علی(ع)کے حق میں نوشتہ لکھنے کے درمیان حا ئل ھوئے،اور انھوںنے
نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے فرمان کو نافذ کرنے کے بجائے
اس کو ترک کردیا ۔
بھر
حال رسو ل(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے لشکر میں انصار طاقت و
قوت کے اعتبار سے اصل ستون سمجھے جاتے تھے لیکن رسول(صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم) کی رحلت کی وجہ سے قریش کے گھر وں
میں رنج و غم اورماتمی لباس عام ھوچکا تھالہٰذاجو افراد انصار
سے بیحد بغض و کینہ رکھتے تھے ، انھوں نے انصار کے ڈر کی وجہ سے
اجلاس منعقد کرنے میں بہت ھی عجلت سے کام لیا ۔
حباب
بن منذر کا کھنا ھے : ھمیں اس بات کا ڈر تھا کہ تمھارے بعد وہ لوگ ھم سے
ملحق ھوجائیں جن کی اولاد آباء و اجداد اور اُن کے بھا ئیوں کو
ھم نے قتل کیا ھے “۔[19]
حباب
کی دی ھو ئی خبر محقق ھو ئی چونکہ کم مدت والے خلفاء
کی حکومت ختم نھیں ھو ئی تھی کہ امویوں نے حکومت
کی باگ ڈور سنبھال لی ،امویوں نے اُن کو بہت زیادہ
ذلیل و رسوا کیا ،معاویہ نے تو ظلم و ستم کرنے میں انتھاء
کر دی ،جب اس کا بیٹا یزید تخت حکومت پر بیٹھا تو
اُ س نے اُن پر ظلم و ستم کئے اُن کی آبرو ریزی کی ،ان کو
سخت ایذا و تکلیف پھنچا ئی ،اُ س نے واقعہ حَرّہ میں جس
کی تاریخ میں کو ئی مثال نھیں ملتی اُن کے
اموال ،خون اور آبروریزی کو مباح کر دیا تھا ۔
بھر
حال کچھ انصار نے سعد کوخلافت کا حقدارقرار دیااور کچھ نے قبیلہ اوس
کے سردار خُضَیر بن اُسید کو خلافت کے لئے بہتر سمجھا ،اُنھوں نے اور
قبیلہ سعد یعنی خزرج سے سخت بغض و کینہ کی وجہ سے
اُ س کےلئے بیعت سے انکار کیا،ان دونوں کے ما بین بہت گھرے اور
پرانے تعلقات تھے ، عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی انصار کے ھم
پیمان کو بہت جلد سقیفہ میں رو نما ھونے والے واقعہ سے اور ابو
بکر و عمرکوآگاہ کیا تو یہ دونوں جزع و فزع کرتے ھوئے جلدی سے
سقیفہ پھنچے ، وہ دونوں انصار پراس طرح دھاڑے کہ جو کچھ ان کے ھاتھوں
میں تھا وہ زمیں بوس ھو گیا ، سعد کا رنگ اڑ گیا ،ابو بکر
و انصار کے ما بین گفتگو ھونے کے بعد ابو بکر کے گروہ نے اٹھ کر ان (ابوبکر
) کی بیعت کرلی ،اس بیعت کے اصل ھیرو عمر تھے
،انھوںنے یہ کھیل کھیلا، لوگوں کو اپنے ھم نشین کی
بیعت کے لئے اُبھارا،ابو بکر اپنے گروہ کے ساتھ سقیفہ سے نکل کر مسجدِ
رسول تک تکبیر و تھلیل کے سایہ میں پھنچے ،اس بیعت
میں خاندانِ رسالت ،اسی طرح بڑے بڑے صحابہ جیسے عمار بن
یاسر،ابوذر اور مقداد کے ووٹ باطل قرار دئے گئے۔
ابو بکر کی بیعت کے متعلق امام کا ردّ عمل
تمام
مو رخین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ھے کہ امام(ع)،ابو بکر
کی بیعت سے سخت ناراض تھے ، کیونکہ آپ(ع) اس کے اس سے
زیادہ سزاوار اور حقدار تھے ،آپ(ع) کی رسول(صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم) سے وھی نسبت تھی جو مو سیٰ(ع) کی
ھارون سے تھی ،آپ(ع) کی جد وجھد اور جھاد سے اسلام مستحکم ھوا ،آپ
اسلام کے سلسلہ میںبڑے بڑے امتحانات سے گذرے ،نبی اکرم(صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم) نے آپ(ع) کو اپنا بھا ئی کہہ کر پکارا اورمسلمانوں
سے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “لیکن
انھوں نے بیعت کر نے سے منع کیا ، ابو بکر اور عمر نے آپ(ع) سے زبر
دستی بیعت لی ، عمر بن خطاب نے اپنے دوستوں کے ساتھ آپ(ع) کے
گھر کا گھیرا ڈال دیا ، وہ آپ(ع) کو دھمکیاں دے رھے تھے اپنے
ھاتھ میں آگ لئے ھوئے تھے ،بیت وحی کو جلانا چا ہتے تھے ، جگر
گو شہ رسول سیدة نسا ء العالمین نے بیت الشرف سے نکل کر
فرمایا :اے عمر بن خطاب تم کس لئے آئے ھو ؟“انھوں نے لا پرواھی سے
جواب میں کھا : میں جو کچھ لیکر آیا ھوں وہ آپ(صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے والد بزرگوار کی لا ئی ھوئی
چیز سے بہتر ھے “۔[20]
بڑے
افسوس کی بات ھے کہ امت مسلمہ جناب فاطمہ زھرا(ع)کے سامنے ایسا سلوک
کرے ، وہ زھراء مرضیہ جن کے راضی ھونے سے خدا راضی ھوتا ھے اور
جن کے غضبناک ھونے سے خدا غضبناک ھوتا ھے اور ھمارے پاس ان حالات کو دیکھتے
ھوئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن کھنے کے علاوہ اور
کچھ نھیں ھے ۔
بھر
حال امام(ع)کو زبر دستی گھر سے نکال کر ان کے گلے میں لٹکی ھو
ئی تلوار کے ساتھ ابو بکر کے پاس لایاگیا ،اس کے گروہ نے
چیخ کر کھا :ابو بکر کی بیعت کرو ۔۔۔ابو بکر
کی بیعت کرو ۔
امام(ع)نے
اپنی مضبوط و محکم حجت اور ان کی سر کشی کی پروا نہ کرتے
ھوئے یوں فرمایا :میں اس امر میں تم سے زیادہ حق
دار ھوں ،میں تمھاری بیعت نھیں کروں گا بلکہ تمیں
میری بیعت کرناچاہئے ، تم نے یہ بات انصار سے لی
ھے ،اور تم نے اُن پر نبی سے قرابت کے ذریعہ احتجاج پیش
کیا ،اور تم نے بیعت کو ھم اھل بیت(ع)سے غصب کر لیا
،کیاتمھارا یہ گمان نھیں ھے کہ تم پیغمبر اکرم(صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی قرابت کی وجہ سے اس امیر کے
سلسلہ
میں انصار سے
اولیٰ ھو،لہٰذا وہ تمھاری قیادت قبول کریں
اور تمھیں اپنا امیر تسلیم کریں لہٰذا میں
بھی اس چیز کےصفحہ ۱۰۵۔مروج الذھب،
جلد۱،صفحہ ۴۱۴۔الامامت و السیاسة، جلد
۱،صفحہ ۱۲۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،
جلد ۱، صفحہ۳۴۔الاموال لابی عبیدہ صفحہ
۱۳۱۔اعلام النساء، جلد ۳،صفحہ
۲۰۵۔امام علی لعبد الفتاح مقصود، جلد ۱،صفحہ ۲۱۳۔حافظ
ابراھیم نے اس مطلب کو اشعار میں یوں نظم کیا ھے :
وَقولَةٍ لِعَلِيٍ قَالھا عمرُ
اَکرِمْ بِسامِعِھَااَعْظِمْ
بِمُلقِیْھَا
حرَّقْتُ دَارَکَ لَااَبْقِيْ
عَلَیْک بِھا
اِنْ لَمْ تُبَایِعْ
وَبِنْتُ المُصْطَفیٰ فِیْھا
مَا کَانَ غَیْرُ اَ بِيْ
حَفْصٍ بِقَائِلِھَا
اَمَامَ فَارِسِ عَدْنَانٍ وَ
حَامِیْھاَ
”عمر نے مو لائے کا ئنات سے کھا اے
علی(ع) میں تمھارے گھر میں آگ لگا دوں گا چا ھے گھر میں
دختر نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ھی کیوں نہ ھو
مگر یہ کہ بیعت کرو “عمر کے علاوہ شھسوار عرب کے سامنے کسی
میں ایسی بات کھنے کی جرات نھیں تھی “
ذریعہ
سے تم پر احتجاج کر تا ھوں جس سے تم نے انصار پر احتجاج کیا کہ ھم
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حیات
اور ان کی وفات کے بعد ان سے زیادہ نزدیک ھیں لہٰذا
اگر تم صاحب ایمان ھو تو انصاف کرو ،ورنہ ظلم و ستم کے ذریعہ بیعت
لے لو جبکہ تم حقیقت سے واقف ھو ۔
اے
حجت و دلیل والو!اس دلیل کے ذریعہ قریش کے مھا جرین
،انصار پر غالب آگئے ، کیونکہ وہ نبی سے زیادہ قریب تھے
،اس لئے کہ کلمہ قریش کے متعدد معنی ھیں وہ
نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بزم میں جمع ھوا
کر تے تھے ، حالانکہ وہ ان کے نہ چچا زاد بھا ئی تھے اور نہ ماموں
،لیکن نبی اور علی کے ما بین متعدد طریقوں سے متعدد
رشتے تھے ،آپ(ع) نبی کے چچا زاد بھا ئی ،ابو سبطین اور
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیٹی کے شوھر تھے
جس کے علاوہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی کسی اور سے
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نسل نھیں چلی
۔
بھر
حال عمر امام(ع) کی طرف یہ کہتے ھوئے بڑھا :بیعت کرو
۔۔۔
امام(ع)
نے فرمایا:”اگر میں بیعت نہ کروں تو ؟“۔
اس
خدائے وحدہ لا شریک کی قسم جس کے علاوہ اور کو ئی خدا
نھیں ھے آپ(ع) کوقتل کردیا جائے گا ۔
امام(ع)
نے کچھ دیر خامو ش رھنے کے بعد اس قوم کی طرف دیکھا جس کو خواھش
نفسانی نے گمراہ کر دیا تھا ،ملک و بادشاہت کی چا ہت نے اندھا
کر دیا تھا ،آپ(ع) کو ان میں اُن کے شر سے بچانے والا کو ئی نظر
نھیں آرھا تھا ،آپ(ع) نے بڑی ھی غمگین آواز میں
فرمایا :اب تم اللہ کے بندے اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و
سلم)اللہ کے بھا ئی کو قتل کر دوگے ؟
ابن
خطاب نے کھا :اللہ کے بندے تو صحیح ھے لیکن رسول اللہ(صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم) کے بھا ئی نھیں ۔۔۔
عمر
نے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ان فرامین کو
بھلا دیا جن میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے
فرمایا ھے کہ علی(ع) آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)
کے بھا ئی ھیں ،اُن کے شھر علم کا دروازہ ھیں ،نبی سے
ھارون اور مو سیٰ کی منزل میں ھیں اور اسلام کے
پھلے مجا ھد ھیں ،عمر نے اُن سب کو بھلا کر ابو بکر سے مخاطب ھو کر کھا
:”اَلاتامرفیہ امرک ؟”کیا تم علی(ع) کے بارے میں اپنا
فیصلہ صادر نہ کروگے ؟
ابو
بکر نے فتنہ و فساد ھونے سے ڈرتے ھوئے کھا :میں آپ(ع) پر کو ئی زبر
دستی نھیں کر تا حالانکہ فاطمہ(ع) آپ کے پاس کھڑی ھو ئی
تھیں ۔
قوم
نے امام(ع) کو چھوڑ دیا ،آپ(ع) ھرولہ کرتے ھوئے اپنے بھا ئی رسول
اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے روضہ پر پھنچے اور آپ(صلی
اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے تمام ظلم و ستم کی شکایت کی
،آپ گریہ کر رھے تھے اور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و
سلم) سے یہ کہتے جا رھے تھے :”یابن اُمّ،اِنَّ القَوْمَ
اسْتَضْعَفُوْنِيْ وَکَادُوْایَقْتُلُوْنَنِيْ
۔۔۔“۔[21]
اے
بھائی ،قوم نے مجھے کمزور سمجھ لیا ھے اور وہ مجھے قتل کرنا چا
ہتی ھے ۔۔۔“
قوم
نے آپ(ع) کو کمزور سمجھ لیا اور آپ(ع) کے سلسلہ میں نبی
کی وصیتوں کا انکار کردیا ،امام بڑے ھی رنج و الم کے ساتھ
اپنے بیت الشرف پر پھنچے اور آپ(ع) پر وہ تمام چیزیں واضح و
روشن ھو گئیں جن کے سلسلہ میں ا للہ نے نبی کے بعد آپ کو امت
کی طرف سے پھنچنے والے عذاب اور انقلاب کی خبر دی تھی
۔خداوندعالم فرماتا ھے :<وَمَامُحَمَّدٌ إِلاَّرَسُولٌ قَدْخَلَتْ
مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اٴَفَإِیْن مَاتَ اٴَوْقُتِلَ
انْقَلَبْتُمْ عَلَی اٴَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَنْقَلِبْ
عَلَی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَضُرَّاللهَ
شَیْئًا۔۔۔>۔[22]
”اور محمد تو صرف ایک رسول
ھیں جن سے پھلے بہت سے رسول گذر چکے ھیںکیا اگر وہ
مرجائیں یا قتل ھو جا ئیں تو تم الٹے پیروں پلٹ جا ؤگے تو
جو بھی ایسا کریگا خدا کا نقصان نھیں کرے گا“۔
یہ
تباہ کن تبدیلی اور شدید زلزلہ ھے جس نے قوم کے ایمان اور
خوابوں کو جھنجھوڑدیا ھے بیشک ھم اللہ کے لئے ھیں اور اسی
کی طرف پلٹ کر جانے والے ھیں ۔
بھر
حال ھم ان افسوسناک واقعات سے قطع نظر کر تے ھیں کہ ابو بکر کی حکو مت
نے اھل بیت(ع) سے سخت دشمنی کی وجہ سے سخت قوانین نافذ
کرتے ھوئے فدک چھین لیا ،خمس کولغو قرار دیا اور اس کے علاوہ
متعدد واقعات رو نما ھوئے جن کو ھم نے تفصیل کے ساتھ حیات الامام
امیر المو منین(ع) میں تحریر کر دیاھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں