جمعہ، 14 مارچ، 2014

قصہ حضرت موسى اور حضرت خضر عليہ السلام ( حصہ دوئم )

عظيم استاد كى زيارت

قرآن اس داستان كو آگے بڑھاتے ہوئے كہتا ہے:جس وقت موسى عليہ السلام اور ان كے ہمسفر دوست ''مجمع البحرين ''اور پتھر كے پاس پلٹ كر آئے تو'' اچانك ہمارے بندوں ميں سے ايك بندے سے ان كى ملاقات ہوگئي_ وہ بندہ كہ جس پر ہم نے اپنى رحمت كى تھى اور جسے ہم نے بہت سے علم و دانش سے نوازا تھا''_
اس وقت حضرت موسى عليہ السلام نے بڑے ادب سے اس عالم بزرگ كى خدمت ميں عرض كيا: ''كيا مجھے اجازت ہے كہ ميں آپ كى پيروى كروں تاكہ جو علم آپ كو عطا كيا گيا ہے اور جو باعث رشد و صلاح ہے،مجھے بھى تعليم ديں''_ ليكن بڑے تعجب كى بات ہے كہ اس عالم نے موسى عليہ السلام سے كہا:''تم ميرے ساتھ ہر گز صبر نہ كرسكوگے''_ ساتھ ہى اس كى وجہ اور دليل بھى بيان كردى اور كہا:''تم اس چيز پر كيسے صبر كر سكتے ہو جس كے اسرار سے تم آگا ہى نہيں ركھتے''؟ جيسا كہ ہم بعد ميں ديكھيں گے يہ عالم، اسرار و حوادث كے باطنى علوم پر دسترس ركھتا تھا جبكہ حضرت موسى عليہ السلام نہ باطن پر مامور تھے اور نہ ان كے بارے ميں زيادہ آگاہى ركھتے تھے
ايسے مواقع پر ايسا بہت ہوتا ہے كہ حوادث كے ظاہر سے ان كا باطن مختلف ہوتا ہے، بعض اوقات كسى واقعے كا ظاہر احمقانہ اور ناپسنديدہ ہوتا ہے جبكہ باطن ميں بہت مقدس منطقى اور سوچا سمجھا ہوتا ہے ايسے مواقع پر جو شخص ظاہر كو ديكھتا ہے وہ اس پر صبرنہيں كرپاتا اور اس پر اعتراض كرتا ہے يا مخالفت كرنے لگتا ہے
ليكن وہ استاد كہ جو اسرار دروں سے آگاہ ہے اور معاملے كے باطن پر نظر ركھتا ہے وہ بڑے اطمينان اور ٹھنڈے دل سے كام جارى ركھتا ہے اور اعتراض اور واويلاپر كان نہيں دھرتا بلكہ مناسب موقع كے انتظار ميں رہتا ہے تاكہ حقيقت امر بيان كرے جبكہ شاگرد بے تاب رہتا ہے ليكن جب اسرار اس پر كھل جاتے ہيں تو اسے پورى طرح سكون و قرار آجاتا ہے
حضرت موسى عليہ السلام يہ بات سن كر پريشان ہوئے ،انہيں خوف تھا كہ اس عالم بزرگ كا فيض ان سے منقطع نہ ہو لہذا انہوں نے وعدہ كيا كہ تمام امور پر صبر كريں گے اور كہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائيں گے اور ميں وعدہ كرتا ہوں كہ كسى كام ميں آپ كى مخالفت نہيں كروں گا
يہ كہہ كر حضرت موسى عليہ السلام نے پھر انتہائي ادب و احترام اور خدا كى مرضى پر اپنے بھروسے كا اظہار كيا
آپ نے اس عالم سے يہ نہيں كہا كہ ميں صابر ہوں بلكہ كہتے ہيں:انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائيں گے_ليكن چونكہ ايسے واقعات پر صبر كرنا كہ جو ظاہراً ناپسنديدہ ہوں اور انسان جن كے اسرار سے آگاہ نہ ہوكوئي آسان كام نہيں اس لئے اس عالم نے حضرت موسى عليہ السلام كو خبردار كرتے ہوئے پھر عہد ليا ''اور كہا اچھا اگر تم ميرے پيچھے پيچھے آنا چاہتے ہو تو ديكھو خاموش رہنا اور كسى معاملے پر سوال نہ كرنا جب تك كہ مناسب موقع پر ميں خود تم سے بيان نہ كردوں''
جناب موسى (ع) نے پھر دوبارہ وعدہ كيا اور استادكے ساتھ ہولئے

خدائي معلم اور يہ ناپسند يدہ كام ؟

''موسى (ع) اس عالم ربانى كے ساتھ چل پڑے _چلتے چلتے ايك كشتى تك پہنچے اور اس ميں سوار ہو گئے''
يہاں سے ہم ديكھتے ہيں كہ اب قرآن تثنيہ كى ضمير استعمال كرنے لگا ہے_ يہ اشارہ ہے حضرت موسى عليہ السلام اور اس عالم بزرگوار كى طرف_ يہ امر نشاندہى كرتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے ہمسفر يوشع (ع) كى ماموريت اس مقام پر ختم ہوگئي تھى اور وہ يہاں سے پلٹ گئے تھے يا پھر يہ ہے كہ وہ موجود تو تھے ليكن اس معاملے سے ان كا تعلق نہيں تھا لہذا انہيں يہاں نظرا نداز كرديا گيا ہے_ ليكن پہلا احتمال زيادہ قوى معلوم ہوتا ہے
''بہرحال وہ دونوں كشتى پر سوار ہوگئے تو اس عالم نے كشتى ميں سوراخ كرديا ''
حضرت موسى عليہ السلام چونكہ ايك طرف تو اللہ كے عظيم نبى بھى تھے ، لہذا انہيں لوگوں كى جان و مال كا محافظ بھى ہونا چاہئے تھا اور انہيں امر بالمعروف اور نہى عن المنكر بھى كرنا چاہتے تھا اور دوسرى طرف ان كا انسانى ضمير اس بات كى اجازت نہيں ديتا تھا كہ وہ اس قسم كے غلط كام پر خاموشى اختيار كريں لہذا حضرت خضر كے ساتھ ان كا جو معاہدہ ہوا تھا اسے ايك طرف ركھا اور اس كام پر اعتراض كرديا اور '' كہا:
كيا آپ نے اہل كشتى كو غرق كرنے كے لئے اس ميں سوراخ كرديا ہے واقعاً آپ نے كس قدر برا كام انجام ديا ہے ''
واقعا ًيہ كام كتنا حيرت انگيز ہے كہ كسى كشتى ميں بہت سے مسافر سوار ہوں اور اس ميں سوراخ كرديا جائے ؟
بعض روايات ميں ہے كہ اہل كشتى جلدہى متوجہ ہوگئے اور انہوں نے اس سوارخ كو كسى چيز كے ذريعے سے پركرديا ليكن اب وہ كشتى صحيح نہيں رہ گئي تھى
اس وقت اس عالم نے بڑى متانت كے ساتھ موسى پر نگاہ ڈالى اور ''كہا: ميں نے نہيں كہا تھا كہ تم ميرے ساتھ ہرگز صبر نہيں كرسكو گے ''
اس واقعے كى اہميت كے پيش نظر حضرت موسى كى عجلت اگرچہ فطرى تھى تاہم وہ پشيمان ہوئے انہيں اپنا معاہدہ ياد آيا لہذا معذرت آميز لہجے ميں استاد سے '' كہا اس بھول پر مجھ سے مواخذہ نہ كيجئے اور اس كام پرمجھ پر سخت گيرى نہ كيجئے ''

كيوں اس بچے كو قتل كر رہے ہو؟

ان كا دريائي سفر ختم ہوگيا وہ كشتى سے اتر آئے ،''سفر جارى تھا اثنائے راہ ميں انہيں ايك بچہ ملا ليكن اس عالم نے كسى تمہيد كے بغير ہى اس بچے كو قتل كرديا''
حضرت موسى (ع) سے پھر نہ رہاگيا يہ نہايت وحشتناك منظر تھا بلا جواز اور بےوجہ ايك بے گناہ بچے كا قتل ، ايسى چيز نہ تھى كہ حضرت موسى خاموش رہ سكتے آپ غصے سے آگ بگولہ ہوگئے غم واندوہ اور غصے كا يہ عالم تھا كہ آپ نے پھر اپنے معاہدے كو نظر انداز كرتے ہوئے اب كى شديد تراور واضح تر اعتراض كيا يہ واقعہ بھى پہلے واقعے كى نسبت زيادہ وحشتناك تھا وہ كہنے لگے :''كيا آپ نے ايك بے گناہ اور پاك انسان كو قتل كرديا ہے جبكہ اس نے كسى كو قتل نہيں كيا،واقعاً آپ نے كيسا برا كا م انجام دياہے_'' اس عالم بزرگوار نے پھر اپنے خاص اطمينان اور نرم لہجے ميں وہى جملہ دہرايا ' كہا ميں نے تم سے نہ كہا تھا كہ تھا تم ہرگز ميرے ساتھ صبر نہ كر سكوگے'
حضرت موسى عليہ السلام كو اپنا عہد ياد آگيا انہيں بہت احساس شرمندگى ہورہا تھا كيونكہ دومرتبہ يہ پيمان ٹوٹ چكا تھا چاہے بھول كرہى ايسا ہوا ہو انہيں خيال آرہا تھا كہ ہوسكتا ہے استاد كى بات صحيح ہو كہ انہوں نے تو پہلے ہى واضح كرديا تھا كہ ابتدا ميں ان كے كام موسى كے لئے ناقابل برداشت ہوں گے
موسى (ع) نے پھر عذر خواہى كے لہجے ميں كہا كہ اس دفعہ بھى مجھ سے صرف نظر كيجئے اور ميرى بھول چوك كو نظر انداز كرديجئے اور'' اگر اس كے بعد ميں آپ كے كاموں كے بارے ميں وضاحت كا تقاضا كروں (اور آپ پر اعتراض كروں ) تو پھربے شك مجھے ساتھ نہ ركھيں اور اس صورت ميں آپ ميرى استادى سے معذور ہوں گے ''
 لفظ'' غلام'' جو ان نورس كے معنى ميں ہے وہ حد بلوغ كو پہنچا ہو يا نہ پہنچا ہو
جس نوجوان كو اس عالم نے قتل كيا تھا وہ حد بلوغ كو پہنچا ہوا تھا يا نہيں اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے
بعض نے '' نفسا زكية'' (پاك اور بے گناہ انسان ) كى تعبير كو اس بات كى دليل بنايا ہے كہ وہ بالغ تھا كيونكہ قصاص صرف بالغ سے ليا جاسكتا ہے _البتہ آيت كو مجموعى طور پر ديكھا جائے تو اس سلسلے ميں حتمى فيصلہ نہيںكيا جاسكتا
يہ جملہ حضرت موسى (ع) كى انصاف پسندي، بلند نظرى اور اعلى ظرفى كى حكايت كرتا ہے اور نشاندہى كرتا ہے كہ وہ ايك حقيقت كے سامنے سرجھكادينے والے تھے اگرچہ وہ كتنى ہى تلخ كيوں نہ ہو
دوسرے لفظوں ميں تين بار كى آزمائشے سے يہ واضح ہوجائے گا كہ ان دونوں كى ماموريت الگ الگ ہے اور اس كا نباہ نہيں ہوسكتا


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں