جمعہ، 14 مارچ، 2014

امام علی علیه السلام کی زندگی کے اهم واقعات ( حصہ دوئم )

زھرا (س)  راہ آخرت میں

امام امیر المو منین(ع) اس المناک مصیبت میں مبتلا ھوئے کہ حضرت زھرا سلام اللہ نے شھادت پائی ، 
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مریض ھو گئیں اور سخت مصیبتوں میں گھر گئیں ،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) عین عالم شباب میں تھیں کہ موت نے آپ(ع) کا پیچھا کیاجگر گوشہ  رسول نے اپنے پدر بزرگوارکی وفات کے بعدطرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کیا کیونکہ امت نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نگاہ میں آپ کی منزلت کو فراموش کر چکی تھی ،اُس نے آپ کے ترکہ کو غصب کرلیا،گھر پر قبضہ کر لیا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ابن عم کو وصیت کی منجملہ یہ کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حق کو چھیننے والے آپ کے جنازہ میں نہ آئیں ،اُن کو رات کی تاریکی میں دفن کیا جائے ،قبر کا نشان مٹا دیا جائے تاکہ معلوم ھو جائے کہ آپ امت پر کس قدر غضبناک تھیں ۔
بھر حال امام(ع)نے صدیقہ طاھرہ کی آخری رسومات میں آپ(ع) کی وصیت کونافذ فرمایا،آپ آنکھوں سے جاری ھونے کی حالت میں قبر میں اُترے ،رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو سلام کیا ،اُن کو تعزیت پیش کی ، اور یوں شکوہ شکایت کیا:
”السَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ عَنِّيْ،وَعَنْ ابْنَتِکَ النَّازِلَةِ فيْ جَوَارِکَ،السَّرِیْعَة اللَّحَاقِ بِکَ ! قَلَّ یَارَسُوْلَ اللّٰہ عَنْ صَفِیَِّتِکَ صَبْرِيْ وَرَقَّ عَنْھَا تَجَلُّدِيْ،اِلَّااَنَّ فِي التَّاَسِّیْ،بِعَظِیْمِ فُرْقَتِکَ،وَفَادِحِ مُصِیْبَتِکَ،مَوْضِعَ تَعَزٍّ،فَلَقَدْ وَسَّدْتُکَ فِیْ مَلْحُوْدَتِ قَبْرِکَ وَفَاضَتْ بَیْنَ نَحْرِيْ  وَصَدْرِيْ نَفْسُکَ < اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن>۔
فَلَقَدْ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِیْعَةُ،وَاُخَذَتِ الرَّھِیْنَةُ ! اَمَّاحُزْنِيْ فَسَرْمَدُ،وَاَمَّا لَیْلِيْ فَمُسَھَّدُ،اِلیٰ اَنْ یَخْتَارَاللّٰہُ لِيْ دَارَکَ اللَّتِیْ اَنْتَ بِھَامُقِیْمُ ۔وَسَتُنَبِئُکَ ابْنَتُکَ بِتَضَافُر ِاُمَّتِکَ عَلیٰ ھَضْمِھَا، فَاَحْفِھَا السَّوَالَ،وَاسْتَخْبِرْھَاالْحَالَ،ھَذَاوَلَمْ یَطُلْ الْعَھْدُ،وَلَمْ یَخْلُ مِنْکَ الذِّکْرُ۔
وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ،لَاقَالٍ وَلَاسَئْمٍ،فَاِنْ اَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَلَالَةٍ ، وَاِنْ اُقِمْ فَلَا عَنْ سُوْءِ ظَنٍّ بِمَاوَعْدَ اللّٰہُ الصَّا بِرِیْنَ “[23]
”یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آپ کو میری جانب سے اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جوارمیں آنے والی اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے جلد ملحق ھونے والی آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیٹی کی طرف سے سلام ھو ۔یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی برگزیدہ (بیٹی کی رحلت ) سے میرا صبرو شکیب جاتا رھا ۔میری ھمت و توانا ئی نے ساتھ چھوڑ دیا۔لیکن آپ کی مفارقت کے حادثہ عظمیٰ
اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی رحلت کے صدمہ  جا نکاہ پرصبر کر لینے کے بعدمجھے اس مصیبت پر بھی صبر و شکیبا ئی ھی سے کام لینا پڑے گا جبکہ میں نے اپنے ھاتھوں سے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو لحد میں اُتارااور اس عالم میں آپ(ع) کی روح نے پرواز کی کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا سر میری گردن اور سینہ کے درمیان رکھا تھا۔اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
اب یہ امانت پلٹا لی گئی ،گروی رکھی ھو ئی چیز چھڑا لی گئی لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رھیں گی ۔ یھاں تک کہ خداوند عالم میرے لئے بھی اسی گھر کو منتخب کرے جس میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) رونق افروز ھیں وہ وقت آگیا کہ آپ کی بیٹی آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو بتا ئیں کہ کس طرح آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی امت نے اُن پر ظلم ڈھانے کے لئے اتحاد کر لیا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اُن سے پورے حالات دریافت کرلیں یہ ساری مصیبتیں اُن پربیت گئیں ۔حالانکہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو گذرے ھوئے کچھ زیادہ عرصہ نھیں ھوا تھا اور نہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے تذکروں سے زبانیں بند ھو ئی تھیں ۔
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) دونوں پر میراالوداعی سلام ھو نہ ایسا سلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف سے ھوتا ھے اب اگر میں (اِس جگہ سے) پلٹ جاؤں تو اس لئے نھیں کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے میرا دل بھر گیا ھے اور اگر ٹھھرا رھوں تو اس لئے نھیں کہ میں اس وعدے سے بد ظن ھوں جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ھے “۔[24]
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی امانت کے مفقود ھونے پرامام کے یہ حزن و غم سے بھرے کلمات تھے جیسا کہ آپ کے کلمات دنیا کی طرف سے پھنچنے والے درد و الم کی حکایت کر تے ھیں ،اور امام(ع) نے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مطالبہ کیا کہ اپنے پارئہ تن سے امت کی طرف سے پھنچنے والے دردو الم کے متعلق ضرور سوال کریں تاکہ وہ بتا سکیں کہ امت نے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو کس طرح ستایا ھے ۔
بھر حال امام(ع) جگر گوشہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو دفن کرکے آئے جبکہ آپ(ع) بہت زیادہ رنجیدہ تھا ، اس لئے کہ قوم نے اُن کو معزول کر دیا ،آپ(ع)نے اُمت سے منھ موڑ لیا اورآپ(ع) تمام سیاسی امورسے الگ تھلگ ھوگئے۔

عمر کی حکومت

ابو بکر کی حکومت کو کچھ ھی دن گذرے تھے اور وہ اپنی حکومت کے دو سال گذرنے کے بعد بیمار پڑگئے اور جب ان کو اپنی موت کا یقین ھو گیا تو انھوں نے حکومت اپنے ساتھی عمر کے حوالہ کر دی ، بزرگ صحابہ کے مابین عمر کو ولی بنائے جانے پر بہت زیادہ لڑا ئی جھگڑا ھوامگر یہ کہ ابو بکر نے ان کی ایک نہ ما نی اور اپنی اسی رائے پر مصر رھے [25]اس نے عمر کے لئے ایک عھد نامہ لکھاجس کو عثمان کے حوالہ کیا گیا اس نے اس کو لوگوں کے درمیان شائع کیا اور انھیں عمر کی بیعت کر نے کی دعوت دی ۔
بھر حال عمر کو بہت ھی آسانی اور کسی مشکل کے بغیر حکومت مل گئی ،وہ لوھے سے زیادہ سختی کے ساتھحکومت پر قابض ھوگئے ،سختی کا نام دی جانے والی سیاست کے قائد بن گئے ،یھاں تک کہ بڑے بڑے اصحاب کے ساتھ بھی سختی سے پیش آنے لگے ،مو رخین کے بقول وہ حجاج کی تلوار سے بھی زیادہ سخت تھے ، عمرکی سخت گیری تمام افراد سے زیادہ تھی ،وہ شھروں پر مکمل طور پر مسلط ھوگئے حکومتی امور کو چلانے میں وہ اپنی مخصوص سیاست میں منفرد تھے ،ھم اپنی کتاب حیاة الامام امیر المو منین کے دوسرے حصہ میں اُن کی داخلی ،خارجی اور اقتصادی سیاست کومفصل طور پر بیان کر چکے ھیں ۔

عمر پر حملہ

ایرانیوں کے مقابلہ میں عمر کی مخصوص سیاست تھی ،اسی لئے عمر ایرانیوں سے نفرت کرتا تھا اور ایرانی عمر سے نفرت کرتے تھے ،ابو لو لو نے عمر کی عداوت کو چھپارکھا تھا ، ایک دن ان کاعمر کے پاس گذر ھوا تو عمر نے ان سے مذاق کرتے ھوئے کھا :مجھے خبر ملی ھے کہ تم یہ کہتے ھو :لوشئت ان اصنع رحی تطحن بالریح لفعلت؟
”اگر میں ھوا سے چلنے والی چکی بنا نا چا ھوں تو بنا سکتا ھوں “۔
یہ جملہ ان کو بُرا لگااور انھوں نے غضبناک ھوکر اپنا دفاع کر تے ھوئے یوں کھا: لاصنعنّ لک رحي یتحدّث بھا الناس۔۔۔”میں تیرے لئے ایسی چکی بناؤں گا جس کا لوگوں میں چرچا رھے گا “
دوسرے دن انھوں نے عمرپر حملہ کر دیا[26] اور اس کو تین نیزے مارے :ایک نیزہ اس کی ناف   کےنیچے لگا جس سے اس کی نیچے والی کھال پھٹ گئی ،اس کے بعد ابو لو لو نے اھل مسجد پر حملہ کیا  اور گیارہ آدمیوں کو نیزہ مارا ،عمر کو اٹھاکر اس کے گھر پرلیجایا گیا حالانکہ اس کے زحم سے خون بہہ رھا تھا ، اس نے اپنے اطراف والوں سے کھا :مجھے کس نے تیر مارا ھے ؟مغیرہ کے غلام نے ۔۔
کیا میں نے تم سے نھیں کھا تھا :لا تجلبوا لنا من العلوج احداً فغلبتموني ۔[27]
”کسی ایرانی کافر کو میرے پاس نہ لانا لیکن تم نے میری بات نہ ما نی “
عمرکے اھل و عیال طبیب کو بلا کر لائے تو طبیب نے عمر سے کھا :تم کونسی شراب زیادہ پسند کرتے ھو ؟عمر نے کھا : نبیذ۔
 عمر کو وہ شراب پلا ئی گئی وہ اس کی بعض آنتوں سے نکل کر باھر آگئی ،لوگوں نے کھا :پیپ نکل رھا ھے ۔اس کے بعد دودھ پلایا گیا جو اس کی کچھ آنتوں سے باھر نکل گیا ،یہ دیکھ کر طبیب نے مایوس ھو کر کھا : اب تمھارا کو ئی علاج نھیں ھو سکتا ۔[28]

شوریٰ کا نظام

عمر کے مرض میں شدت آتی گئی تو وہ امت قیادت کو سونپنے کی فکر میں پڑگئے تو اس کی پارٹی کے وہ افراد جنھوں نے خاندان نبوت سے امت کی رھبری کو باھر نکالنے میں مدد کی تھی اس نے اُن سے کف افسوس ملتے ھوئے کھا :اگر ابو عبیدہ زندہ ھوتا تو میں اسے خلیفہ بناتا چونکہ وہ امت کا امین تھا اور اگر سالم مو لا ابو حذیفہ زندہ ھوتا تو اس کو خلیفہ بنا دیتا کیونکہ وہ اللہ سے بہت زیادہ لو لگاتا تھا۔
جب ھم تاریخ اسلام کے اوراق الٹتے ھیں تو نہ تو ھمیں ابو عبیدہ کا تاریخ میں کو ئی کارنامہ  دکھائی دیتاھے اور نہ ھی اس کی عالم اسلام میں کو ئی خدمت دکھا ئی دی ۔
لیکن ھاں سالم مو لا ابو حذیفہ کی کمینہ پن کر نے کی عادت تھی ،ھاں ،اسی نے تو مو لا ئے کائنات کے بیت الشرف پر حملہ کرنے کا کردار ادا کیا تھا ۔۔۔ان حوادث کا گروھی اور تقلیدی تعصبات سے ہٹ کر جائزہ لینا چاہئے تاکہ مسلمانوں کو صحیح حالات کا علم ھو جائے ۔
بھر حال عمر نے شوریٰ کے نظام کی بنیاد رکھی ،جس نظام کا مھمل ھونا کسی پر مخفی نھیں ھے ، الغرض انھیں امام(ع)کو خلافت سے دور رکھنا تھا لہٰذا انھوں نے قرشیوں کو خوش رکھنے کےلئے امام امیر المو منین(ع) سے بغض و کینہ و عناد رکھنے والے اموی خاندان کے سردار عثمان بن عفان کو خلافت دیدی ۔
بھر حال شوریٰ کے نظام کے تقاضے کے مطابق عثمان نے امت کی قیادت قبول کرلی،وہ نظام  جس سے مسلمان ھمیشہ کے لئے فتنہ و فساد اور عظیم شر ّ میں مبتلا ھوگئے ،ھم نے اس نظام کے متعلق اپنی کتاب”حیاةالامام امیر المو منین(ع)“میں مو ضوع کے اعتبار سے تذکرہ کیا ھے اور اب ھم سر سری طور پر ان واقعات کو پیش کرتے ھیں ۔

عثمان کی حکومت

جمھور مسلمین نے بڑے ھی اضطراب اور نا پسندی کے ساتھ عثمان کی حکومت تسلیم کر لی، مسلمانوں کو یہ یقین تھا کہ عثمان حکومت پا کر اپنے خاندان کو ھی کامیاب و کامران کر سکتا ھے چونکہ عثمان کا خاندان مسلسل اسلام کے خلاف بر سر پیکار رھا تھا اور طرح طرح کی سا زشیں رچتا رھا تھا،اور دوزی نے یہ مشاھدہ کرھی لیا ھے کہ اموی لوگ صرف اسی جماعت یا گروہ کی مدد کرتے ھیں جن کے دل اسلام کے بغض سے لبریز ھوں ۔[29]
بھر حال عثمان نے جان بوجھ کر حکومت کے تمام کا م کاج امویوں کے سپُرد کر دئے ،عام طورپر اقتصاد کو اپنی مصلحتوں کے مد نظر قرار دیا ،بنی امیہ نے عام اقتصاد کو اپنے اس نظام کی تعمیر کےلئے استعمال کیاجس کو اسلام نے فنا کر دیا تھا ۔جس سے عثمان کی شخصیت و حکومت کمزور ھو گئی ،وہ اس کو ناپسند کر نے لگے ،امام(ع) کی تعبیر کے مطابق وہ لوگ چیخنے چلانے لگے :”یَخْصِمُوْنَ مَالَ اللّٰہِ خِصْمَةَ الاِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِیْعِ “ ”وہ بیت المال کو اس طرح چرنے لگے جس طرح اونٹ مو سم بھار کی گھاس کو چرتا ھے “،اس سے قبیلوں میں فقروغربت پھیل گئی جو اس کی حکومت کے خاتمہ کا سبب بنی ۔
اس کی حکومت کے سلسلہ میں ایک اھم بات یہ ھے کہ اس نے اسلامی ممالک کو بنی امیہ اور ابو معیط کی اولاد سے منسوب کردیا تھا جن کو حکومت چلانے کی کو ئی خبر نھیں تھی ان میں سے بعض بڑے گناھوں کے مرتکب ھوئے ،اس نے ولید بن عقبہ کو کوفہ کا والی بنادیاجو اپنی پوری رات یھاں تک کہ صبح تک گویّوں کے ساتھ نشہ کی حالت میں گذارتا تھا ،اس نے لوگوں کو صبح کی نماز چار رکعت پڑھا ئی اور اس نے نماز رکوع و سجود کی حالت میں کھا : میں نے شراب پی ھے اور مجھے شراب پلا ئی گئی ھے ،اس کے بعد محراب میں ھی شراب کی قے کردی ، اس کے بعد سلام پھیر کر نمازیوں کی طرف رُخ کر کے کھا :کیا اور پڑھا ؤں ؟ابن مسعود نے اس کو جواب دیتے ھوئے کھا : نھیں ،خدا تمھاری نیکی میں اضافہ نہ کرے اور نہ اس شخص کی نیکی میں اضافہ کرے جس نے تمھیں ھمارے پاس بھیجا ھے ،اس نے اپنی جو تی اٹھا کر اس کے منھ پر ماری ،لوگوں نے اس پر کنکریاں برسائیں وہ قصر میںداخل ھو گیا جبکہ اس پر کنکریاں پڑ رھی تھیں وہ اپنی رسوا ئیوں اور دین سے دور ی میں مدھوش تھا۔[30]
حطیہ جرول عبسی کا کھنا ھے :
شَھِدَ الحَطِیْئَةُ یَومَ یَلْقیٰ رَبَّہُ
اَنَّ الوَلِیْدَ اَ حَقُّ بِالغَدرِ
نَادیٰ وَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُھُمْ
اَاَزِیْدُ کُمْ ؟ثَمِلاً وَلَا یَدْريْ!
لِیَزِیْدَھُمْ خَیْراً وَلَوْ قَبِلُوْا
مِنْہُ لَزَادَھُمْ علیٰ عَشْرِ !
فَاَبَوْا اَباوَھَبٍ وَلَوْ فَعَلُوا
لَقَرَنَتْ بَیْنَ الشَّفْعِ وَالوَتْرِ
حَبَسُواعَنَانَکَ اِذْجَرَیْتَ وَلَوْ
خَلَّوا عَنَانَکَ لَمْ تَزَلْ تَجْرِيْ
”حطیئہ روز محشر یہ گواھی دے گا کہ ولید غداری کئے جانے کا زیادہ مستحق ھے۔
حالانکہ نماز تمام ھو چکی تھی پھر بھی اس نے کھا مزید کچھ رکعتیں پڑھاؤں؟
تاکہ اُن کے ثواب میں اضافہ کرے ،اگرلوگ اس کی بات مان لیتے تو وہ دس سے بھی زیادہ رکعت نماز پڑھا دیتا۔
تو اے ابووھب لوگوں نے انکار کردیااگر وہ ولید کی بات مان لیتے تو آج تم نماز شفع اور وتر کو ایک ساتھ ملا کر پڑھتے ۔
جب تم دوڑ رھے تھے تو انھوں نے تمھاری مھار کھینچ لی اگر وہ تمھاری مھار ڈھیلی چھوڑ دیتے تو تم چلتے ھی رہتے “ ۔
کیاآپ نے ولید کے سلسلہ میں یہ توھین ملاحظہ کی ؟حطیئہ پھر اسی کے متعلق کہتے ھیں :
تَکَلَّمَ فِي الصَّلاةِ وَزَادَ فِیْھَا
عَلانِیَةً وَجَاھَرَ بِالنِّفَاقِ
وَمَجَّ الْخَمْرَ عَنْ سَنَنِ المُصَلي
وَنادیٰ وَالْجَمِیْعُ الیٰ افْتِرَاقِ
اَ زِیْدُکُمْ علیٰ اَنْ تَحْمَدُوْنِيْ
فَمَا لَکُمْ وَمَالِيْ مِنْ خَلَاقِ[31]
”ولید نے نماز میں کلام کیا ،علی الاعلان رکعات کا اضافہ کیا اور نفاق کا اظھار کیا ۔
شراب کی وجہ سے وہ نمازی کے آداب سے خارج ھو گیا جب سب نماز کامل کرچکے تھے۔
اس نے بلند آواز میں کھا کیا میں مزید رکعتیں پڑھاؤں ،اس شرط پر کہ تم میری تعریف کرو کیونکہ تم میں اور مجھ میں کو ئی اخلاق پسندیدہ نھیں ھے “۔
کوفہ کے نیک لوگوں کے ایک گروہ نے یثرب پھنچ کر جلدی سے عثمان کے پاس اس کی شکایت پھنچا ئی اور اس کے سامنے وہ انگوٹھی بھی پیش کی جس کو اس نے مستی کی حالت میں اُتار کر پھینک دیا تھا،ولید نے شراب پی کر جو کچھ انجام دیا تھا اس کے سلسلہ میں گفتگو کی تو عثمان نے کو ئی معقول جواب نھیں دیا ،زبر دستی ان کی بات تسلیم کر تے ھوئے کھنے لگا :کیا تمھیں علم ھے کہ اس نے شراب پی تھی ؟
ان لوگوں نے کھایہ وھی شراب توھے جس کو ھم زمانہ   جاھلیت میں پیا کر تے تھے ۔
عثمان نے غضبناک ھو کر اُن کو اپنے پاس سے دور کردیا ،وہ سب غیظ و غضب کی حالت میں اس کے پاس سے نکل کر تیزی کے ساتھ امام(ع) کے پاس پھنچے اور آپ(ع) کو اپنے اور عثمان کے درمیان ھونے والی گفتگو کی خبر دی ۔امام(ع) عثمان کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا:”دَفَعَتَ الشَّھُوْدَوَبَطَلَتَ الْحُدُوْدَ“۔
عثمان ان امور کے نتائج سے گھبرا گیا اور اس نے امام(ع) کی خدمت میں عرض کیاکہ :آپ(ع) کی کیا رائے ھے ؟
”اریٰ اَنْ تَبْعَثَ الیٰ صَاحِبِکَ،فَاِنْ اَقَامَاالشَّھَادَةَ فِيْ وَجْھِہِ وَلَمْ یُدْلِ بِحُجَّةٍ اَقَمْتَ عَلَیْہِ الْحَدَّ۔۔“۔
”میری رائے یہ ھے کہ آپ اپنے دوست کے پاس بھیجیں اگر وہ شھادت قائم کر سکے جس کے مقابلہ میں کو ئی حجت نہ ھو تو اس پر حد جا ری کر دیجئے “۔
عثمان نے امام(ع) کا مشورہ قبول کر لیا اور ولید کو بلا بھیجا،جب وہ آگیا تو گواھوں کو بلا یا،جب انھوں نے گوا ھی دی تو ولید چُپ ھو گیا ،اور اس کے پاس اپنے دفاع کے لئے کو ئی دلیل نھیں تھی ، وہ خود حد شرعی جاری ھونے کےلئے خاضع ھو گیا ، وہ عثمان کے خوف سے حد جاری ھونے کی جگہ پر حاضر ھونے سے منع نہ کرسکا امام(ع) اس پر حد جا ری کرنے کے قصد سے بڑھے تو ولید نے آپ پر یوں سب و شتم کیا : اے ظلم کرنے والے، تو عقیل نے اس کے سب و شتم کا جواب دیا، امام نے کوڑا مارنے کےلئے ھاتھ بلند کیا تو عثمان غیظ و غضب کی حالت میں چیخ کر امام سے کھنے لگا :آپ(ع) کو ایسا نھیں کر نا چا ہئے ۔
امام(ع) نے شریعت کی روشنی میں اس کو یوں جواب دیا ”:بَلیٰ وشَرُّمِنْ ھَذَا اِذَافَسِقَ وَمَنَعَ حَقَّ اللّٰہِ اَنْ یُوْخَذَ مِنْہُ “۔
”لیکن اس سے بھی برا یہ ھے کہ فسق اختیار کیا جائے اور اللہ کا حق ادا کرنے سے انکار کیا جائے “۔
یہ تمام مطالب اس بات پر دلالت کر تے ھیں کہ عثمان اللہ کی حدود جا ری کر نے میں سستی سے
 کام لیتا تھا اور خاندان والوں کے ساتھ بہت ھی لطف و مھربا نی کے ساتھ پیش آتا تھا وہ خاندان والے جو اللہ  کے لئے کسی احترام کے قائل نھیں تھے ۔

عثمان کے لئے محاذ

نیک اور صالح مسلمانوں نے عثمان کے خلاف قیام کیا ،اس کے والیوں نے عثمان پر دھاوا بول دیا،اُس پر علی الاعلان تنقید کی ،یہ بات بھی شایان ذکر ھے کہ مخالفین کا یہ محاذ دائیں ،با ئیں ھرطرف سے تھا ، طلحہ ،زبیر ،عائشہ اور عمرو بن عاص اپنی خاص رغبت اور مصلحتوں کی بنا پراس کا دفاع کررھے تھے ،بعض دوسری اھم اسلامی شخصیات جیسے عمار بن یاسر (طبیب بن طبیب)،مجاھد کبیر ابوذر غفاری،صحابی قاری  قرآن عبد اللہ بن مسعوداور ان کے علاوہ دوسرے افراد جنھوں نے اللہ کی راہ میں مصیبتیں اٹھا ئی ھیںجب انھوں نے سنت
 رسول کو محو اور بدعت کو زندہ ھوتے ،سچوں کو جھٹلائے جانے اور بغیر حق کے اثر دیکھا تو انھوں نے عثمان کے منھ پر گرد وغبار پھینک دیا ،اس کو اس کی سیاست کی سزا دینے کی غرض سے اس سے راستہ بدلنے ، اور امویوں کو حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے سے دور کرنے کا مطالبہ کیااور اُن کا اس تنقید میں اسلام کی خدمت کے علاوہ اور کو ئی مقصد نھیں تھا لیکن اس کامثبت جواب نھیں ملا ۔

عثمان پر حملہ

جب عثمان کے سامنے پیش کئے گئے تمام مسا ئل واضح ھو گئے اور ان کا کو ئی حل نہ نکل سکا تو انقلاب کے شعلے بھڑک اٹھے ،انقلابیوں نے اس کا محاصرہ کرلیااور اس سے حکومت واپس کرنے کا مطالبہ کیا تو اُس نے اُن کو کو ئی جواب نھیں دیا،انھوں نے اس سے مروان اور بنی امیہ کو دور کرنے کا مطالبہ کیاتو اُس نے اُن سے منھ مو ڑ لیا ،اموی اس سے شکست کھا گئے اور اس کو تنھا چھوڑ دیاتو مسلمانوں نے اس پر حملہ کردیاجن میں آگے آگے محمد بن ابی بکر تھے، انھوں نے آگے بڑھ کر عثمان کی ڈاڑھی پکڑ کر کھا : اے نعثل! (احمق )خدا تجھے رسوا و ذلیل کرے ۔
عثمان نے جواب دیا :میں نعثل نھیں ھوں ،لیکن اللہ کا بندہ اور امیر المو منین ھوں ۔۔۔
محمد بن ابی بکر نے اُن سے کھا :کیا معاویہ کو اپنے سے دور نھیں کر و گے ۔۔۔اور اس کا محاصر ہ کرنے والے بنی امیہ کو گننا شروع کر دیا ۔
عثمان نے محمدسے گریہ و زاری کرتے ھوئے یوں کھا :اے بھتیجے تم میری ڈا ڑھی چھوڑ دو کیا جس ڈاڑھی کو تم پکڑے ھوئے ھو تمھارا باپ اس ڈا ڑھی کوپکڑتا تھا؟
محمد نے ان کو یوں جواب دیا :میں تمھارے ساتھ بد سلوکی کر نا چا ہتا ھوں وہ ڈاڑھی پکڑنے سے زیادہ سخت ھے ۔
محمد نے اپنے ھاتھ میں لیا ھوا نیزہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیا ،پھر اس کے جسم پر انقلابیوں کی تلواریں ٹوٹ پڑیں ،اس کا جسم زمین پر گر پڑا،بنی امیہ اور آل ابی معیط سے لیکر نجد تک کسی نے بھی آہ و بکا نھیں کیا ،انقلابیوں نے اس کی بہت زیادہ تو ھین کی،اس کا جسم رسوا کن مقام پر لا کر ڈال دیا ،انھوں نے اس کو دفن تک نھیں کیا ،یھاں تک کہ جب امام امیر المو منین(ع) نے اس کے دفن کے سلسلہ میں فرمایا تو انقلابیوں نے اس کو دفن کیا اس طرح خوفناک حالات میں عثمان کی زندگی کا خاتمہ ھوا ،اس کے قتل سے مسلمانوں کا بہت سخت امتحان ھوا کہ ان کےلئے ھمیشہ کی خاطر فتنے اور مصیبتیںان کے گلے کا ھار بن گئے ، امویوںجیسے طلحہ زبیر اور عائشہ نے اس کے قتل سے فائدہ اٹھاتے ھوئے اس کے خون کا مطالبہ کیا۔اُن کو اپنے فائدہ کے لئے ایک بھانہ مل گیااِن ھی لوگوں نے اس کی تجھیز و تکفین کی تھی ۔

امام(ع) کی خلافت

امام(ع) نے بڑے ھی قلق و اضطراب کے ساتھ عثمان کے قتل کاسامنا ، آپ(ع) ان تمام باتوں سے باخبر تھے کہ امویوںاور طا معین جس حکومت کا قلادہ ان کی گردن میں ڈال رھے ھیں وہ عنقریب اس حکومت کے خلاف ھو کر اُس (عثمان )کے خون کا مطالبہ کریں گے ۔
امام(ع) اس بات سے بھی مضطرب تھے کہ آپ امت کے قائد تھے، جب حکومت کی باگ ڈور آپ کے ھاتھوں میں آجا ئے گی تویہ حکومت امت کےلئے صرف حق اور عدالت کی سیاست پر مبنی ھو گی،طمع کاروں اور چوروں کو حکومت سے الگ کر دیا جا ئے گا ،اور یہ فطرت کا تقاضا ھے کہ حکمراں نظام آپ کے سیاسی خطوط کا مقابلہ کرے گااور آپ کے خلاف مسلح جد و جھد کا اعلان کردے گا ۔
بھر حال امام(ع)نے خلافت قبول کرنے سے منع فرمادیا،لیکن جم غفیر تھا جو آپ کی گردن میں حکومت کا قلادہ ڈالنے پر اصرار کر رھاتھا ۔امام(ع) نے اُن سے فرمایا:
”لَاحاجَةَ لِيْ فِيْ اَمْرِکُمْ،فَمَنِ اخْتَرْتُمْ رَضِیْتُ بِہِ “۔[32]
”مجھے اس حکومت کی کو ئی ضرورت نھیں تم جسے منتخب کرلوگے میں راضی ھو جا ؤںگا“۔
مجمع آپ کے اس قول پر راضی نہ ھوا اوربار بار آپ سے یہ کہہ رھاتھا :لاامام لناغیرک ۔۔۔ ”آپ کے علاوہ ھمارا کو ئی امام نھیں ھے “۔
انھوں نے پھر تکرار کی :ھم آپ کے علاوہ کسی اورکا انتخاب نھیں کر یںگے ۔
امام(ع) ان کے بالمقابل خلافت قبول نہ کرنے پر مصر تھے ،چونکہ آپ(ع) کو علم تھا کہ خلافت قبول کرنے کے بعد مشکلات کھڑی ھو جا ئیں گی ،ہتھیاروں سے لیس افراد نے امام(ع)کے خلافت قبول نہ کرنے کے اصرار پر ایک میٹنگ بلائی جس میں شھریوں اور بااثر افراد کو بلاکر اُ ن کے سامنے یہ طے کیا کہ اگر مسلمانوں [33]کا حاکم معین نہ ھوا تو وہ طلحہ اور زبیر کو موت کے گھاٹ اُتار دیں گے ،مدنی یہ کہتے ھوئے آگے بڑھے :
بیعت ۔ بیعت ۔ماتریٰ مانزل بالاسلام ، وماابتلینابہ من ابناء القریٰ ۔۔۔
”جب ھم مختلف مصیبتوں والے امتحان میں مبتلا ھوگئے “
امام(ع) ان کو یہ جواب دے کرانکار پر مصر رھے :”دَعُوْنِيْ وَالْتَمِسُواغَیْرِيْ“۔
”مجھے چھوڑ دو اور (اس خلافت کے لئے )میرے علاوہ کسی اور کوتلاش کرلو“
آپ(ع) کی نظر میں وہ تمام واقعات تھے جن کا آپ(ع) کو عنقریب سامنا کرنا تھا:
”ایھاالناس،اِنّا مستقبلون امراً لہ وجوہُ ولَہُ الوانُ ،لا تقومُ بہِ القلوبُ ،ولا تثبتُ عَلَیہِ العقُولُ “۔”لوگو !ھمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ھے جس کے کئی رُخ اور کئی رنگ ھیں ،جس کی نہ دلوںمیں تاب ھے اور نہ عقلیں اسے برداشت کر سکتی ھیں“۔
انھوں نے امام(ع)کی بات قبول نھیں کی اور آپ(ع) کا نام لے کر کھنے لگے: امیرالمومنین انت امیرالمومنین انت ۔”آپ امیر المو منین ھیں ،آپ امیر المو منین ھیں “۔
امام(ع)نے ان کے سامنے اس طریقہ کی وضاحت فر ما ئی جس پر حکومت چلنا تھی :”وَ اعْلَمُوْااَنِّیْ اِنْ اَجَبْتُکُمْ رَکِبْتُ بِکُمْ مَااَعْلَم،وَلَمْ اُصْغِ اِلیٰ قَوْلِ الْقَائِلِ وَعَتْبِ الْعَاتِبِ،وَاِنْ تَرَکْتُمُوْنِیْ فَاَنَاکَاَحْدِکُمْ،وَلَعَلِّي اَسْمَعُکُمْ وَاَطْوَعُکُمْ لِمَنْ وَلَّیْتُمُوْہُ اَمْرَکُمْ، وَاَنَا لَکُمْ وَزِیْراً،خَیْرُ لَکُمْ مِنِّي اَمِیْراً !“۔
”یادر کھو کہ اگر میں نے بیعت کی دعوت کو قبول کر لیا تو تمھیں اپنے علم ھی کے راستے پر چلاؤں گا اور کسی کی کو ئی بات اور سر زنش نھیں سنوں گا ۔لیکن اگر تم نے مجھے چھوڑ دیا تو تمھاری ایک فرد کی طرح زندگی گذاروں گا بلکہ شائد تم سب سے زیادہ تمھارے حاکم کے احکام کا خیال رکھوں میں تمھارے لئے وزیر کی حیثیت سے امیر کی بہ نسبت زیادہ بہتر رھوں گا “۔
امام(ع)نے اس طریقہ و راستہ کی وضاحت فرما ئی جس پر انھیں گامزن رھنا ھے ۔۔۔وہ راستہ حق اور عدالت کا راستہ ھے تمام لوگوں نے آپ(ع) کے اس فرمان پر راضی ھوتے ھوئے نعرہ بلند کیا : ھم آپ(ع) سے اس وقت تک جدا نھیں ھو ں گے جب تک آپ(ع) کی بیعت نھیں کرلیں گے ۔
لوگ ھر طرف سے آپ(ع) پر زور ڈال رھے تھے اور آپ(ع) سے خلافت قبول کرنے کا مطالبہ کر رھے تھے ،امام(ع) نے اُن کے اصرار پر اپنی بیعت کی یوں وضاحت فرما ئی :فَمَارَاعَنِي اِلَّا وَالنَّاسُ کَعُرْفِ الضَّبُعِ [34]یَنْثَالُوْنَ عَلَيَّ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ، حَتّٰی لَقَدْ وُطِيَ الْحَسَنَانِ،وَشُقَّ عِطْفَايَ مُجْتَمِعِیْنَ حَوْلِيْ کَرَبِیْضَةِ الْغَنَمِ“۔
”اس وقت مجھے جس چیز نے دھشت زدہ کر دیا تھا وہ یہ تھی کہ لوگ بجّو کی گردن کے بال کی طرح میرے گرد جمع ھو گئے اور ھرطرف سے مجھ پر ٹوٹ پڑے یھاں تک کہ حسن و حسین(ع) کچل گئے اور میری ردا کے کنارے پھٹ گئے یہ سب میرے گرد بکریوں کے گلہ کی طرح گھیرا ڈالے ھوئے تھے“۔

 امام(ع)کا خلافت قبول کر نا

امام کے پاس خلافت قبول کرنے کے علاوہ کو ئی اور چارہ نھیں تھاچونکہ آپ(ع) کو یہ خوف تھا کہ کھیں بنی امیہ کا کو ئی فاسق حاکم نہ بن جا ئے لہٰذا آپ(ع) نے فرمایا:”وَاللّٰہِ مَا تَقَدَّ مَتُ عَلَیْھَا(ای علی الخلافة)اِلَّاخَوْفاًمِنْ اَنْ یَنْزُوَ عَلیٰ الْاُمَّةِ تَیْسُ مِنْ بَنِيْ اُمَیَّةَ،فَیَلْعَبَ بِکِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔۔۔“[35]۔
”خدا کی قسم میں نے خلافت اس خوف سے قبول کی ھے کہ کھیں بنی امیہ کا کو ئی بکرا امت کی خلافت کو اُچک لے اور پھر کتاب خدا کے ساتھ کھلواڑ کرے “۔
مجمع جا مع اعظم کی طرف دوڑ کر آیااور امام کا تکبیر اور تھلیل کے سایہ میں استقبال کیا، طلحہ نے اسی اپنے شل ھوئے ھاتھ سے بیعت کی جس کے ذریعہ اس نے عھد الٰھی کا نقض کیا تھا ،امام(ع) نے اس کو بد شگو نی تصور کرتے ھوئے ارشاد فرمایا:”مَااَخْلَقَہُ اَنْ یَّنْکُثَ !“۔”بیعت توڑنا تو تمھاری پرا نی عادت ھے “۔
تمام لوگوں نے آپ(ع) کی بیعت کی کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی بیعت تھی ،عام بیعت تمام ھوگئی جس کے مانند کو ئی ایک خلیفہ بھی بیعت لینے میں کامیاب نھیں ھو سکا تھا ،جس سے مسلمانوں کی خو شی کا کوئی ٹھکانہ ،نہ رھا ،امام امیر المو منین(ع) فرماتے ھیں :”وَبَلَغَ مِنْ سُرُوْرِالنَّاسِ بِبَیْعَتِھِمْ اِیّايَ اَنِ ابْتَھَجَ بِھَاالصَّغِیْرُ،وَھَدَجَ اِلَیْھَا الْکَبِیْرُ،وَتَحَامَلَ نَحْوَھَاالْعَلِیْلُ،وَحَسَرَتْ اِلَیْھَا الْکِعَابُ“۔
”تمھاری خو شی کا یہ عالم تھا کہ بچوں نے خو شیاں منا ئیں، بوڑھے لڑکھڑاتے ھوئے قدموں سے آگے بڑھے بیمار اٹھتے بیٹھتے ھوئے پھنچ گئے اور میری بیعت کےلئے نوجوان لڑکیاں بھی پردہ سے باھر نکل آئیں “
دنیائے اسلام میں ھمیشہ کے لئے عدالت اور حق کا پرچم لھرادیا گیااور اسلام کو اس کا اصلی اور حقیقی ملجا و ماویٰ مل گیا ۔

سخت فیصلے

امام(ع) نے حاکم ھوتے ھی مندرجہ ذیل قوا نین معین فرمائے :
۱۔وہ تمام زمینیں واپس لی جا ئیں جو عثمان نے بنی امیہ کو دی تھیں ۔
۲۔ان اموال کو واپس کرایا جو عثمان نے بنی امیہ اور آل ابو معیط کو دئے تھے ۔
۳۔عثمان کا تمام مال یھاں تک کہ اس کی تلوار اور زرہ کو بھی ضبط کر لیاجائے۔
۴۔تمام والیوں کو معزول کیا چونکہ انھوں نے زمین پر ظلم و جور اور فساد پھیلا رکھا ھے ۔
۵۔مسلمانوں اور وطن میں رھنے والے غیر مسلمانوں کے ساتھ مساوات سے کام لیااور یہ مساوات مندرجہ ذیل امور پر مشتمل ھے :
۱۔عطا و بخشش میں مساوات ۔
۲۔قانون کے سلسلہ میں مساوات۔
۳۔حقوق اور واجبات کی ادا ئیگی میں مساوات۔
ان قوانین کے نافذ ھونے سے قریش کی ناک بھوں چڑھ گئی اوروہ گھوٹالا کئے ھوئے اپنے پاس مو جودہ مال کے سلسلہ میں خوف کھا گئے ،وہ مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ھوئے اسی لئے انھوں نے آپ کی مخالفت کی اور لوگوں کے ما بین معاشرتی اور سیاسی عدالت نافذ کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کیں ۔
بھر حال امام(ع)کے خلاف اور ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے جنگو ں کے شعلے بھڑکائے گئے ،ھم ذیل میں بہت ھی اختصار کے ساتھ اُن جنگوں کا تذکرہ کر رھے ھیں جو اسلام میں عدالت کا پرچم اٹھانے والے ،امیر بیان اور محروموں کے صدیق کے خلاف بھڑکا ئی گئیں ۔

۱۔جنگ جمل

جنگ جمل کا واقعہ سیاست کی ھوس کا نتیجہ ھے ،معاویہ نے زبیراور طلحہ کودھوکہ دیا اور ان کو یہ لالچ دیا کہ وہ امام(ع) کی حکومت کا تختہ پلٹ کر ان دونوں کو خلیفہ بنائے گا ،ان کے لئے بیعت لے گا ، اُدھر عائشہ جس کا سینہ امام(ع) کے کینہ سے لبریز تھا لہٰذا اِن تینوں آدمیوں نے مکہ میں امام(ع) کے خلاف محاذ قائم کیا ،لوگوں میں سے طمع کاروں ،دھوکہ کھا جانے والوںاور سادہ لوحوں نے ان کا ساتھ دیا ،انھوں نے لشکر تیار کیا ،امویوں نے لشکر کو جنگی ساز و سامان سے لیس کیا ،انھوں نے اُن پر عثمان کی حکومت کے دور میں جو مال والیوں کے عنوان سے بیت المال سے چُرایا تھا وہ خرچ کیا ۔
عائشہ ، طلحہ اور زبیر کی قیادت میں لشکر بصرہ پھنچا ،جب امام(ع) کو اس بات کی اطلاع ھو ئی تو آپ(ع)نے فیصلہ کی خاطر اپنا لشکر روانہ کیاتو دونوں لشکروں میں گھمسان کی لڑا ئی ھو ئی ،طلحہ اور زبیر قتل کردئے گئے تو لشکر کی قیادت عا ئشہ کے ھاتھوں میں آگئی ،لشکر نے اُن کے اونٹ کو گھیر لیا،اس کے پیروں کو کاٹ دیا ،جس کے اطراف میں لاشے ھی لاشیں پڑی تھیں ،عائشہ کا اونٹ زخمی ھو کر زمین پر گر پڑا،اس کا لشکر شکست کھا گیا ، اس جنگ میں بہت زیادہ نقصان ھوا ،مسلمانوں کی صفوف میں بھی نقصان ھوا،اُن کے درمیان تفرقہ اور دشمنی پھیل گئی اور بصرہ والوں کے گھرحزن و الم اور ما تمی لباس میں ڈوب گئے۔

۲۔جنگ صفین

امام(ع) جنگ جمل کے بعد کچھ آرام نھیں کر پائے تھے کہ آپ(ع) کو ایسے دشمن نے آزمایا جس نے پوری انسانیت کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا ۔جو نفاق اور مکر و فریب کے ہتھیار سے لیس تھا اور ان صفات میں ماھر تھا ،وہ معاویہ بن ابو سفیان جس کو ”کسریٰ عرب “کے لقب سے یاد کیاجاتاھے ،جس کو لوگوں نے اس کے صحیفہ  اعمال پر نگاہ ڈالے بغیر شام کی حکومت دے رکھی تھی ،جس کا قرآن کریم نے شجرئہ ملعونہ کے نام سے تعارف کرایا ھے، کیا لوگوں کو وہ جنگیں یاد نھیں تھیںجوابو سفیان اور بنی امیہ نے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے لڑی تھیں اور اُن کو ابھی چند سال ھی گذرے تھے ؟
مسلمانوں نے کس مصلحت کی بنا پر اس جاھل بھیڑئے کو شام کی حکومت کا مالک بنا دیا تھاجو اسلام کا اھم علاقہ ھے ؟اور اس اھم منصب کے لئے خاندان نبوت کی اولاد کو منتخب کیوں نھیں کیا ،یا یہ منصب اوس اور خزرج کی اس خاص انتظامیہ کو کیوں نھیں دیا جس نے صاف طور پراسلام کا ساتھ دیا؟ 
بھر حال معاویہ نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بھا ئی اور باب مدینة العلم سے جنگ کر نے کے لئے صفین میں اپنا لشکر اتارا،اس کے لشکر نے امام(ع) کے لشکر کو فرات سے پانی پینے سے روک دیا ،اس کو انھوں نے اپنی فتح میں مدد سے تعبیر کیا ،امام(ع) نے بھی فیصلہ کے لئے اس نا فرمان اور جلدی فتنہ برپا کرنے والے مکار دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنا لشکر اُتارا،امام(ع) کے لشکر کو اتنا اطمینان اور بصیرت تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن سے جنگ کر رھے ھیں لہٰذا جب وہ صفین پھنچے تو انھوں نے دیکھا کہ اُ ن کے دشمن معاویہ کی فوج نے فرات کے تمام گھاٹ اپنے قبضہ میں لے لئے ھیںاور امام(ع) کے لشکر کو پا نی پینے کے لئے کو ئی گھاٹ نہ مل سکا اور معاویہ کا لشکر امام کے لشکر کو پانی سے محروم رکھنے پرمصر رھا تو امام کے لشکر کی ٹکڑیوں کے سرداروں نے معاویہ کے لشکر پر حملہ کر کے ان کا حصار توڑنے کا پلان بنایا اور امام(ع) کے لشکر نے بڑی ھمت کے ساتھ معاویہ کے لشکر پر حملہ کرکے ان کو فرات کے کنارے سے دور بھگادیاجس سے ان کو بہت زیادہ نقصان پھنچا ، امام(ع) کے لشکر میں موجود کچھ فرقوں کے سرداروں نے معاویہ کی طرح اس کے لشکر کو پانی دینے سے منع کرنا چا ھا تو امام(ع) نے ان کو ایسا کرنے سے منع فرمادیا ،چونکہ اللہ کی شریعت میں ایسا کرنا جا ئز نھیں ھے ، اور پانی سب کےلئے یھاں تک کہ کتّے اور سوَروں کے لئے بھی مباح ھے ۔
امام(ع) نے خونریزی نہ ھونے کی وجہ سے معاویہ کے پاس اُس کو صلح پرآمادہ کرنے کے لئے صلح کا پیغام دے کر ایک وفدروانہ کیا،لیکن معاویہ نے صلح قبول نھیں کی ،اور وہ نافرمانی کرنے پر مصر رھا ،لہٰذا دونوں فریقوں کے مابین جنگ کی آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور دو سال تک اسی طرح بھڑکتے رھے، ان میں سب سے سخت اور ھو لناک وقت لیلة الھریر تھا جس میں طرفین کے تقریباً ستر ہزار سپاھی اور قائد قتل ھو ئے ،جس سے معاویہ کے لشکر کی شکست کے آثار نمایاں ھو گئے ،اس کے تمام دستور و قوانین مفلوج ھو کر رہ گئے وہ فرار کر نے ھی والا تھا کہ اس کو ابن طنابہ نے کچھ سمجھایاجس سے وہ پھر سے جم گیا ۔

قرآن کو بلند کرنے کی بیھودگی

امام کے لشکر نے مالک اشتر کی قیادت میں معاویہ کے لشکر پر حملہ کیا ،لشکرفتح پانے ھی والا تھا اور مالک اشتر کے معاویہ پر مسلط ھونے میں ایک ھاتھ کا فاصلہ ھی رہ گیا تھا کہ دھوکہ باز عمرو عاص نے امام(ع) کے لشکر میں کھل بلی مچانے اور ان کی حکومت کے نظام میں تغیر و تبدل کا مشورہ دیاوہ پوشیدہ طور پر اشعث بن قیس اور امام کے لشکر کے بعض سرداروں سے ملا اُن کو دھوکہ ،لالچ اور رشوت دی ،قرآن کریم کو نیزوں پر بلند کرنے اور اپنے درمیان اختلاف کو حل کرنے کے لئے اُس کو حَکَم قرار دینے کے سلسلہ میں اُ ن کے ساتھ متفق ھو گئے ،انھوں نے قرآن کو نیزوں پر بلند کردیا اور معاویہ کے لشکر سے یہ آواز آنے لگی کہ ھمارا حکم قرآن ھے، ہ دھوکہ امام(ع) کے لشکر میں بجلی کی طرح کوند گیا ،بیس ہزار فوجیوں نے آپ کو گھیر لیا اور کھنے لگے قرآن کے فیصلہ کو قبول کیجئے ،امام(ع) نے ان کو تحذیر کی اور ان کو نصیحت فرما ئی کہ یہ دھوکہ ھے ،لیکن قوم نے آپ کی ایک نہ سنی اور وہ اس بات پر اڑ گئے ، امام(ع) سے کھنے لگے کہ اگر آپ(ع) نے یہ تسلیم نہ کیا تو ھم آپ(ع) سے مقابلہ کریں گے ، تو امام کو مجبوراً یہ تسلیم کر نا پڑا ،ان ھی خو فناک حالات میں امام(ع) کی حکومت کا خاتمہ ھو ا۔

اشعری کا انتخاب

امام(ع) کے ساتھ اِن واقعات کے پیش آنے کے بعد اشعری کو عراقیوں کی طرف سے منتخب کرلیا گیا، امام(ع) نے اُن کو ایسا کرنے سے منع کیا مگر انھوں نے زبردستی اشعری کو منتخب کر لیا ،اور اھل شام نے عمرو عاص کو منتخب کر لیا اس نے اشعری کو دھوکہ دیا اور اس کو امام(ع) اور معاویہ کو معزول کرکے ان کے مقام پر مسلمانوں کا حاکم بنا نے کےلئے عبداللہ بن عمر کا انتخاب کیا ،اشعری اس سے بہت خوش ھوا ، اور جب دونوں حَکَم ایک مقام پر جمع ھوئے تو اشعری نے امام کو معزول کر دیا اور عمرو عاص نے معاویہ کو اسی عھدہ پر برقرار رکھا ۔

۳۔خوارج

امام(ع) کے لشکر میں فتنہ واقع ھو گیا ،لشکر میں سے ایک گروہ تحکیم کے بعد جنگ کرنے پر مصر رھا ، امام(ع) پر کفر کا فتویٰ لگایا،کیونکہ امام(ع) نے دعوت تحکیم قبول کر لی تھی ،لیکن بڑے تعجب کی بات ھے کہ انھوں نے ھی تو تحکیم پر مجبور کیا تھا اور یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ :”لا حکم اِلّا اللّٰہ “۔
لیکن جلد ھی نعرہ تلوار کی مار کاٹ میں بدل گیا ،امام(ع) نے اُن کو سمجھایا اور ایسا کرنے سے منع فرمایا ، ان میں سے کچھ لوگوں نے آپ(ع) کی بات تسلیم کر لی لیکن قوم کے کچھ افراد اپنی جھالت و گمرا ھی پر اسی طرح اصرار کرتے رھے ،وہ زمین پر فساد برپا کرنے لگے ،انھوں نے ابریاء کو قتل کر دیا جس سے لوگوں میں خوف و ھراس پھیل گیا ،امام(ع) اُ ن کا مقابلہ کر نے کے لئے مجبور ھو گئے ،جس سے نھروان کا واقعہ پیش آیا ، ابھی یہ جنگ ختم نھیں ھونے پا ئی تھی کہ امام(ع) کے لشکر نے نافرمانی کی ایک خو فناک صورت اختیار کرلی ،جب آپ(ع) نے ان کو معاویہ سے جنگ کرنے کی دعوت دی تو کسی قبول نھیں کی،اور سیاسی طور پرمعاویہ کی طاقت ایک عظیم طاقت کے عنوان سے اُبھری ،اس نے اسلامی شھروں کو اپنے تحت لینا شروع کیا اور یہ ظاھر کر دیا کہ امام(ع) ان کی حمایت کرنے کی طاقت و قوت نھیں رکھتے ھیں ۔امام کی مقبولیت کم ھو تی جارھی تھی ،یکے بعد دیگرے آپ پر مصیبت کے پھاڑ ٹوٹ رھے تھے، معاویہ کی باطل حکومت مستحکم ھو تی جا رھی ھے ،اس کی تمام آرزوئیں پوری ھو تی جا رھی ھیں اور آپ(ع) کے پاس حق کو ثابت کرنے اور باطل کو نیست و نابود کرنے کے لئے ضروری قوت و طاقت مو جود نھیں ھے ۔

امام(ع) کی شھادت

امام(ع) نے پروردگار عالم سے دعا کرنا شروع کیا ،آپ(ع) نے دعا کی کہ اے خدا ئے عظیم مجھے اس قوم کی گمراھی سے نجات دے ،اور مجھے دارِ حق کی طرف منتقل کردے جس سے میں اپنے چچازاد بھا ئی کو اس امت کی طرف سے پھنچنے والے مصائب کی شکایت کر سکوں ،اللہ نے آپ(ع) کی دعا مستجاب فرمائی،آپ(ع) کو ناقہ صالح کو پئے کرنے والے ایک بدبخت شخص نے شھید کر دیا ،جس کا نام عبد االر حمن بن ملجم تھا ،امام(ع) اللہ کے گھر میں محراب عبادت میں مشغول تھے ،اس بد بخت نے اپنی تلور اٹھالی ،جب آپ(ع) نے اس کی تلوار کی ضرب کا احساس کیا تو فرمایا :”فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ “”کعبہ کے رب کی قسم میں کا میاب ھو گیا “ امام متقین کا میاب ھو گئے ،آپ(ع) کی پوری زندگی اللہ کی راہ میں جھاد ،کلمہ  حق کو بلند کرنے میں گذر گئی ،سلام ھو اُن پر جس دن وہ کعبہ میں پیدا ھوئے ،جس دن اللہ کے گھر میں شھادت پائی ،آپ(ع) کی شھادت سے حق و عدالت کے پرچم لپیٹ دئے گئے ،جن ھدایت کے چراغ اور نو ر کی مشعلوں سے دنیائے اسلام روشن و منور ھو رھی تھی وہ خاموش ھو گئے ۔  


[1] حیاة الامام الحسین(ع)جلد ۱،صفحہ ۱۹۵۔منقول از تاریخ یعقوبی، جلد ۲،صفحہ ۹۰۔
[2] سورئہ مائدہ ،آیت۶۷۔ 
[3] الغدیر، جلد ۲،صفحہ ۳۴۔
[4] مسند احمد، جلد ۴،صفحہ ۲۸۱۔
[5] الغدیر، جلد ۱،صفحہ ۲۷۱۔
[6] البدایہ والنھایہ، جلد ۵،صفحہ ۲۶۔
[7] یہ واقعہ تمام مو رخین نے دلیل کے ساتھ نقل کیا ھے ،بخاری نے اس واقعہ کو متعدد مر تبہ جلد ۴،صفحہ ۶۸، ۶۹۔جلد ۶ ،صفحہ ۸میں نقل کیا ھے لیکن اس کے قائل نام نھیں بیان کیا ۔نھایہ ابن اثیراور شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،جلد ۳، صفحہ ۱۱۴ میں اور دوسرے راویوں نے اس واقعہ کو نقل کرنے والوں کے نام بیان کئے ھیں ۔
[8] سورئہ نجم ،آیت ۲۔۵۔
[9] سورئہ تکویر ،آیت ۱۹۔۲۰۔
[10] مسند احمد، جلد ۱،صفحہ ۳۵۵۔
[11] مناقب، جلد ۱،صفحہ ۲۹۔اس مطلب پر متعدد متواتر احا دیث دلالت کر تی ھیں کہ جب نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی وفات ھو ئی تو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا سر اقدس علی(ع) کی آغوش میں تھا ملاحظہ کیجئے طبقات ابن سعدجلد ۲صفحہ ۵۱۔مجمع الزوائدجلد ۱صفحہ ۲۹۳۔کنز العمال، جلد ۴،صفحہ ۲۵۵۔ذخائر العقبیٰ، صفحہ ۹۴۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۹۔
[12] انساب الاشراف ،جلد ۱،صفحہ ۵۷۴۔
[13] تاریخ خمیس، جلد ۲،صفحہ ۱۹۲۔
[14] سیر اعلام النبلاء، جلد ۲،صفحہ ۸۸۔سنن ابن ماجہ، جلد ۲،صفحہ ۲۸۷۔۲۸۸۔اس میں حماد بن زید سے روایت ھے کہ : میں نے راوی حدیث کی اس حدیث کو بیان کرتے وقت روتے اور اس کی حالت متغیر ھو تی دیکھی ۔
[15] نہج البلاغہ، جلد ۲،صفحہ ۲۵۵۔
[16] حلیة الاولیاء، جلد ۴، صفحہ ۷۷۔
[17] کنزالعمال، جلد۴ ،صفحہ ۵۴۔
[18] نہج البلاغہ، صفحہ ۴۰۹۔
[19] حیاة الامام الحسین(ع)، جلد ۱،صفحہ ۲۳۵۔
[20] ملاحظہ کیجئے انساب الاشراف بلاذری ،اور مو رخین کا اس بات پر اجماع ھے کہ عمر نے امام(ع) کے بیت الشرف کو جلانے کی دھمکی دی تھی ۔ اس سلسلہ میں ملاحظہ کیجئے :تاریخ طبری ،جلد ۳،صفحہ ۲۰۲۔تاریخ ابو الفداء، جلد ۱،صفحہ ۱۵۶۔تاریخ یعقوبی ،جلد ۲
[21] امامت والسیاست ،صفحہ ۲۸۔۳۱۔
[22] سورئہ آل عمران آیت ۱۴۴۔
[23] نہج البلاغہ، جلد ۲،صفحہ ۱۸۲۔
[24] نہج البلاغہ، جلد ۲،صفحہ ۱۸۲۔
[25] ابوبکر پر عمر کے ولی بنائے جانے پر طلحہ وغیرہ نے انتقاد کیا ،ملاحظہ کیجئے شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،جلد ۹،صفحہ ۳۴۳۔
[26] مروج الذھب، جلد ۲،صفحہ ۲۱۲۔
[27] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۲،صفحہ ۱۸۵۔
[28] اصابہ، جلد ۲،صفحہ ۴۶۲۔امامت اورالسیاسة، جلد ۱،صفحہ ۲۱۔
[29] تاریخ شعر عربی ،صفحہ ۲۶۔
[30] سیرہ حلبیہ، جلد ۲،صفحہ ۳۱۴۔
[31] اغانی ،جلد ۴،صفحہ۱۷۸۔
[32] حیاة الامام امیر المو منین ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔
[33] تاریخ ابن اثیر، جلد ۳،صفحہ ۸۰۔
[34] عرف الضبع یعنی بہت زیادہ بال جوبجّو کی گردن پر ھوتے ھیں اور یہ ضرب المثل اس وقت استعمال ھوتی ھے جھاں پر لوگوںکا ازدھام ھو۔
[35] عقد الفرید ،جلد ۲،صفحہ ۹۲۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں