مالک
کائنات اللہ کریم و رحیم کا ارشاد مبارک ہے " بیشک ہدایت کی ذمہ داری
ہمارے اوپر ہے اوردنیا وآخرت کا اختیار ہمارے ہاتھوں میں ہے "
اس آیت کریمہ میں مالک کائنات نے صاف صاف واضح کردیا ہے کہ دنیا میں کسی انسان کوہدایت کا انتظام کرنے کا حق نہیں ہے ۔ یہ کام ہمارا ہے اور ہمیں کو انجام دینا ہے اور ہم نے ہردور میں انجام دیا ہے ۔ آدم سے لے کر آج تک کو ئی دور ایسا نہیں گذرا جب ہم نے ہدایت کا انتظام نہ کیا ہو ۔ اور ایک نہ ایک ہادی اور رہنما نہ معین کیا ہو ۔ اسی رشد و ہدایت کا سلسلے ایک کڑی صابر و زکی حضرت امام علی رضا عليہ السلام ہیں جو گیارہ ذيقعدہ سنہ 153 ھجری کو آسمان بشریت پر ایک ایسے درخشاں ستارے کی مانند چمکے جو کئی سو سال گذرجانے کے باوجود آج بھی اسی آب و تاب ست روشن ہے ۔ ان کے مقدس وجود سے مشہد مقدس کی سرزمین آج بھی نور بنی ہوئی ہے جس کی زیارت کے لیے آنے والے زائرین ، بڑے بڑے علماء ، عرفا ، صلحا ، مجتہدین و مبلغین و واعظین صبح و شام انوار علم و معرفت سے اپنا دامن بھرتے رہتے ہیں ۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
اسم مبارک :علی
لقب : رضا ، ضامن ، صابر ، زکی، ولی،رضی،وصی
کنیت : ابوالحسن
والد ماجد :امام موسی کاظم علیہ السلام
والدہ ماجدہ : بی بی نجمہ نوبیہ
ولادت : 11 ذ ی القعدہ 153 ہجری جمعہ مدینہ منورہ
شہادت : 23 ذیقعدہ 203 ہجری طوس
عمر مبارک : پچاس سال
زوجہ : جناب سبیکہ
اولاد : امام محمد تقی علیہ السلام
قبر مطہر : مشہد مقدس
صابر و زکی حضرت امام علی رضا عليہ السلام بتاریخ 11/ ذیقعدہ 153 ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ متولدہوئے ہیں
(اعلام الوری ص 182 ، جلاء الیعون ص280 ،روضتہ الصفاجلد 3 ص 13 ، انوارالنعمانیہ ص127)
توحید کے سب سے بڑے مبلغ ۔رضائے حق کے سب سے عظیم پیکر امام علی رضا بن موسی ابن جعفر کا یوم ظہور معطر و منور شمیم و ایمان وایقان کی روشنی سے جگمگاتا ھوا بابرکت دن اور مبارک ساعت سارے عالم اسلام کے لئے آج بھی بابرکت ساعت اور مبارک دن ہے ۔ اس دن آسمان ہدایت وطہارت کے اٹھویں تاجدار نے دنیا علم ومعرفت اور گیتی فضیلت وتقوی کو اپنے قدم مبارک سے افتخار بخشاء ۔ گو کہ آپ کی زندگی اور امامت کا عرصہ فقط بیس برس ہے ۔ اور اس عرصے کو علوم وافکار وعقائد کے ٹکراو انکو دوسری زبانوں میں منتقل کرنے اوریونان و اسکندریہ کی تصنیفات و معارف کو عربی زبان میں ترجمے کا سہنری دور مانا جاتا ہے ۔ جن دنوں طرح طرح کے نظریات اسلامی ماحول کو آلودہ کررہے تھے اس علمی کج بحثی کے دور میں علم کے طلب گاروں کے لیے آستانہ سرکار امام رضا علیہ اسلام ہی تھا جو انہیں صراط مستقیم پر رکھتا ہے ۔ مخلتف مذاہب کے علماء سے آپ کے علمی مباحثے تاریخ کا اہم ترین باب ہیں ۔
(فصل الخطاب وجلاء العیون ص 279) ۔
نام ،کنیت،القاب
آپ کے والدماجدحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ کے مطابق اورتعیین رسول صلعم کے موافق آپ کو”اسم علی“ سے موسوم فرمایا،آپ آل محمد،میں کے تیسرے ”علی“ ہیں
(اعلام الوری ص225 ،مطالب السئول ص 282) ۔
آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اورآپ کے القاب صابر ، زکی، ولی،رضی،وصی تھے واشہرھاالرضاء اورمشہورترین لقب رضا تھا
(نورالابصارص 128 وتذکرة خواص الامت ص 197) ۔
لقب رضاکی توجیہ
علامہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کورضااس لیے کہتے ہیں کہ آسمان وزمین میں خداوعالم ،رسول اکرم اورآئمہ طاہرین،نیزتمام مخالفین وموافقین آپ سے راضی تھے (اعلام الوری ص 182) علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ بزنطی نے حضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے لوگوں کی افواہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ آپ کے والدماجدکولقب رضاسے مامون رشیدنے ملقب کیاتھا آپ نے فرمایاہرگزنہیں یہ لقب خداورسول کی خوشنودی کاجلوہ بردارہے اورخاص بات یہ ہے کہ آپ سے موافق ومخالف دونوں راضی اورخوشنودتھے
(جلاء العیون ص 279 ،روضت الصفاجلد 3 ص12) ۔
نشوونمااورتربیت
آپ کی نشوونمااورتربیت اپنے والدبزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ہوئی اوراسی مقدس ماحول میں بچپنااورجوانی کی متعددمنزلیں طے ہوئیں اور 30 برس کی عمرپوری ہوئی اگرچہ آخری چندسال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم اعراق میں قیدظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگراس سے پہلے26 یا 25/ برس آپ کوبرابراپنے پدربزرگوارکے ساتھ رہنے کاموقع ملا۔
آپ نے اپنی زندگی کی پہلی منزل سے تابہ عہدوفات بہت سے بادشاہوں کے دوردیکھے آپ 153 ھ میں بہ عہدمنصوردوانقی متولدہوئے (تاریخ خمیس)157 ھ میں مہدی عباسی 69 ھ میں ہادی عباسی 170 ھ میں ہارون رشیدعباسی 194 ھئمیں امین عباسی 198 ھ مامون رشید عباسی علی الترتیب خلیفہ وقت ہوتے رہے
(ابن الوردی حبیب السیرابوالفداء)۔
آپ نے ہرایک کادوربچشم خوددیکھااورآپ پدربزرگوارنیزدیگراولادعلی وفاطمہ کے ساتھ جوکچھ ہوتارہا،اسے آپ ملاحظہ فرماتے رہے یہاں تک کہ 230 ھ میں آپ دنیاسے رخصت ہوگئے اورآپ کوزہردے کرشہیدکردیاگیا۔
جانشینی
آپ کے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کومعلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈوراس وقت ہارون رشیدعباسی کے ہاتھوں میں تھی آپ کوآزادی کی سانس نہ لینے دے گی اورایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آب کی عمرکے آخری حصہ میں اوردنیاکوچھوڑنے کے موقع پردوستان اہلبیت کاآپ سے ملنایابعد کے لیے راہنماکادریافت کرناغیرممکن ہوجائے گااس لیے آپ نے انہیں آزادی کے دنوں اورسکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروان اہلبیت کواپنے بعدہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی چنانچہ اولادعلی وفاطمہ میں سے سترہ آدمی جوممتازحیثیت رکھتے تھے انہیں جمع فرماکراپنے فرزندحضرت علی رضاعلیہ السلام کی وصایت اورجانشینی کااعلان فرمادیا اورایک وصیت نامہ تحریرابھی مکمل فرمایا جس پرمدینہ کے معززین میں سے ساٹھ آدمیوں کی گواہی لکھی گئی یہ اہتمام دوسرے آئمہ کے یہاں نظرنہیں آیا صرف ان خصوصی حالات کی بناء پرجن سے دوسرے آئمہ اپنی وفات کے موقعہ پردوچارنہیں ہونے والے تھے۔
امام موسی کاظم کی وفات اورامام رضاکے درامامت کاآغاز
183
ھ
میں حضرت اما م موسی کاظم علیہ السلام نے قیدخانہ ہارون رشیدمیں اپنی
عمرکاایک بہت بڑاحصہ گذارکردرجہ شہادت حاصل فرمایا، آپ کی وفات کے وقت امام
رضاعلیہ السلام کی عمر تحقیق کے مطابق تیس سال کی تھی والدبزرگوارکی شہادت
کے بعدامامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہوگئیں یہ وہ وقت تھا جب کہ
بغدادمیں ہارون رشیدتخت خلافت پرمتمکن تھا اوربنی فاطمہ کے لیے حالات بہت
ہی ناسازگارتھے۔
ہارون رشید کا دور اورامام رضاعلیہ السلام
امام رضا علیہ السّلام کا دور عباسیوں کے حکومت و اقتدار اور ترقی و فروغ کا دور ہے اس دور کو " سنہرا دور" کہاگیاہے اور اسلامی قلمرو حکومت ایشیا سے گزر کر یورپ اور افریقہ تک پہنچ چکی تھی ہارون کہاکرتا تھا کہ " میرے قلمرو حکومت میں سورج غروب نہیں کرتا " اور ابر سے خطاب کرتے ہوئے کہتاتھا " تو جہاں بھی برسے گا وہاں میراہی ملک اور میری ہی قوت و اقتدار کا مرکز ملے گا ۔ " امام رضا علیہ السلام کے ساتھ مامون اور اس کے درباری علماء کی علمی سیاسی اور مذہبی نشستیں اور مناظرے جو اس زمانے کی تاریخی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں اس زمانے میں علمی و فلسفی فروغ کے گواہ ہیں ۔ یونانی کتابوں کے کثرت کے ساتھ عربی اور فارسی زبانوں میں ترجمے ہوئے ۔ اٹھویں امام علی رضا علیہ السلام کو " عالم آل محمّد " کے عنوان سے پہچانا جاتاہے کیونکہ آپ نے ولایت اور نبوت و امامت کی مانند اسلام و تشیع کی بنیادی بحثیں ، درباری علماء کے درمیان علی الاعلان چھیڑیں اور بیان کی ہیں اور لوگوں کے شکوک و شبہات برطرف کئے ہیں ۔
امام رضا علیہ السّلام علم و معرفت کا ایک جوش مارتا ہوا سمندر تھے جس سے تشنگان حقیقت سیراب ہوتے اور جہل و نادانی کے مرگ بار وجود سے نجات حاصل کرتے تھے فکری و اعتقادی مباحث میں امام رضا علیہ السلام نے بڑا قیمتی کردار ادا کیاہے یہ زمانہ علمی و ثقافتی سرگرمیوں کے لحاظ سے ایک آزاد فضا کا حامی تھا اور لوگ اپنے عقائد و نظریات بیان کرنے میں بالکل بے باک تھے لہذا اس وقت اسلامی حقائق و معارف سے آشنا مسلمان دانشوروں کی ذمہ داریاں بہت بڑھی ہوئی تھیں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وارث ، اہلبیت علیہ السلام کی نمایان ترین فرد اور ملت اسلامیہ کے پیشوا کی حیثیت سے امام رضا علیہ السلام نے اس وقت قرآنی معارف کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کیا چنانچہ آپ کے مشہور صحابی " ابا صلت " جن کا مشہد مقدس میں ہی مزار ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی زبانی سناہے وہ فرماتے تھے : " میں مسجد مدینہ میں بیٹھ جاتاتھا علمائے مدینہ جن کی تعداد اس وقت بہت زیادہ تھی ، جب کسی مسئلے کے بیان سے عاجز ہوتے ، سب کے سب میری طرف اشارہ کرتے تھے ، سوال کرنے والا میرے سامنے مسئلہ بیان کرتا اور میں اس کا جواب پیش کردیتاتھا ۔ امام رضا علیہ السلام اسلامی علوم کی تعلیم کے ساتھ علماء کی تشویق اور حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے ، کہتے تھے " جو شخص ہمارے امر کو زندہ کرتاہے خداوند سبحان کی رحمت اس کے شامل حال ہے " ہمارے امر کو زندہ کرنے کا مطلب یہ ہے کی ہم اہلبیت پیغمبر کے علوم کی تعلیم دے اور لوگوں میں پھیلائے ۔ اگر لوگ ہمارے علوم سیکھیں گے اور ہماری پیروی کرین گے تو علم عمل کے ساتھ ہوگا کیونکہ ہم خاندان نبوت کا علم وہ علم ہے جو عمل کے ساتھ ساتھ ہے ۔ ایک دن مامون کے دربار میں تمام امراء ، علماء اور مختلف ملکوں کے نمائندے و غیرہ موجود تھے اس نے امام رضا علیہ السلام کو بھی دربار میں آنے کی دعوت دی اور اپنی تقریر میں اہلبیت پیغمبر علیہ السلام کی عظمت و حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا " یہ لوگ خلافت کے زیادہ مستحق ہیں اور پھر امام رضا علیہ السلام کی طرف رخ کرکے کہا : میں چاہتاہوں کہ خلافت سے دست بردار ہوجاؤں اور آپ کو خلافت سونپ کر آپ کی بیعت کرلوں " ۔ امام رضا علیہ السلام نے ، جو عباسی حکمرانوں کے فریب اور ہتھکنڈوں سے اچھی طرح واقف تھے جواب میں فرمایا :
" اگر یہ خلافت تیرا حق ہے اور خدا نے تیرے لئے قرار دی ہے تو جائز نہیں ہے کہ وہ لباس جو خدا نے تجھے پہنایاہے اتارکر کسی اور کے حوالے کردے اور اگر خلافت تیرا حق نہیں ہے تو جائز نہیں ہے کہ جو چیز تیری نہیں ہے میرے حوالے کرے "
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد دس برس ہارون رشیدکا دوررہایقینا وہ امام رضاعلیہ السلام کے وجودکوبھی دنیامیں اسی طرح برداشت نہیں کرسکتاتھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والدماجدکارہنااس نے گوارانہیں کیامگریاتوامام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدداورظلم ہوتارہا اورجس کے نتیجہ میں قیدخانہ ہی کے اندرآپ دنیاسے رخصت ہوگئے اس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ہوگئی تھی اوریاواقعی ظالم کو بدسلوکیوں کااحساس اورضمیرکی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلاامام رضاکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی لیکن وقت سے پہلے اس نے امام رضاعلیہ السلام کوستانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعدصفوان بن یحی نے حضرت امام علی رضاعلیہ السلام سے کہاکہ مولاہم آپ کے بارے میں ہارون رشیدسے بہت خائف ہیں ہمیں ڈرہے کہ یہ کہیں آپ کے ساتھ وہی سلوک نہ کرے جوآپ کے والدکے ساتھ کرچکاہے حضرت نے ارشادفرمایاکہ یہ تواپنی سعی کرے گالیکن مجھ پرکامیاب نہ ہوسکے گاچنانچہ ایساہی ہوااورحالات نے اسے کچھ اس اس درجہ آخرمیں مجبورکردیاتھا کہ وہ کچھ بھی نہ کرسکایہاں تک کہ جب خالدبن یحی برمکی نے اس سے کہاکہ امام رضااپنے باپ کی طرح امرامامت کااعلان کرتے اوراپنے کوامام زمانہ کہتے ہیں تواس نے جواب دیاکہ ہم جوان کے ساتھ کرچکے ہیں وہی ہمارے لیے کافی ہے اب توچاہتاہے کہ ”ان نقتلہم جمیعا“ ہم سب کے سب کوقتل کرڈالیں،اب میں ایسانہیں کروں گا.
(نورالابصارص 166 طبع مصر)۔
علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ پھربھی ہارون رشیدکااہلبیت رسول سے شدیداختلاف اورسادات کے ساتھ جوبرتاؤاب تک رہاتھا اس کی بناء پرعام طورسے عمال حکومت یاعام افرادبھی جنہیں حکومت کوراضی رکھنے کی خواہش تھی اہلبیت کے ساتھ کوئی اچھارویہ رکھنے پرتیارنہیں ہوسکتے تھے اورنہ امام کے پاس آزادی کے ساتھ لوگ استفادہ کے لیے آسکتے تھے نہ حضرت کوسچے اسلامی احکام کی اشاعت کے مواقع حاصل تھے۔
ہارون کاآخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں،امین اورمامون کی باہمی رقابتوں سے بہت بے لطفی میں گزرا،امین پہلی بیوی سے تھا جوخاندان شاہی سے منصوردوانقی کی پوتی تھی اوراس لیے عرب سردارسب اس کے طرف دارتھے اورمامون ایک عجمی کنیزکے پیٹ سے تھااس لیے دربارکاعجمی طبقہ اس سے محبت رکھتاتھا ،دونوں کی آپس کی رسہ کشی ہارون کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اس نے اپنے خیال میں اس کاتصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوں کردیاکہ دارالسلطنت بغداداوراس کے چاروں طرف کے عربی حصہ جسے شام،مصرحجاز،یمن، وغیرہ محمدامین کے نام کئے اورمشرقی ممالک جیسے ایران،خراسان، ترکستان، وغیرہ مامون کے لیے مقررکئے مگریہ تصفیہ تواس وقت کارگرہوسکتاتھا جب جودونوں فریق ”جیواورجینے دو“ کے اصول پرعمل کرتے ہوتے لیکن جہاں اقتدارکی ہوس کارفرماہو، وہاں بنی عباس میں ایک گھرکے اندردوبھائی اگرایک دوسرے کے مدمقابل ہوں توکیوں نہ ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ کاروائی کرنے پرتیارنظرآئے اورکیوں نہ ان طاقتوں میں باہمی تصادم ہوجب کہ ان میں سے کوئی اس ہمدردی اورایثاراورخلق خداکی خیرخواہی کابھی حامل نہیں ہے جسے بنی فاطمہ اپنے پیش نظررکھ کراپنے واقعی حقوق سے چشم پوشی کرلیاکرتے تھے اسی کانتیجہ تھا کہ ادھرہارون کی آنکھ بندہوئی اورادھربھائیوں میں خانہ جنگیوں کے شعلے بھڑک اٹھے آخرچاربرس کی مسلسل کشمکش اورطویل خونریزی کے بعدمامون کوکامیابی حاصل ہوئی اوراس کابھائی امین محرم194 ھ میں تلواکے گھاٹ اتاردیاگیااورمامون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدودسلطنت پرقائم ہوگئی۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام کا مجددمذہب امام ہونا
حدیث میں ہرسوسال کے بعد ایک مجدداسلام کے نمودوشہودکانشان ملتاہے یہ ظاہرہے کہ جواسلام کامجددہوگااس کے تمام ماننے والے اسی کے مسلک پرگامزن ہوں گے اورمجددکاجوبنیادی مذہب ہوگااس کے ماننے والوں کابھی وہی مذہب ہوگا،حضرت امام رضاعلیہ السلام جوقطعی طورپرفرزندرسول اسلام تھے وہ اسی مسلک پرگامزن تھے جس مسلک کی بنیادپیغمبراسلام اورعلی خیرالانام کاوجودذی وجودتھا یہ مسلمات سے ہے کہ آل محمدعلیہم السلام پیغمبرعلیہ السلام کے نقش قدم پرچلتے تھے اورانہیں کے خدائی منشاء اوربنیادی مقصدکی تبلیغ فرمایاکرتے تھے یعنی آل محمدکامسلک وہ تھاجومحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامسلک تھا۔
بعض علماء اہل سنت نے آپ کودوسری صدی کااوربعض نے تیسری صدی کامجدد بتلایاہے میرے نزدیک دونوں درست ہے کیوں کہ دوسری صدی میں امام رضاعلیہ السلام کی ولادت اورتیسری صدی کے آغازمیں آپ کی شہادت ہوئی ہے ۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام کے اخلاق وعادات اورشمائل وخصائل
آپ کے اخلاق وعادات اورشمائل وخصائل کالکھنااس لیے دشوارہے کہ وہ بے شمارہیں ”مشتی نمونہ ازخرداری“یہ ہیں بحوالہ علامہ شبلنجی ابراہیم بن عباس تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام علی رضاعلیہ السلام نے کبھی کسی شخص کے ساتھ گفتگوکرنے میں سختی نہیں کی،اورکبھی کسی بات کوقطع نہیں فرمایا آپ کے مکارم عادات سے تھا کہ جب بات کرنے والااپنی بات ختم کرلیتاتھا تب اپنی طرف سے آغازکلام فرماتے تھے کسی کی حاجت روائی اورکام نکالنے میں حتی المقدوردریغ نہ فرماتے ،کبھی ہمنشین کے سامنے پاؤں پھیلاکرنہ بیٹھتے اورنہ اہل محفل کے روبروتکیہ لگاکربیٹھتے تھے کبھی اپنے غلاموں کوگالی نہ دی اورچیزوں کاکیاذکر،میں نے کبھی آپ کے تھوکتے اورناک صاف کرتے نہیں دیکھا،آپ قہقہہ لگاکرہرگز نہیں ہنستے تھے خندہ زنی کے موقع پرآپ تبسم فرمایاکرتے تھے محاسن اخلاق اورتواضع وانکساری کی یہ حالت تھی کہ دسترخوان پرسائیس اوردربان تک کواپنے ساتھ بٹھالیتے ،راتوں کوبہت کم سوتے اوراکثرراتوں کوشام سے صبح تک شب بیداری کرتے تھے اکثراوقات روزے سے ہوتے تھے مگرہرمہینے کے تین روزےتوآپ سے کبھی قضانہیں ہوئے ارشادفرماتے تھے کہ ہرماہ میں کم ازکم تین روزے رکھ لیناایساہے جیسے کوئی ہمیشہ روزے سے رہے ۔
آپ کثرت سے خیرات کیاکرتے تھے اوراکثررات کے تاریک پردہ میں اس استحباب کوادافرمایاکرتے تھے موسم گرمامیں آپ کافرش جس پرآپ بیٹھ کرفتوی دیتے یامسائل بیان کیاکرتے بوریاہوتاتھااورسرمامیں کمبل آپ کایہی طرزاس وقت بھی رہا جب آپ ولی عہدحکومت تھے آپ کالباس گھرمیں موٹااورخشن ہوتاتھا اوررفع طعن کے لیے باہرآپ اچھالباس پہنتے تھے ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہاکہ حضوراتنا عمدہ لباس کیوں استعمال فرماتے ہیں آپ نے اندرکاپیراہن دکھلاکرفرمایااچھالباس دنیاوالوں کے لیے اورکمبل کاپیراہن خداکے لیے ہے۔
علامہ موصوف تحریرفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ حمام میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص جندی نامی آگیااوراس نے بھی نہاناشروع کیادوران غسل میں اس نے بھی نہاناشروع کیادوران غسل میں اس نے امام رضاعلیہ السلام سے کہاکہ میرے جسم پرپانی ڈالئے آپ نے پانی ڈالناشروع کیااتنے میں ایک شخص نے کہااے جندی فرزندرسول سے خدمت لے رہاہے ارے یہ امام رضاہیں، یہ سنناتھا کہ وہ پیروں پرگرپڑااورمعافی مانگنے لگا.
(نورالابصار ص 38,39) ۔
ایک مردبلخی ناقل ہے کہ حضرت کے ساتھ ایک سفرمیں تھاایک مقام پردسترخوان بچھاتوآپ نے تمام غلاموں کوجن میں حبشی بھی شامل تھے بلاکربٹھلالیامیں نے عرض کیامولاانہیں علیحدہ بٹھلائیں توکیاحرج ہے آپ نے فرمایاکہ سب کارب ایک ہے اورماں باپ آدم وحوابھی ایک ہیں اور جزاوسزا اعمال پرموقوف ہے، توپھرتفرقہ کیاآپ کے ایک خادم یاسرکاکہناہے کہ آپ کایہ تاکیدی حکم تھا کہ میرے آنے پرکوئی خادم کھاناکھانے کی حالت میں میری تعظیم کونہ اٹھے۔
معمر بن خلادکابیان ہے کہ جب بھی دسترخوان بچھتاآپ ہرکھانے میں سے ایک ایک لقمہ نکال لیتے تھے ،اوراسے مسکینوں اوریتیموں کوبھیج دیاکرتے تھے شیخ صدوق تحریرفرماتے ہیں کہ آپ نے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے فرمایاکہ بزرگی تقوی سے ہے جومجھ سے زیادہ متقی ہے وہ مجھ سے بہترہے۔
ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مجھے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مال عنایت کیجیے، فرمایایہ ممکن ہے چنانچہ آپ نے اسے دوسواشرفی عنایت فرمادی، ایک مرتبہ نویں ذی الحجہ یوم عرفہ آپ نے راہ خدامیں ساراگھرلٹادیا یہ دیکھ کرفضل بن سہیل وزیرمامون نے کہاحضرت یہ توغرامت یعنی اپنے آپ کونقصان پہنچاناہے آپ نے فرمایایہ غرامت نہیں ہے غنیمت ہے میں اس کے عوض میں خداسے نیکی اورحسنہ لوں گا۔
آپ کے خادم یاسرکابیان ہے کہ ہم ایک دن میوہ کھارہے تھے اورکھانے میں ایساکرتے تھے کہ ایک پھل سے کچھ کھاتے اورکچھ پھینک دیتے ہمارے اس عمل کوآپ نے دیکھ لیا اورفرمایانعمت خداکوضائع نہ کروٹھیک سے کھاؤ اورجوبچ جائے اسے کسی محتاج کودیدو،آپ فرمایاکرتے تھے کہ مزدورکی مزدوری پہلے طے کرناچاہئے کیونکہ ںچکائی ہوئی اجرت سے زیادہ جوکچھ دیاجائے گاپانے والااس کوانعام سمجھے گا۔
صولی کابیان ہے کہ آپ اکثرعودہندی کابخورکرتے اورمشک وگلاب کاپانی استعمال کرتے تھے عطریات کاآپ کوبڑاشوق تھانمازصبح اول وقت پڑھتے اس کے بعدسجدہ میں چلے جاتے تھے اورنہایت ہی طول دیتے تھے پھرلوگوں کوپندونصائح فرماتے۔
علامہ محمدرضا لکھتے ہیں کہ آپ ہرسوال کاجواب قرآن مجید سے دیتے تھے اورروزانہ ایک قرآن پاک ختم کرتے تھے (جنات الخلود ص 31) ۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام کاعلمی کمال
مورخین کابیان ہے کہ آل محمدکے اس سلسلہ میں ہرفردحضرت احدیت کی طرف سے بلندترین علم کے درجے پرقراردیا گیاتھاجسے دوست اوردشمن کومانناپڑتاتھا یہ اوربات ہے کہ کسی کوعلمی فیوض پھیلانے کازمانے نے کم موقع دیا اورکسی کوزیادہ، چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعداگرکسی کوسب سے زیادہ موقع حاصل ہواہے تو وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام ہیں ،جب آپ امامت کے منصب پرنہیں پہنچے تھے اس وقت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے تمام فرزندوں اورخاندان کے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ تمہارے بھائی علی رضا عالم آل محمدہیں، اپنے دین مسائل کوان سے دریافت کرلیاکرو، اورجوکچھ اسے کہیں یادرکھو،اورپھرحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اورروضہ رسول پرتشریف فرمارہے تھے توعلمائے اسلام مشکل مسائل میں آب کی طرف رجوع کرتے تھے۔
محمدبن عیسی یقطینی کابیان ہے کہ میں نے ان تحریری مسائل کو جوحضرت امام رضاعلیہ السلام سے پوچھے گئے تھے اورآپ نے ان کاجواب تحریرفرمایاتھا،اکھٹا کیاتواٹھارہ ہزارکی تعدادمیں تھے، صاحب لمعت الرضاء تحریرکرتے ہیں کہ حضرت آئمہ طاہرین علیہم السلام کے خصوصیات میں یہ امرتمام تاریخی مشاہداورنیزحدیث وسیرکے اسانیدمعتبرسے ثابت ہے ،باوجودیکہ اہل دنیاکوآپ حضرات کی تقلیداورمتابعت فی الاحکام کابہت کم شرف حاصل تھا،مگرباین ہمہ تمام زمانہ وہرخویش وبیگانہ آپ حضرات کوتمام علوم الہی اوراسرارالہی کاگنجینہ سمجھتاتھا اورمحدثین ومفسرین اورتمام علماء وفضلاء جوآپ کے مقابلہ کادعوی رکھتے تھے وہ بھی علمی مباحث ومجالس میں آپ حضرات کے آگے زانوئے ادب تہ کرتے تھے اورعلمی مسائل کوحل کرنے کی ضرورتوں کے وقت حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے لے کرامام زین العابدین علیہ السلام تک استعفادے کئے وہ سب کتابوں میں موجودہے۔
جابربن عبداللہ انصاری اورحضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں سمع حدیث کے واقعات تمام احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں ،اسی طرح ابوالطفیل عامری اورسعیدین جبیرآخری صحابہ کی تفصیل حالات جوان بزرگون کے حال میں پائے جاتے ہیں وہ سیروتواریخ میں مذکورومشہورہیں صحابہ کے بعدتابعین اورتبع تابعین اوران لوگوں کی فیض یابی کی بھی یہی حالت ہے ،شعبی ،زہری، ابن قتیبہ ،سفیان ثوری،ابن شیبہ ،عبدالرحمن ،عکرمہ،حسن بصری ،وغیرہ وغیرہ یہ سب کے سب جواس وقت اسلامی دنیامیں دینیات کے پیشوااورمقدس سمجھے جاتے تھے ان ہی بزرگوں کے چشمہ فیض کے جرعہ نوش اورانہی حضرات کے مطیع وحلقہ بگوش تھے ۔
جناب امام رضاعلیہ السلام کواتفاق حسنہ سے اپنے علم وفضل کے اظہارکے زیادہ موقع پیش آئے کیوں کہ مامون عباسی کے پاس جب تک دارالحکومت مروتشریف فرمارہے، بڑے بڑے علماء وفضلاء علوم مختلفہ میں آپ کی استعداداور فضیلت کااندازہ کرایاگیااورکچھ اسلامی علماء پرموقوف نہیں تھا بلکہ علماء یہودی ونصاری سے بھی آپ کامقابلہ کرایاگیا،مگران تمام مناظروں ومباحثوں مین ان تمام لوگوں پرآ پ کی فضیلت وفوقیت ظاہرہوئی،خودمامون بھی خلفائے عباسیہ میں سب سے زیادہ اعلم وافقہ تھا باوجوداس کے تبحرفی العلوم کالوہامانتاتھا اورچاروناچاراس کااعتراف پراعتراف اوراقرارپراقرارکرتاتھا چنانچہ علامہ ابن حجرصواعق محرقہ میں لکھتے ہیں کہ آپ جلالت قدرعزت وشرافت میں معروف ومذکورہیں ،اسی وجہ مامون آپ کوبمنزلہ اپنی روح وجان جانتاتھا اس نے اپنی دخترکانکاح آنحضرت علیہ السلام سے کیا،اورملک ولایت میں اپناشریک گردانا، مامون برابرعلماء ادیان وفقہائے شریعت کوجناب امام رضاعلیہ السلام کے مقابلہ میں بلاتااورمناظرہ کراتا،مگرآپ ہمیشہ ان لوگوں پرغالب آتے تھے اورخودارشادفرماتے تھے کہ میں مدینہ میں روضہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیٹھتا،وہاں کے علمائے کثیرجب کسی علمی مسئلہ میں عاجزآجاتے توبالاتفاق میری طرف رجوع کرتے،جواب ہائے شافی دےکران کی تسلی وتسکین کردیتا۔
ابوصلت ابن صالح کہتے ہیں کہ حضرت امام علی بن موسی رضاعلیہماالسلام سے زیادہ کوئی عالم میری نظرسے نہیں گزرا ،اورمجھ پرموقوف نہیں جوکوئی آپ کی زیارت سے مشرف ہوگا وہ میری طرح آپ کی اعلمیت کی شہادت دے گا۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام اورمجلس شہداء کربلا
علامہ مجلسی بحارالانوارمیں لکھتے ہیں کہ شاعرآل محمد،دعبل خزاعی کابیان ہے کہ ایک مرتبہ عاشورہ کے دن میں حضرت امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا،تودیکھاکہ آپ اصحاب کے حلقہ میں انتہائی غمگین وحزیں بیٹھے ہوئے ہیں مجھے حاضرہوتے دیکھ کر فرمایا، آؤآؤہم تمہاراانتظارکررہے ہیں میں قریب پہنچاتوآپ نے اپنے پہلومیں مجھے جگہ دے کرفرمایا کہ اے دعبل چونکہ آج یوم عاشوراہے اوریہ دن ہمارے لیے انتہائی رنج وغم کادن ہے لہذا تم میرے جد مظلوم حضرت امام حسین علیہ السلام کے مرثیہ سے متعلق کچھ شعرپڑھو،اے دعبل جوشخص ہماری مصیبت پرروئے یارلائے اس کااجرخداپرواجب ہے ،اے دعبل جس شخص کی آنکھ ہمارے غم میں ترہو وہ قیامت میں ہمارے ساتھ محشورہوگا ، اے دعبل جوشخص ہمارے جدنامدارحضرت سیدالشہداء علیہ السلام کے غم میں روئے گا خدااس کے گناہ بخش دے گا۔
یہ فرماکرامام علیہ السلام نے اپنی جگہ سے اٹھ کر پردہ کھینچااورمخدرات عصمت کوبلاکراس میں بٹھادیاپھرآپ میری طرف مخاطب ہوکرفرمانے لگے ہاں دعبل! ابے میرے جدامجدکامرثیہ شروع کرو، دعبل کہتے ہیں کہ میرادل بھرآیااورمیری آنکھوں سے آنسوجاری تھے اورآل محمدمیں رونے کاکہرام عظیم برپاتھا صاحب درالمصائب تحریرفرماتے ہیں کہ دعبل کامرثیہ سن کرمعصومہ قم جناب فاطمہ ہمیشرہ حضرت امام رضاعلیہ السلام اس قدرروئیں کہ آپ کوغش آگیا۔
اس اجتماعی طریقہ سے ذکرحسینی کومجلس کہتے ہیں اس کاسلسلہ عہدامام رضامیں مدینہ سے شروع ہوکرمروتک جاری رہا. علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ اب امام رضاعلیہ السلام کوتبلیغ حق کے لیے نام حسین کی اشاعت کے کام کوترقی دینے کابھی پوراموقع حاصل ہوگیاتھا جس کی بنیاداس کے پہلے حضرت امام محمدباقر علیہ السلام اورامام جعفرصادق علیہ السلام قائم کرچکے تھے مگروہ زمانہ ایساتھا کہ جب امام کی خدمت میں وہی لوگ حاضرہوتے تھے جوبحیثیت امام یابحیثیت عالم دین آپ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے اوراب امام رضاعلیہ السلام توامام روحانی بھی ہیں اورولی عہدسلطنت بھی، اس لیے آپ کے دربارمیں حاضرہونے والوں کادائرہ وسیع ہے۔
مرو،وہ مقام ہے جوایران کے تقریبا وسط میں واقع ہے ہرطرف کے لوگ یہاں آتے ہیں اوریہاں یہ عالم کہ ادھر محرم کاچاند نکلااورآنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے دوسروں کوبھی ترغیب وتحریص کی جانے لگی کہ آل محمدکے مصائب کویادکرواوراثرات غم کوظاہرکرو یہ بھی ارشادہونے لگا کہ جواس مجلس میں بیٹھے جہاں ہماری باتیں زندہ کی جاتی ہیں اس کادل مردہ نہ ہوگااس دن کے جب سب کے دل مردہ ہوں گے۔
تذکرہ امام حسین کے لیے جومجمع ہو،اس کانام اصطلاحی طورپرمجلس اسی امام رضاعلیہ السلام کی حدیث سے ہی ماخوذہے آپ نے عملی طورپربھی خودمجلسیں کرنا شروع کردیں جن میں کبھی خودذاکرہوئے اوردوسرے سامعین جیسے ریان بن شبیب کی حاضری کے موقع پرآپ نے مصائب امام حسین علیہ السلام بیان فرمائے اورکبھی عبداللہ بن ثابت یادعبل خزاعی ایسے کسی شاعرکی حاضری کے موقع پراس شاعرکوحکم ہواکہ تم ذکرامام حسین میں اشعارپڑھووہ ذاکرہوا، اورحضرت سامعین میں داخل ہوئے الخ۔
مامون رشیدکی مجلس مشوارت
حالات سے متاثرہوکرمامون رشیدنے ایک مجلس مشاورت طلب کی جس میں علماء وفضلاء ،زعماء اورامراء سب ہی کومدعوکیا جب سب جمع ہوگئے تواصل رازدل میں رکھتے ہوئے ان سے یہ کہاکہ چونکہ شہرخراسان میں ہماری طرف سے کوئی حاکم نہیں ہے اورامام رضاسے زیادہ لائق کوئی نہیں ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ امام رضاکوبلاکروہاں کی ذمہ داری ان کے سپردکردیں، مامون کامقصدتویہ تھا کہ ان کوخلیفہ بناکر علویوں کی بغاوت اوران کی چابکدستی کوروک دے لیکن یہ بات اس نے مجلس مشاورت میں ظاہرنہیں کی،بلکہ ملکی ضرورت کاحوالہ دے کرانہیں خراسان کاحاکم بناناظاہرکیا، اورلوگوں نے تواس پرجوبھی رائے دی ہولیکن حسن بن سہل اوروزیراعظم فضل بن سہل اس پرراضی نہ ہوئے اوریہ کہاکہ اس طرح خلافت بنی عباس سے آل محمدکی طرف منتقل ہوجائے گی مامون نے کہاکہ میں نے جوکچھ سوچاہے وہ یہی ہے اوراس پرعمل کروں گا یہ سن کروہ لوگ خاموش ہوگئے اتنے میں حضرت علی ابن ابی طالب کے ایک معززصحابی ،سلیمان بن ابراہیم بن محمدبن داؤدبن قاسم بن ہیبت بن عبداللہ بن حبیب بن شیخان بن ارقم،کھڑے ہوگئے اورکہنے لگے ائے مامون رشید”راست می گوئی امامی ترسم کہ توباحضرت امام رضاہمان کنی کہ کوفیان باحضرت امام حسین کردند“ توسچ کہتاہے لیکن میں ڈرتاہوں کہ توکہیں ان کے ساتھ وہی سلوک نہ کرے جوکوفیوں نے امام حسین کے ساتھ کیاہے۔
مامون رشیدنے کہا کہ اے سلیمان تم یہ کیاسوچ رہے ہو ،ایساہرگزنہیں ہوسکتا،میں ان کی عظمت سے واقف ہوں جوانہیں ستائے گاقیامت میں حضرت رسول کریم اورحضرت علی حکیم کوکیون کرمنہ دکھائے گا تم مطمئن رہو، انشاء اللہ ان کاایک بال بھی بیکانہ ہوگایہ کہہ کربروایت ابومخنف مامون رشیدنے قرآن مجیدپرہاتھ رکھااورقسم کھاکرکہاکہ میں ہرگزاولادپیغمبرپرکوئی ظلم نہ کروں گا اس کے بعدسلیمان نے تمام لوگوں کوقسم دے کربیعت لے لی پھرانہوں نے ایک بیعت نامہ تیارکیااوراس پراہل خراسان کے دستخط لیے دستخط کرنے والوں کی تعداد چالیس ہزارتھی بیعت نامہ تیارہونے کے بعد مامون رشیدنے سلیمان کوبیعت نامہ سمیت مدینہ بھیج دیا،سلیمان قطع مراحل وطے منازل کرتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے اورحضرت امام رضاعلیہ السلام سے ملاقات کی، ان کی خدمت میں مامون کاپیغام پہنچادیا۔
اورمجلس مشاورت کے تمام واقعات بیان کئے اوربیعت نامہ حضرت کی خدمت میں پیش کیا،حضرت نے جونہی اس کوکھولااوراس کاسرنامہ دیکھا،سرمبارک ہلاکر فرمایاکہ یہ میرے لیے کسی طرح مفیدنہیں ہے،اس وقت آپ آبدیدہ تھے پھرآپ نے فرمایاکہ مجھے جدنامدارنے خواب میں نتائج واعواقب سے آگاہ کردیاہے ،سلیمان نے کہاکہ مولایہ توخوشی کاموقع ہے آپ اس درجہ پریشان کیوں ہیں ، ارشادفرمایاکہ میں اس دعوت میں اپنی موت دیکھ رہاہوں انہوں نے کہاکہ مولامیں نے سب سے بیعت لے لی ہے کہادرست ہے لیکن جدنامدارنے جوفرمایاہے وہ غلط نہیں ہوسکتا، میں مامون کے ہاتھوں شہیدکیاجاؤں گا۔
بلآخرآپ پرکچھ دباؤپڑاکہ آپ مروخراسان کے لیے عازم ہوگئے جب آپ کے عزیزوں اوروطن والوں کوآپ کی روانگی کاحال معلوم ہوابے پناہ روئے۔
غرضکہ آپ روانہ ہوگئے ،راستے میں ایک چشمہ آب کے کنارے چندآہوؤں کودیکھاکہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں جب ان کی نظرحضرت پرپڑی سب دوڑپڑے اورباچشم ترکہنے لگے کہ حضورخراسان نہ جائیں کہ دشمن بہ لباس دوستی آپ کی تاک میں ہے اورملک الموت استقبال کے لیے تیارہیں، حضرت نے فرمایاکہ اگرموت آنی ہے تووہ ہرحال میں آئے گی
(کنزالانساب ابومخنف ص 87 طبع بمبئی 1302 ھ)۔
امام رضاعلیہ السلام کی مدینہ سے روانگی
امام رضاعلیہ السلام کاولی عہدکوقبول کرنابالکل ویساہی تھا جیساہارون کے حکم سے امام موسی کاظم کاجیل خانہ میں چلاجانا اسی لیے جب امام رضاعلیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف روانہ ہورہے تھے توآپ کے رنج وصدمہ اوراضطراب کی کوئی حدنہ تھی روضہ رسول سے رخصت کے وقت آپ کاوہی عالم تھا جوحضرت امام حسین علیہ السلام کامدینہ سے روانگی کے وقت تھا دیکھنے والوں نے دیکھاکہ آپ بے تابانہ روضہ کے اندرجاتے ہیں اورنالہ وآہ کے ساتھ امت کی شکایت کرتے ہیں پھرباہرنکل کرگھرجانے کاارادہ کرتے ہیں اورپھردل نہیں مانتاپھرروضہ سے جاکرلپٹ جاتے ہیں یہ ہی صورت کئی مرتبہ ہوئی،راوی کا بیان ہے کہ میں حضرت کے قریب گیاتوفرمایاائے محول! میں اپنے جدامجدکے روضے سے بہ جبرجدا کیاجارہاہوں اب مجھ کویہاں آنا نصیب نہ ہوگا
(سوانح امام رضاجلد 3 ص 7) ۔
محول شیبانی کابیان ہے کہ جب وہ ناگواروقت پہنچ گیاکہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام اپنے جدبزرگوارکے روضہ اقدس سے ہمیشہ کےلے وداع ہوئے تو میں نے دیکھاکہ آپ نے تابانہ اندرجاتے ہیں اوربانالہ وآہ باہرآتے ہیں اورظلمہ امت کی شکایت کرتے ہیں یاباہرآکر گریہ وبکافرماتے ہیں اورپھراندرواپس چلے جاتے ہیں آپ نے چندبارایساہی کیااورمجھ سے نہ رہاگیااورمیں نے حاضرہوکرعرض کی مولااضطراب کی کیاوجہ ہے ؟ فرمایاائے محول ! میں اپنے نانا کے روضہ سے جبراجداکیاجارہاہوں مجھے اس کے بعداب یہاں آنانصیب نہ ہوگامیں اسی مسافرت اورغریب الوطنی میں شہیدکردیاجاؤں گا،اورہارون رشید کے مقبرہ میں مدفون ہوں گااس کے بعدآپ دولت سرامیں تشریف لائے اورسب کوجمع کرکے فرمایاکہ میں تم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہورہاہوں یہ سن کر گھرمیں ایک عظیم کہرام بپاہوگیااورسب چھوٹے بڑے رونے لگے ، آپ نے سب کوتسلی دی اورکچھ دیناراعزامیں تقسیم کرکے راہ سفراختیار فرمالیا ایک روایت کی بناپر آپ مدینہ سے روانہ ہوکرمکہ معظمہ پہنچے اوروہاں طواف کرکے خانہ کعبہ کورخصت فرمایا۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام کا نیشاپورمیں ورودمسعود
رجب 200 ہجری میں حضرت مدینہ منورہ سے مرو”خراسان“ کی جانب روانہ ہوئے اہل وعیال اورمتعلقین سب کومدینہ منورہ ہی میں چھوڑا اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمرپانچ برس کی تھی آپ مدینہ ہی میں رہے مدینہ سے روانگی کے وقت کوفہ اورقم کی سیدھی راہ چھوڑکر بصرہ اوراہوازکاغیرمتعارف راستہ اس خطرہ کے پیش نظراختیارکیاگیاکہ کہیں عقیدت مندان امام مزاحمت نہ کریں غرضکہ قطع مراحل اورطے منازل کرتے ہوئے یہ لوگ نیشاپورکے نزدیک جاپہنچے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ جب آپ کی مقدس سواری نیشاپوری کے قریب پہنچی توجملہ علماء وفضلاء شہرنے بیرون شہر حاضرہوکرآپ کی رسم استقبال اداکی ، داخل شہرہوئے توتمام خوردوبزرگ شوق زیارت میں امنڈ پڑے، مرکب عالی جب مربعہ شہر(چوک) میں پہنچاتو خلاق سے زمین پرتل رکھنے کی جگہ نہ تھی اس وقت حضرت امام رضاقاطرنامی خچرپرسوارتھے جس کاتمام سازوسامان نقرئی تھاخچرپرعماری تھی اوراس پردونوں طرف پردہ پڑے ہوئے تھے اوربروایتے چھتری لگی ہوئی تھی اس وقت امام المحدثین حافظ ابوزرعہ رازی اورمحمدن بن اسلم طوسی آگے آگے اوران کے پیچھے اہل علم وحدیث کی ایک عظیم جماعت حاضرخدمت ہوئی اورباین کلمات امام علیہ السلام کومخاطب کیا”اے جمیع سادات کے سردار،اے تمام مومنوں کے امام اوراے مرکزپاکیزگی ،آپ کورسول اکرم کاواسطہ، آپ اپنے اجدادکے صدقہ میں اپنے دیدارکاموقع دیجئے اورکوئی حدیث اپنے جدنامدارکی بیان فرمائیے یہ کہہ کرمحمدبن رافع ،احمدبن حارث،یحی بن یحی اوراسحاق بن راہویہ نے آپ کے خاطرکی باگ تھام لی۔
ان کی استدعاسن کرآپ نے سواری روک دئیے جانے کے لیے اشارہ فرمایا، اورشارہ کیاکہ حجاب اٹھادئیے جائیں فوراتعمیل کی گئی حاضرین نے جونہی وہ نورانی چہرہ اپنے پیارے رسول کے جگرگوشہ کادیکھاسینوں میں دل بیتاب ہوگئے دوزلفین نورانورپر مانندگیسوئے مشک بوئے جناب رسول خداچھوٹی ہوئی تھیں کسی کویارائے ضبط باقی نہ رہاوہ سب کے سب بے اختیارڈھاریں مارکررونے لگے, کچھ زمین پرگرکرلوٹنے لگے بعض سواری کے گردوپیش گھومنے اورچکرلگانے لگے اورمرکب اقدس کی زین ولجام چومنے لگے اورعماری کابوسہ دینے لگے آخرمرکب عالی کے قدم چومنے کے اشتیاق میں درانہ بڑھے چلے آتے تھے غرضکہ عجیب طرح کاولولہ تھاکہ جمال باکمال کودیکھنے سے کسی کوسیری نہیں ہوئی تھی ٹکٹکی لگائے رخ انورکی طرف نگراں تھے یہاں تک دوپہرہوگئی اوران کے موجودہ اشتیاق وتمناکی پرجوشیوں میں کوئی کمی نہیں آئی اس وقت علماء وفضلاء کی جماعت نے بآوازبلندپکارکرکہاکہ مسلمانوں ذراخاموش ہوجاؤ، اورفرزندرسول کے لیے آزارنہ بنو، ان کی استدعاپرقدرے شوروغل تھما توامام علیہ السلام نے فرمایا:
میرے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم نے مجھ سے بیان فرمایااوران سے امام جعفرصادق علیہ السلام نے اوران سے امام محمدباقرنے اوران سے امام زین العابدین نے اوران سے امام حسین نے اوران سے حضرت علی مرتضی نے اوران سے حضرت رسول کریم جناب محمدمصطفی صلعم نے اوران سے جناب جبرئیل امین نے اوران سے خداوندعالم نے ارشادفرمایاکہ ”لاالہ الااللہ “ میراقلعہ ہے جواسے زبان پرجاری کرے گا میرے قلعہ میں داخل ہوجائے گا اورجومیرے قلعہ میں داخل ہوگا میرے عذاب سے محفوظ ہوجائے گا۔
(مسندامام رضاعلیہ السلام ص 7 طبع مصر 1341 ھ)۔
یہ کہہ کرآپ نے پردہ کھینچوادیا، اورچندقدم بڑھنے کے بعد فرمایا بشرطہاوشروطہاوانامن شروطہا کہ لاالہ الااللہ کہنے والانجات ضرورپائے گالیکن اس کے کہنے اورنجات پانے میں چندشرطیں ہیں جن میں سے ایک شرط میں بھی ہوں یعنی اگرآل محمدکی محبت دل میں نہ ہوگی تولاالہ الااللہ کہناکافی نہ ہوگاعلماء نے ”تاریخ نیشابور“ کے حوالے سے لکھاہے کہ اس حدیث کے لکھنے میں مفرددواتوں کے علاوہ 24 ہزارقلمدان استعمال کئے گئے.
احمدبن حنبل کاکہناہے کہ یہ حدیث جن اسناداوراسماء کے ذریعہ سے بیان فرمائی گئی ہے اگرانہیں اسماء کوپڑھ کر مجنون پردم کیاجائے تو”لافاق من جنونہ“ ضروراس کاجنون جاتارہے گا اوروہ اچھاہوجائے گاعلامہ شبلنجی نورالابصارمیں بحوالہ ابوالقاسم تضیری لکھتے ہیں کہ ساسانہ کے رہنے والے بعض رؤسا نے جب اس سلسلہ حدیث کوسناتواسے سونے کے پانی سے لکھواکراپنے پاس رکھ لیااورمرتے وقت وصیت کی کہ اسے میرے کفن میں رکھ دیاجائے چنانچہ ایساہی کیاگیامرنے کے بعداس نے خواب میں بتایاکہ خداوندعالم نے مجھے ان ناموں کی برکت سے بخش دیاہے اورمیں بہت آرام کی جگہ ہوں ۔
اس آیت کریمہ میں مالک کائنات نے صاف صاف واضح کردیا ہے کہ دنیا میں کسی انسان کوہدایت کا انتظام کرنے کا حق نہیں ہے ۔ یہ کام ہمارا ہے اور ہمیں کو انجام دینا ہے اور ہم نے ہردور میں انجام دیا ہے ۔ آدم سے لے کر آج تک کو ئی دور ایسا نہیں گذرا جب ہم نے ہدایت کا انتظام نہ کیا ہو ۔ اور ایک نہ ایک ہادی اور رہنما نہ معین کیا ہو ۔ اسی رشد و ہدایت کا سلسلے ایک کڑی صابر و زکی حضرت امام علی رضا عليہ السلام ہیں جو گیارہ ذيقعدہ سنہ 153 ھجری کو آسمان بشریت پر ایک ایسے درخشاں ستارے کی مانند چمکے جو کئی سو سال گذرجانے کے باوجود آج بھی اسی آب و تاب ست روشن ہے ۔ ان کے مقدس وجود سے مشہد مقدس کی سرزمین آج بھی نور بنی ہوئی ہے جس کی زیارت کے لیے آنے والے زائرین ، بڑے بڑے علماء ، عرفا ، صلحا ، مجتہدین و مبلغین و واعظین صبح و شام انوار علم و معرفت سے اپنا دامن بھرتے رہتے ہیں ۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
اسم مبارک :علی
لقب : رضا ، ضامن ، صابر ، زکی، ولی،رضی،وصی
کنیت : ابوالحسن
والد ماجد :امام موسی کاظم علیہ السلام
والدہ ماجدہ : بی بی نجمہ نوبیہ
ولادت : 11 ذ ی القعدہ 153 ہجری جمعہ مدینہ منورہ
شہادت : 23 ذیقعدہ 203 ہجری طوس
عمر مبارک : پچاس سال
زوجہ : جناب سبیکہ
اولاد : امام محمد تقی علیہ السلام
قبر مطہر : مشہد مقدس
صابر و زکی حضرت امام علی رضا عليہ السلام بتاریخ 11/ ذیقعدہ 153 ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ متولدہوئے ہیں
(اعلام الوری ص 182 ، جلاء الیعون ص280 ،روضتہ الصفاجلد 3 ص 13 ، انوارالنعمانیہ ص127)
توحید کے سب سے بڑے مبلغ ۔رضائے حق کے سب سے عظیم پیکر امام علی رضا بن موسی ابن جعفر کا یوم ظہور معطر و منور شمیم و ایمان وایقان کی روشنی سے جگمگاتا ھوا بابرکت دن اور مبارک ساعت سارے عالم اسلام کے لئے آج بھی بابرکت ساعت اور مبارک دن ہے ۔ اس دن آسمان ہدایت وطہارت کے اٹھویں تاجدار نے دنیا علم ومعرفت اور گیتی فضیلت وتقوی کو اپنے قدم مبارک سے افتخار بخشاء ۔ گو کہ آپ کی زندگی اور امامت کا عرصہ فقط بیس برس ہے ۔ اور اس عرصے کو علوم وافکار وعقائد کے ٹکراو انکو دوسری زبانوں میں منتقل کرنے اوریونان و اسکندریہ کی تصنیفات و معارف کو عربی زبان میں ترجمے کا سہنری دور مانا جاتا ہے ۔ جن دنوں طرح طرح کے نظریات اسلامی ماحول کو آلودہ کررہے تھے اس علمی کج بحثی کے دور میں علم کے طلب گاروں کے لیے آستانہ سرکار امام رضا علیہ اسلام ہی تھا جو انہیں صراط مستقیم پر رکھتا ہے ۔ مخلتف مذاہب کے علماء سے آپ کے علمی مباحثے تاریخ کا اہم ترین باب ہیں ۔
آپ
کی ولادت کے متعلق علامہ مجلسی اورعلامہ محمدپارساتحریرفرماتے ہیں کہ جناب
ام البنین کاکہناہے کہ جب تک امام علی رضا علیہ السلام میرے بطن میں رہے
مجھے گل کی گرانباری مطلقا محسوس نہیں ہوئی،میں اکثرخواب میں تسبیح وتہلیل
اورتمہیدکی آوازیں سناکرتی تھی جب امام رضا علیہ السلام پیداہوئے توآپ نے
زمین پرتشریف لاتے ہی اپنے دونوں ہاتھ زمین پرٹیک دئے اوراپنا فرق مبارک
آسمان کی طرف بلندکردیا آپ کے لبہائے مبارک جنبش کرنے لگے ،ایسامعلوم
ہوتاتھاکہ جیسے آپ خداسے کچھ باتیں کررہے ہیں ، اسی اثناء میں امام موسی
کاظم علیہ السلام تشریف لائے اورمجھ سے ارشادفرمایاکہ تمہیں خداوندعالم کی
یہ عنایت وکرامت مبارک ہو،پھرمیں نے مولودمسعودکوآپ کی آغوش میں دیدیا آپ
نے اس کے داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اس کے بعدآپ نے
ارشادفرمایاکہ”بگیر این راکہ بقیہ خدااست درزمین حجت خداست بعدازمن“ اسے لے
لویہ زمین پرخداکی نشانی ہے اورمیرے بعدحجت اللہ کے فرائض کاذمہ دار ہے
ابن بابویہ فرماتے ہیں کہ آپ دیگرآئمہ علیہم السلام کی طرح مختون اورناف
بریدہ متولدہوئے .تھے
نام ،کنیت،القاب
آپ کے والدماجدحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ کے مطابق اورتعیین رسول صلعم کے موافق آپ کو”اسم علی“ سے موسوم فرمایا،آپ آل محمد،میں کے تیسرے ”علی“ ہیں
(اعلام الوری ص225 ،مطالب السئول ص 282) ۔
آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اورآپ کے القاب صابر ، زکی، ولی،رضی،وصی تھے واشہرھاالرضاء اورمشہورترین لقب رضا تھا
(نورالابصارص 128 وتذکرة خواص الامت ص 197) ۔
لقب رضاکی توجیہ
علامہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کورضااس لیے کہتے ہیں کہ آسمان وزمین میں خداوعالم ،رسول اکرم اورآئمہ طاہرین،نیزتمام مخالفین وموافقین آپ سے راضی تھے (اعلام الوری ص 182) علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ بزنطی نے حضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے لوگوں کی افواہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ آپ کے والدماجدکولقب رضاسے مامون رشیدنے ملقب کیاتھا آپ نے فرمایاہرگزنہیں یہ لقب خداورسول کی خوشنودی کاجلوہ بردارہے اورخاص بات یہ ہے کہ آپ سے موافق ومخالف دونوں راضی اورخوشنودتھے
(جلاء العیون ص 279 ،روضت الصفاجلد 3 ص12) ۔
نشوونمااورتربیت
آپ کی نشوونمااورتربیت اپنے والدبزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ہوئی اوراسی مقدس ماحول میں بچپنااورجوانی کی متعددمنزلیں طے ہوئیں اور 30 برس کی عمرپوری ہوئی اگرچہ آخری چندسال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم اعراق میں قیدظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگراس سے پہلے26 یا 25/ برس آپ کوبرابراپنے پدربزرگوارکے ساتھ رہنے کاموقع ملا۔
آپ نے اپنی زندگی کی پہلی منزل سے تابہ عہدوفات بہت سے بادشاہوں کے دوردیکھے آپ 153 ھ میں بہ عہدمنصوردوانقی متولدہوئے (تاریخ خمیس)157 ھ میں مہدی عباسی 69 ھ میں ہادی عباسی 170 ھ میں ہارون رشیدعباسی 194 ھئمیں امین عباسی 198 ھ مامون رشید عباسی علی الترتیب خلیفہ وقت ہوتے رہے
(ابن الوردی حبیب السیرابوالفداء)۔
آپ نے ہرایک کادوربچشم خوددیکھااورآپ پدربزرگوارنیزدیگراولادعلی وفاطمہ کے ساتھ جوکچھ ہوتارہا،اسے آپ ملاحظہ فرماتے رہے یہاں تک کہ 230 ھ میں آپ دنیاسے رخصت ہوگئے اورآپ کوزہردے کرشہیدکردیاگیا۔
جانشینی
آپ کے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کومعلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈوراس وقت ہارون رشیدعباسی کے ہاتھوں میں تھی آپ کوآزادی کی سانس نہ لینے دے گی اورایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آب کی عمرکے آخری حصہ میں اوردنیاکوچھوڑنے کے موقع پردوستان اہلبیت کاآپ سے ملنایابعد کے لیے راہنماکادریافت کرناغیرممکن ہوجائے گااس لیے آپ نے انہیں آزادی کے دنوں اورسکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروان اہلبیت کواپنے بعدہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی چنانچہ اولادعلی وفاطمہ میں سے سترہ آدمی جوممتازحیثیت رکھتے تھے انہیں جمع فرماکراپنے فرزندحضرت علی رضاعلیہ السلام کی وصایت اورجانشینی کااعلان فرمادیا اورایک وصیت نامہ تحریرابھی مکمل فرمایا جس پرمدینہ کے معززین میں سے ساٹھ آدمیوں کی گواہی لکھی گئی یہ اہتمام دوسرے آئمہ کے یہاں نظرنہیں آیا صرف ان خصوصی حالات کی بناء پرجن سے دوسرے آئمہ اپنی وفات کے موقعہ پردوچارنہیں ہونے والے تھے۔
امام موسی کاظم کی وفات اورامام رضاکے درامامت کاآغاز
183

ہارون رشید کا دور اورامام رضاعلیہ السلام
امام رضا علیہ السّلام کا دور عباسیوں کے حکومت و اقتدار اور ترقی و فروغ کا دور ہے اس دور کو " سنہرا دور" کہاگیاہے اور اسلامی قلمرو حکومت ایشیا سے گزر کر یورپ اور افریقہ تک پہنچ چکی تھی ہارون کہاکرتا تھا کہ " میرے قلمرو حکومت میں سورج غروب نہیں کرتا " اور ابر سے خطاب کرتے ہوئے کہتاتھا " تو جہاں بھی برسے گا وہاں میراہی ملک اور میری ہی قوت و اقتدار کا مرکز ملے گا ۔ " امام رضا علیہ السلام کے ساتھ مامون اور اس کے درباری علماء کی علمی سیاسی اور مذہبی نشستیں اور مناظرے جو اس زمانے کی تاریخی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں اس زمانے میں علمی و فلسفی فروغ کے گواہ ہیں ۔ یونانی کتابوں کے کثرت کے ساتھ عربی اور فارسی زبانوں میں ترجمے ہوئے ۔ اٹھویں امام علی رضا علیہ السلام کو " عالم آل محمّد " کے عنوان سے پہچانا جاتاہے کیونکہ آپ نے ولایت اور نبوت و امامت کی مانند اسلام و تشیع کی بنیادی بحثیں ، درباری علماء کے درمیان علی الاعلان چھیڑیں اور بیان کی ہیں اور لوگوں کے شکوک و شبہات برطرف کئے ہیں ۔
امام رضا علیہ السّلام علم و معرفت کا ایک جوش مارتا ہوا سمندر تھے جس سے تشنگان حقیقت سیراب ہوتے اور جہل و نادانی کے مرگ بار وجود سے نجات حاصل کرتے تھے فکری و اعتقادی مباحث میں امام رضا علیہ السلام نے بڑا قیمتی کردار ادا کیاہے یہ زمانہ علمی و ثقافتی سرگرمیوں کے لحاظ سے ایک آزاد فضا کا حامی تھا اور لوگ اپنے عقائد و نظریات بیان کرنے میں بالکل بے باک تھے لہذا اس وقت اسلامی حقائق و معارف سے آشنا مسلمان دانشوروں کی ذمہ داریاں بہت بڑھی ہوئی تھیں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وارث ، اہلبیت علیہ السلام کی نمایان ترین فرد اور ملت اسلامیہ کے پیشوا کی حیثیت سے امام رضا علیہ السلام نے اس وقت قرآنی معارف کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کیا چنانچہ آپ کے مشہور صحابی " ابا صلت " جن کا مشہد مقدس میں ہی مزار ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی زبانی سناہے وہ فرماتے تھے : " میں مسجد مدینہ میں بیٹھ جاتاتھا علمائے مدینہ جن کی تعداد اس وقت بہت زیادہ تھی ، جب کسی مسئلے کے بیان سے عاجز ہوتے ، سب کے سب میری طرف اشارہ کرتے تھے ، سوال کرنے والا میرے سامنے مسئلہ بیان کرتا اور میں اس کا جواب پیش کردیتاتھا ۔ امام رضا علیہ السلام اسلامی علوم کی تعلیم کے ساتھ علماء کی تشویق اور حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے ، کہتے تھے " جو شخص ہمارے امر کو زندہ کرتاہے خداوند سبحان کی رحمت اس کے شامل حال ہے " ہمارے امر کو زندہ کرنے کا مطلب یہ ہے کی ہم اہلبیت پیغمبر کے علوم کی تعلیم دے اور لوگوں میں پھیلائے ۔ اگر لوگ ہمارے علوم سیکھیں گے اور ہماری پیروی کرین گے تو علم عمل کے ساتھ ہوگا کیونکہ ہم خاندان نبوت کا علم وہ علم ہے جو عمل کے ساتھ ساتھ ہے ۔ ایک دن مامون کے دربار میں تمام امراء ، علماء اور مختلف ملکوں کے نمائندے و غیرہ موجود تھے اس نے امام رضا علیہ السلام کو بھی دربار میں آنے کی دعوت دی اور اپنی تقریر میں اہلبیت پیغمبر علیہ السلام کی عظمت و حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا " یہ لوگ خلافت کے زیادہ مستحق ہیں اور پھر امام رضا علیہ السلام کی طرف رخ کرکے کہا : میں چاہتاہوں کہ خلافت سے دست بردار ہوجاؤں اور آپ کو خلافت سونپ کر آپ کی بیعت کرلوں " ۔ امام رضا علیہ السلام نے ، جو عباسی حکمرانوں کے فریب اور ہتھکنڈوں سے اچھی طرح واقف تھے جواب میں فرمایا :
" اگر یہ خلافت تیرا حق ہے اور خدا نے تیرے لئے قرار دی ہے تو جائز نہیں ہے کہ وہ لباس جو خدا نے تجھے پہنایاہے اتارکر کسی اور کے حوالے کردے اور اگر خلافت تیرا حق نہیں ہے تو جائز نہیں ہے کہ جو چیز تیری نہیں ہے میرے حوالے کرے "
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد دس برس ہارون رشیدکا دوررہایقینا وہ امام رضاعلیہ السلام کے وجودکوبھی دنیامیں اسی طرح برداشت نہیں کرسکتاتھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والدماجدکارہنااس نے گوارانہیں کیامگریاتوامام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدداورظلم ہوتارہا اورجس کے نتیجہ میں قیدخانہ ہی کے اندرآپ دنیاسے رخصت ہوگئے اس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ہوگئی تھی اوریاواقعی ظالم کو بدسلوکیوں کااحساس اورضمیرکی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلاامام رضاکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی لیکن وقت سے پہلے اس نے امام رضاعلیہ السلام کوستانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعدصفوان بن یحی نے حضرت امام علی رضاعلیہ السلام سے کہاکہ مولاہم آپ کے بارے میں ہارون رشیدسے بہت خائف ہیں ہمیں ڈرہے کہ یہ کہیں آپ کے ساتھ وہی سلوک نہ کرے جوآپ کے والدکے ساتھ کرچکاہے حضرت نے ارشادفرمایاکہ یہ تواپنی سعی کرے گالیکن مجھ پرکامیاب نہ ہوسکے گاچنانچہ ایساہی ہوااورحالات نے اسے کچھ اس اس درجہ آخرمیں مجبورکردیاتھا کہ وہ کچھ بھی نہ کرسکایہاں تک کہ جب خالدبن یحی برمکی نے اس سے کہاکہ امام رضااپنے باپ کی طرح امرامامت کااعلان کرتے اوراپنے کوامام زمانہ کہتے ہیں تواس نے جواب دیاکہ ہم جوان کے ساتھ کرچکے ہیں وہی ہمارے لیے کافی ہے اب توچاہتاہے کہ ”ان نقتلہم جمیعا“ ہم سب کے سب کوقتل کرڈالیں،اب میں ایسانہیں کروں گا.
(نورالابصارص 166 طبع مصر)۔
علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ پھربھی ہارون رشیدکااہلبیت رسول سے شدیداختلاف اورسادات کے ساتھ جوبرتاؤاب تک رہاتھا اس کی بناء پرعام طورسے عمال حکومت یاعام افرادبھی جنہیں حکومت کوراضی رکھنے کی خواہش تھی اہلبیت کے ساتھ کوئی اچھارویہ رکھنے پرتیارنہیں ہوسکتے تھے اورنہ امام کے پاس آزادی کے ساتھ لوگ استفادہ کے لیے آسکتے تھے نہ حضرت کوسچے اسلامی احکام کی اشاعت کے مواقع حاصل تھے۔
ہارون کاآخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں،امین اورمامون کی باہمی رقابتوں سے بہت بے لطفی میں گزرا،امین پہلی بیوی سے تھا جوخاندان شاہی سے منصوردوانقی کی پوتی تھی اوراس لیے عرب سردارسب اس کے طرف دارتھے اورمامون ایک عجمی کنیزکے پیٹ سے تھااس لیے دربارکاعجمی طبقہ اس سے محبت رکھتاتھا ،دونوں کی آپس کی رسہ کشی ہارون کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اس نے اپنے خیال میں اس کاتصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوں کردیاکہ دارالسلطنت بغداداوراس کے چاروں طرف کے عربی حصہ جسے شام،مصرحجاز،یمن، وغیرہ محمدامین کے نام کئے اورمشرقی ممالک جیسے ایران،خراسان، ترکستان، وغیرہ مامون کے لیے مقررکئے مگریہ تصفیہ تواس وقت کارگرہوسکتاتھا جب جودونوں فریق ”جیواورجینے دو“ کے اصول پرعمل کرتے ہوتے لیکن جہاں اقتدارکی ہوس کارفرماہو، وہاں بنی عباس میں ایک گھرکے اندردوبھائی اگرایک دوسرے کے مدمقابل ہوں توکیوں نہ ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ کاروائی کرنے پرتیارنظرآئے اورکیوں نہ ان طاقتوں میں باہمی تصادم ہوجب کہ ان میں سے کوئی اس ہمدردی اورایثاراورخلق خداکی خیرخواہی کابھی حامل نہیں ہے جسے بنی فاطمہ اپنے پیش نظررکھ کراپنے واقعی حقوق سے چشم پوشی کرلیاکرتے تھے اسی کانتیجہ تھا کہ ادھرہارون کی آنکھ بندہوئی اورادھربھائیوں میں خانہ جنگیوں کے شعلے بھڑک اٹھے آخرچاربرس کی مسلسل کشمکش اورطویل خونریزی کے بعدمامون کوکامیابی حاصل ہوئی اوراس کابھائی امین محرم194 ھ میں تلواکے گھاٹ اتاردیاگیااورمامون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدودسلطنت پرقائم ہوگئی۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام کا مجددمذہب امام ہونا
حدیث میں ہرسوسال کے بعد ایک مجدداسلام کے نمودوشہودکانشان ملتاہے یہ ظاہرہے کہ جواسلام کامجددہوگااس کے تمام ماننے والے اسی کے مسلک پرگامزن ہوں گے اورمجددکاجوبنیادی مذہب ہوگااس کے ماننے والوں کابھی وہی مذہب ہوگا،حضرت امام رضاعلیہ السلام جوقطعی طورپرفرزندرسول اسلام تھے وہ اسی مسلک پرگامزن تھے جس مسلک کی بنیادپیغمبراسلام اورعلی خیرالانام کاوجودذی وجودتھا یہ مسلمات سے ہے کہ آل محمدعلیہم السلام پیغمبرعلیہ السلام کے نقش قدم پرچلتے تھے اورانہیں کے خدائی منشاء اوربنیادی مقصدکی تبلیغ فرمایاکرتے تھے یعنی آل محمدکامسلک وہ تھاجومحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامسلک تھا۔
بعض علماء اہل سنت نے آپ کودوسری صدی کااوربعض نے تیسری صدی کامجدد بتلایاہے میرے نزدیک دونوں درست ہے کیوں کہ دوسری صدی میں امام رضاعلیہ السلام کی ولادت اورتیسری صدی کے آغازمیں آپ کی شہادت ہوئی ہے ۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام کے اخلاق وعادات اورشمائل وخصائل
آپ کے اخلاق وعادات اورشمائل وخصائل کالکھنااس لیے دشوارہے کہ وہ بے شمارہیں ”مشتی نمونہ ازخرداری“یہ ہیں بحوالہ علامہ شبلنجی ابراہیم بن عباس تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام علی رضاعلیہ السلام نے کبھی کسی شخص کے ساتھ گفتگوکرنے میں سختی نہیں کی،اورکبھی کسی بات کوقطع نہیں فرمایا آپ کے مکارم عادات سے تھا کہ جب بات کرنے والااپنی بات ختم کرلیتاتھا تب اپنی طرف سے آغازکلام فرماتے تھے کسی کی حاجت روائی اورکام نکالنے میں حتی المقدوردریغ نہ فرماتے ،کبھی ہمنشین کے سامنے پاؤں پھیلاکرنہ بیٹھتے اورنہ اہل محفل کے روبروتکیہ لگاکربیٹھتے تھے کبھی اپنے غلاموں کوگالی نہ دی اورچیزوں کاکیاذکر،میں نے کبھی آپ کے تھوکتے اورناک صاف کرتے نہیں دیکھا،آپ قہقہہ لگاکرہرگز نہیں ہنستے تھے خندہ زنی کے موقع پرآپ تبسم فرمایاکرتے تھے محاسن اخلاق اورتواضع وانکساری کی یہ حالت تھی کہ دسترخوان پرسائیس اوردربان تک کواپنے ساتھ بٹھالیتے ،راتوں کوبہت کم سوتے اوراکثرراتوں کوشام سے صبح تک شب بیداری کرتے تھے اکثراوقات روزے سے ہوتے تھے مگرہرمہینے کے تین روزےتوآپ سے کبھی قضانہیں ہوئے ارشادفرماتے تھے کہ ہرماہ میں کم ازکم تین روزے رکھ لیناایساہے جیسے کوئی ہمیشہ روزے سے رہے ۔
آپ کثرت سے خیرات کیاکرتے تھے اوراکثررات کے تاریک پردہ میں اس استحباب کوادافرمایاکرتے تھے موسم گرمامیں آپ کافرش جس پرآپ بیٹھ کرفتوی دیتے یامسائل بیان کیاکرتے بوریاہوتاتھااورسرمامیں کمبل آپ کایہی طرزاس وقت بھی رہا جب آپ ولی عہدحکومت تھے آپ کالباس گھرمیں موٹااورخشن ہوتاتھا اوررفع طعن کے لیے باہرآپ اچھالباس پہنتے تھے ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہاکہ حضوراتنا عمدہ لباس کیوں استعمال فرماتے ہیں آپ نے اندرکاپیراہن دکھلاکرفرمایااچھالباس دنیاوالوں کے لیے اورکمبل کاپیراہن خداکے لیے ہے۔
علامہ موصوف تحریرفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ حمام میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص جندی نامی آگیااوراس نے بھی نہاناشروع کیادوران غسل میں اس نے بھی نہاناشروع کیادوران غسل میں اس نے امام رضاعلیہ السلام سے کہاکہ میرے جسم پرپانی ڈالئے آپ نے پانی ڈالناشروع کیااتنے میں ایک شخص نے کہااے جندی فرزندرسول سے خدمت لے رہاہے ارے یہ امام رضاہیں، یہ سنناتھا کہ وہ پیروں پرگرپڑااورمعافی مانگنے لگا.
(نورالابصار ص 38,39) ۔
ایک مردبلخی ناقل ہے کہ حضرت کے ساتھ ایک سفرمیں تھاایک مقام پردسترخوان بچھاتوآپ نے تمام غلاموں کوجن میں حبشی بھی شامل تھے بلاکربٹھلالیامیں نے عرض کیامولاانہیں علیحدہ بٹھلائیں توکیاحرج ہے آپ نے فرمایاکہ سب کارب ایک ہے اورماں باپ آدم وحوابھی ایک ہیں اور جزاوسزا اعمال پرموقوف ہے، توپھرتفرقہ کیاآپ کے ایک خادم یاسرکاکہناہے کہ آپ کایہ تاکیدی حکم تھا کہ میرے آنے پرکوئی خادم کھاناکھانے کی حالت میں میری تعظیم کونہ اٹھے۔
معمر بن خلادکابیان ہے کہ جب بھی دسترخوان بچھتاآپ ہرکھانے میں سے ایک ایک لقمہ نکال لیتے تھے ،اوراسے مسکینوں اوریتیموں کوبھیج دیاکرتے تھے شیخ صدوق تحریرفرماتے ہیں کہ آپ نے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے فرمایاکہ بزرگی تقوی سے ہے جومجھ سے زیادہ متقی ہے وہ مجھ سے بہترہے۔
ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مجھے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مال عنایت کیجیے، فرمایایہ ممکن ہے چنانچہ آپ نے اسے دوسواشرفی عنایت فرمادی، ایک مرتبہ نویں ذی الحجہ یوم عرفہ آپ نے راہ خدامیں ساراگھرلٹادیا یہ دیکھ کرفضل بن سہیل وزیرمامون نے کہاحضرت یہ توغرامت یعنی اپنے آپ کونقصان پہنچاناہے آپ نے فرمایایہ غرامت نہیں ہے غنیمت ہے میں اس کے عوض میں خداسے نیکی اورحسنہ لوں گا۔
آپ کے خادم یاسرکابیان ہے کہ ہم ایک دن میوہ کھارہے تھے اورکھانے میں ایساکرتے تھے کہ ایک پھل سے کچھ کھاتے اورکچھ پھینک دیتے ہمارے اس عمل کوآپ نے دیکھ لیا اورفرمایانعمت خداکوضائع نہ کروٹھیک سے کھاؤ اورجوبچ جائے اسے کسی محتاج کودیدو،آپ فرمایاکرتے تھے کہ مزدورکی مزدوری پہلے طے کرناچاہئے کیونکہ ںچکائی ہوئی اجرت سے زیادہ جوکچھ دیاجائے گاپانے والااس کوانعام سمجھے گا۔
صولی کابیان ہے کہ آپ اکثرعودہندی کابخورکرتے اورمشک وگلاب کاپانی استعمال کرتے تھے عطریات کاآپ کوبڑاشوق تھانمازصبح اول وقت پڑھتے اس کے بعدسجدہ میں چلے جاتے تھے اورنہایت ہی طول دیتے تھے پھرلوگوں کوپندونصائح فرماتے۔
علامہ محمدرضا لکھتے ہیں کہ آپ ہرسوال کاجواب قرآن مجید سے دیتے تھے اورروزانہ ایک قرآن پاک ختم کرتے تھے (جنات الخلود ص 31) ۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام کاعلمی کمال
مورخین کابیان ہے کہ آل محمدکے اس سلسلہ میں ہرفردحضرت احدیت کی طرف سے بلندترین علم کے درجے پرقراردیا گیاتھاجسے دوست اوردشمن کومانناپڑتاتھا یہ اوربات ہے کہ کسی کوعلمی فیوض پھیلانے کازمانے نے کم موقع دیا اورکسی کوزیادہ، چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعداگرکسی کوسب سے زیادہ موقع حاصل ہواہے تو وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام ہیں ،جب آپ امامت کے منصب پرنہیں پہنچے تھے اس وقت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے تمام فرزندوں اورخاندان کے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ تمہارے بھائی علی رضا عالم آل محمدہیں، اپنے دین مسائل کوان سے دریافت کرلیاکرو، اورجوکچھ اسے کہیں یادرکھو،اورپھرحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اورروضہ رسول پرتشریف فرمارہے تھے توعلمائے اسلام مشکل مسائل میں آب کی طرف رجوع کرتے تھے۔
محمدبن عیسی یقطینی کابیان ہے کہ میں نے ان تحریری مسائل کو جوحضرت امام رضاعلیہ السلام سے پوچھے گئے تھے اورآپ نے ان کاجواب تحریرفرمایاتھا،اکھٹا کیاتواٹھارہ ہزارکی تعدادمیں تھے، صاحب لمعت الرضاء تحریرکرتے ہیں کہ حضرت آئمہ طاہرین علیہم السلام کے خصوصیات میں یہ امرتمام تاریخی مشاہداورنیزحدیث وسیرکے اسانیدمعتبرسے ثابت ہے ،باوجودیکہ اہل دنیاکوآپ حضرات کی تقلیداورمتابعت فی الاحکام کابہت کم شرف حاصل تھا،مگرباین ہمہ تمام زمانہ وہرخویش وبیگانہ آپ حضرات کوتمام علوم الہی اوراسرارالہی کاگنجینہ سمجھتاتھا اورمحدثین ومفسرین اورتمام علماء وفضلاء جوآپ کے مقابلہ کادعوی رکھتے تھے وہ بھی علمی مباحث ومجالس میں آپ حضرات کے آگے زانوئے ادب تہ کرتے تھے اورعلمی مسائل کوحل کرنے کی ضرورتوں کے وقت حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے لے کرامام زین العابدین علیہ السلام تک استعفادے کئے وہ سب کتابوں میں موجودہے۔
جابربن عبداللہ انصاری اورحضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں سمع حدیث کے واقعات تمام احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں ،اسی طرح ابوالطفیل عامری اورسعیدین جبیرآخری صحابہ کی تفصیل حالات جوان بزرگون کے حال میں پائے جاتے ہیں وہ سیروتواریخ میں مذکورومشہورہیں صحابہ کے بعدتابعین اورتبع تابعین اوران لوگوں کی فیض یابی کی بھی یہی حالت ہے ،شعبی ،زہری، ابن قتیبہ ،سفیان ثوری،ابن شیبہ ،عبدالرحمن ،عکرمہ،حسن بصری ،وغیرہ وغیرہ یہ سب کے سب جواس وقت اسلامی دنیامیں دینیات کے پیشوااورمقدس سمجھے جاتے تھے ان ہی بزرگوں کے چشمہ فیض کے جرعہ نوش اورانہی حضرات کے مطیع وحلقہ بگوش تھے ۔
جناب امام رضاعلیہ السلام کواتفاق حسنہ سے اپنے علم وفضل کے اظہارکے زیادہ موقع پیش آئے کیوں کہ مامون عباسی کے پاس جب تک دارالحکومت مروتشریف فرمارہے، بڑے بڑے علماء وفضلاء علوم مختلفہ میں آپ کی استعداداور فضیلت کااندازہ کرایاگیااورکچھ اسلامی علماء پرموقوف نہیں تھا بلکہ علماء یہودی ونصاری سے بھی آپ کامقابلہ کرایاگیا،مگران تمام مناظروں ومباحثوں مین ان تمام لوگوں پرآ پ کی فضیلت وفوقیت ظاہرہوئی،خودمامون بھی خلفائے عباسیہ میں سب سے زیادہ اعلم وافقہ تھا باوجوداس کے تبحرفی العلوم کالوہامانتاتھا اورچاروناچاراس کااعتراف پراعتراف اوراقرارپراقرارکرتاتھا چنانچہ علامہ ابن حجرصواعق محرقہ میں لکھتے ہیں کہ آپ جلالت قدرعزت وشرافت میں معروف ومذکورہیں ،اسی وجہ مامون آپ کوبمنزلہ اپنی روح وجان جانتاتھا اس نے اپنی دخترکانکاح آنحضرت علیہ السلام سے کیا،اورملک ولایت میں اپناشریک گردانا، مامون برابرعلماء ادیان وفقہائے شریعت کوجناب امام رضاعلیہ السلام کے مقابلہ میں بلاتااورمناظرہ کراتا،مگرآپ ہمیشہ ان لوگوں پرغالب آتے تھے اورخودارشادفرماتے تھے کہ میں مدینہ میں روضہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیٹھتا،وہاں کے علمائے کثیرجب کسی علمی مسئلہ میں عاجزآجاتے توبالاتفاق میری طرف رجوع کرتے،جواب ہائے شافی دےکران کی تسلی وتسکین کردیتا۔
ابوصلت ابن صالح کہتے ہیں کہ حضرت امام علی بن موسی رضاعلیہماالسلام سے زیادہ کوئی عالم میری نظرسے نہیں گزرا ،اورمجھ پرموقوف نہیں جوکوئی آپ کی زیارت سے مشرف ہوگا وہ میری طرح آپ کی اعلمیت کی شہادت دے گا۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام اورمجلس شہداء کربلا
علامہ مجلسی بحارالانوارمیں لکھتے ہیں کہ شاعرآل محمد،دعبل خزاعی کابیان ہے کہ ایک مرتبہ عاشورہ کے دن میں حضرت امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا،تودیکھاکہ آپ اصحاب کے حلقہ میں انتہائی غمگین وحزیں بیٹھے ہوئے ہیں مجھے حاضرہوتے دیکھ کر فرمایا، آؤآؤہم تمہاراانتظارکررہے ہیں میں قریب پہنچاتوآپ نے اپنے پہلومیں مجھے جگہ دے کرفرمایا کہ اے دعبل چونکہ آج یوم عاشوراہے اوریہ دن ہمارے لیے انتہائی رنج وغم کادن ہے لہذا تم میرے جد مظلوم حضرت امام حسین علیہ السلام کے مرثیہ سے متعلق کچھ شعرپڑھو،اے دعبل جوشخص ہماری مصیبت پرروئے یارلائے اس کااجرخداپرواجب ہے ،اے دعبل جس شخص کی آنکھ ہمارے غم میں ترہو وہ قیامت میں ہمارے ساتھ محشورہوگا ، اے دعبل جوشخص ہمارے جدنامدارحضرت سیدالشہداء علیہ السلام کے غم میں روئے گا خدااس کے گناہ بخش دے گا۔
یہ فرماکرامام علیہ السلام نے اپنی جگہ سے اٹھ کر پردہ کھینچااورمخدرات عصمت کوبلاکراس میں بٹھادیاپھرآپ میری طرف مخاطب ہوکرفرمانے لگے ہاں دعبل! ابے میرے جدامجدکامرثیہ شروع کرو، دعبل کہتے ہیں کہ میرادل بھرآیااورمیری آنکھوں سے آنسوجاری تھے اورآل محمدمیں رونے کاکہرام عظیم برپاتھا صاحب درالمصائب تحریرفرماتے ہیں کہ دعبل کامرثیہ سن کرمعصومہ قم جناب فاطمہ ہمیشرہ حضرت امام رضاعلیہ السلام اس قدرروئیں کہ آپ کوغش آگیا۔
اس اجتماعی طریقہ سے ذکرحسینی کومجلس کہتے ہیں اس کاسلسلہ عہدامام رضامیں مدینہ سے شروع ہوکرمروتک جاری رہا. علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ اب امام رضاعلیہ السلام کوتبلیغ حق کے لیے نام حسین کی اشاعت کے کام کوترقی دینے کابھی پوراموقع حاصل ہوگیاتھا جس کی بنیاداس کے پہلے حضرت امام محمدباقر علیہ السلام اورامام جعفرصادق علیہ السلام قائم کرچکے تھے مگروہ زمانہ ایساتھا کہ جب امام کی خدمت میں وہی لوگ حاضرہوتے تھے جوبحیثیت امام یابحیثیت عالم دین آپ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے اوراب امام رضاعلیہ السلام توامام روحانی بھی ہیں اورولی عہدسلطنت بھی، اس لیے آپ کے دربارمیں حاضرہونے والوں کادائرہ وسیع ہے۔
مرو،وہ مقام ہے جوایران کے تقریبا وسط میں واقع ہے ہرطرف کے لوگ یہاں آتے ہیں اوریہاں یہ عالم کہ ادھر محرم کاچاند نکلااورآنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے دوسروں کوبھی ترغیب وتحریص کی جانے لگی کہ آل محمدکے مصائب کویادکرواوراثرات غم کوظاہرکرو یہ بھی ارشادہونے لگا کہ جواس مجلس میں بیٹھے جہاں ہماری باتیں زندہ کی جاتی ہیں اس کادل مردہ نہ ہوگااس دن کے جب سب کے دل مردہ ہوں گے۔
تذکرہ امام حسین کے لیے جومجمع ہو،اس کانام اصطلاحی طورپرمجلس اسی امام رضاعلیہ السلام کی حدیث سے ہی ماخوذہے آپ نے عملی طورپربھی خودمجلسیں کرنا شروع کردیں جن میں کبھی خودذاکرہوئے اوردوسرے سامعین جیسے ریان بن شبیب کی حاضری کے موقع پرآپ نے مصائب امام حسین علیہ السلام بیان فرمائے اورکبھی عبداللہ بن ثابت یادعبل خزاعی ایسے کسی شاعرکی حاضری کے موقع پراس شاعرکوحکم ہواکہ تم ذکرامام حسین میں اشعارپڑھووہ ذاکرہوا، اورحضرت سامعین میں داخل ہوئے الخ۔
مامون رشیدکی مجلس مشوارت
حالات سے متاثرہوکرمامون رشیدنے ایک مجلس مشاورت طلب کی جس میں علماء وفضلاء ،زعماء اورامراء سب ہی کومدعوکیا جب سب جمع ہوگئے تواصل رازدل میں رکھتے ہوئے ان سے یہ کہاکہ چونکہ شہرخراسان میں ہماری طرف سے کوئی حاکم نہیں ہے اورامام رضاسے زیادہ لائق کوئی نہیں ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ امام رضاکوبلاکروہاں کی ذمہ داری ان کے سپردکردیں، مامون کامقصدتویہ تھا کہ ان کوخلیفہ بناکر علویوں کی بغاوت اوران کی چابکدستی کوروک دے لیکن یہ بات اس نے مجلس مشاورت میں ظاہرنہیں کی،بلکہ ملکی ضرورت کاحوالہ دے کرانہیں خراسان کاحاکم بناناظاہرکیا، اورلوگوں نے تواس پرجوبھی رائے دی ہولیکن حسن بن سہل اوروزیراعظم فضل بن سہل اس پرراضی نہ ہوئے اوریہ کہاکہ اس طرح خلافت بنی عباس سے آل محمدکی طرف منتقل ہوجائے گی مامون نے کہاکہ میں نے جوکچھ سوچاہے وہ یہی ہے اوراس پرعمل کروں گا یہ سن کروہ لوگ خاموش ہوگئے اتنے میں حضرت علی ابن ابی طالب کے ایک معززصحابی ،سلیمان بن ابراہیم بن محمدبن داؤدبن قاسم بن ہیبت بن عبداللہ بن حبیب بن شیخان بن ارقم،کھڑے ہوگئے اورکہنے لگے ائے مامون رشید”راست می گوئی امامی ترسم کہ توباحضرت امام رضاہمان کنی کہ کوفیان باحضرت امام حسین کردند“ توسچ کہتاہے لیکن میں ڈرتاہوں کہ توکہیں ان کے ساتھ وہی سلوک نہ کرے جوکوفیوں نے امام حسین کے ساتھ کیاہے۔
مامون رشیدنے کہا کہ اے سلیمان تم یہ کیاسوچ رہے ہو ،ایساہرگزنہیں ہوسکتا،میں ان کی عظمت سے واقف ہوں جوانہیں ستائے گاقیامت میں حضرت رسول کریم اورحضرت علی حکیم کوکیون کرمنہ دکھائے گا تم مطمئن رہو، انشاء اللہ ان کاایک بال بھی بیکانہ ہوگایہ کہہ کربروایت ابومخنف مامون رشیدنے قرآن مجیدپرہاتھ رکھااورقسم کھاکرکہاکہ میں ہرگزاولادپیغمبرپرکوئی ظلم نہ کروں گا اس کے بعدسلیمان نے تمام لوگوں کوقسم دے کربیعت لے لی پھرانہوں نے ایک بیعت نامہ تیارکیااوراس پراہل خراسان کے دستخط لیے دستخط کرنے والوں کی تعداد چالیس ہزارتھی بیعت نامہ تیارہونے کے بعد مامون رشیدنے سلیمان کوبیعت نامہ سمیت مدینہ بھیج دیا،سلیمان قطع مراحل وطے منازل کرتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے اورحضرت امام رضاعلیہ السلام سے ملاقات کی، ان کی خدمت میں مامون کاپیغام پہنچادیا۔
اورمجلس مشاورت کے تمام واقعات بیان کئے اوربیعت نامہ حضرت کی خدمت میں پیش کیا،حضرت نے جونہی اس کوکھولااوراس کاسرنامہ دیکھا،سرمبارک ہلاکر فرمایاکہ یہ میرے لیے کسی طرح مفیدنہیں ہے،اس وقت آپ آبدیدہ تھے پھرآپ نے فرمایاکہ مجھے جدنامدارنے خواب میں نتائج واعواقب سے آگاہ کردیاہے ،سلیمان نے کہاکہ مولایہ توخوشی کاموقع ہے آپ اس درجہ پریشان کیوں ہیں ، ارشادفرمایاکہ میں اس دعوت میں اپنی موت دیکھ رہاہوں انہوں نے کہاکہ مولامیں نے سب سے بیعت لے لی ہے کہادرست ہے لیکن جدنامدارنے جوفرمایاہے وہ غلط نہیں ہوسکتا، میں مامون کے ہاتھوں شہیدکیاجاؤں گا۔
بلآخرآپ پرکچھ دباؤپڑاکہ آپ مروخراسان کے لیے عازم ہوگئے جب آپ کے عزیزوں اوروطن والوں کوآپ کی روانگی کاحال معلوم ہوابے پناہ روئے۔
غرضکہ آپ روانہ ہوگئے ،راستے میں ایک چشمہ آب کے کنارے چندآہوؤں کودیکھاکہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں جب ان کی نظرحضرت پرپڑی سب دوڑپڑے اورباچشم ترکہنے لگے کہ حضورخراسان نہ جائیں کہ دشمن بہ لباس دوستی آپ کی تاک میں ہے اورملک الموت استقبال کے لیے تیارہیں، حضرت نے فرمایاکہ اگرموت آنی ہے تووہ ہرحال میں آئے گی
(کنزالانساب ابومخنف ص 87 طبع بمبئی 1302 ھ)۔
امام رضاعلیہ السلام کی مدینہ سے روانگی
امام رضاعلیہ السلام کاولی عہدکوقبول کرنابالکل ویساہی تھا جیساہارون کے حکم سے امام موسی کاظم کاجیل خانہ میں چلاجانا اسی لیے جب امام رضاعلیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف روانہ ہورہے تھے توآپ کے رنج وصدمہ اوراضطراب کی کوئی حدنہ تھی روضہ رسول سے رخصت کے وقت آپ کاوہی عالم تھا جوحضرت امام حسین علیہ السلام کامدینہ سے روانگی کے وقت تھا دیکھنے والوں نے دیکھاکہ آپ بے تابانہ روضہ کے اندرجاتے ہیں اورنالہ وآہ کے ساتھ امت کی شکایت کرتے ہیں پھرباہرنکل کرگھرجانے کاارادہ کرتے ہیں اورپھردل نہیں مانتاپھرروضہ سے جاکرلپٹ جاتے ہیں یہ ہی صورت کئی مرتبہ ہوئی،راوی کا بیان ہے کہ میں حضرت کے قریب گیاتوفرمایاائے محول! میں اپنے جدامجدکے روضے سے بہ جبرجدا کیاجارہاہوں اب مجھ کویہاں آنا نصیب نہ ہوگا
(سوانح امام رضاجلد 3 ص 7) ۔
محول شیبانی کابیان ہے کہ جب وہ ناگواروقت پہنچ گیاکہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام اپنے جدبزرگوارکے روضہ اقدس سے ہمیشہ کےلے وداع ہوئے تو میں نے دیکھاکہ آپ نے تابانہ اندرجاتے ہیں اوربانالہ وآہ باہرآتے ہیں اورظلمہ امت کی شکایت کرتے ہیں یاباہرآکر گریہ وبکافرماتے ہیں اورپھراندرواپس چلے جاتے ہیں آپ نے چندبارایساہی کیااورمجھ سے نہ رہاگیااورمیں نے حاضرہوکرعرض کی مولااضطراب کی کیاوجہ ہے ؟ فرمایاائے محول ! میں اپنے نانا کے روضہ سے جبراجداکیاجارہاہوں مجھے اس کے بعداب یہاں آنانصیب نہ ہوگامیں اسی مسافرت اورغریب الوطنی میں شہیدکردیاجاؤں گا،اورہارون رشید کے مقبرہ میں مدفون ہوں گااس کے بعدآپ دولت سرامیں تشریف لائے اورسب کوجمع کرکے فرمایاکہ میں تم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہورہاہوں یہ سن کر گھرمیں ایک عظیم کہرام بپاہوگیااورسب چھوٹے بڑے رونے لگے ، آپ نے سب کوتسلی دی اورکچھ دیناراعزامیں تقسیم کرکے راہ سفراختیار فرمالیا ایک روایت کی بناپر آپ مدینہ سے روانہ ہوکرمکہ معظمہ پہنچے اوروہاں طواف کرکے خانہ کعبہ کورخصت فرمایا۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام کا نیشاپورمیں ورودمسعود
رجب 200 ہجری میں حضرت مدینہ منورہ سے مرو”خراسان“ کی جانب روانہ ہوئے اہل وعیال اورمتعلقین سب کومدینہ منورہ ہی میں چھوڑا اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمرپانچ برس کی تھی آپ مدینہ ہی میں رہے مدینہ سے روانگی کے وقت کوفہ اورقم کی سیدھی راہ چھوڑکر بصرہ اوراہوازکاغیرمتعارف راستہ اس خطرہ کے پیش نظراختیارکیاگیاکہ کہیں عقیدت مندان امام مزاحمت نہ کریں غرضکہ قطع مراحل اورطے منازل کرتے ہوئے یہ لوگ نیشاپورکے نزدیک جاپہنچے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ جب آپ کی مقدس سواری نیشاپوری کے قریب پہنچی توجملہ علماء وفضلاء شہرنے بیرون شہر حاضرہوکرآپ کی رسم استقبال اداکی ، داخل شہرہوئے توتمام خوردوبزرگ شوق زیارت میں امنڈ پڑے، مرکب عالی جب مربعہ شہر(چوک) میں پہنچاتو خلاق سے زمین پرتل رکھنے کی جگہ نہ تھی اس وقت حضرت امام رضاقاطرنامی خچرپرسوارتھے جس کاتمام سازوسامان نقرئی تھاخچرپرعماری تھی اوراس پردونوں طرف پردہ پڑے ہوئے تھے اوربروایتے چھتری لگی ہوئی تھی اس وقت امام المحدثین حافظ ابوزرعہ رازی اورمحمدن بن اسلم طوسی آگے آگے اوران کے پیچھے اہل علم وحدیث کی ایک عظیم جماعت حاضرخدمت ہوئی اورباین کلمات امام علیہ السلام کومخاطب کیا”اے جمیع سادات کے سردار،اے تمام مومنوں کے امام اوراے مرکزپاکیزگی ،آپ کورسول اکرم کاواسطہ، آپ اپنے اجدادکے صدقہ میں اپنے دیدارکاموقع دیجئے اورکوئی حدیث اپنے جدنامدارکی بیان فرمائیے یہ کہہ کرمحمدبن رافع ،احمدبن حارث،یحی بن یحی اوراسحاق بن راہویہ نے آپ کے خاطرکی باگ تھام لی۔
ان کی استدعاسن کرآپ نے سواری روک دئیے جانے کے لیے اشارہ فرمایا، اورشارہ کیاکہ حجاب اٹھادئیے جائیں فوراتعمیل کی گئی حاضرین نے جونہی وہ نورانی چہرہ اپنے پیارے رسول کے جگرگوشہ کادیکھاسینوں میں دل بیتاب ہوگئے دوزلفین نورانورپر مانندگیسوئے مشک بوئے جناب رسول خداچھوٹی ہوئی تھیں کسی کویارائے ضبط باقی نہ رہاوہ سب کے سب بے اختیارڈھاریں مارکررونے لگے, کچھ زمین پرگرکرلوٹنے لگے بعض سواری کے گردوپیش گھومنے اورچکرلگانے لگے اورمرکب اقدس کی زین ولجام چومنے لگے اورعماری کابوسہ دینے لگے آخرمرکب عالی کے قدم چومنے کے اشتیاق میں درانہ بڑھے چلے آتے تھے غرضکہ عجیب طرح کاولولہ تھاکہ جمال باکمال کودیکھنے سے کسی کوسیری نہیں ہوئی تھی ٹکٹکی لگائے رخ انورکی طرف نگراں تھے یہاں تک دوپہرہوگئی اوران کے موجودہ اشتیاق وتمناکی پرجوشیوں میں کوئی کمی نہیں آئی اس وقت علماء وفضلاء کی جماعت نے بآوازبلندپکارکرکہاکہ مسلمانوں ذراخاموش ہوجاؤ، اورفرزندرسول کے لیے آزارنہ بنو، ان کی استدعاپرقدرے شوروغل تھما توامام علیہ السلام نے فرمایا:
میرے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم نے مجھ سے بیان فرمایااوران سے امام جعفرصادق علیہ السلام نے اوران سے امام محمدباقرنے اوران سے امام زین العابدین نے اوران سے امام حسین نے اوران سے حضرت علی مرتضی نے اوران سے حضرت رسول کریم جناب محمدمصطفی صلعم نے اوران سے جناب جبرئیل امین نے اوران سے خداوندعالم نے ارشادفرمایاکہ ”لاالہ الااللہ “ میراقلعہ ہے جواسے زبان پرجاری کرے گا میرے قلعہ میں داخل ہوجائے گا اورجومیرے قلعہ میں داخل ہوگا میرے عذاب سے محفوظ ہوجائے گا۔
(مسندامام رضاعلیہ السلام ص 7 طبع مصر 1341 ھ)۔
یہ کہہ کرآپ نے پردہ کھینچوادیا، اورچندقدم بڑھنے کے بعد فرمایا بشرطہاوشروطہاوانامن شروطہا کہ لاالہ الااللہ کہنے والانجات ضرورپائے گالیکن اس کے کہنے اورنجات پانے میں چندشرطیں ہیں جن میں سے ایک شرط میں بھی ہوں یعنی اگرآل محمدکی محبت دل میں نہ ہوگی تولاالہ الااللہ کہناکافی نہ ہوگاعلماء نے ”تاریخ نیشابور“ کے حوالے سے لکھاہے کہ اس حدیث کے لکھنے میں مفرددواتوں کے علاوہ 24 ہزارقلمدان استعمال کئے گئے.
احمدبن حنبل کاکہناہے کہ یہ حدیث جن اسناداوراسماء کے ذریعہ سے بیان فرمائی گئی ہے اگرانہیں اسماء کوپڑھ کر مجنون پردم کیاجائے تو”لافاق من جنونہ“ ضروراس کاجنون جاتارہے گا اوروہ اچھاہوجائے گاعلامہ شبلنجی نورالابصارمیں بحوالہ ابوالقاسم تضیری لکھتے ہیں کہ ساسانہ کے رہنے والے بعض رؤسا نے جب اس سلسلہ حدیث کوسناتواسے سونے کے پانی سے لکھواکراپنے پاس رکھ لیااورمرتے وقت وصیت کی کہ اسے میرے کفن میں رکھ دیاجائے چنانچہ ایساہی کیاگیامرنے کے بعداس نے خواب میں بتایاکہ خداوندعالم نے مجھے ان ناموں کی برکت سے بخش دیاہے اورمیں بہت آرام کی جگہ ہوں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں