ہفتہ، 22 مارچ، 2014

حضرت صالح عليہ السلام اور قوم ثمود ( حصہ دوئم )


اس كے بعد آپ نے اپنى دعوت كى حقانيت كے لئے معجزے اور نشانى كى نشاندہى كى ،ايسى نشانى جو انسانى قدرت سے ماورا ہے اور صرف قدرت الہى كے سہارے پيش كى گئي ہے ان سے كہا :''اے ميرى قوم : يہ ناقہ الہى تمہارے لئے آيت اور نشانى ہے ''اسے چھوڑدو كہ يہ بيابانوں چراگاہوں ميں گھاس پھوس كھائے''، ''اور اسے ہر گز كوئي تكليف نہ پہنچانا اگر ايسا كروگے تو فورا تمہيں درناك عذاب الہى گھيرلے گا ''_
لغت ميں '' ناقة'' اونٹنى كے معنى ميں ہے _ يہاں قرآن اور ميں يہاں اور قران كى بعض ديگر آيات ميں اس كى اضافت خدا كى طرف سے كى گئي ہے يہ امر نشاندہى كرتاہے كہ يہ اونٹنى كچھ خصوصيات ركھتى تھي
اس طرف توجہ كرتے ہوئے كہ يہاں پر اس كا ذكر آيت الہى اور دليل حقانيت كے طور پر آيا ہے، واضح ہوجاتاہے كہ يہ اونٹنى ايك عام اونٹنى نہ تھى اور ايك حوالے سے يا كئي حوالوں سے معجزہ كے طور پر تھى ليكن قرآن ميں يہ مسئلہ تفصيل كے ساتھ نہيں آيا كہ اس ناقہ كى خصوصيات كيا تھيں اس قدر معلوم ہوتا ہے كہ يہ كوئي عام اونٹنى نہ تھى _ بس يہى ايك چيز قرآن ميں دو مواقع پر موجود ہے كہ حضرت صالحع نے اس ناقہ كے بارے ميں اپنى قوم كو بتايا كہ اس علاقے ميں پانى كى تقسيم ہونا چاہئے ايك دن پانى ناقہ كا حصہ ہے اور ايك دن لوگوں كا''_
ليكن يہ بات پورى طرح مشخص نہيں ہوسكى كہ پانى كى يہ تقسيم كس طرح خارق العادت تھى ايك احتمال يہ ہے كہ وہ اوٹنى بہت زيادہ پانى پيتى تھى اس طرح چشمہ كا تمام پانى اس كے لئے مخصوص ہوجاتا دوسرا احتمال يہ ہے كہ جس وقت وہ پانى پينے كے لئے آتى تو دوسر ے جانورپانى پينے كى جگہ پر آنے كى جرا ت نہ كرتے _
ايك سوال يہ ہے كہ يہ جانور تمام پانى سے كس طرح استفادہ كرتا تھا اس سلسلے ميں يہ احتمال ہے كہ اس بستى كا پانى كم مقدار ميں ہو جيسے بعض بستيوں ميں ايك ہى چھوٹا سا چشمہ ہوتا ہے اور بستى والے مجبور ہوتے ہيں كہ دن بھر كا پانى ايك گڑھے ميںا كٹھاكريں تاكہ كچھ مقدار جمع ہوجائے اور اسے استعمال كيا جاسكے _
ليكن دوسرى طرف قران كى بعض آيات سے معلوم ہوتا ہے كہ'' قوم ثمود تھوڑے پانى والے علاقے ميں زندگى بسر نہيں كرتى تھى بلكہ وہ لوگ تو باغوں ، چشموں ،كھيتوں اور نخلستان كے مالك تھے''_
بہرحال جيسا كہ ہم نے كہا ہے كہ ناقہ صالح كے بارے ميں اس مسئلہ پر قرآن نے اجمالا ذكر كيا ہے ليكن بعض روايات جو شيعہ اور سنى دونوں فريقوں كے يہاں نقل ہوئي ہيں ان ميں بيان ہوا ہے كہ اس ناقہ كے عجائب خلقت ميں سے يہ تھا كہ وہ پہاڑكے اندر سے با ہر نكلي اس كے بارے ميں كچھ اور خصوصيات بھى منقول ہيں _
بہر كيف حضرت صالح جيسے عظيم نبى نے اس ناقہ كے بارے ميں بہت سمجھايا بجھايا مگر انہوں نے آخركار ناقہ كو ختم كردينے كا مصمم ارادہ كرليا كيونكہ اس كى خارق عادت اور غير معمولى خصوصيات كى وجہ سے لوگوں ميں بيدارى پيدا ہورہى تھى اور وہ حضرت صالح كى طرف مائل ہورہے تھے لہذا قوم ثمود كے كچھ سركشوں نے جو حضرت صالح كى دعوت كے اثرات كو اپنے مفادات كے خلاف سمجھتے تھے اور وہ ہرگز لوگوں كى بيدارى نہيں چاہتے تھے كيونكہ خلق خدا كى بيدارى سے ان كے استعمارى مفادات كو نقصان پہنچتا،لہذا انھوں نے ناقہ كو ختم كرنے كى سازش تيار كى كچھ افراد كو اس كام پر مامور كيا گيا آخر كار ان ميں سے ايك نے ناقہ پر حملہ كيا اور اس پر ايك يا كئي وار كئے '' اور اسے مار ڈالا''_
اگر تم سچے ہو تو عذاب ميں جلدى كرو
انہوں نے صرف اسى پر اكتفانہ كى بلكہ اس كے بعد وہ حضرت '' صالح ''كے پاس آئے اور اعلانيہ ان سے كہنے لگے : ''اگر تم واقعاً خدا كے رسول ہوتو جتنى جلد ہوسكے عذاب الہى لے آئو ''_
ليكن صالح عليہ السلام نے كہا : اے ميرى قوم : تم نيكيوں كى كوشش اور ان كى تلاش سے پہلے ہى عذاب اور برائيوں كے لئے جلدى كيوں كرتے ہو ؟ ''
تم اپنى تمام ترفكر عذاب الہى كے نازل ہونے پر ہى كيوں مركوز كرتے ہو ؟ اگر تم پر عذاب نازل ہوگيا توپھر تمہارا خاتمہ ہوجائے گا اور ايمان لانے كا موقع بھى ہاتھ سے چلاجائے گا _ آئو اور خدا كى بركت اور اس كى رحمت كے ساتھ ايمان كے زيرسايہ ميرى سچائي كو آزمائو تم خدا كى بارگاہ سے اپنے گناہوں كى بخشش كا
سوال كيوں نہيں كرتے ہو؟ تاكہ اس كى رحمت ميں شامل ہوجائو صرف برائيوں اور عذاب نازل ہونے كا تقاضا كيوں كرتے ہو؟ يہ ہٹ دھرمى اور پاگل پن كى باتيں آخر كس لئے ؟ يہ بات واقعاً عجيب ہے كہ انسان دعوائے محبت كى صداقت كو تباہ كن عذاب كے ذريعہ جانچ رہا ہے نہ كہ رحمت كا سوال كركے اور حقيقت يہ ہے كہ وہ قلبى طور پر انبياء كرام عليہم السلام كى صداقت كے معترف تھے ليكن زبان سے اس كا انكار كيا كرتے تھے _
اس كى مثال يوں ہے كہ جيسے كوئي شخص علم طب كا مدعى ہو اور اسے معلوم ہو كہ فلاں دوا سے صحت اور شفا حاصل ہوتى ہے اور فلاں چيز سے انسان كى موت واقع ہوجاتى ہے ليكن وہ ايسى دوا حاصل كرنے كى كوشش كرے جو مہلك ہے نہ كہ جو مفيد اور شفاء بخش _ يہ تو واقعاً جہالت و نادانى كى حد ہے، كيونكہ يہ سب جہالت ہى كا نتيجہ ہے_
حضرت صالحع نے قوم كى سركشي، نافرمانى اور اس كے ہاتھوں قتل ناقہ كے بعد اسے خطرے سے آگاہ كيا اور كہا:
'' پورے تين دن تك اپنے گھروں ميں جس نعمت سے چاہو استفادہ كرو اور جان لوكہ ان تين دنوں كے بعد عذاب الہى آكے رہے گا '' _
قرآن كريم ميں اس سركش قوم قوم ثمود  پر تين دن كى مدت ختم ہونے پر نزول عذاب كى كيفيت بيان كى گئي ہے :
''اس گروہ پر عذاب كے بارے ميں جب ہمارا حكم آپہنچا تو صالح اور اس پر ايمان لانے والوں كو ہم نے اپنى رحمت كے زير سايہ نجات بخشى ''_
انہيں نہ صرف جسمانى و مادى عذاب سے نجات بخشى بلكہ ''رسوائي، خوارى اور بے آبروئي سے بھى انہيں نجات عطا كى كہ جو اس روز اس سركش قوم كو دامنگير تھى '' _
كيونكہ تمہارا پروردگار ہر چيز پر قادر اور ہر كام پر تسلط ركھتا ہے اس كے لئے كچھ محال نہيں ہے اور اس كے ارادے كے سامنے كوئي طاقت كچھ بھى حيثيت نہيں ركھتي،''لہذا اكثرجمعيت كے عذاب الہى ميں مبتلا ہونے سے صاحب ايمان گروہ كو كسى قسم كى كوئي مشكل اور زحمت پيش نہيں ہوگى يہ رحمت الہى ہے جس كا تقاضا ہے كہ بے گناہ، گنہگاروں كى آگ ميں نہ جليں اور بے ايمان افراد كى وجہ سے مومنين گرفتار بلانہ ہوں_
''ليكن ظالموں كو صيحہ آسمانى نے گھيرليا اس طرح سے كہ يہ چيخ نہايت سخت اور وحشت ناك تھى اس كے اثر سے وہ سب كے سب گھروں ہى ميں زمين پر گركر مرگئے ، وہ اس طرح مرے اور نابود ہوئے اور ان كے آثار مٹ گئے كہ گويا وہ اس سرزمين ميں كبھى رہتے ہى نہ تھے ''_
جان لوكہ قوم ثمود نے اپنے پروردگار سے كفر كيا تھا اور انہوں نے احكام الہى كو پس پشت ڈال ديا تھا_ ''دور ہو قوم ثمود، اللہ كے لطف و رحمت سے اور ان پر لعنت ہو''_
''صيحة'' سے كيا مراد ہے ؟
''صيحة''لغت ميں ''بہت بلند آواز '' كو كہتے ہيں جو عام طور پر كسى انسان يا جانور كے منہ سے نكلتى ہے ليكن اس كا مفہوم اسى سے مخصوص نہيں ہے بلكہ ہر قسم كى '' نہايت بلند آواز '' اس كے مفہوم ميں شامل ہے _
آيات قرآنى كے مطابق صيحہ آسمانى كے ذريعہ چند ايك گنہگار قوموں كو سزا دى گئي ہے ان ميں سے ايك يہى قوم ثمود تھي، دوسرى قوم لوط ، اور تيسرى قوم شعيب _
قرآن كى دوسرى آيات سے قوم ثمود كے بارے ميں معلوم ہوتا ہے كہ اسے صاعقہ كے ذريعہ سزا ہوئي ارشاد الہى ہے : ''اگر وہ منھ پھير ليں تو پھر كہہ دو كہ ميں ايسى بجلى سے ڈراتا ہوں جيسى عاد و ثمود پر گري''_
يہ چيز نشاندہى كرتى ہے كہ ''صيحہ'' سے مراد '' صاعقہ '' كى وحشتناك آوازہے _ آيات قرآنى كے مطابق اس دنيا كا اختتام بھى ايك عمومى صيحہ كے ذريعے ہوگا _
حضرت صالحع كے ساتھ نجات پانے والے افراد
بعض مفسرين كہتے ہيں كہ حضرت صالح عليہ السلام كے دوستوں كى تعداد چار ہزار تھي_ جو آپ كے ساتھ عذاب سے بچ گئے تھے اور حكم پرردگار كے مطابق فساد و گناہ سے لبريز اس علاقہ سے كوچ كركے ''حضر موت'' جا پہنچے تھے_

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں