عدت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس دوران اس بات کی یقین دہانی ہوجائے کہ عورت ماں تونہیں بننے والی۔ اس بات کی یقین دہانی ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ اسی پر بچے کے خاندان اور نام ونسب کا انحصار ہوتا ہے۔ سورۃ احزاب یہ الفاظ کہ
" فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ "
(یعنی جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کرو اور انھیں ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان کے بارے میں تم پر کوئی عدت واجب نہیں جس کا تم ان سے مطالبہ کرو۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اگر حمل کا امکان ہو تو عورت پر شوہر کی طرف سے عدت کی پابندی کا اطلاق ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے کہ : < وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ> ”مطلقہ عورتیں تین حیض تک انتظار کریں گی، (اور عدہ رکھیں گی)“۔
اسی طرح اگر عورت عمر کے اس حصے میں ہے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہوتا کہ وہ بچہ پیدا کرسکتی ہے یا سائنٹیفک طریقوں سے یہ معلوم ہوجائے کہ عورت امید سے نہیں تو پھر اس پر عدت کی پابندی عائد نہیں ہوتی۔
یہاں پر سوال یہ ہوتا ہے کہ اس اسلامی قانون کا فلسفہ کیا ہے؟
چونکہ طلاق کے ذریعہ معمولاً گھر اجڑنے لگتا ہے اور معاشرہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے، اسی وجہ سے اسلام نے ایسا قانون پیش کیا ہے تاکہ آخری منزل تک طلاق سے روک تھام ہو سکے، ایک طرف تو ”اس کو جائز کاموں میں سب سے زیادہ قابل نفرت“ قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف شادی بیاہ کے مسائل میں اختلاف کی صورت میں طرفین میں صلح و مصالحت کے اسباب فراہم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ حتی الامکان اس کام سے روک تھام ہو سکے۔
عدت کے دوران نہ تو عورت کو اپنے شوہر کا گھر چھوڑنا چاہیے اور نہ ہی اس کا شوہر یا اس کے گھر والے اس بات کا کوئی حق رکھتے ہیں کہ اسے گھر سے نکل جانے کو کہیں ۔ بیوی کے شوہر ہی کے گھر میں عدت گزارنے میں یہ حکمت ہے کہ ہوسکتا ہے کہ دونوں میں صلح کا امکان پیدا ہوجائے اور گھر ٹوٹنے سے بچ جائے۔ لیکن اگر بیوی نے کسی بدکاری کا ارتکاب کیا ہے تو نہ تو شوہر کی طرف سے اسے گھر میں رہنے کا مطالبہ کرنا چاہیے اور نہ ہی اسلام کی طرف سے اسے اس بات کا کا پابند کیا گیا ہے۔
انہی قوانین میں سے طلاق میں تاخیر اور خود طلاق کو متزلزل کرنا ہے یعنی طلاق کے بعد عدہ کو واجب کیا ہے جس کی مدت تین ”طہر“ یعنی عورت کا تین مرتبہ خون حیض سے پاک ہونا۔
”عدّہ“ یا صلح و مصالحت اور واپس پلٹنے کا وسیلہ کبھی کبھی بعض وجوہات کی بنا پر انسان میں ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک چھوٹے سے اختلاف یا معمولی تنازع سے انتقام کی آگ بھڑک جاتی ہے اورعقل وجدان پر غالب آ جاتی ہے۔
معمولاً گھریلو اختلاف اسی وجہ سے پیش آتے ہیں، لیکن اس کشمکش کے کچھ ہی بعد میاں بیوی ہوش میں آتے ہیں اور پشیمان ہوجاتے ہیں، خصوصاً جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے پریشان ہیں تو مختلف پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں۔ اس موقع پر مذکورہ آیت کہتی ہے: عورتیں ایک مدت عدّہ رکھیں تاکہ اس مدت میں غصہ کی جلد ختم ہوجانے والی لہریں گزر جائیں اور ان کی زندگی میں دشمنی کے سیاہ بادل چھٹ جائیں۔
خصوصاً اسلام نے اس عدّہ کی مدت میں عورت کو حکم دیا ہے کہ گھر سے باہر نہ نکلے، جس کے پیش نظر اس عورت کوغور فکر کا مو قع ملتا ہے جو میاں بیوی میں تعلقات بہتر ہونے کے لئے ایک موثر قدم ہے۔لہٰذا سورہ طلاق کی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں: < لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِنْ بُیُوتِہِن لَا تَدْرِی لَعَلَّ اللهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ اٴَمْرًا> ”ان کو گھروں سے نہ نکالو تم کیا جانو شاید خداوندعالم کوئی ایسا راستہ نکال دے کہ جس سے آپس میں صلح و مصالحت ہوجائے“۔ اکثر اوقات طلاق سے پہلے کے خوشگوار لحظات ، محبت اور پیار کے گزرے ہوئے لمحات کو یاد کرلینا کافی ہوجاتا ہے اور پھیکی پڑجانے والی محبت میں نمک پڑ جاتا ہے۔
عدّہ؛ نسل کی حفاظت کا وسیلہ
عدّہ کا دوسرا فلسفہ یہ ہے کہ عدہ کے ذریعہ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ طلاق شدہ عورت حاملہ ہے یا نہیں؟ یہ صحیح ہے کہ ایک دفعہ حیض دیکھنا حاملہ نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، لیکن بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ عورت حاملہ ہونے کی صورت میں بھی شروع کے چند ماہ تک حیض دیکھتی ہے، لہٰذا اس موضوع کی مکمل رعایت کا حکم دیا گیا ہے کہ عورت تین دفعہ تک حیض دیکھے اور پاک ہوجائے، تاکہ یہ یقین ہوجائے کہ اپنے گزشتہ شوہر سے حاملہ نہیں ہے، پھر اس کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں