نام ونسب وحلیہ:-
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ خود ارشاد فرماتے
ہیں کہ میرا اصلی نام جندب بن جنادہ ہے لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد رسول
مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میر ا نام عبداللہ رکھا ہے اور یہی نام
مجھے پسند ہے چونکہ آپ کے فرزند اکبر کا نام" ذر" تھا لہذا جناب کی کنیت
"ابوذر" تھی ۔ذر کے لغوی معنی خوشبو اور طلوع وظہور کے ہیں ۔
آپ جنادہ بن قیس ابن صغیر بن حزام بن غفاری
کے چشم وچراغ تھے آپ کی والدہ محترمہ رملہ بنت ورفیعہ غفاریہ تھیں ۔آپ عربی
النسل اور قبیلہ غفار سے تھے اسی لئے آپ کے نام کے ساتھ "غفاری" لکھا جاتا
ہے ۔آپ گندمی رنگت کے طویل القد انسان تھے ،نحیف الجسم تھے ۔آپ کا چہرہ
روشن تھا اور کنپٹیاں دھنسی ہوئی تھیں کمر خمیدہ ہوگئی تھیں ۔
جناب ابوذرغفاری کا تعلق قبیلہ غفار سے تھا۔ غفار ایک علاقہ تھا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع تھا۔تاجر لوگ اسی راستے سے گذر کر شام میں ا پنا مال فروخت کرنے کے لئے جاتے تھے۔ قبیلہ غفار کے لوگ بہت بدنام اور لا اْبالی لوگ تھے ، ان میں بہت سی فاسد برائیاں موجود تھیں۔ حرمت والے مہینوں کا بھی احترام نہیں کرتے تھے۔قافلوں پرٹوٹ پڑتے تھے ، ان کا سارا سامان لوٹ لیتے تھے۔قبیلہ غفار کا نام سنتے ہی لوگ سہم جاتے تھے۔ اس قبیلہ کا سردار حقاف بن رخصہ تھا۔اس قبیلہ میں ابوذر کا جنم ہوا۔اس کا اصلی نام جندب تھا ،باپ کا نام جنادہ تھا۔ابوذر اس کی کنیت تھی، عربی بدوتھا۔آپ کی ماں کا نام رملہ تھا جو وقیعہ کی بیٹی تھی۔ وقیعہ بھی قبیلہ غفار سے تھی۔ ابوذرغفاری کی ابتدائی زندگی کے بہت سے پہلو تاریک تھے۔ ابوذرغفاری کے بھائی کا نام انیس تھا۔ ابوذرغفاری طویل القامت اور لاغرجسم رکھتے۔قبیلہ غفار میں ابوذرغفاری حسب ونسب سے معزز مانے جاتے تھے۔
غفاری قبیلہ لات ، منات ، فلس، اساف ، نائلہ ، سعد ، نھم اور عزا کو اپنا معبود او رخدا مانتے تھے.ایک سال علاقہ غفار میں زبردست خشک سالی پڑگئی۔ عرصہ سے بارش نہیں ہورہی تھی۔ ایک ہنگامہ بپا ہوگیا لگتا تھاکہ نیکی اور رحمت نے ان کو بھلا دیا تھا ، ان کے جانور ،بکریاں اور دیگر جانور نحیف اور لاغر ہوچکے تھے۔ ان کے خدا منات نے ان کی تضرع وزاری ، منتوں ، سماجتوں اورقربانیوں کے باوجود ان سے دشمنی اختیار کرلی تھی۔ قبیلہ غفار کے سرکردہ افراد ایک مقام پر جمع ہوگئے اور اعلان کیا کہ غفاریوں کے سب مزد وزن اجتماعی طور خضوع وخشوع کے ساتھ منات سے رحمت وبخشش کے طلبگار ہوکر بارش کی التجا کریں۔سب نکلے مگر ابوذر غفاری نہیں نکلے۔ اس کا بھائی انیس ابوذرغفاری کو نکالنے کے لئے گھرگیا۔ منات کے فضائل بیان کئے ، اس کے معجزے کہے۔ ابوذر بادل نخواستہ بھائی کے ساتھ نکل پڑے۔ ابوذرغفاری کے بھائی انیس نے کہا کہ ہم تو بحالت سفر اس لئے کرتے ہیں کہ ہم کعبہ پر بھی ایسا ہی کرتے ہیں چنا ہوا پتھر کوئی اپنی ذات کی بنا پر تو نہیں پوجا جاتا بلکہ اساف ونائلہ (بت) کے قائم مقام کرکے پوجا جاتا ہے جوکعبہ میں رکھے گئے ہیں ۔جناب ابوذر جوش میں آئے اور فرمایا کہ اساف اور نائلہ دو زانی تھے کیا تم زانی کی عبادت کو پسند کرتے ہو ۔ قصہ یوں ہے کہ اساف نائلہ پر عاشق تھا دونوں بغرض حج کعبہ آئے اور لوگوں کو غافل پاکر وہاں زنا کیا اسی وقت مسخ ہوکر پتھر بن گئے ۔اور بعد میں لوگوں نے ان کو پوجنا شروع ۔
چند دنوں کے بعد غفاریوں کا قافلہ منات کے پاس پہنچ گیا۔ اونٹوںکو باندھا ، جوقرباں ساتھ لائے تھے ان کو ذبح کیا ، منات کو سرخ خون بہت پسند تھا۔منات کوسرخ خون سے نہلایا۔ ابوذر ان سرگرمیوں میں بالکل حصہ نہیں لے رہا تھا انھوں نے "منات " بت کو منانے کے لئے طرح طرح کی قربانیاں دی اور خوب انکساری سے گڑاگڑا کر دعائیں مانگیں مگر ایک قطرہ بارش بھی نہ ٹپکا ۔حضرت ابوذر کے بھائی انیس ان کو بھی زبردستی منات کی پو جا کے لئے لے آئے تھے اور ان کی بے رغبتی دیکھکر بار بار ان کو بتوں کی توصیف سناتے اور ان سے خوف زدہ کرتے مگر آپ سنی ان سنی کرئے رہتے ان ہی قصہ کہانیوں میں کچھ ایسے قصے بھی آئے کہ لوگوں نے بتوں کی گستاخیاں کیں مگر ان کا بال تک بیکا نہ ہوا ۔حضرت ابوذر اپنے تفکرات میں کھوئے ہوئے یہ سب باتیں سنتے رہے حتی کہ لوگوں کو نیند آگئی مگر ابوذر بیدار رہے ۔اور سوچنے لگے کہ "منات" آخر ایک پتھر کا صنم ہی تو ہے ۔ جو نہ ہی ہدایت دے سکتا ہے اور نہ ہی گمراہ کرسکتا ہے ۔آپ چپکے سے اٹھے اور منات کو ایک پتھر مار ا۔منات ٹس سے مس نہ ہوا ۔پس ابوذر نے من میں کہا ۔"تو عاجز ہے قادر نہیں ،مخلوق ہے خالق نہیں ،نہ تجھ میں طاقت ہے نہ قوت تو ہرگز لائق عبادت نہیں ہوسکتا ۔بے شک میری قوم کھلی گمراہی میں ہے کہ تجھ پر قربانیاں چڑھاتے ہیں اور جانور ذبح کرتے ہیں "اسی تصورمیں آپ سوگئے ۔جب صبح طلوع ہوئی تو منات کے پجاری پھر اس کے گرد طواف کرنے کے لئے جمع ہوئے مگر ابوذر عجیب کیفیت میں اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر آسمان کی بلندی کی طرف عالم تصور میں ڈوب گئے ۔اور اجرام فلکی کی تخلیق میں غور فکر و تامل میں غرق رہے ۔ حتی کہ اطمینان قلب حدیقین تک آپہونچا . طواف ختم ہوا۔ لوگ نکلنے لگے ، انیس نے اپنے بھائی کو نماز پڑھتے دیکھا۔ تم کس کے لئے نماز پڑھتے ہو ، خدائے برتر کے لئے۔ بھائی امید تھی کہ منات بادلوں کو اکٹھا کرکے بارش برسائے گا۔ کیا کیا اس نے ؟ بت نے کچھ بھی نہیں کیا۔ میں نے رات کو اس پر پتھرمارا مگر وہ خاموش رہا۔ بھائی یاد ہے ایک دن میں نھم کو دودھ ڈالنے گیا۔ بڑے احترام سے دودھ کی مشک اپنے معبود نھم کو پیش کیا، واپس پلٹنے پر جب میں نے مڑکردیکھا ایک کتّا بے پرواہی سے ہی دودھ پینے لگا۔ نھم نہ دودھ خودپیتا ہے اور نہ کتے سے کچھ کہا۔میں بہت پریشان ہوا ،جب میں نے اس کتے کو دودھ پینے کے بعد پاوں اٹھا کر نھم کے اوپرپیشاب پھیرتے دیکھا۔ یہ نھم کی طاقت ہے۔ عزت وجلال اسی کو تم معبود مانتے ہو۔لوگ طواف کر کراکےروانہ ہوگئے اور جناب ابوذر کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ۔قافلہ چلتا رہا ۔ابوذر دریائے فکر میں غوطہ زن رہے ۔پہاڑوں کو دیکھتے تو خالق کی صناعی پر غور فرماتے ،زمین کی وسعت ،آسمان کی بلندی ،خلقت انسانیہ ،چاند ،سورج اور تارے آخر کوئی تو ان سب کا بنانے والا اور انتظام کرنے والا ہے ۔ اسی سوچ وبچار میں گھر آپہنچے تو سیدھے لیٹ گئے دل ہی دل میں کہا " بے شک آسمان کا پیدا کرنے والا آسمان سے بڑا ہے اور انسان کا خالق انسان سے بڑا ہے اس دنیا کو بنانے والا یقینا بہت ہی بڑا ہے وہی عبادت کے لائق ہے منات نہیں ، نہ لات وعزی ،نہ اساف ونائلہ اور سعد بلکہ صرف اسی کی ذات عبادت کے قابل ہے وہی خالق بدیع مصور وقادر ہے اور یہ بت محض پتھر ہیں جن میں نہ قدرت ہے نہ طاقت ۔پس اسی حالت یقین میں آپ سجدہ ریز ہوئے دل کو تسلی محسوس ہوئی اوراسی کیفیت میں آپ محوخواب ہوگئے ۔جب صبح اٹھے تو خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگے ۔اسی حالت میں حضرت کے بھائی انیس آئے تو ابوذر کو مؤدت انداز میں کھڑا پایا ۔ دریافت کیا کہ کیا ہورہا ہے جوابا فرمایا کہ اللہ کے لئے نماز پڑھ رہا ہوں ۔ انیس حیران ہوکر پوچھا کون اللہ؟۔نماز تو صرف منات یا نہم کے لئے ہے ۔آپ نے فرمایا میں کسی بت کی نماز نہیں پڑھتا بلکہ میں نے ایسے معبود کی معرفت پائی ہے جو تمھارے خداوؤں جیسا نہیں وہ عظیم ہے قادر مطلق ہے ۔عقل اس کو پانے سے قاصر ہے بس وہ ایک حقیقی طاقت ہے جسکی میں تعظیم کرتا ہوں انیس نے دریافت کیا اے میرے بھائی کیا ایسے خدا کی پرستش کرتا ہے جسے نہ تو دیکھ سکتا ہے نہ پاسکتا ہے ۔یہ عجیب حرکت ہے کہ تو اپنے سامنے کھڑے معبودوں کو چھوڑ رہا ہے جنھیں تو جب چاہے دیکھ لے اور جب مرضی پالے ۔جناب ابوذر نے فرمایا ۔اگر چہ میں اپنے معبود کو پا نہ سکا تاہم میں نے اس کی قدرت کی نشانیاں مشاہدہ کرلی ہے ۔یہ پتھر کے معبود تو گونگے،بہرے اوراندھے ہیں نہ ان کو نفع پر اختیار ہے نہ نقصان پر۔ انیس نے کہا کیا تو ہمارا اور اپنے اجداد کا مذاق اڑا رہا ہے ؟ جناب ابوذر نے جواب دیا کہ اے انیس ! میری کیاخطا ہے ! اگر میرے اسلاف غلطی پر تھے ، تمھارا دین مکڑی کے جالے کی تا ر سے بھی کمزور ہے ۔ذرا سوچ کر کہو کہ ہم میں سے جب کوئی سفر کرتا ہے اور قیام کرتا ہے تو دوچار پتھر جمع کرتا ہے جو پتھر اچھا لگتا ہے اس کو خدا بنالیتا ہے اور باقی سے چھو لھا بنا لیتا ہے ۔ذرا ہوش سے جواب دو کہ یہ پتھر کیسے معبود ہوسکتے ہیں ہمیں بھلا لگا تو عبادت کے لائق ہوگیا اگر بھائے نہیں تو آگ کے حوالے پس انیس نے کھسیا نہ ہو کر کہا کہ چپ رہ تو ہمارے دل میں شک ڈالنے لگا ہے مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میں بھی تیرے عقیدے کی طرف مائل نہ ہوجاؤں ۔حضرت ابوذر نے تبسم فرمایا کہ میں تو یہی چاہتا ہوں کہ تم بھی ان بتوں سے تنگ آکر خالق ارض وسما کی طرف مائل ہوجاؤ ۔انیس نے کہا کہ کیا دین چھوڑنا اتنا آسان ہے کہ جتنا پرانا لباس اتارا دینا ؟ابوذر نے فرمایا ہاں انیس جبکہ یہ دین پھٹے پرانے کپڑے کی مانند ہے تو یہ بات ہمارے لئے یقینا آسان ہے ۔اسی اثنا ء مین ان کی والدہ تشریف لاتی ہیں اور بچوں کو کہتی ہیں کہ ہم اس قحط سالی سے سخت تنگ آگئے ہیں لہذا تمھارے ماموں کے گھر چلتے ہیں حتی کہ "اللہ تعالی"حالت بدل دے چنانچہ یہ سفر پر روانہ ہوئے اور حسب عادت حضرت ابوذر اپنے خیالات میں مصروف غور رہے ۔چند روز انھوں نے اپنے ماموں کے گھر گزارے مگر ایک شرارت کے تحت ان کو مجبور ا یہ گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ کسی بد بخت نے ان کے ماموں کو ورغلادیا کہ اس کا بھانجہ انیس اپنی ممانی پر فریفتہ ہے ۔حضرت ابوذر نے مقام "بطن مرو" میں رہائش اختیارفرمائی اور ایک روز بکریاں چرا رہے تھے کہ اچانک ایک بھیڑیا نمودار ہوا اور اس نے آپ کی داہنی طرف حملہ کردیا ۔جناب ابوذر نے اپنے عصا سے اسے بھگایا اور غصہ میں فرمایا "میں تجھ سے زیادہ خبیث برا بھیڑیا آج تک نہیں دیکھا "۔بااعجاز خداوندی بھیڑئیے کو قوت گویائی ملی ۔اور اس نے کہا " خدا کی قسم مجھ سے کہیں زیادہ بدتر "اہل مکہ "ہیں کہ خداوند نے ان کی طرف ایک نبی مبعوث فرمایا ہے اور وہ لوگ اس کو دروغ گو کہتے ہیں اور اس کے حق میں ناحق کلمات نا سزا استعمال کرتے ہیں " یہ آواز سنتے ہی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے دل میں جستجو ئے حق کا جذبہ اور فروغ پاگیا چنانچہ بلا تاخیر انھوں نے اپنے بھائی انیس کو نبی مبعوث کے حالات معلوم کرنے کے لئے روانہ کردیا ابوذر نے اپنے بھائی انیس سے کہا تم مکہ جا کر، سب کچھ معلوم کرکے مجھے کہنا۔ انیس مکہ گیا۔ رسول خدا کی باتیں سنیں واپس آکر ابوذر سے کہا بھائی
میں ایک ایسے شخص سے مل کر آیا ہوں جو یہ
کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے
۔میں نے دیکھا ہے کہ وہ بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے لوگ
اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ شاعر ، ساحر اور کاہن ہے مگر وہ ہرگز شاعر
نہیں کیوں کہ میں شعر کی تمام قسموں سے واقف ہوں ۔میں نے اس کی باتوں شاعری
پر چانچا تو معلوم کیا کہ اس کا کلام شعر نہیں ہے نہ ہی وہ جادوگر ہے
کیونکہ میں نے جادوگر کو بھی دیکھا ہے نہ ہی وہ کاہن ہے کہ میں بہت سے
کاہنوں سے مل چکا ہوں اس کی باتیں کاہنوں جیسی نہیں ہیں۔وہ عجیب عجیب باتیں
کہتا ہے ۔بخدا اس کا کلام بہت شیرین تھا مگر مجھے اس کے سوا کچھ نہیں رہا
جو بتا چکا ہوں البتہ میں نے کعبہ کے قریب نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ اس کی
ایک جانب ایک خوبصورت نوجوان جو ابھی بالغ نہیں کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا ہے
لوگ کہتے ہیں کہ اس کا چچیرا بھائی علی ابن ابی طالب ہے ۔اور اس کے پیچھے
ایک جلیل القدر عورت کھڑی نماز پڑھ رہی ہے لوگوں نے اس معظمہ کےبارے میں مجھے بتایا وہ اس کی زوجہ خدیجہ ہےمجھے ایسا لگا جیسے خداوندنے اس کو تمہارے دین پر بھیجا ہے۔ ابوذر نے اپنے بھائی انیس سے کہا میں خود جاتاہوں اور اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتاہوں۔
ابوذر مکہ پہنچ گئے۔ وہاں نہ پیغمبر ملے نہ ان کے بارے میں کچھ سنا۔ رات مسجد میں سویا، صبح شیر خدا جب مسجد میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ ایک کونے میں ایک نحیف لمبے قد کا آدمی سویا ہواہے۔ جناب علی نے اس کو جگا یا اور فرمایا کہ لگتا ہے تم اجنبی ہو۔ ہاں ! ابوذر نے کہا۔ آ میرے ساتھ۔جناب علی نے اس کو اپنے گھر لیا۔ پھر دوسری رات اور تیسری رات بھی گھر کا مہمان بنایا۔ آخر علی سے مکہ آنے کا مقصد بیان کیا: میں جندب جنادہ ہوں میری کنیت ابوذرہے۔ میں قبیلہ غفار سے ہوں۔ میں اس شخص سے ملنا چاہتاہوں جو دعویٰ کرتاہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ جناب علی نے اس کو رسول خدا کے پاس لیا۔رسولِ خدا کی دلیل سن کر ایمان لایا۔ رسول خدا کو نماز پڑھتے دیکھا تو رسول محترم سے کہا جناب میں آپ پر فدا ہوں۔ میں پہلے ہی خدا کی پرستش کرتا رہاہوں۔ میں نے خدا کو دل کے راستے سے شناخت کیا ہے۔ ابوذر پر نظر ڈالتے ہی رسول خدا نے فرمایا : ابوذر کی حیائ ،پاکیزگی اور عاجزی بالکل عیسیٰ بن مریم کے مانند ہے۔
ابوذر وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اس وقت اسلام قبول کیا جب اسلام پر بہت کڑا اور خطرناک وقت تھا۔ بڑی اجنبیت او رسختی کا وقت تھا۔ ایمان اور اسلام لانے کے بعد جب مسجد کی طرف روانہ ہوئے ، راستے میں قبیلہ قریش سے مخاطب ہوکر فرمایا اے گرو ہ قریش! میں گواہی دیتاہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کا بھیجا ہوا پیغمبر ہے۔ تم گواہ رہنا میں نے ایمان لایا ، اسلام قبول کیا۔ یہ سنتے ہی لوگ اس پر حملہ آور ہوئے ، خوب مار اپیٹا یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہوگئے۔ اتنے میں رسول خدا کے چچا عباس آگئے۔ بڑی مشکل سے لوگوں کے ہجوم کو چیرتے ہوئے اپنے آپ کو ابوذر پر گرایا اورلوگوں سے کہا کہ یہ غفار سے ہے او رتمہیں شام کی تجارت کے لئے غفار سے ہی گزرنا ہوتاہے غفار کے لوگ قافلوں کو روک کر ان کا مال لوٹ لیتے ہیں ، اپنی خیر چاہتے ہوتو اس کو چھوڑدو۔
اس کے بعد ابوذر گھر آگئے۔ اپنی ماں اور بھائی انیس کو رسول خدا کے بارے میں سب کچھ بیان کیا۔ اپنے ایمان اور اسلام لانے کے بارے میں کہا تو ماں اوربھائی نے بھی اسلام قبول کیا۔ جب یہ خبر قبیلہ والوں کو مل گئی تو انہوں نے کہا ابوذرکا گھر گمراہ ہوگیا ہے ابوذر نے ان سے کہا کہ خدا کی قسم ہم کامیاب ہوگئے اورتم گمراہ ہو۔
ابوذر نے اپنے قبیلہ والوں میں وہ تبلیغ کی کہ سارا قبیلہ مسلمان ہوگیا قبیلہ کا سردار حفاف بن رخصہ نے رسول خدا سے التجا کی کہ اس کے قبیلہ والوں کے لئے ایک خط لکھیں۔ ''قبیلہ غفار کے لوگ مسلمان ہوگئے ان کی جان ومال کی ذمہ داری خدا اور رسول خدا کے ذمہ ہے۔ ان پر کوئی ظلم وستم نہیں ہوگا۔ جب کبھی رسول کو ان کی مدد کی ضرورت پڑے۔ ہر صورت میں رسول کی نصرت ان پر فرض ہے ''۔اس کے بعد اس قبیلہ کی کایا ہی پلٹ گئی۔ یہ ایک صالح قبیلہ ہوگیا۔
ابوذر نے خندق کے بعد تمام جنگوں میں حضور کے ساتھ شرکت کی۔ بڑی بے جگری سے دشمن پر ٹوٹ پڑے تھے۔ ان کی تلوار تحریک اسلام کی پیش رفت میں بہت موثر تھی۔وہ جنگ بنی لیحان اور زی قرد میں رسول کے ساتھ ساتھ تھے۔ 6ھ میں جب حضور بنی المصطلق سے محاربہ کرنے کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تو ابوذر کو مدینہ میں اپنا جانشین مقررکردیا۔
ابوذر اہل صفہ میں شامل ہوگئے۔ رسول خدا چند اہلِ صفہ کو اپنے اور چند کو اپنے اصحاب میں تقسیم کردیتے تھے۔ مگر ابوذر کو ہمیشہ اپنے گھر لے جاتے تھے۔ ابوذر نے رسول خدا سے علم کا اتنا ذخیرہ جمع کرلیا کہ دْور دْور تک رایوں اور محدثوں میں شمار ہونے لگے۔اسی دوران ابوذر ام زر کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ پیغمبر کے بزرگ صحابہ کے خاندان سے تھی اور ہمیشہ اپنے شوہر ابوذر کے ساتھ ساتھ سختیوں اور مصائب میں شریک رہی۔ شادی کے بعد ابوذر نے اصحاب صفہ کے ساتھ زندگی بسرکرنا ترک کی۔ اپنی سکوت کے لئے مدینہ سے باہر ایک ٹیلے پر چھوٹا سا خیمہ لگاکر زندگی بسر کرنے لگے۔ زوجہ محترمہ سے ان کا ایک بیٹا اور بیٹی پیدا ہوئی۔
رسول خدا کے آخری حج میں ابوذر ان کے ساتھ تھے۔ رسول خدا کے وصال پر ابوذر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ دل گویا لخت لخت ہوگیا، رخساروں پرآنسو کے موٹے موٹے قطرے بہہ رہے تھے ، دل خراش آواز میں چلّا چلّا کر چیخ رہے تھے۔
قرآن کی اس آیت کو وردزبان کئے ہوئے تھے ''اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی بشارت دے دو ۔
یہ وہی ابوذر ہیں جن کے بارے میں رسول خدا نے فرمایا تھاکہ ''ابوذر کی شرم وپارسائی عیسیٰ بن مریم کے پارسائی کے مانند ہے اور ابوذر زمین کی نسبت آسمان کے فرشتوں میں زیادہ معروف ومشہور ہیں''۔
آپ کاآخری و قت آگیا تو اپنی شریک حیات سے فرمایا : راستے پرنظر ڈالو۔ یہ عبا میرے جسم کے گرد لپیٹ دو۔ اگر کوئی قافلہ نظر آئے اس کو پکارو اور بولو رسول محترم کا صحابی جان بلب ہے۔ اس کی تدفین وتکفین میں میری مدد کرو۔ اس خاموش اور خوفناک صحرا میں کئی دن کوئی قافلہ نظر نہیں آیا۔ ایک دن دور سے ایک قافلہ نظر آیا۔ اْنہوں نے اپنا کپڑا ہلا ہلاکر قافلہ کو اپنی طرف متوجہ کیا۔قافلہ اس کی طرف آگیا۔اس میں عبداللہ بن مسعود ، حجر بن عدی ، مالک بن حارث ، اشتربن مالک اور ایک انصار جوان تھا۔ انہوں نے ابوذر کو پہچان لیا۔ ابوذر نے اپنے کفن دفن کے مسائل سمجھا کر آنکھیں موند لیں اور ان کی زندگی کاخاتمہ ہوگیا۔ غسل وکفن اور نماز جنازہ پڑھ کر ایک پتھر کے کنارے صحرا میں دفن کردیا گیا۔سالِ وفات 32ھ ہے اس طرح رسول خدا کا یہ فرمان کہ ابو ذر تنہا زندگی گذارتاہے ، تنہا ہی مرتاہے اور تنہا ہی اٹھایا جائے گا '' کی پیش گوئی پوری ہوئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں